جی یہی تو کہہ رہا تھا کہ اگر سختی کرنی ہے تو شروع سے کریں۔ اور لڑکیوں اور لڑکوں کیساتھ ایک جیسا برتاؤ کریں۔ عموما مشرقی معاشرے میں لڑکیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ دوغلہ رویہ ہے۔ اگر لڑکیوں پر پردہ پابند کرتے ہیں تو لڑکوں پر بھی اسی طرح کی پابندیاں لگائیں کہ لڑکیوں کے پیچھے جانے پر فلاں فلاں سزا ملے گی۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
جی شاہد بھیا، آپ نے بجا فرمایا، یہ دوغلہ رویہ تو ہے ہمارے معاشرے میں۔
میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بچیاں اور بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، جسمانی ساخت، ذمہ داریاں، مسائل، حلقہءِ احباب، گھر میں اور معاشرے میں ان کا کردارسب کچھ مختلف ہوتا ہے شاید اس لئے ان کو ٹریٹ بھی مختلف طریقے سے کیا جاتا ہے۔
آپ نے لڑکوں پر پابندی کی بات کی تو مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا، میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور میری بہن پانچویں میں۔ پرائیویٹ سکول تھا تو لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے، البتہ کلاس روم میں لڑکے ایک سائیڈ پر اور لڑکیاں ایک سائیڈ پر بیٹھتے تھے۔ ایک دن ریسس ٹائم میں میں نے دیکھا کہ میری بہن کا کلاس فیلو بار بار اس کی چٹیا کھینچ رہا ہے، میں نے اس لڑکے کی پٹائی کردی، اس کا ایک بھائی میرا کلاس فیلو تھا اور دوسرا آٹھویں کلاس میں، وہ بھی بھائی کی مدد کرتے ہوئے پٹ گئے۔ کافی ہنگامہ ہوا۔ پرنسپل صاحب کی خدمت میں پیش کردیئے گئے۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد سب کو ان کی کلاسز میں بھیج دیا گیا، سوائے میرے۔ میں پرنسپل صاحب کا لاڈلا بھی مشہور تھا، انہوں نے مجھے بٹھایا اور ایک بات سمجھائی، کہنے لگے:
بیٹا مجھے خوشی ہے کہ تم ایک غیرت مند بھائی ہو، تم جیسے غیرت مند انسان کو میں ایک راز کی بات بتانا چاہوں گا۔ بیٹا، یہ تو ایک چھوٹی سی شرارت تھی، کل کو تمہاری بہن جوان بھی ہوگی اور لڑکے اسے تنگ بھی کریں گے، اسے چھیڑیں گے بھی۔ چونکہ تم ایک غیرتمند انسان ہو اس لئے مجھے یقین ہے کہ تم ایسا کبھی بھی نہیں چاہو گے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بہن کو کوئی لڑکا تنگ نہ کرے تو بیٹا تم کسی کی بہن کو تنگ مت کرنا، اللہ پاک نے ایک سسٹم بنایا ہوا ہے جسے "مکافاتِ عمل" کہتے ہیں۔ وہ سسٹم ایسا ہے کہ اگر تم کسی کی بہن کو چھیڑو گے تو لڑکے تمہاری بہن کو چھیڑیں گے، اور اگر تم کسی کی بہن کو گندی نظر سے نہیں دیکھو گے تو تمہاری بہن کو بھی کوئی گندی نظر سے نہیں دیکھے گا، اگر کوئی کوشش بھی کرے گا تو "مکافاتِ عمل" پر معمور فرشتے اس کی آنکھوں کو تمہاری بہن کے لئے جھکا دیں گے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ ایک تربیت کرنے والے نے پہلے ایک بچے کو اس کے غیرت مند ہونے پر شاباشی دی اور پھرغیرت کی ایک ایسی بات بتائی کہ وہ لڑکا 40 سال کا ہوگیا لیکن آج تک کسی کی بہن بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ بچوں کی عمدہ تربیت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔