سیما علی
لائبریرین
نعمت خالہ چین چلی گئیں!!!
خالو پی آئی اے میں انجینئر تھے۔ تین سال بیرون ملک ٹرانسفر ملازمت کا حصہ تھا، سو رشتہ داروں سے دور چین کی بنسری بجانے چین چلے گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم چلتے ہو تو چین کو چلیے اٹھا لائے۔ محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ چین کے کیا حالات ہیں۔ وہاں جا کر نعمت خالہ کے بگڑنے کے چانسز تو نہیں!!!
روانگی سے قبل نعمت خالہ بلک بلک کے روئیں اور سب کو رُلا دیا۔ نانی کا حال سب سے برا تھا:
’’ہائے میری بچی پرائے دیس جارہی ہے، جانے دوبارہ کب ملاقات ہو۔‘‘ نعمت خالہ مزید بلکنے لگیں۔
اماں مضبوط اعصاب کی مالک تھیں، آنسو تو کیا، مجال ہے چہرہ پر کوئی تاثر بھی آیا ہو۔
سب نعمت خالہ کو چھوڑنے گاڑیوں میں لدے ائیر پورٹ پہنچے۔ لاؤنج میں جانے سے قبل نعمت خالہ نے بلک بلک کر رونے کا سین دوبارہ آن کرنا چاہا مگر اماں نے جھڑک دیا:
’’بس کردو۔ گھر میں تو ٹھیک تھا، یہاں سب کے سامنے ہمیں تماشا نہ بناؤ۔‘‘
’’بڑی ظالم ہو تم باجی۔‘‘ نعمت خالہ آنسو پونچھ پونچھ کر نڈھال ہوگئیں مگر اماں کو کوئی فرق نہ پڑا۔
ہمارا دل بجھ رہا تھا۔ اچانک سب کزنز ساتھ چھوڑ جائیں گئے۔ سب مزے، ساری شرارتیں، لوگوں کو ستانا پھر ان کی شکلیں دیکھ کر ہنستے ہنستے دہرے ہوجانا ماضی کا حصہ بننے جارہا تھا۔ ہماری آنکھیں نم ہوگئیں۔
نعمت خالہ نے ائیر پورٹ لاؤنج میں داخل ہونے سے قبل آخری بار سب کو مڑ کر دیکھا اور پھر بلک بلک کر رونے لگیں۔
’’توبہ۔ اتنا تو اپنی شادی پر بھی نہیں روئی تھی۔‘‘ اماں سے زیادہ ڈرامہ بازیاں برداشت نہیں ہوتی تھیں۔
سب بجھے دل کے ساتھ گھر واپس آگئے۔ ایسا لگا جیسے خالی ہاتھ رہ گئے ہوں۔ زندگی خوشیوں سے خالی ہو۔
’’ دوبارہ کب ملیں گے۔ پورے تین سال بعد؟‘‘ ہم نے نانی سے پوچھا۔
’’معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے اس عرصہ شہر میں سکون رہے گا۔‘‘جانے نانی کن باتوں پر جلی بیٹھی تھیں۔ ہم جل کر رہ گئے۔
چند دن اداسی میں گزرے۔ ابھی دل کی اداسی دور نہ ہوئی تھی کہ ایک دن ایک چمتکار ہوگیا!!!
اس روز چھٹی تھی۔ صبح کے آٹھ بجے ہوں گے، ہم سو رہے تھے، اچانک شور شرابے سے آنکھ کھل گئی۔ لاؤنج میں برتن کھڑکھڑانے کی آوازوں کے ساتھ بہت سارے لوگوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں گڈ مڈ ہورہی تھیں۔ ہم آنکھ ملتے تجسس کے عالم میں لاؤنج میں آئے۔ ڈائننگ ٹیبل ناشتے کے لوازمات سے سجی ہوئی تھی۔ سامنے نعمت خالہ بیٹھی زور زور سے ہنس رہی تھیں۔ ہمیں یقین نہ آیا۔ کیا خواب ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔تبھی فلسفی، چیتا اور گڑیا پاس آگئے۔ سب ہنس رہے تھے۔ فلسفی نے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا:
’’ابھی تک نیند میں ہو؟‘‘ ہم چکرا کر گرنے کی ایکٹنگ کرنے ہی والے تھے کہ نعمت خالہ بول پڑیں:
’’ایک دھپ دوں گی۔ اتنی دیر ہوگئی، نہ سلام نہ دعا۔‘‘ ان کی آواز سن کر ہم حواسوں میں آگئے لیکن حیرت کے سمندر سے باہر نہ آسکے۔
’’کل تمہارے خالو نے اطلاع دی کہ اگلے روز کراچی جانے والے جہاز میں سیٹیں خالی ہیں، کراچی کا چکر لگا آتے ہیں۔ سب فوراً تیار ہوگئے۔‘‘
معلوم ہوا خالو کو سہولت حاصل تھی کہ جہاز میں سیٹیں خالی ہوں تو فیملی کا سفر مفت۔ نعمت خالہ نے چائنا قیام کے دوران اس سہولت کے تمام تر فوائد حاصل کیے۔ چین سے ہر دوسرے تیسرے مہینہ یوں منہ اٹھائے چلی آتیں کہ لوگ دوسرے محلہ سے نہیں آتے۔کسی روز گھنٹی بجتی اور دروازہ پر نعمت خالہ مع لاؤ لشکر کھڑی ہوتیں۔ اماں تو پہلے ہی بے زار تھیں، اب تو نانی بھی چڑنے لگیں:
’’اب ٹک کر بیٹھ جاؤ بی بی۔ کچھ گھر گرہستی پر بھی دھیان دو۔ بار بار چھٹیوں سے بچوں کی پڑھائی پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘‘ مگر نعمت خالہ پر کسی چیز کا اثر نہیں پڑتا۔
نعمت خالہ کا کمال تھا کہ ہر دفعہ جاتے ہوئے پہلے روز کی طرح بلک بلک کر روتیں۔ مگر اب کوئی ان کے رونے پر نہیں روتا۔ سب کو معلوم تھا جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ گزریں گے کہ دوبارہ آجائیں گی۔ سب کی سرد مہری کے باوجود ان کا رونا دھونا اسی زور و شور سے جاری رہا۔
اس روز نعمت خالہ تین دن کے لیے آئی تھیں۔ تین دن شاپنگ اور شرارتوں میں ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا۔ چوتھے روز روانگی تھی۔ اب کوئی انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے نہیں جاتا تھا۔ گھر کے دروازے سے ٹہلا دیتےتھے۔ چین سے آنے کو مذاق بنانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ اماں کا فلسفہ تھا۔
فلائیٹ کا ٹائم نکل رہا تھا۔ باہر ڈرائیور ہارن پہ ہارن دینے لگا۔ اندر نعمت خالہ کے رونے کا سین آن تھا۔ اماں اور نانی بڑی مشکلوں سے کھینچ کر گاڑی تک لائیں۔ گاڑی جانے کے بعد سب سکون کا سانس لیتے ہوئے اندر آگئے۔ ڈرائیور کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ نانی پریشان ہوگئیں۔ خدا خیر کرے۔ نانی بے چینی کے عالم میں ٹہل رہی تھیں تبھی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ نانی کے اوسان بحال ہوئے:
’’خدایا تیرا شکر۔‘‘ ابھی نانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ دروازہ کی گھنٹی بجی۔ نانی کی پیشانی پر پھر فکر مندی کی لکیریں ابھر آئیں:
’’ ڈرائیور نے گاڑی سے اتر کر بیل کیوں بجائی؟‘‘ نانی بڑبڑاتی ہوئی دروازہ تک گئیں۔ دروازہ کھلتے ہی نعمت خالہ کے زور دار قہقہہ کی آواز آئی:
’’ہاہاہاہا۔ ہم چانس کی سیٹوں پر گئے تھے۔ جہاز میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔اب کل جائیں گے۔ ڈرائیور کو اسی لیے روک رکھا تھا۔ ‘‘ نعمت خالہ ہنس ہنس کر بتا نے لگیں۔ اماں غصہ سے کھول رہی تھیں۔ نانی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں!!!
اگلے روز سامان دوبارہ پیک ہوا۔ ڈرائیور باہر دوبارہ انتظار کرنے لگا۔ سب نعمت خالہ کو دوبارہ رخصت کرنے دروازہ پر جمع ہوگئے۔ نعمت خالہ نانی سے لپٹ کر بلک بلک کے رونے لگیں۔ ہماری آنکھیں باہر کو آگئیں:
’’کل والے سین کو چوبیس گھنٹے تو گزرنے دیں۔‘‘ نعمت خالہ کے رونے کو بریک لگ گئے۔ رونا دھونا بھول کر ہمیں گھورنے لگیں:
’’بچو تم کیا جانو اپنوں سے جدائی کا غم۔‘‘ جذباتی ڈائیلاگ مارنے کی کوشش کی گئی۔
’’لیکن وہ والی جدائی آپ ہونے کب دیتی ہیں؟‘‘ ہماری حیرت کا طلسم ٹوٹ نہیں رہا تھا۔تبھی نعمت خالہ کے بھاری بھرکم ہاتھ کی زور دار دھپ کمر پر پڑی۔ طلسم ہوشربا کے سب ہوش اڑ گئے۔ ایک ہی دھپ ہماری زباں بندی کرگئی، ہمیں چاروں شانے چت کرگئی۔
جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، یہ تو سنا تھا۔۔۔
پر آج معلوم ہوا کبھی کبھار طاقت کی بھی ہوتی ہے!!!