بالاکوٹ حملے سے انڈیا نے کیا حاصل کیا؟
رجنیش کمار بی بی سی نمائندہ، دہلی
گذشتہ ماہ 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر جیش محمد کے خود کش حملے میں 40 جوانوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے 26 فروری کو پاکستان میں شدت پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
انڈیا نے یہ کارروائی پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بالاكوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کی تھی۔
اس کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نے 27 فروری کو یا تو مبینہ طور پر ایف-16 یا جے اے ایف-17 سے ایک ہندوستانی مگ-21 جنگی طیارہ مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں رہا کر دیا گيا۔
دہشت گردی سے لڑنے کے لیے فضائیہ کے استعمال کے انڈین فیصلے کو اہم تصور کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے 24 گھنٹوں کے اندر ہی دیے جانے والے جواب کے بعد یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ انڈیا کا فضائیہ کے استعمال کا فیصلہ کتنا مناسب رہا؟
دفاعی امور کے معروف تجزیہ نگار راہل بیدی کہتے ہیں ’اگر انتخابات کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ فیصلہ مودی حکومت کے حق میں جاتا نظر آ رہا ہے، لیکن اگر سکیورٹی حکمت عملی کے نظریہ سے دیکھیں تو یہ بحث طلب ہے۔‘
راہل بیدی کہتے ہیں: ’پاکستان نے انڈیا کو 24 گھنٹے کے اندر ہی جواب ضرور دیا لیکن ہندوستان میں لوگوں کی رائے مودی کے حق میں رہی۔ اگر سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ حکمت عملی بہت خطرناک نظر آتی ہے۔ جوہری طاقت کے حامل دو ممالک ایک دوسرے کی حدود میں فائٹر طیاروں کے ساتھ داخل ہوئے۔ گذشتہ سات دہائیوں میں مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا جب ایسا ہوا ہو۔ مودی نے جو قدم اٹھایا ہے، اگر وہ اس پر آگے بڑھتے رہے تو یہ سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔‘
راہل بیدی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے خلاف فضائی حملہ کر کے بھی دیکھ لیا لیکن اس سے کیا حاصل ہوا ابھی تک واضح نہیں۔
بیدی کہتے ہیں کہ '36 گھنٹوں کے اندر ہی ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کا ہندوستان آنا مودی کے حق میں گیا۔ لیکن اگر پھر سے دہشت گرد حملہ ہوا تو پھر مودی کے پاس کیا آپشنز رہ جائیں گے؟ مجھے کوئی آپشن نظر نہیں آتا۔ انڈیا کی ایئر سٹرائک کا جواب پاکستان نے بھی اسی طرح دیا۔ ایسے میں انڈیا پھر ایئر سٹراک کرے گا، ایسا نہیں لگتا۔ فی الحال انڈیا کی فضائیہ خواہ پاکستان سے قدرے مضبوط ہے لیکن آنے والے تین چار سالوں میں ایسا نہیں رہے گا۔ اب انڈیا کے لیے یہ اہم سوال ہے کہ اگر پھر سے دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو انڈیا کیا کرے گا؟'
انڈیا میں فضائیہ کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ انڈیا جن جنگی طیاروں کا استعمال کر رہا ہے اس کی ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ پرانی ہو گئی ہے۔ دفاعی ماہرین مگ طیارے کو انڈیا کے آسمان کا تابوت کہتے ہیں۔
ایسے میں انڈین فضائیہ پاکستان کو کس حد تک چیلنج دے گا؟ یہاں تک کہ انڈیا کے فوجی سربراہ ڈھائی مورچوں سے جنگ کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ جنگی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو انڈیا کو چین کے تعلق سے بھی خدشات رہیں گے۔
ہندوستانی فضائیہ کے پاس محض 32 سكواڈرن ہیں جبکہ دفاعی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ کم از کم 42 سكواڈرن ہونے چاہییں۔ 32 میں سے بھی بہت سے سكواڈرن لڑاکا طیاروں کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک سكواڈرن پر کم از کم 16 سے 18 جنگی طیارے ہونے چاہییں۔
مگ-21 جنگی طیارے میں 1960 کی دہائی کی سوویت یونین والی ٹیکنالوجی ہے اور انڈیا آج بھی اس کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے چھ سكواڈرن آج بھی مگ-21 کے سہارے ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ نے ملکی سطح پر تیار کیے جانے والے ہلکے جنگی طیارے (ایل سی اے) کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
فرانس کے ساتھ رفال جنگی طیارے کا سودا بھی ہندوستانی فضائیہ کے لیے اہم ہے۔ ایل سی اے کی تیاری میں انڈیا نے کم از کم تین دہائیوں کا وقت لیا ہے۔ مارچ سنہ 2019 سے صرف 16 ایل سی اے فضائيہ میں شامل ہوں گے۔ آج بھی ہندوستانی فضائیہ ایڈوانس فائٹر طیاروں کے لیے کوشاں ہے۔
انڈیا کے 11 سكواڈرن پر روسی سوکھوئی-30 ایم کے آئی فائٹر طیارے ہیں جو دنیا کے جدید ترین جنگی طیاروں میں سے ایک ہیں۔
انڈیا کے تین سكواڈرن پر میراج-2000 ای/ ای ڈی/ آئی/ آئی ٹی، چار سكواڈرن پر جیگوار آئی بی/ آئی ایس اور تین سكواڈرن پر مگ-27 ایم ایل/ مگ-23 یو بی ہیں۔
سكواڈرن اور جنگی طیاروں کے لحاظ سے دیکھیں تو انڈین فضائیہ پاکستان سے بہتر ہے۔ ہندوستان کے پاس مگ-29، سو-30 ایم کے آئی اور میراج-200 ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جدید ترین جنگی طیارے ایف-16 اور جے ایف-17 ہے۔ ایف-16 امریکی ساخت کا ہے اور جے ایف-17 کو چین اور پاکستان نے مل کر بنایا ہے۔
پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اس کے لیے فضائیہ کو مضبوط بنانا آسان نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ساتھ چین آ گیا تو انڈیا کے لیے مشکل حالات پیدا ہو جائيں گے۔
چین اپنی فوج کی تیزی سے تجدید کاری کر رہا ہے۔ دی ملٹری بیلنس 2019 کے مطابق چین کے پاس مجموعی طور 2413 حملہ آور جنگی طیارے ہیں جبکہ انڈیا کے پاس 814 اور پاکستان کے پاس صرف 425 ہیں۔
بہر حال بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چین اپنی فوج کی تجدید انڈیا کے بجائے امریکہ اور جاپان کے پیش نظر کر رہا ہے۔
دفاعی امور کے ماہرین کا یہ بھی خيال ہے کہ چین اپنے لیے ہندوستان کو خطرہ نہیں سمجھتا۔ دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر چین انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں پاکستان کی حمایت بھی کرتا ہے تو وہ اس کو محدود مدد فراہم کرے گا لیکن پاکستان اپنی پوری طاقت لگا دے گا۔
اگر چین پاکستان کے ساتھ آتا ہے تو دوسرے ممالک کے درمیان گروہ بندی شروع ہو جائے گی۔ ایسے میں انڈیا کو امریکہ اور جاپان سے مدد کی امید ہو گی۔ جاپان اور چین کے درمیان تاریخی دشمنی رہی ہے اور ہر بار چین کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
انڈیا کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اتوار کو انڈیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ انڈیا نے سنہ 1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار بین الاقوامی سرحد پار کی ہے۔ جیٹلی نے کہا: 'ہمارے وزیر اعظم نے پالیسی تبدیل کی ہے۔ پہلے حکومتیں انٹیلیجنس اور سکیورٹی فورسز کو چاق و چوبند رکھتی تھیں تاکہ حملہ روکا جا سکے۔ ہم اب دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔'
جیٹلی نے کہا: 'ہماری پالیسی یہ ہے کہ جہاں بھی دہشت گرد تیار کیے جا رہے ہیں وہیں حملہ کیا جائے۔ انڈیا کی فوج میں اہلیت ہے اور دہشت گردی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔'
راہل بیدی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی ایجنسیوں نے جو سیٹیلائٹ کی تصاویر جاری کی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایئر سٹرائک نشانے پر نہیں جا سکیں۔
بیدی کا خیال ہے کہ انڈیا کے ایئر سٹرائک پر ملکی اور بین الاقوامی تصورات مختلف ہیں۔ قوم کا خیال مودی کے حق میں ہے اور بین الاقوامی تصور یہ ہے کہ بھارت کی ایئر سٹرائک ناکام رہی۔