اُس رات ہم نانی کے گھر رُک گئے۔ نانا کا ٹائم ٹیبل بھی عجیب تھا۔ رات کے دس بجے اور گھر کی ساری بتیاں گُل۔ البتہ نانی ان کے رعب میں نہیں آتی تھیں۔ جب انہیں اطمینان ہوجاتا کہ سارے کام ختم ہوگئے ہیں اب سونا چاہیے، اس وقت تک کسی کی ہمت نہ تھی کہ انہیں بستر کی راہ دکھا سکے۔
رات گئے نانی بیڈ روم میں آئیں۔ ہم ان کے برابر والے بیڈ پر قبضہ جماچکے تھے۔ نانی نے الماری کھولی، خفیہ دراز سے بادام، پستے، اخروٹ اور چلغوزے نکالے۔ ہم نانی کے پہلو سے چپکے بیٹھے تھے۔ بار بار میوہ جات پر ہاتھ ڈالتے جو نہایت قوت سے واپس دھکیل دئیے جاتے۔ نانی نے گن کر سات دانے بادام، تھوڑے سے پستے اور مٹھی بھر چلغوزے دئیے۔ ہم نانی کے بستر پر چوکڑی مار جھولی میں میوہ جات بھر کے بیٹھ گئے۔سردی ہو یا گرمی نانی رات کو خشک میوے ضرور کھاتیں۔ تھوڑی دیر بعد پان پر ہاتھ صاف ہوا۔ نہایت عمدہ نوابی کتھا جو گھر میں بنایا جاتا تھا، گھر میں بنا چونا، صاف ستھرے بے داغ سانچی پان، اگر کہیں ذرا بھی نشان پایا جاتا فوراً قینچی سے کُتر دیا جاتا۔ عمدہ و نفیس نرم ملائم چھالیہ اور خوشبودار تمباکو۔ یہ پان صبح ناشتہ کے بعد سے جو شروع ہوتا تو رات سونے تک دانتوں تک کچلا جاتا تھا۔
ہم پان کی فرمائش کرتے تو نانی پان بنا کر اس میں ایک الائچی، تھوڑی سونف اور باریک کھوپرا ڈال دیتیں۔ ہمیں نانی کا کَٹی ہوئی چھالیوں کا نرم ملائم مزے دار سفید حصہ بہت پسند تھا۔ ہم ڈھیر ساری چھالیوں کا سفید حصہ کُتر ڈالتے اور نانی سے ڈھیر ساری ڈانٹ کھاتے، مگر نہ ہم کُترنا چھوڑتے نہ وہ گھُرکنا۔
میوے کھا کر بستر پر لیٹے ہی تھے کہ نانی نے آواز دی:
’’پہلے کمر دباؤ، پھر سونا۔‘‘
کام کرنا کسی کو پسند نہیں ہوتا، ہمیں بھی نہیں تھا، مگر مرتا کیا نہ کرتا، کئی کام دل پر پتھر رکھ کر کرنے پڑتے ہیں، ہمیں بھی دل پر وہی والا پتھر رکھنا پڑا۔ جب کمر دباتے بہت دیر ہوگئی تو نانی نے اعلان کیا:
’’تمہارے ہاتھوں میں جان نہیں ہے لہٰذا کھڑے ہوکر دباؤ۔‘‘
ہم اپنی نہایت شاندار صحت اور دھان پان سی نانی کو دیکھنے لگے۔ انہوں نے فوراً نعرہ لگایا:
’’ادھر اُدھرمت دیکھو، جو کہا ہے وہ کرو۔‘‘
ہم ڈرتے ڈرتے نانی کی کمر پر چڑھ گئے۔ دل میں سوچا:
’’اگر نانی کی کمر ٹوٹ گئی تو ٹوٹی ہوئی کمر والی نانی کیسی دِکھیں گی؟‘‘
جلد ہی اس نامعقول خیال کو جھٹک دیا اور نانی کی کمر پہ آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے لگے۔ ابھی ایک قدم اٹھا کر رکھا ہی تھا کہ کسی چیز کے چٹخنے کی آواز آئی۔ ہم نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا کہ رات کے سناٹے میں بھلا کیا چیز ٹوٹی ہے۔ یکدم نانی نے ہائے وائے کرنا شروع کردیا:
’’ہائے میری کمر ٹوٹ گئی!!!‘‘
نانی بلا رُکے اس قدر بآوازِ بلند آہ و فغان کرنے لگیں کہ ایک کے بعد ایک سب کمروں کی لائٹیں جلنے لگیں۔
سب سے پہلے نانا کمرے میں داخل ہوئے۔ نانی کا چیخ چیخ کر برا حال ہورہا تھا۔ ہم چور بنے ایک کونے میں دبکے کھڑے تھے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نانا نے پہلے نانی کو مخاطب کیا، مگر ان کی چیخ و پکار سن کر ہماری طرف دیکھنے لگے۔
’’ہمیں کیا پتا کیا ہوا۔ نانی نے ہم سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر کمر دباؤ، ہم نے منع بھی کیا کہ اس طرح کے ایڈونچر آپ کی بیک بون کے لیے قطعاً مفید نہیں، مگر نانی کو پستہ بادام کی طاقت پر بھروسہ تھا جو ذرا بھی بھروسہ مند ثابت نہ ہوا۔‘‘ ہماری طول و عرض پر پھیلی لن ترانیاں لوگوں کی توجہ ہٹانے پر تھیں، کہیں ہمیں مجرم نہ سمجھ لیا جائے۔
’’اچھا بس۔‘‘
اماں نے ہماری لن ترانیاں سن کر ناگواری سے گھورا۔
ماجرا سب سمجھ گئے تھے، فوراً ہسپتال کو بھاگے۔ نانی کی کمر کے ایکسرے سے معلوم ہوا کہ ایک پسلی میں کریک پڑگیا ہے۔
صبح فلسفی، چیتا اور گڑیا ہمیں گھیرے ہوئےتھے، ہم چشم دید گواہ کے طور پر فخریہ انداز میں رات کی کارروائی پر روشنی ڈال رہے تھے:
’’وہ تو اچھا ہوا ہم فوراً اتر گئے تھے ورنہ نانی کی ہڈی پسلی ایک ہوجاتی۔‘‘
بات ہمارے منہ میں ہی تھی کہ ایسا لگا چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں، لیکن فوراً ہی بعد دماغ کی ساری بتیاں گُل ہوگئیں۔
ہوش میں آنے پر پتا چلا کہ پیچھے کھڑی نعمت خالہ نے ’’نانی کی ہڈی پسلی ایک‘‘ ہونے والی بات سن لی تھی، پھر بنا تحقیق بدنام زمانہ دھپ روانہ کی جو ہم نے گُدّی پہ وصول کی۔
کسی کا قول ہے کہ بڑا بول نہ بولو۔ اس پر ہمارا قول ہے کہ بڑا بول بولنے سے قبل گردن گھما کر ایک نظر پیچھے بھی دیکھ لو!!!