یاقوت

محفلین
نہیں ہمیں عینک والا جن بننے کا کوئی شوق نہیں ،
الحمدللہ ہماری آنکھوں کی بینائی درست ہے ۔
:nerd: :nerd: :nerd:
معذرت عدنان بھائی اگر نظر درست ہے تو آپکے مراسلے کے نیچے آپکے نمائندگان نے عینک کیوں چڑھا رکھی ہے اور نمائندگان کے دانت بھی کچھ نکلے نکلے سےلگ رہے ہیں خیریت تو ہے ناں؟؟ کہیں عمران بھائی کی بھابھی جی والی تشویش درست تو نہیں ثابت ہوگئی؟؟؟:p:p:LOL::LOL:
 
معذرت عدنان بھائی اگر نظر درست ہے تو آپکے مراسلے کے نیچے آپکے نمائندگان نے عینک کیوں چڑھا رکھی ہے اور نمائندگان کے دانت بھی کچھ نکلے نکلے سےلگ رہے ہیں خیریت تو ہے ناں؟؟ کہیں عمران بھائی کی بھابھی جی والی تشویش درست تو نہیں ثابت ہوگئی؟؟؟:p:p:LOL::LOL:
اس بات کا جواب بھیا ہی بہتر دیں گے آپ انتظار کریں یاقوت بھائی ۔
 

یاقوت

محفلین
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اسکول کی چھٹیوں میں سب نانی کے گھر آگئے۔ ممانی بھی آگئیں۔ آصف اور بے بی ساتھ تھے۔ آصف رُک گیا، بے بی چلی گئی۔
’’آج ایک نیا کھیل کھیلتے ہیں۔‘‘فلسفی نے چٹکی بجائی۔
’’کیا؟‘‘
’’سب پیسے جمع کرکے اسنیکس لائیں گے۔ ٹاس کرکے آدھے لوگ مہمان بنیں گے باقی میزبان۔ پہلے مہمان کھائیں گے پھر میزبان کی باری آئے گی۔‘‘سب راضی ہوگئے۔ آصف نہ مانا۔
’’اکیلے رہ جاؤ گے، تمہیں اپنی پارٹی سے نکال دیں گے۔‘‘خوب ڈرانے دھمکانے پربے بسی سے پیسے دے دئیے۔ چیتا دوڑ کر اسنیکس لے آیا۔ آصف نے ٹاس کے لیے ہیڈ مانگا۔ فلسفی نے بائیں جیب سے کوائن نکال لیا۔
فلسفی نے دو سکّے اس طرح چپکا رکھے تھے کہ دونوں کےایک جیسے رُخ باہر کی جانب تھے۔ یہ ہیڈ تھا۔ اس کو دائیں جیب میں رکھتا، ٹیل کے لیے چِپکے سکّوں کو بائیں میں۔ سکّہ اچھالا گیا۔ ٹیل آئی۔ فلسفی، چیتا اور ہم مہمان بن گئے،آصف اور گڑیا میزبان۔گڑیا کے کان میں کُھسر پُھسر کی۔ وہ مان گئی۔ اس نے نانی کے بڑے سارے اسٹور میں صندوق پر کپڑا بچھا کے میز بنائی۔اس پر اسنیکس رکھ دئیے۔ فلسفی، چیتا اور ہم اسٹور میں داخل ہوئے اور دروازہ لاک کردیا۔ باہر آصف تنہا رہ گیا ۔ وعدے کے مطابق پہلے گڑیا کا حصہ الگ کیا پھر پیٹ بھر کے اسنیکس اُڑائے۔
آصف دروازہ پیٹنے لگا:’’مہمانو، ہمارا حصہ بچانا ۔ سارا نہ کھا جانا۔‘‘
’’مہمانوں کو اس طرح کھانے پینے سے کون منع کرتا ہے؟‘‘فلسفی زور سے بولا۔
چیتے پر ہنسی کا دورہ پڑگیا۔ فلسفی نے کمر پر گھونسا مارا:’’دیر سے کھاؤ گے تو پیچھے رہ جاؤ گے۔‘‘دورے کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔
دروازہ مسلسل پیٹا جانے لگا ۔
نانی کا ڈر تھا کہ آصف کے سامنے سب کے کان نہ مروڑ دیں۔ کوئی ذلیل ہونے کے موڈ میں نہیں تھا۔ دروازہ کھول دیا گیا۔سامنے خالی لفافے اور پھٹے ہوئے ریپر سلیقہ سے رکھے تھے۔
آصف کا چہرہ اہرام مصر سے زیادہ قابلِ دید ہورہا تھا!!!
 
Top