نیرنگ خیال
لائبریرین
میری اپنے جم انسٹرکٹر سے گپ شپ رہتی ہے۔ اس موضوع پر بھی گفتگو رہتی ہے کہ لڑکے اب جم نہیں آتے۔ زیادہ تر میری طرح بڑی عمر کے لوگ خود کو فٹ رکھنے کو تو آجاتے ہیں، لیکن وہ جو چھوٹی عمر میں کسرتی جسم بنانے کا شوق ہوتا ہے وہ خال خال نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے؟ وہ مجھے مختلف وجوہات بتاتے رہتے ہیں، کہ جسمانی محنت و مشقت سے بچوں کی جان جاتی ہے۔ موبائلز پر لگے رہتے ہیں، بہت ہوا تو سنوکر کلب چلے جاتے ہیں۔زیادہ تر وقت شیشہ پینے میں بتا دیتے ہیں اور پھر یہ کہ اکثر والدین بھی پسند نہیں کرتے کہ بچے جم جائیں۔ یہ میرے لیے بڑی حیرانی کی بات تھی ، کہ بچہ سنوکر کھیل لے تو قبول ہے مگر جم نہ جائے۔ میں نے ان سے عرض کی اس بات کو ہضم کرنا میرے لیے کس قدر مشکل ہے۔ وہ ہنس پڑے۔ کہتے میرے پاس تو اکثر ایسے والدین آتے رہتے ہیں کہ آپ ہمارے بچے کو سمجھائیں کہ یہ ورزش وغیرہ میں وقت ضائع مت کرے۔ اور چند دن گزرے کے اسی بات کا مشاہدہ بھی ہوا۔
رات جم میں ایک لڑکے کے والد صاحب آئے، وہ اپنے بیٹے کی ورزش پر اس قدر خفا تھے کہ انہوں نے جم کے مالک سے کہا کہ اس کو ایک گھنٹہ سے زیادہ یہاں مت رہنے دیں۔ یہ یہاں نو بجے آیا کرے اور دس بجے یہاں سے اس کو بھیج دیا کریں۔ جم کے مالک نے ان سے کہا کہ آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ محنت سے کسرت کرتا ہے ۔ عام لڑکوں کی طرح سنوکر بلئیرڈ اور موبائل پر وقت نہیں ضائع کر رہا بلکہ اپنی صحت پر توجہ دیتا ہے۔ تو وہ بزرگ فرمانے لگے، کہ اس کی خواہش پر ہی جم بھیجا ہے اسے۔ اس نے ابھی میٹرک کے پیپرز دیے ہیں، ابھی اس کا کالج شروع ہوجائے گا، اگر یہی چلن رہا تو پڑھ لیے یہ صاحب۔ میں نے پوچھا کہ میٹرک کے کیا حالات ہیں، تو پتا چلا کہ وہ بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیکر بورڈ کے نمایاں طلباء میں شامل ہے۔ میں نے عرض کی، کہ حضرت! پڑھ تو وہ پہلے ہی رہا ہے۔ مزید کیا بوجھ ڈالیے گا اس پر۔ کہنے لگے دو گھنٹے جم میں ضائع کر دیتا ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ دوستوں کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے پڑھے گا کس وقت۔ اس طرح تو بن گیا یہ ڈاکٹر۔ اللہ اکبر! میں نے اس بچے کی طرف دیکھا، جو اپنے تین دوستوں میں انتہائی خجالت بھرا چہرہ لیے کھڑا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ حضرت مجھے اپنے بچوں ساتھ دیکھ لیں، تو بچے برباد کرنے کے جرم میں مجھ سے میرے ہی بچے چھین لیں۔ کہ تم اپنے بچوں کو کھیلنے کا کہتے ہو۔ دماغ خراب ہے تمہارا۔ جم کے مالک نے کہا کہ وہ ایک گھنٹہ سے زیادہ اس بچے کو یہاں قیام نہ کرنے دے گا۔ اور اس نے لڑکے سے کہا کہ بیٹا! آپ اپنی ورزش کے درمیان جو وقفہ لیتے ہیں، اس کا دورانیہ کم کر دیں۔ بچہ سر ہلا کر رہ گیا۔
بعد میں اس بچے کو دیکھتا رہا۔ وہ ویسے ورزش نہیں کر پا رہا تھا، جیسے جنون سے وہ روز کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بیقراری سے ایک دیوار سے دوسری تک جاتا اور پھر اپنی ورزش کرنے کی کوشش کرنے لگتا۔
مجھے دکھ ہو رہا ہے اس ذہنیت پر۔ آپ کا بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیتا ہے۔ بغیر کہے پڑھتا ہے، آپ کا اتنا فرمانبردار ہے کہ آپ علی الاعلان دس لوگوں میں آکر اس کی بےعزتی کرتے ہیں اور وہ چوں تک نہیں کرتا۔ خدارا، ان کو باغی مت بنائیے۔ ان پر احسان کیجیے۔ اگر آپ ڈاکٹر نہیں بن سکے تو یہ بوجھ اپنے بچے پر مت لادیے۔ ایسا ذہن جو گھٹن میں رہے گھٹ جاتا ہے۔ وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ کیا ہے جو کل کلاں وہ بچہ ڈاکٹر بھی بن گیا۔ اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کا دور تو آپ برباد کر رہے ہیں، اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اپنے بچوں پر رحم کیجیے۔ ان کو کھیلنے دیجیے۔ یوں بھی موجودہ دور میں گنتی کے ہی چند بچے جسمانی کھیلوں کی طرف مائل ہیں۔ ان کو ان کا حق دیجیے۔
ہم گلہ کرتے ہیں کہ بچے کھیلتے نہیں۔ ہم اپنے دور میں اتنا کھیلا کرتے تھے، یہ کرتے تھے وہ کرتے تھے۔ کیسے کھیلیں بچے؟ کیسے؟ ان پر پانی بھری روئی لاد رکھی ہے آپ نے۔ اس بوجھ سے ان کا چلنا مشکل ہے۔ ان کے اپنی ذات کے لیے دو سے تین گھنٹے آپ کو برداشت نہیں۔ وہ بچہ ہے آپ کا۔ آپ کی انویسٹ منٹ نہیں ہے۔ کہ کل کو آپ کو دس گنا منافع دے گا۔ اس کو معاشرے کا صحتمند انسان بنائیے۔صرف کماؤ پوت نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو ہنر کی راہ پر مت لگائیں۔ اس کو اچھا برا نہ سمجھائیں۔ مگر اس کو زندہ رہنے کا حق دیں۔ اس کو گدھا مت بنائیں کہ آپ کہیں تو گھاس چرے، آپ جو بھی بوجھ کہیں وہ ڈھوئے۔ اس سے اس کا بچپنا اس کی اٹھتی جوانی مت چھینیں۔ کل کلاں وہ چھپ کر آپ سے یہ سب کرنے لگا۔ پھر آپ کیا کریں گے؟
۱۲ نومبر ۲۰۱۹
رات جم میں ایک لڑکے کے والد صاحب آئے، وہ اپنے بیٹے کی ورزش پر اس قدر خفا تھے کہ انہوں نے جم کے مالک سے کہا کہ اس کو ایک گھنٹہ سے زیادہ یہاں مت رہنے دیں۔ یہ یہاں نو بجے آیا کرے اور دس بجے یہاں سے اس کو بھیج دیا کریں۔ جم کے مالک نے ان سے کہا کہ آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ محنت سے کسرت کرتا ہے ۔ عام لڑکوں کی طرح سنوکر بلئیرڈ اور موبائل پر وقت نہیں ضائع کر رہا بلکہ اپنی صحت پر توجہ دیتا ہے۔ تو وہ بزرگ فرمانے لگے، کہ اس کی خواہش پر ہی جم بھیجا ہے اسے۔ اس نے ابھی میٹرک کے پیپرز دیے ہیں، ابھی اس کا کالج شروع ہوجائے گا، اگر یہی چلن رہا تو پڑھ لیے یہ صاحب۔ میں نے پوچھا کہ میٹرک کے کیا حالات ہیں، تو پتا چلا کہ وہ بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیکر بورڈ کے نمایاں طلباء میں شامل ہے۔ میں نے عرض کی، کہ حضرت! پڑھ تو وہ پہلے ہی رہا ہے۔ مزید کیا بوجھ ڈالیے گا اس پر۔ کہنے لگے دو گھنٹے جم میں ضائع کر دیتا ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ دوستوں کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے پڑھے گا کس وقت۔ اس طرح تو بن گیا یہ ڈاکٹر۔ اللہ اکبر! میں نے اس بچے کی طرف دیکھا، جو اپنے تین دوستوں میں انتہائی خجالت بھرا چہرہ لیے کھڑا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ حضرت مجھے اپنے بچوں ساتھ دیکھ لیں، تو بچے برباد کرنے کے جرم میں مجھ سے میرے ہی بچے چھین لیں۔ کہ تم اپنے بچوں کو کھیلنے کا کہتے ہو۔ دماغ خراب ہے تمہارا۔ جم کے مالک نے کہا کہ وہ ایک گھنٹہ سے زیادہ اس بچے کو یہاں قیام نہ کرنے دے گا۔ اور اس نے لڑکے سے کہا کہ بیٹا! آپ اپنی ورزش کے درمیان جو وقفہ لیتے ہیں، اس کا دورانیہ کم کر دیں۔ بچہ سر ہلا کر رہ گیا۔
بعد میں اس بچے کو دیکھتا رہا۔ وہ ویسے ورزش نہیں کر پا رہا تھا، جیسے جنون سے وہ روز کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بیقراری سے ایک دیوار سے دوسری تک جاتا اور پھر اپنی ورزش کرنے کی کوشش کرنے لگتا۔
مجھے دکھ ہو رہا ہے اس ذہنیت پر۔ آپ کا بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیتا ہے۔ بغیر کہے پڑھتا ہے، آپ کا اتنا فرمانبردار ہے کہ آپ علی الاعلان دس لوگوں میں آکر اس کی بےعزتی کرتے ہیں اور وہ چوں تک نہیں کرتا۔ خدارا، ان کو باغی مت بنائیے۔ ان پر احسان کیجیے۔ اگر آپ ڈاکٹر نہیں بن سکے تو یہ بوجھ اپنے بچے پر مت لادیے۔ ایسا ذہن جو گھٹن میں رہے گھٹ جاتا ہے۔ وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ کیا ہے جو کل کلاں وہ بچہ ڈاکٹر بھی بن گیا۔ اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کا دور تو آپ برباد کر رہے ہیں، اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اپنے بچوں پر رحم کیجیے۔ ان کو کھیلنے دیجیے۔ یوں بھی موجودہ دور میں گنتی کے ہی چند بچے جسمانی کھیلوں کی طرف مائل ہیں۔ ان کو ان کا حق دیجیے۔
ہم گلہ کرتے ہیں کہ بچے کھیلتے نہیں۔ ہم اپنے دور میں اتنا کھیلا کرتے تھے، یہ کرتے تھے وہ کرتے تھے۔ کیسے کھیلیں بچے؟ کیسے؟ ان پر پانی بھری روئی لاد رکھی ہے آپ نے۔ اس بوجھ سے ان کا چلنا مشکل ہے۔ ان کے اپنی ذات کے لیے دو سے تین گھنٹے آپ کو برداشت نہیں۔ وہ بچہ ہے آپ کا۔ آپ کی انویسٹ منٹ نہیں ہے۔ کہ کل کو آپ کو دس گنا منافع دے گا۔ اس کو معاشرے کا صحتمند انسان بنائیے۔صرف کماؤ پوت نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو ہنر کی راہ پر مت لگائیں۔ اس کو اچھا برا نہ سمجھائیں۔ مگر اس کو زندہ رہنے کا حق دیں۔ اس کو گدھا مت بنائیں کہ آپ کہیں تو گھاس چرے، آپ جو بھی بوجھ کہیں وہ ڈھوئے۔ اس سے اس کا بچپنا اس کی اٹھتی جوانی مت چھینیں۔ کل کلاں وہ چھپ کر آپ سے یہ سب کرنے لگا۔ پھر آپ کیا کریں گے؟
۱۲ نومبر ۲۰۱۹