پاکستان کے خلاف گریٹ گیم اور دشمنوں کی کہانی میں جھول
شاہد اللہ اخوند پير 18 مارچ 2019
اس صورت حال کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کہانی نہایت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
سینئر صحافی حامد میر نے گزشتہ دنوں اپنے پروگرام ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ میں انکشاف کیا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر پاکستان پر میزائل حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، اور پاکستان کے دو شہروں کراچی اور بہاولپور کو نشانہ بنانے کی پوری تیاری کر لی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف اس مشترکہ منصوبہ بندی میں پانچ جگہوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کی گئی تھی۔
لیکن پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو جب اس خفیہ منصوبہ بندی کا علم ہوا تو پاکستان نے میزائلوں کو تباہ کرنے اور جوابی کارروائی کےلیے بھرپور طریقے سے اپنے آپ کو تیار کیا جبکہ ساتھ ساتھ سعودی عرب، امریکا، روس اور چائنہ کو بھی اطلاع دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں امریکا کے ذریعے بھارت کو سنگین نتائج کی بابت پیغام بھی پہنچا دیا گیا، جس کے بعد بھارت اور اسرائیل کی اس خفیہ منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا؛ اور بھارت اس حملے سے باز آیا۔
یہ حقائق منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی حکومتی ذرائع سے سامنے آئی کہ پاکستان کے خلاف اس خفیہ منصوبہ بندی میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ایک اور ملک بھی شامل تھا۔ ذرائع کے مطابق بھارت اور اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے خلاف اس خفیہ منصوبہ بندی میں ایران بھی شامل تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان کے خلاف یہ گریٹ گیم بھارت، اسرائیل اور ایران نے بنایا تھا جس پر پاکستان نے بروقت پانی پھیر دیا۔
بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کے خلاف اس وقت یہ تین طاقتیں سازش کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر تینوں ممالک کا پاکستان کے خلاف اس منصوبہ بندی میں شریک ہونا بعید از قیاس نہیں۔ پاکستان کے خلاف حالیہ منصوبہ بندی کے پس منظر کو اگر دیکھا جائے تو نہایت واضح نتیجہ مل جاتا ہے کہ کونسا ملک پاکستان کے خلاف اس سازشی منصوبے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو 13 فروری کو ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں پاسدران انقلاب کے کم ازکم 27 محافظ ہلاک ہوگئے جبکہ 20 سے زائد افراد اس میں زخمی ہوئے۔ محافظوں کو منتقل کرنے والی گاڑی کو پاک ایران سرحد سے متصل سیستان بلوچستان صوبے میں خاش زاہدان روڈ پر نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے فوراً بعد ایران میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر نے الزام لگایا کہ حال ہی میں ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے ذمہ داران کی پاکستان کی سکیورٹی فورسز پشت پناہی کرتی ہیں۔
ہفتے کے روز ایرانی سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں میجر جنرل محمد علی جعفری نے کہا کہ ایران میں ’’انقلاب کے مخالفین اور اسلام کے دشمنوں‘‘ کو پاکستانی حکومت پناہ دیتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران جانتا ہے کہ یہ حملہ آور کہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ’’پاکستان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرے اور دہشت گردوں کو سزا دے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جیش العدل کو پناہ دی ہے جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ایران میں ہونے والے اس حملے کے ایک روز بعد، یعنی 14 فروری کو، اسی طرح کا حملہ بھارتی فوجی قافلے پر بھی ہوا۔ جموں سری نگر قومی شاہراہ پر محو سفر سکیورٹی افواج کا ایک کاروان جب مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کے قصبے اونتی پورہ کے نزدیک واقع گاؤں لیتھپورہ سے گزر رہا تھا تو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی قافلہ کی ایک بس سے ٹکرا دی۔ اس حملے کے نتیجے سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے چھیالیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔ بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی تنظیم پر ڈالتے ہوئے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا؛ اور پاکستان کو اس حملے کے نتائج بھگتنے کی دھمکی دے ڈالے… جبکہ ساتھ ساتھ ایل او سی کی خلاف ورزی بھی۔
اس صورت حال کو باریک بینی سے دیکھنے کی ہر گز ضرورت نہیں، بلکہ یہ کہانی نہایت آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ دو ملکوں میں ایک ہی دن کی دوری پر دونوں کے فوجی قافلوں پر ایک جیسا حملہ ہوا جس میں ایک جیسا بڑا نقصان سامنے آیا۔ جبکہ دونوں ممالک نے بلا تحقیق کے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا۔
بھارت نے جیش محمد کا بہانہ بنا کر جبکہ ایران نے جیش العدل کا بہانہ بنا کر پاکستان کے سر اس کا الزام تھوپ دیا۔
اس صورت حال میں تینوں ممالک بھارت، ایران اور اسرائیل کی پاکستان کے خلاف خفیہ منصوبہ بندی کے انکشاف کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں، جس کا نتیجہ یوں نکلتا ہے کہ پلوامہ اور پاسداران انقلاب پر حملہ کہیں ایک ہی مشن کی کڑی تو نہیں؟ وہ کیوں؟ ملاحظہ کرلیجیے:
1۔ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے۔
2۔ حملے کا طریقہ کار ایک جیسا تھا۔
3۔ بھارت میں حملہ لائن آف کنٹرول سے 150 کلومیٹر دور اور ایران میں چاہ بہار کے قریب ہوا۔
4۔ چاہ بہار وہی جگہ ہے جہاں سے کلبھوشن اپنی کارروائیاں کرتا تھا۔
5۔ حملے کے فوراً بعد بھارت اور ایران کا مؤقف یکساں تھا۔
6۔ سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ حملے کے فوراً بعد دونوں ممالک نے پاکستان ہی کو اس حملے میں کیوں ملوث قرار دیا؟
اس تمام صورت حال کا لازمی نتیجہ اور لب لباب یہی نکلتا ہے کہ گھڑی ہوئی کہانیوں میں کہیں نہ کہیں جھول رہ جاتا ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔