سید عمران
محفلین
لوگوں کو مصیبت میں نانی یاد آتی ہے ہمیں چھٹیوں میں. اسکول میں چھٹیاں تھیں، ہم نانی کے گھر آگئے. انجم بھی آگئی. نانی کے گھر کا دروازہ انجم کے دروازے کے عین سامنے تھا. انجم کا ناک نقشہ ایسا نہ تھا جسے فخریہ بیان کیا جائے. بھاری جسم اور پکا رنگ. اس پہ اس کا اعٹماد سب کا خون کھولاتا.
"مجھے اس اعتماد کا راز پتا ہے." فلسفی بولا.
"کیا؟"
"نکڑ پہ بیٹھے بھائی کلّن."فلسفی نے انکشاف کیا.
"وہ کیسے؟"
"دونوں کے درمیان پرچہ بازی ہوتی ہے." اس کا لہجہ پراسرار ہوگیا.
"تمہیں کیسے پتا؟" گڑیا دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر اس کے پاس آگئی.
"ایک مرتبہ مجھ سے بھی پرچی بھجوائی تھی." بے ساختہ بول دیا.
"تم نے اس کی پرچی کلن کو دی تھی؟" گڑیا اس کے سامنے آگئی. وہ دوسری طرف دیکھنے لگا.
"کیا لالچ دیا تھا؟" گڑیا کو غصہ آنے لگا.
"پان کا."
"نانی کو بتاؤں؟"
"رہنے دو. اس نے پان نہیں کھلایا. اس کا بدلہ لینا چاہیے." فلسفی دھمکی خاطر میں نہ لایا.
"کیا کر سکتے ہو؟" چیتے نے پوچھا.
"سوچتے ہیں."
ان دنوں اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کا بھوت سوار تھا. فلسفی ابن صفی کے ناول بھی لے آیا. ہم نے ایک ناول پڑھا. ختم کرنے کے بعد بھی پتا نہ چلا کہ کیا پڑھا. ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا.
"ایک آئیڈیا ہے." ہم نے سب کو متوجہ کیا. سب متوجہ ہوگئے.
"انجم کو اغوا کرلیتے ہیں."
"چار آنے بھی نہیں لگیں گے." فلسفی نے منع کردیا.
"آئیڈیا." چیتے نے چٹکی بجائی. سب بور ہوگئے.
"سن تو لو." سب جماہیاں لینے لگے. اس نے پرواہ نہ کی. مسلسل بولنے لگا. سب مسلسل سننے لگے.
"ایک پرچہ لکھتے ہیں. اگر پیسوں سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو انجم کو اغوا کرلیں گے."
"شمالی پہاڑیاں کہاں ہوتی ہیں؟" فلسفی کو حیرت ہوئی.
"اشتیاق احمد کے ناول میں." چیتا غرایا.
"بریف کیس زیادہ بڑا نہیں ہوجائے گا. اس کی جگہ تھیلی کرلو. دینے میں آسانی رہے گی." انجم کے بدلہ میں بریف کیس جتنی رقم فلسفی کو ہضم نہیں ہوئی.
"تھیلی غیر جاسوسی لفظ ہے. کسی مجرم کو تھیلی میں رقم لیتے نہیں سنا." چیتے نے آئیڈیا مسترد کردیا.
"تم نے ہمیں مجرم کہا؟" گڑیا غرائی.
"بے وقوف مت بنو. اور کاغذ قلم لے کر آؤ." چیتے نے کام پر لگادیا.
"کیوں؟"
"خط لکھنا ہے." فلسفی ساری بات سمجھ گیا. خط فلسفی نے لکھا. ہمارے نزدیک سب سے پختہ رائٹنگ اسی کی تھی. خط انجم کے ابا کے نام لکھا گیا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. اگر آپ نے رقم سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو ہم انجم کو اغوا کرلیں گے."
"یہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟" ہمیں کھٹکنے لگا.
"اس طرح کا خط کسی مجرم کا یاد نہیں آرہا." ہم نے اپنے خدشات ظاہر کیے.
"تمہیں نہیں پتا. ابن صفی کے مجرم ایسے ہی لکھتے ہیں." ہم متاثر ہوگئے. خط دروازے سے اندر ڈالنے کی ذمہ داری ہماری لگی. دوپہر کے سناٹے میں خط ڈالنے گئے. جاتے وقت جتنی تیزی دکھائی، واپسی پر رفتار اس سے تین گنا زیادہ تھی.
اب شام کا انتظار شروع ہوگیا.
شام کو انجم کی اماں ہاتھ میں خط لیے آگئیں. تیر کی طرح نانی کے پاس پہنچیں. بچوں کی رائٹنگ پہچان لی گئی تھی. ایسی چوکڑی محلہ بھر میں نہیں تھی. بقول نانی شریفوں کا محلہ تھا. انجم کی اماں آگ لگا گئیں. نانی نے سب کو بلالیا.
"کم بختو دھمکی نامہ لکھا ہے یا خیریت نامہ. یا تو سلام دعا کرلو، خیریتیں پوچھ لو یا لڑکیاں اٹھوا لو. ناک کٹادی محلہ بھر میں. آنے دو نانا کو." نانی کو ہنسی آرہی تھی. لیکن موقع غصہ کرنے کا تھا. سو غصہ دکھانے لگیں.
نانی خط ہمارے حوالے کرکے چلی گئیں. ہم نے دوبارہ خط پڑھا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے....."
" اسی پر تو ہم کھٹک رہے تھے." ہم نے اعلان کیا. سب فلسفی کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے!!!
رات کو نانا آگئے. نانا مارنے پر گُھرکنے کو ترجیح دیتے تھے.
تین دن تک مسلسل گُھرکتے رہے!!!
"مجھے اس اعتماد کا راز پتا ہے." فلسفی بولا.
"کیا؟"
"نکڑ پہ بیٹھے بھائی کلّن."فلسفی نے انکشاف کیا.
"وہ کیسے؟"
"دونوں کے درمیان پرچہ بازی ہوتی ہے." اس کا لہجہ پراسرار ہوگیا.
"تمہیں کیسے پتا؟" گڑیا دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر اس کے پاس آگئی.
"ایک مرتبہ مجھ سے بھی پرچی بھجوائی تھی." بے ساختہ بول دیا.
"تم نے اس کی پرچی کلن کو دی تھی؟" گڑیا اس کے سامنے آگئی. وہ دوسری طرف دیکھنے لگا.
"کیا لالچ دیا تھا؟" گڑیا کو غصہ آنے لگا.
"پان کا."
"نانی کو بتاؤں؟"
"رہنے دو. اس نے پان نہیں کھلایا. اس کا بدلہ لینا چاہیے." فلسفی دھمکی خاطر میں نہ لایا.
"کیا کر سکتے ہو؟" چیتے نے پوچھا.
"سوچتے ہیں."
ان دنوں اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کا بھوت سوار تھا. فلسفی ابن صفی کے ناول بھی لے آیا. ہم نے ایک ناول پڑھا. ختم کرنے کے بعد بھی پتا نہ چلا کہ کیا پڑھا. ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا.
"ایک آئیڈیا ہے." ہم نے سب کو متوجہ کیا. سب متوجہ ہوگئے.
"انجم کو اغوا کرلیتے ہیں."
"چار آنے بھی نہیں لگیں گے." فلسفی نے منع کردیا.
"آئیڈیا." چیتے نے چٹکی بجائی. سب بور ہوگئے.
"سن تو لو." سب جماہیاں لینے لگے. اس نے پرواہ نہ کی. مسلسل بولنے لگا. سب مسلسل سننے لگے.
"ایک پرچہ لکھتے ہیں. اگر پیسوں سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو انجم کو اغوا کرلیں گے."
"شمالی پہاڑیاں کہاں ہوتی ہیں؟" فلسفی کو حیرت ہوئی.
"اشتیاق احمد کے ناول میں." چیتا غرایا.
"بریف کیس زیادہ بڑا نہیں ہوجائے گا. اس کی جگہ تھیلی کرلو. دینے میں آسانی رہے گی." انجم کے بدلہ میں بریف کیس جتنی رقم فلسفی کو ہضم نہیں ہوئی.
"تھیلی غیر جاسوسی لفظ ہے. کسی مجرم کو تھیلی میں رقم لیتے نہیں سنا." چیتے نے آئیڈیا مسترد کردیا.
"تم نے ہمیں مجرم کہا؟" گڑیا غرائی.
"بے وقوف مت بنو. اور کاغذ قلم لے کر آؤ." چیتے نے کام پر لگادیا.
"کیوں؟"
"خط لکھنا ہے." فلسفی ساری بات سمجھ گیا. خط فلسفی نے لکھا. ہمارے نزدیک سب سے پختہ رائٹنگ اسی کی تھی. خط انجم کے ابا کے نام لکھا گیا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. اگر آپ نے رقم سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو ہم انجم کو اغوا کرلیں گے."
"یہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟" ہمیں کھٹکنے لگا.
"اس طرح کا خط کسی مجرم کا یاد نہیں آرہا." ہم نے اپنے خدشات ظاہر کیے.
"تمہیں نہیں پتا. ابن صفی کے مجرم ایسے ہی لکھتے ہیں." ہم متاثر ہوگئے. خط دروازے سے اندر ڈالنے کی ذمہ داری ہماری لگی. دوپہر کے سناٹے میں خط ڈالنے گئے. جاتے وقت جتنی تیزی دکھائی، واپسی پر رفتار اس سے تین گنا زیادہ تھی.
اب شام کا انتظار شروع ہوگیا.
شام کو انجم کی اماں ہاتھ میں خط لیے آگئیں. تیر کی طرح نانی کے پاس پہنچیں. بچوں کی رائٹنگ پہچان لی گئی تھی. ایسی چوکڑی محلہ بھر میں نہیں تھی. بقول نانی شریفوں کا محلہ تھا. انجم کی اماں آگ لگا گئیں. نانی نے سب کو بلالیا.
"کم بختو دھمکی نامہ لکھا ہے یا خیریت نامہ. یا تو سلام دعا کرلو، خیریتیں پوچھ لو یا لڑکیاں اٹھوا لو. ناک کٹادی محلہ بھر میں. آنے دو نانا کو." نانی کو ہنسی آرہی تھی. لیکن موقع غصہ کرنے کا تھا. سو غصہ دکھانے لگیں.
نانی خط ہمارے حوالے کرکے چلی گئیں. ہم نے دوبارہ خط پڑھا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے....."
" اسی پر تو ہم کھٹک رہے تھے." ہم نے اعلان کیا. سب فلسفی کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے!!!
رات کو نانا آگئے. نانا مارنے پر گُھرکنے کو ترجیح دیتے تھے.
تین دن تک مسلسل گُھرکتے رہے!!!
آخری تدوین: