گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آنکھوں کا اچھی طرح علاج کرائیں۔۔۔
ظالم کو خونم خون کرکے کہہ رہی ہیں نظر نہیں آرہا!!!
آپ والے مراسلے میں نظر نہیں آیا تھا لکھا ہوا۔
آپ تو اس طرح کہہ رہے جیسے اے خان نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ اچھا ظالم کہہ کر انھوں نے مخاطب کیا ہو گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
اُن دنوں کا ذکر ہے جب ہمارے دودھ کے دانت جھڑ گئے تھے۔ تب والدہ کی بہن خالہ ہوتی تھیں۔ آج کل آنٹی کہلاتی ہیں۔ ارشد، نعمت خالہ کے پہلوٹے تھے۔ ہمارے خالہ زاد بھائی تھے۔ اب بھی ہیں۔ ان کے علم سے مرعوب ہوکر سب انہیں فلسفی کہتے تھے۔ فہد ان سے چھوٹے تھے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ بتاتے ہیں کہ دیر سے پیدا ہوئے۔ ایک دن ہم نے ان کے نام کا مطلب پوچھا۔ تب سے چیتا مشہور ہوگئے۔ گڑیا کو پیدا ہونے میں مزید دیر لگی لیکن بالآخر پیدا ہو ہی گئیں۔ ایک ہم، تین وہ۔ چار کی چوکڑی جہاں جاتی اودھم مچاتی۔ ممانی اپنے گھر بلانے سے جھجکتی تھیں۔ لیکن ہم پرواہ کیے بغیر پہنچ جاتے۔ ان کے باغ میں جاکر خوب شور مچاتے۔ تربوز کی بیل جڑوں سے کھودتے۔ فلسفی کا فلسفہ تھا کہ اس طرح بیل کو سانس لینے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ فالسے کے درخت کو ہلا ہلا کر ادھ موا کردیتے۔ فلسفی کہتا فالسے کو ہاتھ سے توڑنے پر نئے فالسے نہیں نکلتے۔ سب اس کی بات مان لیتے۔ درخت سے فالسوں سے زیادہ پتے گرتے۔ بقول فلسفی زیادہ پتے گرنا درخت کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مگر ممانی کی صحت باغ کی صفائی کے دوران خراب ہوجاتی۔

ہم نے مزید دو دن رکنے کا پروگرام بنالیا۔ ممانی کی صحت مزید خراب ہوگئی۔

باہر خوب بارش ہورہی تھی۔ سب باہر آگئے۔ چیتے کے ہاتھ میں آصف کی کاپیوں کا ڈھیر تھا۔ہم نے کھول کر دیکھا سب بھری ہوئی تھیں۔
’’سادہ کاپیوں کو چھوڑ دیا، ضائع ہوجائیں گی۔ ‘‘چیتے نے اطمینان دلایا۔
سب نے اطمینان سے کاغذ پھاڑ کر کشتیاں بنائیں اور صاف ستھری موزائیک کی بنی نالیوں میں چلانے لگے۔ یہ نالیاں صرف بارش میں بہتی تھیں۔ تبھی گڑیا ہاتھ میں بڑی سے کشتی اٹھا لائی:
’’ آصف کے ماموں دبئی سے لائے تھے۔ بیٹری سے چلتی ہے۔‘‘
سب کاغذ کی کشتیاں بھول گئے۔ بیٹری سے چلنے والی کشتی کا شور سن کر ممانی بوکھلائی ہوئی آئیں۔ بچے کی امپورٹیڈ کشتی ہمارے ہاتھوں بگڑتے دیکھ کر بگڑ گئیں:
’’بہت مہنگی ہے۔ بارش میں خراب ہوجائے گی۔‘‘
’’بارش روز روز نہیں ہوتی۔‘‘ گڑیا نے ممانی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔
’’ابھی اسے خراب ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’خراب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ ممانی کچھ اور بگڑ گئیں۔
‘‘ماموں نئی لے آئیں گے۔‘‘ ہماری پیش گوئی تھی۔
ممانی موڈ خراب کرکے چلی گئیں۔

اندر آصف زور زور سے بول رہا تھا: ’’میری کاپیاں نہیں مل رہیں۔ ہوم ورک کرکے یہیں رکھی تھیں۔‘‘
سب نے چیتے کو گھورا۔ چیتا خاموشی سے باقی ماندہ کاپیاں واپس رکھ آیا۔ اس روز کاپی کے صفحے پھٹنے کا کسی کو علم نہیں ہوا۔

باہر بارش تیزی سے برسنے لگی۔ پانی زور زور سے بہہ رہا تھا۔ کشتی کی رفتار مزید تیز ہوگئی!!!

کیا زبردست کی ریٹنگ کئی مرتبہ دی جا سکتی ہے؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہے نا۔
لیکن دکھائے بغیر کیا مرض نہیں جان پائیں گے؟
نبض سے کام چلائیے نا۔

آنکھیں دکھا دکھا کر آپ خوب ہاتھ دکھا رہی ہیں!!!

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
استاد محترم کے سامنے ہماری کیا مجال کہ آنکھیں دکھائیں۔ وہ تو ایویں ہی کبھی کبھی اٹھ جاتیں کہ دیکھ لیں جلال تو نہیں آ رہا ۔

جلال سے بہت ڈر لگتا ہے؟؟؟

جی بہت
لیکن آپ کے !!! :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
لڑائیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں ابھی تک "بچپن کی حماقتوں کی طرح"۔
 
Top