نانا گھر پر نہیں تھے۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ نانا کے بستر پر لیٹ کر ان کا ٹھنڈا حقہ گُڑگُڑانے لگے۔ حقہ کی نے منہ میں لے کر کبھی سانس کھنچتے کبھی پھونکتے۔ دونوں دفعہ حقہ غصہ سے گڑگڑاتا۔ ہم ذرا پروا نہ کرتے۔ ہمارا شوق جاری تھا کہ نانی آئیں اور حقہ لے گئیں۔ پھر اماں آئیں اور ہمیں لے گئیں۔
رات کو دعوت تھی۔ نانی انتظامات میں لگ گئیں۔ کچن میں قورمے اور پلاؤ کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ ہم باہر آگئے۔ صحن میں نانی پستے بادام کتر رہی تھیں۔ ہم بھی کترنے لگے۔ نانی نے تیزی سے ختم ہوتا میوہ دیکھا تو تیز نظروں سے ہمیں دیکھا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا باہر کا رستہ دیکھا۔
نانی نے دعوت کے سارے انتظامات خود کیے۔ وہ ہر فن مولا تھیں۔ کپڑے دھونے ہوں یا سینے یا رنگنے، سب کام خود کرتی تھیں۔ گھر کا کھانا پکانا ہو یا دعوت کا، مجال ہے کوئی چیز باہر سے آئے، سارا انتظام گھر میں ہوتا تھا۔ آج بھی پلاؤ، قورمہ اور زردہ نانی نے خود پکایا۔ ان تینوں چیزوں میں ہمیں پستہ بادام کی ہوائیاں پسند آئیں جو ہم نے زردہ سے چن چن کے کھائیں۔ نانی کا بس نہیں چلا ورنہ ہمیں دیوار میں چن دیتیں۔ ان کے زردہ کی سجاوٹ تباہ و برباد جو ہوگئی تھی۔
رات گئے مہمانوں کے جانے کے بعد نانی تھک ہار کے اپنے کمرہ میں آئیں۔ کچھ دیر بعد بولیں:
’’ میری ہمت جواب دے گئی۔ تم الماری سے گلوب نکال کر جلادو۔‘‘
مچھر بھگاؤ گلوب جلانا ہمارا من پسند مشغلہ تھا۔ دو گلوب آپس میں ملے ہوتے، انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ایک مزے دار کھیل تھا۔ ہم نے گلوب کا ڈبہ نکالا۔ دونوں گلوب ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ تنگ آکر ایک گلوب کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ انہیں واپس ڈبہ میں رکھ کر ڈبہ الماری میں چھپا دیا۔ جب گلوب کے ٹکڑے نانی کے ہاتھ لگیں گے اس وقت تک ہم ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہوں گے۔
ہم گلوب جلا کر اس کا اسٹینڈ ڈھونڈنے لگے۔ کہیں نہیں ملا۔ تھک ہار کر کچھ اور ڈھونڈنے لگے جس پر گلوب اٹکا سکیں۔ بڑی مشکل سے ایک حل سمجھ میں آیا۔بستر کے اوپر والی کھڑکی کھولی اور اُس کھانچے میں گلوب اٹکا دیا جہاں کُنڈی لگتی ہے۔ نانی نے نیم وا آنکھوں سے ہمیں یہ حرکت کرتے دیکھ لیا۔ نیند سے بوجھل آواز میں منع کیا۔ہم نے سمجھا نانی نیند میں کچھ نہیں سمجھیں، جبکہ ہم نے سوچ سمجھ کے یہ ترکیب سمجھی ہے۔مشن امپاسبل پاسبل ہوچکا تھا۔ ہم فاتحانہ انداز میں بستر پر رات بسر کرنے لیٹ گئے۔
سوتے میں ایسا لگا جیسے کوئی جھنجوڑ جھنجوڑ کر ہمیں اٹھانا چاہ رہا ہے، ہم نے اس کے چاہنے پر عمل کرنا چاہا لیکن چاہ کر بھی اس کی چاہت پوری نہ کرسکے۔ عجیب غنودگی تھی جو آنکھیں بھاری کررہی تھی۔ ہمیں احساس ہورہا تھاکہ چاروں طرف شور ہے اور کہیں پانی ڈالا جارہا ہے جس کے چھینٹے ہم پر بھی آرہے ہیں مگر نیم بے ہوشی کے عالم میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اس عالم میں کتنے عالم گزر گئے ہمیں بعد میں پتا چلا۔ بعد میں یہ بھی پتا چلا کہ اس عالم میں کچھ عالم اور گزر جاتے تو عالم فانی سے گزر کر عالم بالا پر ہمارا گزر بسر ہوجاتا۔
ہوا یہ کہ رات کے کسی پہر جلتا ہوا گلوب بستر پر گر گیا۔ بستر پر ایک طرف ہم تھے ایک طرف نانی۔سردیوں کا موسم تھا، رضائیاں اوڑھ رکھی تھیں اور پنکھا بند تھا۔ ہمارے درمیان گلوب پڑا سلگ رہا تھا۔ اس نے چادر، روئی کا گدا اور اسپرنگ والا میٹرس سب جلادیا۔ کمرے میں دھواں اور ہماری اور نانی کی بے ہوشی گہری ہوتی گئی۔
اچانک نانا کی آنکھ کھل گئی۔ بے چین ہوکر کمرہ سے باہر آئے۔ باہر دھوئیں کی بو محسوس ہوئی، جلدی سے لائٹیں جلا دیں۔ دیکھا نانی کا کمرہ دھوئیں سے بھر رہا ہے۔ گھبرا کر اندر آئے تو کچھ نظر نہیں آیا۔ نانا نے شور مچا دیا۔ سارا گھر جاگ گیا۔ چھوٹے ماموں اور نانا منہ پر کپڑا لپیٹ کر اندر آئے، لائٹ جلائی، پنکھا چلایا، کھڑکیاں کھولیں، ٹٹول ٹٹول کر ہمیں اور نانی کو گھسیٹ کر کمرہ سے باہر لائے۔ دونوں بے سدھ پڑے تھے، فوراً ڈاکٹر کو بلایا، جانے کیا کیا جتن ہوئے اور ہم دشمنوں کے سینے پر مونگ دَلنے پھر مورچہ زن ہوئے۔
جب ہماری حالت بحال ہوئی تو اس کمرہ میں لے جاکر ہمارے کارنامے کی زیارت کرائی گئی جہاں جلا ہوا بستر اور میٹرس ہماری عبرت کے لیے جوں کا توں رکھ چھوڑا گیا تھا!!!