سید عمران
محفلین
اُن دنوں کا ذکر ہے جب ننھا بھائی بڑا ہورہا تھا۔ گھر بھر کو اس کے متعلق اندیشے لاحق ہوگئے۔ ننھے کے مستقبل کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ ننھا صبح اسکول پڑھنے جاتا، شام کو ماسٹر صاحب پڑھانےآتے،دوپہر کو کچھ نہیں کرتا۔ یہ خالی وقت گھر والوں کو کھلنے لگا۔ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس وقت کو کارآمد کیسے بنایا جائے۔
نانا کو لگا کسی قاری صاحب کا بندوبست ہونا چاہئے۔ اگلے روز زور و شور سے قاری صاحب کی تلاش شروع ہوگئی۔ معلوم ہوا آصف کو ایک استانی پڑھانے آتی ہیں۔ نانا نے ممانی سے بات کی۔ اگلی دوپہر استانی ننھے کو پڑھانے آگئیں۔ چند دن گزرے تھے کہ ابا اس کمرہ سے گزرے جہاں ننھا پڑھ رہا تھا۔ ابا کو استانی کی ’ط‘، ’ظ‘ پسند نہیں آئی۔ دوبارہ نئے استاد کی تلاش زور و شور سے شروع ہوگئی۔
کسی نے نانا کو ایک قاری صاحب کا بتایا۔ اگلے دن وہ گھر بلوالیے گئے۔ نانا نے انٹرویو لیا اور اس سے اگلے روز ننھے کو پڑھانے آگئے۔ وہ ہمیں مارشل آرٹ والے چائنیز بوڑھے لگتے تھے۔ ٹھوڑی پر پتلی لمبی ڈاڑھی تھی۔ شکل سے خونخوار اور سخت دل دِکھ رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ واقعی ایسے ہی ہیں۔سختی سے پڑھاتے اور بدتمیزی سے بولتے تھے۔ چند روز بعد بید بھی لانے لگے۔ بات بات پہ بید سے ننھے کے ہاتھ سینکتے۔ نک چڑھے ننھے نے کس طرح یہ برداشت کیا سب حیران تھے۔ آخر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
اس روز بارش ابھی ابھی تھمی تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ موسم حد سے زیادہ خوشگوار ہوگیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ فیصلہ ہوا کہ آج قاری صاحب ڈرائنگ روم میں نہیں لان میں پڑھائیں گے۔ لان میں دو کرسیاں لگا دی گئیں۔ اندر پکوڑے تلے جا نےلگے، چائے کی خوشبو بھی مہک رہی تھی۔ ننھے کو ضد چڑھ گئی، چائے پکوڑے کھا کر پڑھوں گا۔ اس کی ضد دیکھ کر اماں نے آنکھیں دکھائیں اور نانی نے لان کا راستہ۔
ننھا منہ بسورتے ہوئے باہر آگیا۔ غصہ کا لیول خطرے کا نشان عبور کرنے لگا۔قاری صاحب تو گویا پیدا ہی غصہ کی مٹی سے ہوئے تھے۔ ننھے کا موڈ دیکھ کر مزید خونخوار ہوگئے۔ پڑھانا شروع بھی نہیں کیا کہ بید سے ہاتھ سینکنے لگے۔ کسے معلوم تھا آج بارش کی طرح ضبط کے بندھن بھی ٹوٹنے والے ہیں۔ کوئی تیسرا بید ہوگا کہ اچانک ننھا کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ لپک کر قاری صاحب کی طرف بڑھا اور جھپٹ کر ان پہ حملہ آور ہوگیا۔ اور زور زور سے چیخنے لگا:
’’قاری صاحب آج زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اس اچانک حملہ سے قاری صاحب کرسی سمیت پشت کی جانب گرگئے۔ ننھے کے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ بھاگ کر اندر آگیا۔
شور کی آواز سن کر نانا لپک کے باہر آئے۔ صورتِ حال دیکھی مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جلدی سے قاری صاحب کو اٹھایا، کرسی سیدھی کر کے بٹھایا اور تیزی سے اندر آگئے۔ ننھا نانی کی گود میں بیٹھا تھا اور نانی قاری صاحب پر ناراض ہورہی تھیں۔ نانا صورتِ حال سمجھ کر باہر آئے اور قاری صاحب کو فارغ کردیا۔
باہر بارش دوبارہ برسنے لگی تھی۔ دور سڑک پر قاری صاحب سائیکل چلاتے نظر آئے۔ ننھا خوشی سے تالیاں بجانے لگا۔ ننھے کے ہاتھ پر بید کی لکیریں نانی کی آنکھیں بھگو رہی تھیں۔
نانی نے بے اختیار ہوکر ننھے کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگالیے اور اسے گود میں اٹھا کر اندر لے گئیں جہاں گرم گرم چائے اور پکوڑے اس کے منتظر تھے!!!
نانا کو لگا کسی قاری صاحب کا بندوبست ہونا چاہئے۔ اگلے روز زور و شور سے قاری صاحب کی تلاش شروع ہوگئی۔ معلوم ہوا آصف کو ایک استانی پڑھانے آتی ہیں۔ نانا نے ممانی سے بات کی۔ اگلی دوپہر استانی ننھے کو پڑھانے آگئیں۔ چند دن گزرے تھے کہ ابا اس کمرہ سے گزرے جہاں ننھا پڑھ رہا تھا۔ ابا کو استانی کی ’ط‘، ’ظ‘ پسند نہیں آئی۔ دوبارہ نئے استاد کی تلاش زور و شور سے شروع ہوگئی۔
کسی نے نانا کو ایک قاری صاحب کا بتایا۔ اگلے دن وہ گھر بلوالیے گئے۔ نانا نے انٹرویو لیا اور اس سے اگلے روز ننھے کو پڑھانے آگئے۔ وہ ہمیں مارشل آرٹ والے چائنیز بوڑھے لگتے تھے۔ ٹھوڑی پر پتلی لمبی ڈاڑھی تھی۔ شکل سے خونخوار اور سخت دل دِکھ رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ واقعی ایسے ہی ہیں۔سختی سے پڑھاتے اور بدتمیزی سے بولتے تھے۔ چند روز بعد بید بھی لانے لگے۔ بات بات پہ بید سے ننھے کے ہاتھ سینکتے۔ نک چڑھے ننھے نے کس طرح یہ برداشت کیا سب حیران تھے۔ آخر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
اس روز بارش ابھی ابھی تھمی تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ موسم حد سے زیادہ خوشگوار ہوگیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ فیصلہ ہوا کہ آج قاری صاحب ڈرائنگ روم میں نہیں لان میں پڑھائیں گے۔ لان میں دو کرسیاں لگا دی گئیں۔ اندر پکوڑے تلے جا نےلگے، چائے کی خوشبو بھی مہک رہی تھی۔ ننھے کو ضد چڑھ گئی، چائے پکوڑے کھا کر پڑھوں گا۔ اس کی ضد دیکھ کر اماں نے آنکھیں دکھائیں اور نانی نے لان کا راستہ۔
ننھا منہ بسورتے ہوئے باہر آگیا۔ غصہ کا لیول خطرے کا نشان عبور کرنے لگا۔قاری صاحب تو گویا پیدا ہی غصہ کی مٹی سے ہوئے تھے۔ ننھے کا موڈ دیکھ کر مزید خونخوار ہوگئے۔ پڑھانا شروع بھی نہیں کیا کہ بید سے ہاتھ سینکنے لگے۔ کسے معلوم تھا آج بارش کی طرح ضبط کے بندھن بھی ٹوٹنے والے ہیں۔ کوئی تیسرا بید ہوگا کہ اچانک ننھا کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ لپک کر قاری صاحب کی طرف بڑھا اور جھپٹ کر ان پہ حملہ آور ہوگیا۔ اور زور زور سے چیخنے لگا:
’’قاری صاحب آج زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اس اچانک حملہ سے قاری صاحب کرسی سمیت پشت کی جانب گرگئے۔ ننھے کے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ بھاگ کر اندر آگیا۔
شور کی آواز سن کر نانا لپک کے باہر آئے۔ صورتِ حال دیکھی مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جلدی سے قاری صاحب کو اٹھایا، کرسی سیدھی کر کے بٹھایا اور تیزی سے اندر آگئے۔ ننھا نانی کی گود میں بیٹھا تھا اور نانی قاری صاحب پر ناراض ہورہی تھیں۔ نانا صورتِ حال سمجھ کر باہر آئے اور قاری صاحب کو فارغ کردیا۔
باہر بارش دوبارہ برسنے لگی تھی۔ دور سڑک پر قاری صاحب سائیکل چلاتے نظر آئے۔ ننھا خوشی سے تالیاں بجانے لگا۔ ننھے کے ہاتھ پر بید کی لکیریں نانی کی آنکھیں بھگو رہی تھیں۔
نانی نے بے اختیار ہوکر ننھے کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگالیے اور اسے گود میں اٹھا کر اندر لے گئیں جہاں گرم گرم چائے اور پکوڑے اس کے منتظر تھے!!!
آخری تدوین: