سید عمران
محفلین
آصف پرائمری پاس کرکے سیکنڈری میں آگیا۔ ممانی نے شام کی ٹیوشن لگوادی۔ ہم تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔آصف کے ماسٹر صاحب اتنے موٹے تھے کہ انہیں دیکھ کر بے تحاشہ ہاتھی یاد آجاتا۔ بعد میں جب ہاتھی دیکھتے تو بے تحاشہ ماسٹر صاحب یاد آجاتے۔
اس شام سب لان میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ماسٹر صاحب آگئے۔ ان کی آمد پر سب منہ بنا کر اندر چلے گئے۔ آصف منہ بنا کر لان میں آگیا۔ ہمیں امید تھی یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکے گا۔ آصف کو پڑھائی سے زیادہ کسی اور چیز سے دلچسپی تھی۔ وہ چیز آصف آج تک دریافت نہ کر پایا۔
اگلی شام ماسٹر صاحب پھر آگئے۔ ہم نے لان میں ترتیب سے کرسیاں لگائیں۔ ماسٹر صاحب کے سامنے آصف کی کرسی، اس کے پیچھے مزید چار کرسیاں۔آصف پڑھ رہا تھا ہم پیچھے بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ ماسٹر صاحب موٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے جھانکنے لگے۔ آصف کو پڑھانے پر توجہ کم تھی، ہم پر زیادہ۔ بعد میں پتا چلا کہ ہماری شکل میں انہیں مستقبل کا گاہک اور گاہک کی شکل میں مستقل آمدنی نظر آگئی۔
ماسٹر صاحب نے گویا گھر ہی دیکھ لیا تھا۔ اگلی شام پھر آگئے۔ فلسفی، آصف کے پیچھے بیٹھا سُڑپ سُڑپ چائے کے گھونٹ بھرتا اور آصف صبر کے۔
ماسٹر صاحب اچھا پڑھا رہے تھے۔ آصف امتحانوں میں متواتر پاس ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماسٹر صاحب نے ہمارا گھر بھی دیکھ لیا۔آصف کی نمایاں کارکردگی کا سبب ماسٹر صاحب کو ٹھہرایا گیا۔ نانا نے ممانی سے بات کی، اگلے دن ماسٹر صاحب ہمارے گھر میں بیٹھے ہم سے بات کررہے تھے۔
ماسٹر صاحب اپنے خیال کے مطابق ہمیں پڑھا رہے تھے اور ہم اپنے خیال کے مطابق نہیں پڑھ رہے تھے۔ ہمارا سارا خیال کھڑکی پر تھا جہاں سے فلسفی، چیتا اور گڑیا جھانک رہے تھے۔
’’یہ کیا تُک ہے۔ شام کا وقت کھیلنے کا ہے یا پڑھنے کا؟‘‘ چیتا غرایا۔
’’صبح اسکول، دوپہر سونا ، شام کو ٹیوشن ،مغرب کو کھانا اور عشاء کے بعد پھر سو جانا۔ عصر کے وقت کھیلتے تھے وہ بھی کسی کو گوارا نہ ہوا۔‘‘ گڑیا نے دانت پیسے۔
’’تمہارے پاس ماسٹر صاحب سے نجات کا کوئی فارمولا نہیں؟‘‘ ہم نے فلسفی کو گھورا۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آنکھوں میں انجانی چمک در آئی۔
’’ماسٹر صاحب بولتے ہیں تو سانس پھولتی ہے، ہر تھوڑی دیر بعد اُکھڑی ہوئی سانس والی کھانسی بھی ہوتی ہے۔‘‘ فلسفی بتانے لگا۔
’’ تو ؟‘‘ گڑیا نہ سمجھتے ہوئے حیران ہوئی۔
’’یعنی ماسٹر صاحب کو الرجی ہے۔ جیسے دانش کو کولڈ ڈرنک پینے سے ہوتی ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ گڑیا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’پھر یہ کہ معلوم کر و ماسٹر صاحب کو کس چیز سے الرجی ہے۔‘‘
’’ہمیں معلوم ہے۔‘‘
’’کیا بھلا؟‘‘
’’مونگ پھلی۔‘‘
’’اوہ۔‘‘
’’معلوم ہوگیا۔ اب کیا کرو گے؟‘‘ چیتے نے بے صبری سے پہلو بدلا۔
’’ابھی بتاتا ہوں۔ لاؤ کان اِدھر۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب کان اِدھر لے آئے۔
شام کو ماسٹر صاحب آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اماں نے آواز دی۔ ہم چائے کی ٹرے لائے تو ساتھ ہی پلیٹ میں اسنیکس بھی تھے۔ ماسٹر صاحب کی بانچھیں کھل گئیں۔ چائے کے ساتھ اسنیکس بھی صاف ہوگئے۔ اگلے دن ماسٹر صاحب نہیں آئے۔ سب نے ساری شام خوب کھیلا۔ لیکن معلوم تھا یہ چار دن تو کیا ایک دن کی چاندنی ہے۔ کل پھر ماسٹر صاحب نے آنا ہے۔ یہ سوچ کر سب اداس ہوگئے۔
’’بیٹا چند دن صبر سے جھیل لے۔ اس کے بعد مزے ہی مزے ہیں۔‘‘ فلسفی نے سنیاسی بابا کی طرح تسلی دی۔
اگلے دن ماسٹر صاحب کے آنے کی قوی امید تھی۔ فلسفی پلان کے مطابق بہت ساری سوئیاں لے آیا۔ انہیں کھڑی کرکے صوفے میں گاڑ دیں۔
’’ماسٹر صاحب سے پہلے صوفہ پر کوئی نہیں بیٹھے گا۔‘‘ فلسفی ہدایت دے کر چلا گیا۔ ہم نے چوکیداری کے فرائض خوب انجام دئیے۔ حسبِ توقع ماسٹر صاحب آگئے۔ صوفہ پر بیٹھے تو بے چینی سے پہلو بدلنے لگے۔ یہ ماسٹر صاحب تھے جو صرف بے چین ہورہے تھے، کوئی اور ہوتا تو چیخ مارتے ہوئے اچھل کر کھڑا ہوجاتا۔ اماں نے آواز دی۔ ہم چائے اسنیکس لے آئے۔
’’آپ کل کیوں نہیں آئے تھے؟‘‘ جس معصومیت بھرے لہجہ میں پوچھا گیا گڑیا ہوتی تو اس ایکٹنگ پر بے ہوش ہوجاتی۔
’’طبیعت گڑبڑ تھی۔‘‘ ماسٹر صاحب کی سانسوں سے لگ رہا تھا کہ معاملہ توقعات کے عین مطابق گڑبڑ ہے۔ چائے اسنیکس کی طرح اگلے دن ماسٹر صاحب بھی صاف ہوگئے۔
شام کو فلسفی، چیتا اور گڑیا آگئے۔
’’ہمیں پتا تھا آج ماسٹر صاحب نہیں آئیں گے۔‘‘ گڑیا چہکی۔
’’اب تمہیں پروگرام کا اگلا حصہ بتاتا ہوں۔ اس کے بعد ماسٹر صاحب کا پتا صاف۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب غور سے سننے لگے۔ اس شام خوب جی بھر کے کھیلا گیا۔ اب مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ امید تھی کہ کل ماسٹر صاحب کا آخری دن ہوگا۔
اگلی شام ماسٹر صاحب آئے تو سانس پھول رہی تھی۔ صوفے میں چبھی سوئیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ماسٹر صاحب کی بے چینی میں تیزی آرہی تھی۔ چائے اسنیکس آتے ہی صاف ہوگئے۔
’’ہمارے گھر میں کچھ ایسے کیڑے پیدا ہوگئے ہیں جن سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔‘‘ ہم نے سادہ انداز میں بتایا۔
’’اچھا۔‘‘ لہجہ میں تشویش در آئی۔ موٹی عینک کے شیشوں کے اوپر سے موٹی آنکھیں جھانکنے لگیں۔
’’کون سی بیماریاں؟‘‘ تفصیلات کا پوچھنا ہمارے منصوبہ کی کامیابی کی دلیل تھا۔
’’پھیپھڑوں کی۔ چند دن پہلے ہمارے اسکول کے ایک ٹیچر آئے تھے۔‘‘ ہم نے رُکتے رُکتے بتایا۔
’’پھر، کیا ہوا؟‘‘ پہلو بدلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔
’’انتقال ہوگیا۔‘‘
’’اوہ۔اوہ۔ اوہو۔‘‘ پہلو مزید تیزی سے بدلے جانے لگے۔
’’ماسٹر صاحب آپ کو جسم میں سوئی چبھنے کا احساس تو نہیں ہورہا نا؟ ہمارے سر کو تو ہورہا تھا۔‘‘ لہجہ کی معصومیت عروج کو پہنچ گئی۔
’’ہاں ہاں۔ نہیں تو۔ کیوں کیوں؟‘‘ لہجہ میں بوکھلاہٹ نمایاں ہونے لگی۔
’’سوئیاں چبھنے کا احساس اصل میں کیڑوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے لہجہ میں سرسری پن رکھا۔
’’اوہ۔ میری کمر۔‘‘ ہم نے کسی بھاری آدمی کو اس تیزی سے اٹھتے نہیں دیکھا۔
’’ماسٹر صاحب، ابھی تو بیٹھیں نا۔ جب کیڑے کاٹیں تب جائیے گا۔‘‘ ہم غیر محسوس طور پر جانے کی راہ دِکھانےلگے۔
’’ہاں ہاں۔ وہ تو ہے۔ اصل میں مجھے ایمرجنسی کام یاد آگیا۔ ابھی جانا ضروری ہے۔ نانا کو جلدی بلاؤ۔ ان سے بات کرکے نکلتا ہوں۔‘‘
ہم جلدی سے نانا کو لے آئے۔ نہ جانے ماسٹر صاحب نے نانا سے کیا کہا اور نانا نے اماں کو کیا بتایا اگلے دن سب کو لائن حاضر کرلیا گیا۔ اماں کی مسلسل گھورتی نگاہیں اچھے خاصے ٹارچر سیل کا کام کرتی ہیں۔ آدمی تفتیش سے قبل ادھ موا ہوجاتا ہے۔
’’ماسٹر صاحب ٹیوشن چھوڑ کر کیوں گئے ہیں؟‘‘ کڑوے انداز میں پوچھا۔
’’کیا واقعی۔‘‘ ہم خوشی سے چیخ پڑے۔
’’ہوں۔ یعنی تمہارا ہاتھ پکا ہے۔‘‘ اماں کو سرا مل گیا۔
’’ہمارا ہاتھ کیوں ہوتا بھلا؟‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’انہیں اتنے دن سے کیا کھلایا جارہا تھا۔‘‘ اماں کے لہجہ میں سختی آگئی۔ پتا نہیں یہ ہماری ماں ہیں یا شرلا ک ہومز کی نانی۔ ہر بات کا پتا چل جاتا ہے۔
’’ہم کیا کھلاتے، اُلٹا آپ چائے پلاتی تھیں۔‘‘ ہم نے اماں پہ الزام دھر دیا۔
’’ٹرے میں چائے کی پیالی کے ساتھ خالی پلیٹ آتی تھی۔ اس میں کیا چیز کھلا رہے تھے؟‘‘اماں نے پلیٹ سے سب کو لپیٹ لیا۔ ساری جسوسی مسوسی کا حشر ہوگیا۔
’’اسنیکس تھے۔‘‘ ہم نے مری مری آواز میں کہا۔
’’اتنی مہربانی کیوں ہورہی تھی؟‘‘ تفتیش کا دائرہ تنگ ہونے لگا۔
’’اور صوفہ میں سوئیاں کیوں لگائی تھیں؟‘‘
کیا مصیبت ہے۔ اماں کو ہر بات کی خبر ہونا ضروری کیوں ہے۔ سب ایک دوسرے کو بے چارگی سے دیکھنے لگے۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ ہماری بے بسی انتہا کو پہنچ گئی۔
’’امی جان کو کئی روز سے صوفہ میں دھنسی ہوئی سوئیاں مل رہی تھیں۔‘‘ نانی کو بھی ہر کام میں اٹکے روڑے چننے کا شوق ہے۔ سب جھنجھلا رہے تھے۔آخرکار کافی دیر کے ٹارچر کے بعد سب کی زبانیں کھل گئیں۔
’’سارا آئیڈیا اس کا تھا۔‘‘ ہم نے سارا ملبہ فلسفی پر ڈال دیا۔
’’اس نے کہا تھا کہ ماسٹر صاحب کو دمہ کے اتنے جھٹکے دو کہ یہاں آنے کا نام بھی نہ لیں۔‘‘ ہماری زبان کی تیزی کے آگے ٹرین کے چھکے چھوٹ رہے تھے۔
’’پوری پلاننگ بتاؤ، انہیں کیا بتایا تھا اور اسنیکس کے نام پر کیا کھلا رہے تھے۔‘‘ اماں کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھیں۔
’’ماسٹر صاحب کو مونگ پھلی سے الرجی تھی۔ انہیں بیسن کوٹڈ مونگ پھلیاں کھلا رہے تھے۔ اور صوفہ میں سوئیاں اس لیے لگائی تھیں تاکہ بیماری کا شک کیڑوں کی طرف جائے۔‘‘
ہولناک پلاننگ پر اماں سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ نانا دوسرے کمرے میں لے گئے۔ کچھ دن بعد سزا کے طور پر ایسے ماسٹر کا تقرر کیا جو بید ساتھ لاتے تھے۔
نئے ماسٹر صاحب کو چائےنوکرانی کے ذریعہ بھجوائی جانے لگی۔
چائے کے ساتھ کچھ نہ کھانے کی تاکید الگ سے کردی گئی تھی!!!
اس شام سب لان میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ماسٹر صاحب آگئے۔ ان کی آمد پر سب منہ بنا کر اندر چلے گئے۔ آصف منہ بنا کر لان میں آگیا۔ ہمیں امید تھی یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکے گا۔ آصف کو پڑھائی سے زیادہ کسی اور چیز سے دلچسپی تھی۔ وہ چیز آصف آج تک دریافت نہ کر پایا۔
اگلی شام ماسٹر صاحب پھر آگئے۔ ہم نے لان میں ترتیب سے کرسیاں لگائیں۔ ماسٹر صاحب کے سامنے آصف کی کرسی، اس کے پیچھے مزید چار کرسیاں۔آصف پڑھ رہا تھا ہم پیچھے بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ ماسٹر صاحب موٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے جھانکنے لگے۔ آصف کو پڑھانے پر توجہ کم تھی، ہم پر زیادہ۔ بعد میں پتا چلا کہ ہماری شکل میں انہیں مستقبل کا گاہک اور گاہک کی شکل میں مستقل آمدنی نظر آگئی۔
ماسٹر صاحب نے گویا گھر ہی دیکھ لیا تھا۔ اگلی شام پھر آگئے۔ فلسفی، آصف کے پیچھے بیٹھا سُڑپ سُڑپ چائے کے گھونٹ بھرتا اور آصف صبر کے۔
ماسٹر صاحب اچھا پڑھا رہے تھے۔ آصف امتحانوں میں متواتر پاس ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماسٹر صاحب نے ہمارا گھر بھی دیکھ لیا۔آصف کی نمایاں کارکردگی کا سبب ماسٹر صاحب کو ٹھہرایا گیا۔ نانا نے ممانی سے بات کی، اگلے دن ماسٹر صاحب ہمارے گھر میں بیٹھے ہم سے بات کررہے تھے۔
ماسٹر صاحب اپنے خیال کے مطابق ہمیں پڑھا رہے تھے اور ہم اپنے خیال کے مطابق نہیں پڑھ رہے تھے۔ ہمارا سارا خیال کھڑکی پر تھا جہاں سے فلسفی، چیتا اور گڑیا جھانک رہے تھے۔
’’یہ کیا تُک ہے۔ شام کا وقت کھیلنے کا ہے یا پڑھنے کا؟‘‘ چیتا غرایا۔
’’صبح اسکول، دوپہر سونا ، شام کو ٹیوشن ،مغرب کو کھانا اور عشاء کے بعد پھر سو جانا۔ عصر کے وقت کھیلتے تھے وہ بھی کسی کو گوارا نہ ہوا۔‘‘ گڑیا نے دانت پیسے۔
’’تمہارے پاس ماسٹر صاحب سے نجات کا کوئی فارمولا نہیں؟‘‘ ہم نے فلسفی کو گھورا۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آنکھوں میں انجانی چمک در آئی۔
’’ماسٹر صاحب بولتے ہیں تو سانس پھولتی ہے، ہر تھوڑی دیر بعد اُکھڑی ہوئی سانس والی کھانسی بھی ہوتی ہے۔‘‘ فلسفی بتانے لگا۔
’’ تو ؟‘‘ گڑیا نہ سمجھتے ہوئے حیران ہوئی۔
’’یعنی ماسٹر صاحب کو الرجی ہے۔ جیسے دانش کو کولڈ ڈرنک پینے سے ہوتی ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ گڑیا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’پھر یہ کہ معلوم کر و ماسٹر صاحب کو کس چیز سے الرجی ہے۔‘‘
’’ہمیں معلوم ہے۔‘‘
’’کیا بھلا؟‘‘
’’مونگ پھلی۔‘‘
’’اوہ۔‘‘
’’معلوم ہوگیا۔ اب کیا کرو گے؟‘‘ چیتے نے بے صبری سے پہلو بدلا۔
’’ابھی بتاتا ہوں۔ لاؤ کان اِدھر۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب کان اِدھر لے آئے۔
شام کو ماسٹر صاحب آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اماں نے آواز دی۔ ہم چائے کی ٹرے لائے تو ساتھ ہی پلیٹ میں اسنیکس بھی تھے۔ ماسٹر صاحب کی بانچھیں کھل گئیں۔ چائے کے ساتھ اسنیکس بھی صاف ہوگئے۔ اگلے دن ماسٹر صاحب نہیں آئے۔ سب نے ساری شام خوب کھیلا۔ لیکن معلوم تھا یہ چار دن تو کیا ایک دن کی چاندنی ہے۔ کل پھر ماسٹر صاحب نے آنا ہے۔ یہ سوچ کر سب اداس ہوگئے۔
’’بیٹا چند دن صبر سے جھیل لے۔ اس کے بعد مزے ہی مزے ہیں۔‘‘ فلسفی نے سنیاسی بابا کی طرح تسلی دی۔
اگلے دن ماسٹر صاحب کے آنے کی قوی امید تھی۔ فلسفی پلان کے مطابق بہت ساری سوئیاں لے آیا۔ انہیں کھڑی کرکے صوفے میں گاڑ دیں۔
’’ماسٹر صاحب سے پہلے صوفہ پر کوئی نہیں بیٹھے گا۔‘‘ فلسفی ہدایت دے کر چلا گیا۔ ہم نے چوکیداری کے فرائض خوب انجام دئیے۔ حسبِ توقع ماسٹر صاحب آگئے۔ صوفہ پر بیٹھے تو بے چینی سے پہلو بدلنے لگے۔ یہ ماسٹر صاحب تھے جو صرف بے چین ہورہے تھے، کوئی اور ہوتا تو چیخ مارتے ہوئے اچھل کر کھڑا ہوجاتا۔ اماں نے آواز دی۔ ہم چائے اسنیکس لے آئے۔
’’آپ کل کیوں نہیں آئے تھے؟‘‘ جس معصومیت بھرے لہجہ میں پوچھا گیا گڑیا ہوتی تو اس ایکٹنگ پر بے ہوش ہوجاتی۔
’’طبیعت گڑبڑ تھی۔‘‘ ماسٹر صاحب کی سانسوں سے لگ رہا تھا کہ معاملہ توقعات کے عین مطابق گڑبڑ ہے۔ چائے اسنیکس کی طرح اگلے دن ماسٹر صاحب بھی صاف ہوگئے۔
شام کو فلسفی، چیتا اور گڑیا آگئے۔
’’ہمیں پتا تھا آج ماسٹر صاحب نہیں آئیں گے۔‘‘ گڑیا چہکی۔
’’اب تمہیں پروگرام کا اگلا حصہ بتاتا ہوں۔ اس کے بعد ماسٹر صاحب کا پتا صاف۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب غور سے سننے لگے۔ اس شام خوب جی بھر کے کھیلا گیا۔ اب مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ امید تھی کہ کل ماسٹر صاحب کا آخری دن ہوگا۔
اگلی شام ماسٹر صاحب آئے تو سانس پھول رہی تھی۔ صوفے میں چبھی سوئیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ماسٹر صاحب کی بے چینی میں تیزی آرہی تھی۔ چائے اسنیکس آتے ہی صاف ہوگئے۔
’’ہمارے گھر میں کچھ ایسے کیڑے پیدا ہوگئے ہیں جن سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔‘‘ ہم نے سادہ انداز میں بتایا۔
’’اچھا۔‘‘ لہجہ میں تشویش در آئی۔ موٹی عینک کے شیشوں کے اوپر سے موٹی آنکھیں جھانکنے لگیں۔
’’کون سی بیماریاں؟‘‘ تفصیلات کا پوچھنا ہمارے منصوبہ کی کامیابی کی دلیل تھا۔
’’پھیپھڑوں کی۔ چند دن پہلے ہمارے اسکول کے ایک ٹیچر آئے تھے۔‘‘ ہم نے رُکتے رُکتے بتایا۔
’’پھر، کیا ہوا؟‘‘ پہلو بدلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔
’’انتقال ہوگیا۔‘‘
’’اوہ۔اوہ۔ اوہو۔‘‘ پہلو مزید تیزی سے بدلے جانے لگے۔
’’ماسٹر صاحب آپ کو جسم میں سوئی چبھنے کا احساس تو نہیں ہورہا نا؟ ہمارے سر کو تو ہورہا تھا۔‘‘ لہجہ کی معصومیت عروج کو پہنچ گئی۔
’’ہاں ہاں۔ نہیں تو۔ کیوں کیوں؟‘‘ لہجہ میں بوکھلاہٹ نمایاں ہونے لگی۔
’’سوئیاں چبھنے کا احساس اصل میں کیڑوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے لہجہ میں سرسری پن رکھا۔
’’اوہ۔ میری کمر۔‘‘ ہم نے کسی بھاری آدمی کو اس تیزی سے اٹھتے نہیں دیکھا۔
’’ماسٹر صاحب، ابھی تو بیٹھیں نا۔ جب کیڑے کاٹیں تب جائیے گا۔‘‘ ہم غیر محسوس طور پر جانے کی راہ دِکھانےلگے۔
’’ہاں ہاں۔ وہ تو ہے۔ اصل میں مجھے ایمرجنسی کام یاد آگیا۔ ابھی جانا ضروری ہے۔ نانا کو جلدی بلاؤ۔ ان سے بات کرکے نکلتا ہوں۔‘‘
ہم جلدی سے نانا کو لے آئے۔ نہ جانے ماسٹر صاحب نے نانا سے کیا کہا اور نانا نے اماں کو کیا بتایا اگلے دن سب کو لائن حاضر کرلیا گیا۔ اماں کی مسلسل گھورتی نگاہیں اچھے خاصے ٹارچر سیل کا کام کرتی ہیں۔ آدمی تفتیش سے قبل ادھ موا ہوجاتا ہے۔
’’ماسٹر صاحب ٹیوشن چھوڑ کر کیوں گئے ہیں؟‘‘ کڑوے انداز میں پوچھا۔
’’کیا واقعی۔‘‘ ہم خوشی سے چیخ پڑے۔
’’ہوں۔ یعنی تمہارا ہاتھ پکا ہے۔‘‘ اماں کو سرا مل گیا۔
’’ہمارا ہاتھ کیوں ہوتا بھلا؟‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’انہیں اتنے دن سے کیا کھلایا جارہا تھا۔‘‘ اماں کے لہجہ میں سختی آگئی۔ پتا نہیں یہ ہماری ماں ہیں یا شرلا ک ہومز کی نانی۔ ہر بات کا پتا چل جاتا ہے۔
’’ہم کیا کھلاتے، اُلٹا آپ چائے پلاتی تھیں۔‘‘ ہم نے اماں پہ الزام دھر دیا۔
’’ٹرے میں چائے کی پیالی کے ساتھ خالی پلیٹ آتی تھی۔ اس میں کیا چیز کھلا رہے تھے؟‘‘اماں نے پلیٹ سے سب کو لپیٹ لیا۔ ساری جسوسی مسوسی کا حشر ہوگیا۔
’’اسنیکس تھے۔‘‘ ہم نے مری مری آواز میں کہا۔
’’اتنی مہربانی کیوں ہورہی تھی؟‘‘ تفتیش کا دائرہ تنگ ہونے لگا۔
’’اور صوفہ میں سوئیاں کیوں لگائی تھیں؟‘‘
کیا مصیبت ہے۔ اماں کو ہر بات کی خبر ہونا ضروری کیوں ہے۔ سب ایک دوسرے کو بے چارگی سے دیکھنے لگے۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ ہماری بے بسی انتہا کو پہنچ گئی۔
’’امی جان کو کئی روز سے صوفہ میں دھنسی ہوئی سوئیاں مل رہی تھیں۔‘‘ نانی کو بھی ہر کام میں اٹکے روڑے چننے کا شوق ہے۔ سب جھنجھلا رہے تھے۔آخرکار کافی دیر کے ٹارچر کے بعد سب کی زبانیں کھل گئیں۔
’’سارا آئیڈیا اس کا تھا۔‘‘ ہم نے سارا ملبہ فلسفی پر ڈال دیا۔
’’اس نے کہا تھا کہ ماسٹر صاحب کو دمہ کے اتنے جھٹکے دو کہ یہاں آنے کا نام بھی نہ لیں۔‘‘ ہماری زبان کی تیزی کے آگے ٹرین کے چھکے چھوٹ رہے تھے۔
’’پوری پلاننگ بتاؤ، انہیں کیا بتایا تھا اور اسنیکس کے نام پر کیا کھلا رہے تھے۔‘‘ اماں کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھیں۔
’’ماسٹر صاحب کو مونگ پھلی سے الرجی تھی۔ انہیں بیسن کوٹڈ مونگ پھلیاں کھلا رہے تھے۔ اور صوفہ میں سوئیاں اس لیے لگائی تھیں تاکہ بیماری کا شک کیڑوں کی طرف جائے۔‘‘
ہولناک پلاننگ پر اماں سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ نانا دوسرے کمرے میں لے گئے۔ کچھ دن بعد سزا کے طور پر ایسے ماسٹر کا تقرر کیا جو بید ساتھ لاتے تھے۔
نئے ماسٹر صاحب کو چائےنوکرانی کے ذریعہ بھجوائی جانے لگی۔
چائے کے ساتھ کچھ نہ کھانے کی تاکید الگ سے کردی گئی تھی!!!
آخری تدوین: