نانی کی سہیلی کی پوتی کی شادی تھی۔ تعلقات ایسے تھے کہ سب گھر والوں کو مدعو کیا گیا۔ حیدرآباد کے ایک بڑے ہوٹل میں قیام کا بندو بست تھا۔ صبح سویرے ایک بڑی وین میں کراچی سے حیدرآباد پہنچے،کمروں میں پہنچے تو ناشتہ آپہنچا۔ ہاف فرائی ایگ، بریڈ، مکھن، جام اور گرم گرم چائے۔ ناشتے کے بعد جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ دوپہر کو دولہا کے گھر دعوت تھی ، رات کو ہوٹل کے لان میں تقریب۔ہم بچے نانی اور ان کی دو سہیلیوں کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں تھے۔ نانی کی ایک سہیلی کو ہم بی بی کہتے تھے۔ روٹی پکانا ہو یا روٹی کھانا وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی تھیں۔ سب سے جلدی نانی اور ان کی سہیلیاں تیار ہوئیں۔ فقط منہ دھو کر کپڑے بدل لیے۔ پھر جو شروع ہوئیں تو گفتہ ناگفتہ سب باتیں ہونے لگیں۔ ایک خاص پوائنٹ پر آکر بچوں کی موجودگی کا نوٹس لیا تو نانی ڈانٹنے لگیں:
’’ بچو، جاکر دیکھو تمہاری مائیں تیار ہوئیں یا نہیں۔‘‘
سب سمجھ گئے ماؤں کا بہانہ ہے ۔ اصل میں ہمیں بھگانا ہے۔ دلچسپ اور تہلکہ خیز خاندانی انکشافات سے محروم ہونے کا دل تو نہیں تھا لیکن مجبوراً کمرے سے نکلنا پڑا۔ باہر نکل کر کمروں میں جھانکا تاکی شروع ہوئی۔
’’اس طرح جھانکنا بری بات ہے۔‘‘ گڑیا کو ایٹی کیٹس یاد آگئے۔
’’کوئی نہیں ہے۔ سب کے دروازے کھلے ہیں۔ ہوٹلوں میں پرائیویسی نہیں ہوتی۔‘‘ فلسفی نے فلسفہ کا نیا قانون جھاڑا۔ گڑیا منہ بنا کر رہ گئی۔ چیتا طنزیہ ہنسی ہنسنے لگا۔ فلسفی کو غصہ آگیا۔ قبل اس کے لڑائی شروع ہوتی ایک کمرے میں آصف نظر آیا۔ سب اندر داخل ہوگئے۔ ممانی کپڑے دکھارہی ہیں اور وہ منع کررہا ہے۔
’’دیکھو یہ لوگ تو تیار بھی ہوگئے۔ کچھ ان سے ہی سیکھ لو۔‘‘ ہمیں معلوم تھا ممانی نے ہماری تعریف نہیں کی محض آصف کو ترغیب دی ہے۔
کمپٹیشن میں آکر آصف بے دلی سے ایک سوٹ لے کر واش روم میں چلا گیا۔ ہم نیچے اتر کر ڈائننگ ہال میں چلے گئے۔ویٹر کو بلایا، کمرہ نمبر بتایا اور میزبان کے خرچہ پر کولڈ ڈرنکس کا مفتا اڑایا۔ لفٹ سے اوپر آئے، کمرے میں جھانکا، نانیاں اسی مشکوک انداز میں باتیں کررہی تھیں، ہمیں دیکھ کر مشکوک انداز سے گھورا، ہم اسی طرح مشکوک بنے باہر آگئے۔ برابر والے کمرے میں گئے۔ اماں اور نعمت خالہ کو دیکھ کر پتا نہیں چل رہا تھا کہ تیار ہوچکی ہیں یا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں دیکھ کر دونوں نے ہاتھ کے اشارے سے باہر کا راستہ دکھایا، ہم نے باہر کا راستہ دیکھ لیا۔
تفریح کا نیا ذریعہ ڈھونڈا گیا۔ لفٹ سے اوپر نیچے آنے جانے لگے۔ گراؤنڈ فلور پر لفٹ کے عین سامنے کاؤنٹر تھا۔ اس کے پیچھے صاحب بہادر تھے۔ کوئی دسواں چکر ہوگا کہ صاحب بہادر نے ہمیں روک لیا:
’’بچو آپ کون سے کمرے میں ہیں؟‘‘
’’ہم نے کمرہ نمبر بتایا۔ اس نے ہمیں بتایا اب اگر بلا ضرورت آئے تو بڑوں کے پاس لے جایا جائے گا۔ بڑوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی وہ خود ہی ہمارے پاس آگئے۔ منیجر نے نجانے کیا کہا ہمیں خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ ان نظروں کو کوئی خاطر میں نہ لایا۔ سب کو معلوم تھا یہاں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور گھر جاتے جاتے سب بھول جائیں گے۔
رات کو لان میں تقریب تھی۔ ممانی نے لڑکے والوں سے سسرال کی برائی شروع ہی کی تھی کہ نعمت خالہ پہنچ گئیں۔
’’بھابھی جان آپ ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں، کسی اور کی بات ہورہی تھی۔‘‘ ممانی جل کر رہ گئیں۔
جہاں دیدہ خواتین ہونٹ دبا کر مسکرانے لگیں۔
دولہا دولہن اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ دولہن کا رنگ گہرا سانولا تھا، دولہا فقط کالا تھا۔
’’میں نے آج تک اتنے بے ہودہ دولہا دولہن نہیں دیکھے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی۔ نعمت خالہ نے سن لی۔ کمر پر دھول رسید کی۔ فلسفی گرتے گرتے بچا۔ کرسی سے اٹھا اور دور جاکر بیٹھ گیا۔
’’میں نے آج تک ایسے دولہا دولہن نہیں دیکھے جو ہر پوز سے بے ہودہ دکھائی دیں۔‘‘ فلسفی نے منہ بنایا۔
’’بتا ؤں امی کو؟‘ ‘ گڑیا نے دھمکی دی۔
’’کاش تمہیں بھی ایسا ہی دولہا ملے۔‘‘ فلسفی نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔گڑیا شکایت لگانے نعمت خالہ کے پاس بھاگی۔ ہم جان بچا کے وہاں سے بھاگے۔
تقریب سے فارغ ہوکر رات گئے کمروں میں آئے۔ نانی سارا دن شکایت کرتی رہیں باتھ روم میں عجیب سی بو ہے۔
’’کون جاتا ہے؟‘‘ انہوں نے ہمیں گھورا۔
’’ہم نہیں ہیں۔‘‘ فلسفی نے فوراً انکار کردیا۔ چیتا کچھ کہنے سے ہچکچایا پھر بولا:
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’بی بی۔‘‘
تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’مجھے شک تھا۔ وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی ہیں۔ کموڈ کیسے استعمال کرتیں۔ شام کو جب باتھ روم گئیں تو میں نے دروازہ کھول کر دیکھ لیا۔ وہ باتھ ٹب میں بیٹھی۔۔۔‘‘ نانی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ بھینچ دیا۔
اظہارِ آزادیِ رائے پر ہر زمانے میں پابندی رہی ہے!!!