سید عمران

محفلین
نانی کی سہیلی کی پوتی کی شادی تھی۔ تعلقات ایسے تھے کہ سب گھر والوں کو مدعو کیا گیا۔ حیدرآباد کے ایک بڑے ہوٹل میں قیام کا بندو بست تھا۔ صبح سویرے ایک بڑی وین میں کراچی سے حیدرآباد پہنچے،کمروں میں پہنچے تو ناشتہ آپہنچا۔ ہاف فرائی ایگ، بریڈ، مکھن، جام اور گرم گرم چائے۔ ناشتے کے بعد جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ دوپہر کو دولہا کے گھر دعوت تھی ، رات کو ہوٹل کے لان میں تقریب۔ہم بچے نانی اور ان کی دو سہیلیوں کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں تھے۔ نانی کی ایک سہیلی کو ہم بی بی کہتے تھے۔ روٹی پکانا ہو یا روٹی کھانا وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی تھیں۔ سب سے جلدی نانی اور ان کی سہیلیاں تیار ہوئیں۔ فقط منہ دھو کر کپڑے بدل لیے۔ پھر جو شروع ہوئیں تو گفتہ ناگفتہ سب باتیں ہونے لگیں۔ ایک خاص پوائنٹ پر آکر بچوں کی موجودگی کا نوٹس لیا تو نانی ڈانٹنے لگیں:
’’ بچو، جاکر دیکھو تمہاری مائیں تیار ہوئیں یا نہیں۔‘‘
سب سمجھ گئے ماؤں کا بہانہ ہے ۔ اصل میں ہمیں بھگانا ہے۔ دلچسپ اور تہلکہ خیز خاندانی انکشافات سے محروم ہونے کا دل تو نہیں تھا لیکن مجبوراً کمرے سے نکلنا پڑا۔ باہر نکل کر کمروں میں جھانکا تاکی شروع ہوئی۔
’’اس طرح جھانکنا بری بات ہے۔‘‘ گڑیا کو ایٹی کیٹس یاد آگئے۔
’’کوئی نہیں ہے۔ سب کے دروازے کھلے ہیں۔ ہوٹلوں میں پرائیویسی نہیں ہوتی۔‘‘ فلسفی نے فلسفہ کا نیا قانون جھاڑا۔ گڑیا منہ بنا کر رہ گئی۔ چیتا طنزیہ ہنسی ہنسنے لگا۔ فلسفی کو غصہ آگیا۔ قبل اس کے لڑائی شروع ہوتی ایک کمرے میں آصف نظر آیا۔ سب اندر داخل ہوگئے۔ ممانی کپڑے دکھارہی ہیں اور وہ منع کررہا ہے۔
’’دیکھو یہ لوگ تو تیار بھی ہوگئے۔ کچھ ان سے ہی سیکھ لو۔‘‘ ہمیں معلوم تھا ممانی نے ہماری تعریف نہیں کی محض آصف کو ترغیب دی ہے۔
کمپٹیشن میں آکر آصف بے دلی سے ایک سوٹ لے کر واش روم میں چلا گیا۔ ہم نیچے اتر کر ڈائننگ ہال میں چلے گئے۔ویٹر کو بلایا، کمرہ نمبر بتایا اور میزبان کے خرچہ پر کولڈ ڈرنکس کا مفتا اڑایا۔ لفٹ سے اوپر آئے، کمرے میں جھانکا، نانیاں اسی مشکوک انداز میں باتیں کررہی تھیں، ہمیں دیکھ کر مشکوک انداز سے گھورا، ہم اسی طرح مشکوک بنے باہر آگئے۔ برابر والے کمرے میں گئے۔ اماں اور نعمت خالہ کو دیکھ کر پتا نہیں چل رہا تھا کہ تیار ہوچکی ہیں یا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں دیکھ کر دونوں نے ہاتھ کے اشارے سے باہر کا راستہ دکھایا، ہم نے باہر کا راستہ دیکھ لیا۔
تفریح کا نیا ذریعہ ڈھونڈا گیا۔ لفٹ سے اوپر نیچے آنے جانے لگے۔ گراؤنڈ فلور پر لفٹ کے عین سامنے کاؤنٹر تھا۔ اس کے پیچھے صاحب بہادر تھے۔ کوئی دسواں چکر ہوگا کہ صاحب بہادر نے ہمیں روک لیا:
’’بچو آپ کون سے کمرے میں ہیں؟‘‘
’’ہم نے کمرہ نمبر بتایا۔ اس نے ہمیں بتایا اب اگر بلا ضرورت آئے تو بڑوں کے پاس لے جایا جائے گا۔ بڑوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی وہ خود ہی ہمارے پاس آگئے۔ منیجر نے نجانے کیا کہا ہمیں خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ ان نظروں کو کوئی خاطر میں نہ لایا۔ سب کو معلوم تھا یہاں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور گھر جاتے جاتے سب بھول جائیں گے۔
رات کو لان میں تقریب تھی۔ ممانی نے لڑکے والوں سے سسرال کی برائی شروع ہی کی تھی کہ نعمت خالہ پہنچ گئیں۔
’’بھابھی جان آپ ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں، کسی اور کی بات ہورہی تھی۔‘‘ ممانی جل کر رہ گئیں۔
جہاں دیدہ خواتین ہونٹ دبا کر مسکرانے لگیں۔
دولہا دولہن اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ دولہن کا رنگ گہرا سانولا تھا، دولہا فقط کالا تھا۔
’’میں نے آج تک اتنے بے ہودہ دولہا دولہن نہیں دیکھے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی۔ نعمت خالہ نے سن لی۔ کمر پر دھول رسید کی۔ فلسفی گرتے گرتے بچا۔ کرسی سے اٹھا اور دور جاکر بیٹھ گیا۔
’’میں نے آج تک ایسے دولہا دولہن نہیں دیکھے جو ہر پوز سے بے ہودہ دکھائی دیں۔‘‘ فلسفی نے منہ بنایا۔
’’بتا ؤں امی کو؟‘ ‘ گڑیا نے دھمکی دی۔
’’کاش تمہیں بھی ایسا ہی دولہا ملے۔‘‘ فلسفی نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔گڑیا شکایت لگانے نعمت خالہ کے پاس بھاگی۔ ہم جان بچا کے وہاں سے بھاگے۔
تقریب سے فارغ ہوکر رات گئے کمروں میں آئے۔ نانی سارا دن شکایت کرتی رہیں باتھ روم میں عجیب سی بو ہے۔
’’کون جاتا ہے؟‘‘ انہوں نے ہمیں گھورا۔
’’ہم نہیں ہیں۔‘‘ فلسفی نے فوراً انکار کردیا۔ چیتا کچھ کہنے سے ہچکچایا پھر بولا:
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’بی بی۔‘‘
تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’مجھے شک تھا۔ وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی ہیں۔ کموڈ کیسے استعمال کرتیں۔ شام کو جب باتھ روم گئیں تو میں نے دروازہ کھول کر دیکھ لیا۔ وہ باتھ ٹب میں بیٹھی۔۔۔‘‘ نانی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ بھینچ دیا۔

اظہارِ آزادیِ رائے پر ہر زمانے میں پابندی رہی ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سخت گرمیاں تھیں۔ انسان کے ساتھ آم بھی پک رہے تھے۔ دوپہر کو سڑکوں پر سناٹا تھا۔ تبھی چھوٹی آنٹی کا فون آگیا:
’’کل بھابھی کے ساتھ آجاؤ۔ آم اور بیڑی روٹی کی دعوت ہے۔‘‘
چھوٹی آنٹی کے یہاں دال بھرے پراٹھوں کو بیڑی روٹی کہا جاتا تھا۔ نہ جانے کیوں؟آموں کا موسم آتے ہی بڑی آنٹی اور چھوٹی آنٹی آم اور بیڑی روٹیوں کی دعوت کا اہتمام ضرور کرتیں۔ اماں بھی اہتمام کرتیں، دعوتوں میں جانے کا۔
چھوٹی آنٹی کے گھر بڑی آنٹی اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ صبا بڑی آنٹی سے کہنے لگی:
’’ ہم آپ کے گھر آنے کا ارادہ کرتے ہی ہیں کہ آپ ہمارے گھر آجاتی ہیں۔ یہ اچھی دھاندلی ہے۔‘‘ بڑی آنٹی ہونٹ بھینچ کر ہنسنے لگیں۔ چھوٹی آنٹی نے گھورا:
’’ کیا بدتمیزی لگا رکھی ہے۔ جاکر پونچھا لگاؤ۔‘‘ پونچھے کا نام سنتے ہی صبا کا منہ اتر گیا۔ لیکن مجبوراً نچلی منزل پر اترنا پڑا۔ پونچھا لگانا منہ بنانے سے زیادہ ضروری تھا۔

نچلی منزل کے بڑے کمرے میں شور تھا۔ زمین پر بچھے دستر خوان پر بچّے آموں کے برتنوں سے ایسے چمٹے ہوئے تھے جیسے کھجور کے ڈھیر پر مکھیاں۔ ہم آگے بڑھ گئے۔ آگے برآمدہ تھا۔ اس پر پردہ پڑا تھا۔ پردے کے پیچھے چھوٹی آنٹی اپنی کزن سے کہہ رہی تھیں:
’’میں نے بچوں کے لیے ایک نیا جملہ نکالا ہے۔ بچے کھانے کی کوئی چیز لاتے ہیں تو ان سے چھین کر کہتی ہوں ہمیں کھانے دو تمہاری تو عمر پڑی ہے۔ ابھی دستر خوان پر بھی تماشہ دیکھنا کیا کرتی ہوں۔‘‘ دونوں تالی مار کر زور زور سے ہنسنے لگیں۔ ہم دبے پاؤں لوٹ آئے۔ بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے اس سازش کا توڑ کرنا ازحد ضروری ہوگیا تھا ۔
دستر خوان لگا تو ہم چھوٹی آنٹی کے سامنے جا بیٹھے۔ ان کی بانچھیں کھل گئیں۔ گویا اچھا شکار ہاتھ لگا۔ ہاٹ پاٹ میں گرم گرم پراٹھے آئے ۔ تھوڑی دیر بعد کٹے ہوئے آموں سے لبالب بھری ڈش آ گئی۔ چھوٹی آنٹی نے جھٹ اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ہم نے پٹ اس پر ہاتھ رکھ دیا۔ جھنجھلا کر ہماری طرف دیکھا:
’’ہمیں کھانے دو، تمہاری تو عمر پڑی ہے۔‘‘ پہلے سے طے شدہ سازشی جملہ داغ دیا۔
ہم اس کے لیے تیار تھے۔ فوراً جواب دیا:
’’ہمیں کھانے دیں، آپ نے تو ساری عمر کھایا، اور اتنا کھایا کہ بچوں تک کا حصہ کھا گئیں۔‘‘ چھوٹی آنٹی اپنے مجرب جملے کو فیل ہوتا دیکھ کر فیل کرگئیں۔ ہم نے ان کی فیلنگس کی کچھ پرواہ نہ کی۔ اور آدھی سے زیادہ ڈش آموں سے خالی کردی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
عشرت آنٹی خاندان کی پہلی پرکٹی خاتون تھیں۔ انہوں نے بوائے کٹ بال کٹوالیے۔سب انہیں آنٹی پرکٹی کہنے لگے۔ آنٹی پرکٹی بظاہر بہت سوبر تھیں۔ آہستہ لب و لہجہ میں بات کرتیں۔ دوران گفتگو خاص انداز سے بالوں کو نیچے سے اندر کی طرف موڑتیں۔ گفتگو میں انگریزی حصہ وافر مقدار میں تھا۔ چھوٹا قد، پکا رنگ اور بڑے فریم والی موٹے شیشوں کی عینک۔ چھوٹی سی ناک پر سے عینک پھسلتی رہتی وہ اسے اوپر کرتی رہتیں۔ فلسفی کہتا باہر سے ایٹی کیٹس جھاڑنے والے اندر سے بہت بدتمیز ہوتے ہیں۔ اس کی بات کا کوئی یقین نہ کرتا۔ سب آنٹی پرکٹی کی شخصیت سے متاثر تھے۔

آنٹی پرکٹی کا گھر نانی کے برابر میں تھا۔ نانی کے ہاں جانا ہوتا تو شام کو چھت سے ان کے گھر جھانکنا ضروری سمجھا جاتا۔ وہ ٹیلی فون اسٹینڈ کے ساتھ کرسی پر بیٹھی باتیں کرتی رہتیں۔ ہمیں جھانکتے دیکھ کر ہاتھ سے ہٹنے کا اشارہ کیا جاتا۔ سب ہٹ جاتے۔ اگلی شام پھر جھانکنے پہنچ جاتے۔ رفتہ رفتہ ان کو ہٹانے کا اور ہم کو جھانکنے کا سلسلہ لازم و ملزوم ہوگیا۔

دوپہر کا کھانا کھا کر نعمت خالہ سب کو بیڈ روم میں لے گئیں۔ اے سی آن کیا، پردے بند کیے اور سونے کا ماحو ل بنا لیا۔ تھوڑی دیر بعد سو بھی گئیں۔ انہیں دیکھ کر ہماری بھی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد اٹھے۔ دیکھا گھڑی کے منہ پر چار بج رہے ہیں۔ ابھی گرمیوں کی طویل دوپہر ختم ہونے میں وقت تھا۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا نعمت خالہ کے سوا سب غائب تھے۔ ہم دروازہ کھول کر بڑے لاؤنج میں آگئے۔ وہاں سب صوفوں پر بے زار بیٹھے تھے۔ سر پر بوریت کا بھوت سوار تھا۔ ہم نے تجویز دی کہ فون کرکے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ اس قیمتی رائے کو نہایت قدر و قیمت کے ساتھ سراہا گیا۔ رانگ نمبر ملا کر نجانے کتنوں کو ستایا۔ اور ان کی عاقبت بنانے کا سامان فراہم کیا۔ تھوڑی دیر بعد فلسفی کو کچھ یاد آیا:
’’آج تمہیں آنٹی پرکٹی کا اصل چہرہ دکھاتا ہوں۔‘‘
آنٹی پرکٹی کا نمبر ڈائل کیا۔ چند گھنٹیاں بجنے کے بعد نیند میں ڈوبی آواز آئی:
’’ہیلو، کون؟‘‘ لمبی جماہی۔
سب خاموش رہے۔
’’ہیلو۔‘‘ آواز میں حیرت تھی۔
خاموشی۔
’’ہیلووو!!!‘‘ لہجہ میں جھنجھلاہٹ ۔
سنّاٹا۔
’’ہونہہ۔‘‘ غصہ سے فون بند کردیا۔
فون بند ہوتے ہی ضبط کے بندھن ٹوٹے اور سب پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ فلسفی نے کہا:
’’تھوڑی دیر رُکتے ہیں۔ آنٹی پرکٹی سوجائیں پھر دوبارہ فون ملائیں گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد پھر فون ملایا۔ چند گھنٹیوں کے بعد نیند میں ڈوبی آواز آئی :
’’جی، ہیلو۔‘‘
خاموشی طاری رہی۔
’’ہیلو، بھئی کون ہے، بولتے کیوں نہیں۔‘‘ غصہ میں اضافہ ہوگیا۔
کسی نے جواب نہیں دیا۔
’’ہیلوووووو۔‘‘ گلا پھاڑ کر بولا گیا۔
سب چپ۔
’’بدتمیز۔‘‘ مختصر سی بدتمیزی کی گئی۔ اور فون بند ہوگیا۔
’’ہاہاہاہاہا۔ بہت مزہ آرہا ہے۔ پھر ملاتے ہیں۔‘‘ چیتے کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
’’ابھی نہیں۔ نیند گہری ہونے دو۔‘‘ فلسفی میں صبر کا مادّہ بہت تھا۔
مزید انتظار کیا گیا۔ پھر فون ملایا۔کافی دیر گھنٹی بجتی رہی۔ کسی نے فون نہیں اٹھایا۔
’’اب نہیں اٹھائیں گی۔ سمجھ گئیں کوئی تنگ کررہا ہے۔‘‘ گڑیا نے یقین سے کہا۔
’’کیسے نہیں اٹھائیں گی۔ گھنٹی کی آواز سونے کہاں دے گی۔‘‘
’’ہوسکتا ہے گھنٹی بند کردی ہو۔‘‘ گڑیا نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’ناممکن ہے۔ ان کا شوہر اور ایک بیٹا ملک سے باہر ہیں۔ ایک گھر سے باہر ہے۔ وہ فون کبھی بند نہیں کرتیں۔‘‘ فلسفی کے سب اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔
اچانک فون اٹھا لیا گیا۔ آغاز ہی تیز لہجے سے ہوا :
’’ہیلو، بولتے کیوں نہیں ، کون ہے۔ بے وقوف۔‘‘ ایٹی کیٹس کا کباڑہ نکلنے لگا۔
ادھر سے خاموشی رہی۔
’’ہیلووووو۔‘‘ لہجہ میں جھنجلاہٹ، نیند کا خمار اور بدتمیزی تھی۔ اس بار کسی کو ہنسی پر قابو نہ رہا۔ کھی کھی کرکے ہنسنے لگے۔ ہنسی کی اجتماعی آواز سن کر آنٹی پرکٹی کا پارہ آسمان کو چھونے لگا:
’’کون ہے بے، نالائق، بےغیرت، بدتمیز، گدھے کا۔۔۔، اُلو کا۔۔۔ ‘‘ اب جو آنٹی پرکٹی بے قابو ہوئیں تو گالم گلوچ کی پگڈنڈیوں پر بگٹُٹ دوڑنے لگیں۔ شاید منہ سے جھاگ بھی نکل رہے ہوں۔ پاگلوں کی طرح چیخنے لگیں۔ ان کے ہر جملہ پر قہقہوں کا لاوا ابلتا۔ وہ مزید طیش میں آجاتیں۔ لغت میں مزید گالیوں کا اضافہ ہوتا۔ مزید قہقہہ پڑتا۔ مزید گالیاں اور لغت میں مزید اضافہ۔

نعمت خالہ آنکھیں ملتی بیڈ روم سے نکلیں اور سب کو لوٹ پوٹ دیکھ کر آنکھیں ملنے لگیں۔ انہیں دیکھتے ہی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا گیا۔
’’کیا بدتمیزی ہورہی ہے؟‘‘ سب کے انداز سے اندازہ لگا رہی تھیں کہ ضرور شرارت کی جارہی ہے۔
’’آج آنٹی پرکٹی کے بچے کچھے پر بھی نچ گئے۔‘‘ گڑیا نے پول کھول دی۔
’’یا الٰہی، عشرت آپا کے ساتھ کوئی بدتمیزی کردی؟ انہوں نے تمہیں پہچان لیا کیا؟‘‘ نعمت خالہ سماج کو منہ دکھانے، بنی بنائی عزت خاک میں ملنے اور اسی قسم کے اوٹ پٹانگ خیالات سے گھبراگئیں۔
’’مجال ہے جو زبان سے ایک لفظ بھی نکالا ہو۔‘‘ پہلی بار کسی شرارت پر سچ بولاگیا۔
’’پھر اتنا کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘
گڑیا سے رہا نہ گیا۔ سب کچھ سچ سچ بتادیا۔

اس سچ بولنے کا انعام یہ ملا کہ اگلے دن فون پر تالہ لگا دیا گیا!!!
 
آخری تدوین:

اے خان

محفلین
اُن دنوں کا ذکر ہے جب ہمارے دودھ کے دانت جھڑ گئے تھے۔ تب والدہ کی بہن خالہ ہوتی تھیں۔ آج کل آنٹی کہلاتی ہیں۔ ارشد، نعمت خالہ کے پہلوٹے تھے۔ ہمارے خالہ زاد بھائی تھے۔ اب بھی ہیں۔ ان کے علم سے مرعوب ہوکر سب انہیں فلسفی کہتے تھے۔ فہد ان سے چھوٹے تھے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ بتاتے ہیں کہ دیر سے پیدا ہوئے۔ ایک دن ہم نے ان کے نام کا مطلب پوچھا۔ تب سے چیتا مشہور ہوگئے۔ گڑیا کو پیدا ہونے میں مزید دیر لگی لیکن بالآخر پیدا ہو ہی گئیں۔ ایک ہم، تین وہ۔ چار کی چوکڑی جہاں جاتی اودھم مچاتی۔ ممانی اپنے گھر بلانے سے جھجکتی تھیں۔ لیکن ہم پرواہ کیے بغیر پہنچ جاتے۔ ان کے باغ میں جاکر خوب شور مچاتے۔ تربوز کی بیل جڑوں سے کھودتے۔ فلسفی کا فلسفہ تھا کہ اس طرح بیل کو سانس لینے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ فالسے کے درخت کو ہلا ہلا کر ادھ موا کردیتے۔ فلسفی کہتا فالسے کو ہاتھ سے توڑنے پر نئے فالسے نہیں نکلتے۔ سب اس کی بات مان لیتے۔ درخت سے فالسوں سے زیادہ پتے گرتے۔ بقول فلسفی زیادہ پتے گرنا درخت کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مگر ممانی کی صحت باغ کی صفائی کے دوران خراب ہوجاتی۔

ہم نے مزید دو دن رکنے کا پروگرام بنالیا۔ ممانی کی صحت مزید خراب ہوگئی۔

باہر خوب بارش ہورہی تھی۔ سب باہر آگئے۔ چیتے کے ہاتھ میں آصف کی کاپیوں کا ڈھیر تھا۔ہم نے کھول کر دیکھا سب بھری ہوئی تھیں۔
’’سادہ کاپیوں کو چھوڑ دیا، ضائع ہوجائیں گی۔ ‘‘چیتے نے اطمینان دلایا۔
سب نے اطمینان سے کاغذ پھاڑ کر کشتیاں بنائیں اور صاف ستھری موزائیک کی بنی نالیوں میں چلانے لگے۔ یہ نالیاں صرف بارش میں بہتی تھیں۔ تبھی گڑیا ہاتھ میں بڑی سے کشتی اٹھا لائی:
’’ آصف کے ماموں دبئی سے لائے تھے۔ بیٹری سے چلتی ہے۔‘‘
سب کاغذ کی کشتیاں بھول گئے۔ بیٹری سے چلنے والی کشتی کا شور سن کر ممانی بوکھلائی ہوئی آئیں۔ بچے کی امپورٹیڈ کشتی ہمارے ہاتھوں بگڑتے دیکھ کر بگڑ گئیں:
’’بہت مہنگی ہے۔ بارش میں خراب ہوجائے گی۔‘‘
’’بارش روز روز نہیں ہوتی۔‘‘ گڑیا نے ممانی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔
’’ابھی اسے خراب ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘ فلسفی منمنایا۔
’’خراب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ ممانی کچھ اور بگڑ گئیں۔
‘‘ماموں نئی لے آئیں گے۔‘‘ ہماری پیش گوئی تھی۔
ممانی موڈ خراب کرکے چلی گئیں۔

اندر آصف زور زور سے بول رہا تھا: ’’میری کاپیاں نہیں مل رہیں۔ ہوم ورک کرکے یہیں رکھی تھیں۔‘‘
سب نے چیتے کو گھورا۔ چیتا خاموشی سے باقی ماندہ کاپیاں واپس رکھ آیا۔ اس روز کاپی کے صفحے پھٹنے کا کسی کو علم نہیں ہوا۔

باہر بارش تیزی سے برسنے لگی۔ پانی زور زور سے بہہ رہا تھا۔ کشتی کی رفتار مزید تیز ہوگئی!!!
یہ پڑھ کر مجھے شفیق الرحمان کی ایک تحریر یاد آگئی
 
Top