میں نے کبھی جھنڈیر لائبریری کا نام نہیں سنا۔ لاہور میں جناح لائبریری کافی مشہور ہے، میں بس اسی سے واقف ہوں۔ جھنڈیر سن کے لگتا ہے وہاں کتابوں کے جھنڈ کے جھنڈ موجود ہوں گے۔ جہاں پہلے ہی یہ عالم ہو وہاں۔۔۔
مجھے یہ تو علم نہیں کہ آپ کے والد صاحب حیات ہیں یا وفات پا چکے ہیں لیکن قیاس یہی ہے کہ جس طرح کتابیں عطیہ کرنے کی بات ہو رہی ہے تو شاید وہ حیات نہیں ہیں۔ کم و بیش دو دہائیاں پہلے کی بات ہے کہ میرے والد صاحب کی وفات پر لوگ مجھ سے تعزیت کرنے آتے تھے تو پوچھتے تھے کہ یہ کتابیں آپ کے والد صاحب کی ہیں، تو میں سوچا کرتا تھا کہ والد صاحب کیسے جانے کے بعد بھی کتابوں کی یادوں سےجڑے ہوئے ہیں، انہوں نے کیسے کیسے جتن نہیں کیے تھے مجھے کتب بینی سے روکنے کے لیے اور جب دیکھا کہ یہ بھی ہٹ کا پکا ہے تو کیسے پیار سے میری بکھری ہوئی کتابوں کے لیے لکڑی کے ریکس بنوا دیے تھے۔
اپنے والد صاحب کی کتابوں سے فیض اٹھائیے محترم لیکن پھر بھی اگر ہدیہ کرنا ہی مقصود ہے تو پھر تھوڑی سی محنت کریں، ان کتابوں کی فہرست بنائیے اور دیکھیے کہ ان میں سے نایاب کونسی ہیں یا ایسی کونسی ہیں کہ جو ویب پر موجود نہیں ہیں اور جب ایسی کتابوں کی چھانٹی ہو جائے تو پھر ان کو اسکین کریں یا کروایں، جو کتابیں ویب پر پہلے ہی سے موجود ہیں ان کو دوبارہ اسکین کرنا کروانا لا حاصل ہے۔ باقی کسی چھوٹی لائبریری کو عطیہ کریں جہاں ان کی واقعی ضرورت ہو۔
لیکن پھر وہی کہ شاید آپ خود ہی ان سے فیض حاصل کرنے کا سوچیں، ایسا ہی سوال مجھ سے زیادہ ، میری کتابوں سے ظاہری شدید نفرت کرنے والی میری بیوی کو زیادہ ستاتا ہے اور پھر خود ہی خوشی سے بتاتی ہے کہ تین میں سے کم از کم دو بچوں کے دلوں میں ان کتابوں کے ورثے کے بیج بوئے جا چکے ہیں!