سید عمران

محفلین
لوگوں کو مصیبت میں نانی یاد آتی ہے ہمیں چھٹیوں میں. اسکول میں چھٹیاں تھیں، ہم نانی کے گھر آگئے. انجم بھی آگئی. نانی کے گھر کا دروازہ انجم کے دروازے کے عین سامنے تھا. انجم کا ناک نقشہ ایسا نہ تھا جسے فخریہ بیان کیا جائے. بھاری جسم اور پکا رنگ. اس پہ اس کا اعٹماد سب کا خون کھولاتا.
"مجھے اس اعتماد کا راز پتا ہے." فلسفی بولا.
"کیا؟"
"نکڑ پہ بیٹھے بھائی کلّن."فلسفی نے انکشاف کیا.
"وہ کیسے؟"
"دونوں کے درمیان پرچہ بازی ہوتی ہے." اس کا لہجہ پراسرار ہوگیا.
"تمہیں کیسے پتا؟" گڑیا دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر اس کے پاس آگئی.
"ایک مرتبہ مجھ سے بھی پرچی بھجوائی تھی." بے ساختہ بول دیا.
"تم نے اس کی پرچی کلن کو دی تھی؟" گڑیا اس کے سامنے آگئی. وہ دوسری طرف دیکھنے لگا.
"کیا لالچ دیا تھا؟" گڑیا کو غصہ آنے لگا.
"پان کا."
"نانی کو بتاؤں؟"
"رہنے دو. اس نے پان نہیں کھلایا. اس کا بدلہ لینا چاہیے." فلسفی دھمکی خاطر میں نہ لایا.
"کیا کر سکتے ہو؟" چیتے نے پوچھا.
"سوچتے ہیں."
ان دنوں اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کا بھوت سوار تھا. فلسفی ابن صفی کے ناول بھی لے آیا. ہم نے ایک ناول پڑھا. ختم کرنے کے بعد بھی پتا نہ چلا کہ کیا پڑھا. ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا.
"ایک آئیڈیا ہے." ہم نے سب کو متوجہ کیا. سب متوجہ ہوگئے.
"انجم کو اغوا کرلیتے ہیں."
"چار آنے بھی نہیں لگیں گے." فلسفی نے منع کردیا.
"آئیڈیا." چیتے نے چٹکی بجائی. سب بور ہوگئے.
"سن تو لو." سب جماہیاں لینے لگے. اس نے پرواہ نہ کی. مسلسل بولنے لگا. سب مسلسل سننے لگے.
"ایک پرچہ لکھتے ہیں. اگر پیسوں سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو انجم کو اغوا کرلیں گے."
"شمالی پہاڑیاں کہاں ہوتی ہیں؟" فلسفی کو حیرت ہوئی.
"اشتیاق احمد کے ناول میں." چیتا غرایا.
"بریف کیس زیادہ بڑا نہیں ہوجائے گا. اس کی جگہ تھیلی کرلو. دینے میں آسانی رہے گی." انجم کے بدلہ میں بریف کیس جتنی رقم فلسفی کو ہضم نہیں ہوئی.
"تھیلی غیر جاسوسی لفظ ہے. کسی مجرم کو تھیلی میں رقم لیتے نہیں سنا." چیتے نے آئیڈیا مسترد کردیا.
"تم نے ہمیں مجرم کہا؟" گڑیا غرائی.
"بے وقوف مت بنو. اور کاغذ قلم لے کر آؤ." چیتے نے کام پر لگادیا.
"کیوں؟"
"خط لکھنا ہے." فلسفی ساری بات سمجھ گیا. خط فلسفی نے لکھا. ہمارے نزدیک سب سے پختہ رائٹنگ اسی کی تھی. خط انجم کے ابا کے نام لکھا گیا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. اگر آپ نے رقم سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو ہم انجم کو اغوا کرلیں گے."
"یہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟" ہمیں کھٹکنے لگا.
"اس طرح کا خط کسی مجرم کا یاد نہیں آرہا." ہم نے اپنے خدشات ظاہر کیے.
"تمہیں نہیں پتا. ابن صفی کے مجرم ایسے ہی لکھتے ہیں." ہم متاثر ہوگئے. خط دروازے سے اندر ڈالنے کی ذمہ داری ہماری لگی. دوپہر کے سناٹے میں خط ڈالنے گئے. جاتے وقت جتنی تیزی دکھائی، واپسی پر رفتار اس سے تین گنا زیادہ تھی.
اب شام کا انتظار شروع ہوگیا.
شام کو انجم کی اماں ہاتھ میں خط لیے آگئیں. تیر کی طرح نانی کے پاس پہنچیں. بچوں کی رائٹنگ پہچان لی گئی تھی. ایسی چوکڑی محلہ بھر میں نہیں تھی. بقول نانی شریفوں کا محلہ تھا. انجم کی اماں آگ لگا گئیں. نانی نے سب کو بلالیا.
"کم بختو دھمکی نامہ لکھا ہے یا خیریت نامہ. یا تو سلام دعا کرلو، خیریتیں پوچھ لو یا لڑکیاں اٹھوا لو. ناک کٹادی محلہ بھر میں. آنے دو نانا کو." نانی کو ہنسی آرہی تھی. لیکن موقع غصہ کرنے کا تھا. سو غصہ دکھانے لگیں.
نانی خط ہمارے حوالے کرکے چلی گئیں. ہم نے دوبارہ خط پڑھا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے....."
" اسی پر تو ہم کھٹک رہے تھے." ہم نے اعلان کیا. سب فلسفی کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے!!!

رات کو نانا آگئے. نانا مارنے پر گُھرکنے کو ترجیح دیتے تھے.

تین دن تک مسلسل گُھرکتے رہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
فلسفی کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ نعمت خالہ کے پاس گیا۔ انہوں نے ہری جھنڈی دکھا دی۔وہ باہر سے مٹی کی نئی گلک لے آیا۔
’’خالی گلک سے پیسے ملیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’پیسے ہر جگہ سے مل سکتے ہیں۔ ہاتھ میں ہنر ہونا چاہیے۔‘‘ فلسفہ بگھار کر لان میں آگیا ۔ کیاری کی خشک مٹی گلک پر رگڑی۔ اس کی آب و تاب ماند ہوگئی۔ جھاڑ پونچھ کر اندر لایا۔ اسٹول اٹھایا اور الماری پر رکھی گڑیا کی گلک اتار لی۔ کافی وزنی تھی۔ توڑی تو خوب سارے پیسے نکلے۔ تھوڑے سے پیسے نئی گلک میں ڈالے ،باقی اپنی جیب میں۔ گڑیا جب پیسے ڈالنے گلک اٹھاتی نعمت خالہ کے پاس ضرور آتی:
’’یہ ہلکی کیوں لگ رہی ہے؟‘‘
’’وہم ہوگا۔‘‘
’’وہم سے وزن کم ہوجاتا ہے کیا؟‘‘ گڑیا ہمیشہ وہم میں مبتلا رہی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
گرمیوں کی دوپہر تھی۔ باہر ہُوکا عالم۔ آدم نہ آدم زاد۔ بڑے سارے ڈرائنگ روم میں سب صوفوں پر اِدھر اُدھر پڑے تھے۔ فلسفی طلسم ہوش رُبا کی جلدیں لے آیا۔ سب کے ہاتھ میں ایک ایک جلد تھما دی۔ ایک خود لے کر صوفے پر دراز ہوگیا۔ کچھ دیر بعد بولا: ’’اگر ہم عمرو عیار کی طرح سبز چادر اوڑھ لیں تو کسی کو نظر نہیں آئیں گے۔‘‘
سب بے یقینی سے دیکھنے لگے۔ وہ سبز چادر لے آیا۔ سر سے پاؤں تک اوڑھ کر پوچھا: ’’کسی کو نظر آرہا ہوں؟‘‘
چیتے نے دبوچ لیا۔ وہ چادر کے اندر کسمسایا تو چھوڑ دیا۔ چھینپتے ہوئے بولا: ’’دوسروں کو نظر نہیں آئیں گے۔‘‘
کسی کو یقین نہ آیا، پھر بھی چادر اوڑھے باہر آئے، پڑوسیوں کے دروازوں کی گھنٹیاں بجائیں اور اطمینان سے ٹہلتے ہوئے واپس آگئے۔
’’دیکھا ہمیں کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘ فلسفی کے لہجے میں اعتماد تھا۔ سب کو یقین آگیا۔
شام کی چائے پر سب ڈائننگ ٹیبل پہ جمع تھے۔ باہر دروازے کی گھنٹی بجی۔ خالو باہر گئے، واپس آکر ہمیں گھورنے لگے۔ دوبارہ گھنٹی بجی۔ خالو گئے۔ اب کے آئے تو گھورنے کی تیزی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ گھنٹی تیسری بار بجی۔ سب کو ساتھ لے گئے۔ دروازہ پر نیازی صاحب تھے۔ کہنے لگے: ’’صاحب، چاروں بچوں نے ساری دوپہر سونے نہیں دیا۔ گھنٹیاں بجا بجا کر سر میں درد کردیا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ کیا سمجھتے ہیں چادر اوڑھ لیں گے تو پہچانے نہیں جائیں گے؟‘‘
سب نے فلسفی کو دیکھا۔ وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔
خالو کی ہوش رُبا کھنچائی کے بعد عمرو عیار اور اس کی سبز چادر سے ہمیشہ کے لیے اعتبار اُٹھ گیا۔
اگلے روز طلسم ہوش رُبا کی جلدیں کباڑئیے کو بیچ دی گئیں!!!
 
آخری تدوین:

نکتہ ور

محفلین

بافقیہ

محفلین
گرمیوں کی دوپہر تھی۔ باہر ہُوکا عالم ۔ آدم نہ آدم زاد۔ بڑے سارے ڈرائنگ روم میں سب صوفوں پر اِدھر اُدھر پڑے تھے۔ فلسفی طلسم ہوش رُبا کی جلدیں لے آیا۔ سب کے ہاتھ میں ایک ایک جلد تھمائی۔ ایک خود لے کر صوفے پر دراز ہوگیا۔ کچھ دیر بعدبولا: ’’اگر ہم عمرو عیار کی طرح سبز چادر اوڑھ لیں تو کسی کو نظر نہیں آئیں گے۔‘‘
سب بے یقینی سے دیکھنے لگے۔ وہ سبز چادر لے آیا۔ سر سے پاؤں تک اوڑھ کر پوچھا:’’ کسی کو نظر آرہا ہوں؟‘‘
چیتے نے دبوچ لیا۔ وہ چادر کے اندر کسمسایا تو چھوڑ دیا۔ چھینپتے ہوئے بولا:’’دوسروں کو نظر نہیں آئیں گے۔‘‘
کسی کو یقین نہ آیا، پھر بھی چادریں اوڑھے باہر آئے،پڑوسیوں کے دروازوں کی گھنٹیاں بجائیں اور اطمینان سے ٹہلتے ہوئے واپس آگئے۔
’’دیکھا ہمیں کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘ فلسفی کے لہجے میں اعتماد تھا۔ سب کو یقین آگیا۔
شام کی چائے پر سب ڈائننگ ٹیبل پہ جمع تھے۔ باہر دروازے کی گھنٹی بجی۔ خالو باہر گئے، واپس آئے،ہمیں گھورنے لگے۔ دوبارہ گھنٹی بجی۔ خالو گئے۔ اب کے آئے تو گھورنے کی تیزی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ گھنٹی تیسری بار بجی ۔ سب کو ساتھ لے گئے۔ دروازہ پر نیازی صاحب تھے۔ کہنے لگے:’’صاحب، چاروں بچے نے ساری دوپہر سونے نہیں دیا۔ گھنٹیاں بجا بجا کر سر میں درد کردیا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ کیا سمجھتے ہیں چادر اوڑھ لیں گے تو پہچانے نہیں جائیں گے؟‘‘
سب نے فلسفی کو دیکھا۔وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔خالو کی ہوش رُبا کھنچائی کے بعد عمرو عیار اور اس کی سبز چادر پر سے ہمیشہ کے لیے اعتبار اُٹھ گیا۔
اگلے روز طلسم ہوش رُبا کی جلدیں کباڑئیے کو بیچ دی گئیں!!!
بہت مزیدار جناب۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
صاف روشن دن نکلا ہوا تھا۔ فضا میں ہلکی خنکی تھی۔ کچن کا ماحول گرم تھا۔ سب کچن میں گول میز پر بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔ ہم نے فلسفی سے بٹر نائف لے کر ٹوسٹ پر ملائی لگانی چاہی۔ فلسفی نے ہاتھ پیچھے کرلیا:
’’ بٹر نائف صرف مکھن لگانے کے لیے ہوتی ہے۔‘‘
’’ہم ملائی بھی لگالیتے ہیں۔‘‘ بٹر نائف چھیننے میں کامیابی رہی۔
آصف سب سے لاتعلق بیٹھا تھا۔ ناشتہ کرتے ہی اٹھا اور سیدھا بیڈ روم کا رُخ کیا۔
’’اس کو کیا ہوگیا؟‘‘ گڑیا حیرانی سے دیکھنے لگی۔
’’آج بہت اونچا اُڑ رہا ہے۔‘‘چیتے نے سرگوشی کی۔
’’یہیں بیٹھے رہو۔ دیکھتے ہیں کیا ارادے ہیں۔‘‘ فلسفی نے کہا۔ سب وہیں بیٹھے رہے۔
آصف تھوڑی دیر بعد نہا دھو کر کہیں جانے کی تیاری کرکے نکلا اور تیر کی طرح کار پورچ کی جانب لپکا۔
’’آؤ، پیچھا کرتے ہیں۔‘‘ فلسفی آصف کے پیچھے لپکا۔ سب فلسفی کے پیچھے گئے۔
آصف گاڑی میں لال بابا ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ فلسفی پچھلا دروازہ کھول کر گاڑی میں گھس گیا۔ سب نے پیروی کی۔ آصف گردن موڑ کر دیکھنے لگا:
’’تم سب کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’جہاں تم۔‘‘ فلسفیانہ جواب دیا گیا۔
’’میں تمہیں لے کر نہیں جارہا۔‘‘
’’معلوم ہے۔ہم خود جارہے ہیں۔‘‘
آصف نے برا سا منہ بنالیا۔ لال بابا کا پیٹ زور زور سے ہلنے لگا۔ ہمیں دیکھ کر لال بابا ہمیشہ ہنسنے لگتے، ان کا پیٹ زور زور سے ہلتا۔ لال بابا کا اصلی نام کوئی نہیں جانتا تھا۔ لال داڑھی کی وجہ سے سب انہیں لال بابا کہتے تھے۔ گڑیا کا کہنا تھا لوگ منہ سے ہنستے ہیں اور لال بابا پیٹ سے۔
گاڑی بڑی سی بک شاپ کے سامنے رُکی اور آصف اُتر گیا۔
’’تم لوگ بیٹھے رہو، میں ابھی آتا ہوں۔ میرے پیچھے آنے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘ آصف تنبیہہ کرکے بک شاپ کے اندر چلا گیا۔ اسے گئے کافی دیر ہوگئی تبھی فلسفی تلملایا:
’’اس کی اتنی ہمت ہمیں آنے سے منع کرے۔ اس نے دوکان خرید نہیں لی۔ چل کر دیکھتے ہیں اندر کیا ہورہا ہے۔‘‘
سب گاڑی سے اُتر گئے۔ لال بابا کا پیٹ ہلنے لگا۔
بک شیلف کے سامنے کھڑے آصف کے ہاتھ میں انگریزی میگزین تھا۔ بڑے غور سے منہ کے قریب لاکر معائنہ ہورہا تھا۔ فلسفی نے ہاتھ سے میگزین اُچک لیا۔ آصف بوکھلا گیا۔ فلسفی میگزین دیکھنے لگا۔ سب نے شور مچایا ہمیں بھی دکھاؤ۔
’’کسی کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ فلسفی نے میگزین بُک شیلف کے سب سے اوپر والے ریک میں رکھ دیا۔ سب نے اُچھل کر ہاتھ بڑھایا۔ کسی کا ہاتھ نہ پہنچا۔ آصف جلتا کڑھتا دوکان سے باہر آگیا۔ اس کے پیچھے پیچھے سب نکل آئے۔ آصف فرنٹ سیٹ پر لال بابا کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باقی سب پچھلی سیٹ پر تھے۔
’’بُک شاپ سے کیا لینے آئے تھے، وہ تو خرید لو۔‘‘فلسفی نے چھیڑا۔ آصف اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
باہر صاف روشن دن نکلا ہوا تھا۔
گاڑی گھر کی طرف واپس جارہی تھی!!!
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
اُن دنوں کا ذکر ہے جب ہمارے دودھ کے دانت جھڑ گئے تھے۔ تب والدہ کی بہن خالہ ہوتی تھیں۔ آج کل آنٹی کہلاتی ہیں۔ ارشد، نعمت خالہ کے پہلوٹے تھے۔ ہمارے خالہ زاد بھائی تھے۔ اب بھی ہیں۔ ان کے علم سے مرعوب ہوکر سب انہیں فلسفی کہتے تھے۔ فہد ان سے چھوٹے تھے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ بتاتے ہیں کہ دیر سے پیدا ہوئے۔ ایک دن ہم نے ان کے نام کا مطلب پوچھا۔ تب سے چیتا مشہور ہوگئے۔ گڑیا کو پیدا ہونے میں مزید دیر لگی لیکن بالآخر پیدا ہو ہی گئیں۔ ایک ہم، تین وہ۔ چار کی چوکڑی جہاں جاتی اودھم مچاتی۔ ممانی اپنے گھر بلانے سے جھجکتی تھیں۔ لیکن ہم پرواہ کیے بغیر پہنچ جاتے۔ ان کے باغ میں جاکر خوب شور مچاتے۔ تربوز کی بیل جڑوں سے کھودتے۔ فلسفی کا فلسفہ تھا کہ اس طرح بیل کو سانس لینے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ فالسے کے درخت کو ہلا ہلا کر ادھ موا کردیتے۔ فلسفی کہتا فالسے کو ہاتھ سے توڑنے پر نئے فالسے نہیں نکلتے۔ سب اس کی بات مان لیتے۔ درخت سے فالسوں سے زیادہ پتے گرتے۔ بقول فلسفی زیادہ پتے گرنا درخت کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مگر ممانی کی صحت باغ کی صفائی کے دوران خراب ہوجاتی۔

ہم نے مزید دو دن رکنے کا پروگرام بنالیا۔ ممانی کی صحت مزید خراب ہوگئی۔

باہر خوب بارش ہورہی تھی۔ سب باہر آگئے۔ چیتے کے ہاتھ میں آصف کی کاپیوں کا ڈھیر تھا۔ہم نے کھول کر دیکھا سب بھری ہوئی تھیں۔
’’سادہ کاپیوں کو چھوڑ دیا، ضائع ہوجائیں گی۔ ‘‘چیتے نے اطمینان دلایا۔
سب نے اطمینان سے کاغذ پھاڑ کر کشتیاں بنائیں اور صاف ستھری موزائیک کی بنی نالیوں میں چلانے لگے۔ یہ نالیاں صرف بارش میں بہتی تھیں۔ تبھی گڑیا ہاتھ میں بڑی سے کشتی اٹھا لائی:
’’ آصف کے ماموں دبئی سے لائے تھے۔ بیٹری سے چلتی ہے۔‘‘
سب کاغذ کی کشتیاں بھول گئے۔ بیٹری سے چلنے والی کشتی کا شور سن کر ممانی بوکھلائی ہوئی آئیں۔ بچے کی امپورٹیڈ کشتی ہمارے ہاتھوں بگڑتے دیکھ کر بگڑ گئیں:
’’بہت مہنگی ہے۔ بارش میں خراب ہوجائے گی۔‘‘
’’بارش روز روز نہیں ہوتی۔‘‘ گڑیا نے ممانی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔
’’ابھی اسے خراب ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’خراب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ ممانی کچھ اور بگڑ گئیں۔
‘‘ماموں نئی لے آئیں گے۔‘‘ ہماری پیش گوئی تھی۔
ممانی موڈ خراب کرکے چلی گئیں۔

اندر آصف زور زور سے بول رہا تھا: ’’میری کاپیاں نہیں مل رہیں۔ ہوم ورک کرکے یہیں رکھی تھیں۔‘‘
سب نے چیتے کو گھورا۔ چیتا خاموشی سے باقی ماندہ کاپیاں واپس رکھ آیا۔ اس روز کاپی کے صفحے پھٹنے کا کسی کو علم نہیں ہوا۔

باہر بارش تیزی سے برسنے لگی۔ پانی زور زور سے بہہ رہا تھا۔ کشتی کی رفتار مزید تیز ہوگئی!!!

کیا بات ہے آپکی تحریر کی۔ بچپن تو آپ نے مکمل دکھا دیا۔ لیکن یہاں پر ایک نکتہ بھی ذہن میں جگمگاتا ہے کہ کیا بچپن کی حماقتیں ہی ہیں یا یہ تمام عادات بچپن کا ایک ضروری حصہ ہیں اور سیکھنے، سکھانے کے عمل کے لیے انتہائی لازم و ملزوم ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
کیا بات ہے آپکی تحریر کی۔ بچپن تو آپ نے مکمل دکھا دیا۔ لیکن یہاں پر ایک نکتہ بھی ذہن میں جگمگاتا ہے کہ کیا بچپن کی حماقتیں ہی ہیں یا یہ تمام عادات بچپن کا ایک ضروری حصہ ہیں اور سیکھنے، سکھانے کے عمل کے لیے انتہائی لازم و ملزوم ہیں۔
اس پر تو کافی فلسفیانہ کالم لکھا جاسکتا ہے۔۔۔
فی الحال لڑی ھٰذا کو ہلکے پھلکے انداز میں چلنے دیں!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
خالو کے شوق بھی عجیب و غریب قسم کے تھے۔ ایک دن بارہ بور کی رائفل لے آئے۔ کہنے لگے شہر میں چوریاں زور و شور سے ہورہی ہیں، احتیاط ضروری ہے۔ ایک دن دیکھا خونخوار قسم کا کتا لیے آرہے ہیں۔ وجہ بتائی کہ شہر میں چوروں کا راج رہنے لگا ہے۔ پیشگی اطلاع کے لیے کتا ہونا ضروری ہے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ لڑاکا مرغا بغل میں دبائے آگئے۔ سب سمجھ گئے یہ بھی چوروں سے نمٹنے کا ہتھیار ہے۔
کتے کے ساتھ مرغے کو بھی گوشت کھلایا جانے لگا۔
دن میں مرغا چیختا، رات بھر کتا بھونکتا۔ دن کا سکون اور رات کا چین غارت ہونے لگا۔ خالو چڑچڑے ہوگئے، ہر بات پر رائفل نکالنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
مرغا، کتا اور رائفل۔ نعمت خالہ کو تینوں چیزیں زہر لگنے لگیں۔
چیتا مرغے کے پیچھے تیز تیز سائیکل چلانے لگا۔ مرغا آگے آگے بھاگ رہا تھا۔ ان دنوں سب کی کوشش تھی کہ کتے اور مرغے کی موت حادثاتی نظر آئے۔ خالو کی ناراضگی سے بچنے کی واحد وجہ یہی ہوسکتی ہے۔ کتے کو مارنے کے ہزار جتن کیے گئے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ دودھ میں زہر ملایا گیا اور گوشت پر ڈیٹول کی تہہ چڑھائی گئی۔ وہ سب کچھ کھا نِگل کر بھی بھونکتا رہا۔
پھوپھو زرینہ گاؤں سے اپنی بہن آنٹی نرینہ کے یہاں آئیں، وہاں سے نعمت خالہ کے آگئیں۔ آنٹی نرینہ کو یہ نام چیتے نے دیا تھا۔ بقول اس کے ان میں کوئی بات عورتوں والی نہیں ہے۔ ایک دن ہم پھوپھو اور آنٹی میں فرق بتانے لگے: ’’آنٹی شہر میں رہتی ہیں ان پر انگریزی لفظ سُوٹ کرتا ہے۔ پھوپھو گاؤں کی رہنے والی ہیں اُن پر پھوپھو جچتا ہے۔‘‘ نعمت خالہ اس عجیب و غریب منطق پر زور زور سے ہنسنے لگیں۔
آنٹی نرینہ کا لڑکا عرفان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ مرغا اچھل کر اس پر حملہ آور ہوگیا۔ آنٹی اور پھوپھو نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی لیکن مرغا اس کے چہرہ کو لہولہان کرکے ہی ہٹا۔ اس حملے کے بعد مرغے کو پچھلے برآمدے میں باندھ دیا گیا۔ پھوپھو، آنٹی اور عرفان ڈاکٹر کے پاس گئے، وہاں سے اپنے گھر چلے گئے۔
شام کو خالو آئے۔ نعمت خالہ نے نمک مرچ لگا کر سارا قصہ سنا دیا۔ خالو جوش میں اٹھے اور مرغے کو ذبح کردیا۔ سب کی لاٹری نکل آئی، سب خوش تھے کہ رات کو کھانے میں مرغے کا گوشت ملے گا۔ نعمت خالہ نے گوشت گلانے کے خوب جتن کیے مگر کامیاب نہ ہوسکیں، تنگ آکر سارا گوشت کتے کو کھلا دیا۔ مرغے کا گوشت کھا کر کتا پاگل ہوگیا۔ خالو نے بارہ بور کی رائفل نکالی اور گھر کے پیچھے میدان میں کتے کو گولی مار دی۔ چند دن بعد رائفل اپنے کسی دوست کو دے آئے۔ خالو کا چڑچڑا پن ختم ہوگیا۔ نعمت خالہ خوش تھیں۔
مرغا، کتا اور رائفل۔ تینوں سے نجات مل گئی۔
شہر میں چوریاں زورو شور سے جاری تھیں!!!
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
خالو کے شوق بھی عجیب و غریب تھے۔ ایک دن بارہ بور کی رائفل لے آئے۔ کہنے لگے شہر میں چوریاں زور و شور سے ہورہی ہیں، احتیاط ضروری ہے۔ ایک دن دیکھا خونخوار قسم کا کتا لیے آرہے ہیں۔ وجہ بتائی کہ شہر میں چوروں کا راج رہنے لگا ہے۔ پیشگی اطلاع کے لیے کتا ہونا ضروری ہے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ لڑاکا مرغا بغل میں دبائے آگئے۔ سب سمجھ گئے یہ بھی چوروں سے نمٹنے کا ہتھیار ہے۔
کتے کے ساتھ مرغے کو بھی گوشت کھلایا جانے لگا۔
دن میں مرغا چیختا، رات بھر کتا بھونکتا۔ دن کا سکون اور رات کا چین غارت ہونے لگا۔ خالو چڑچڑے ہوگئے، ہر بات پر رائفل نکالنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
مرغا، کتا اور رائفل۔ نعمت خالہ کو تینوں چیزیں زہر لگنے لگیں۔
چیتا مرغے کے پیچھے تیز تیز سائیکل چلانے لگا۔ مرغا آگے آگے بھاگ رہا تھا۔ ان دنوں سب کی کوشش تھی کہ کتے اور مرغے کی موت حادثاتی نظر آئے۔ خالو کی ناراضگی سے بچنے کی واحد وجہ یہی ہوسکتی ہے۔ کتے کو مارنے کے ہزار جتن کیے گئے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ دودھ میں زہر ملایا گیا اور گوشت پر ڈیٹول کی تہہ چڑھائی گئی۔ وہ سب کچھ کھا نِگل کر بھی بھونکتا رہا۔
پھوپھو زرینہ گاؤں سے اپنی بہن آنٹی نرینہ کے یہاں آئیں، وہاں سے نعمت خالہ کے آگئیں۔ آنٹی نرینہ کو یہ نام چیتے نے دیا تھا۔ بقول اس کے ان میں کوئی بات عورتوں والی نہیں ہے۔ ایک دن ہم پھوپھو اور آنٹی میں فرق بتانے لگے: ’’آنٹی شہر میں رہتی ہیں ان پر انگریزی لفظ سُوٹ کرتا ہے۔ پھوپھو گاؤں کی رہنے والی ہیں اُن پر پھوپھو جچتا ہے۔‘‘ نعمت خالہ اس عجیب و غریب منطق پر زور زور سے ہنسنے لگیں۔
آنٹی نرینہ کا لڑکا عرفان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ مرغا اچھل کر اس پر حملہ آور ہوگیا۔ آنٹی اور پھوپھو نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی لیکن مرغا اس کے چہرہ کو لہولہان کرکے ہی ہٹا۔ اس حملے کے بعد مرغے کو پچھلے برآمدے میں باندھ دیا گیا۔ پھوپھو، آنٹی اور عرفان ڈاکٹر کے پاس گئے، وہاں سے اپنے گھر چلے گئے۔
شام کو خالو آئے۔ نعمت خالہ نے نمک مرچ لگا کر سارا قصہ سنایا۔ خالو جوش میں اٹھے اور مرغے کو ذبح کردیا۔ سب کی لاٹری نکل آئی، سب خوش تھے کہ رات کو کھانے میں مرغے کا گوشت ملے گا۔ نعمت خالہ نے گوشت گلانے کے خوب جتن کیے مگر کامیاب نہ ہوسکیں، تنگ آکر کتے کو کھلا دیا گیا۔ مرغے کا گوشت کھا کر کتا پاگل ہوگیا۔ خالو نے بارہ بور کی رائفل نکالی اور گھر کے پیچھے میدان میں کتے کو گولی مار دی۔ چند دن بعد رائفل اپنے کسی دوست کو دے آئے۔ خالو کا چڑچڑا پن ختم ہوگیا تھا۔ نعمت خالہ خوش ہوگئیں۔
مرغا، کتا اور رائفل۔ تینوں سے نجات مل گئی۔
شہر میں چوریاں زورو شور سے جاری تھیں!!!

واہ۔ زبردست۔
 
Top