سورۃ طلاق سورۃ نمبر 65 کی پہلی دس آیات ، طلاق دینے، طلاق کی مدت اور طلاق کے بعد محترم خاتون، کے لئے طلاق کی تکمیل کی مدت کا تعین کرتی ہیں۔ اور لامتناہی، مالی اعانت شوہر پر فرض کرتی ہیں۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ ان آیات کی موجودگی میں اور ابھی تازہ تر حوالے ککے بعد مجھ سے شابقہ شوہر کے فراءض کے بارے میں ایسا سال پوچھ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ملاء کی ایک زبردست کامیابی ہے کہ اس نے مسلمان کے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔
یقین کیجئے کہ میں آپ ک نہیں سمجھا سکتا، ہم سب کو ملاء کے سحر سے آزاد ہ کر قران کریم پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ سوال تو 1400 سال سے کیا جارہا ہے کہ مرد کی طلاق کے بعد ذمہ داری کب تک ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ملاء پرستی معصوم خواتین پر زندگی تنگ کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ اس کا علاج بھی قرآن حکیم نے فراہم کردیا ہے کہ عورت کا مہر کے تعین ، مرد کی آئندہ 10 سال کی آمدنی کے برابر رکھا جائے۔
آپ سے پوچھا کہ معجل اور غیر معجل مہر کا حکم ہم کوو قرآن سے کہاں ملتا ہے۔ آپ نے جواباً درج ذیل آیت پیش کی، یہ آیت معجل اور غیر معجل مہر کا تعین نہیں کرتی بلکہ مہر کب اور کتنا ادا کیا جانا ہے اس امر کا تعین کیا جارہا ہے۔
آیہئ اس آیت کو دیکھتے ہیں:
2:236 لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ
تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔
یہاں حکم دیا جارہا ہے ان خواتین کے بارے میں جن کو مرد نے 'چھوا' نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے یہاں لفظ 'نکاح ' نہیں استعمال کیا ہے بلکہ لفظ ہے ۔۔۔ '
تَمَسُّوهُنُّ' صاف اور واضح۔
تو جن عورتوں کو چھوا نہیں ان کو کچھ ساز و سامان دے دو۔ لیکن اگر صرف 'چھو' بھی لیا یعنی انگوٹھی پہنا دی یا ہاتھ ملالیا تو مہر قابل ادائیگی ہو گیا۔ جی۔ یہ آیت صرف اور صرف اس امر کا تعین کرتی ہے۔
تو معجل اور غیر معجل یعنی مہر کی کچھ ادائیگی چھونے پر یعنی معجل یا فوری ادائیگی اور مزید یہ کہ بعد میں آرام آرام سے مرد ادائیگی کرتا رہے ، تو یہ ہوا غیر معجل ۔ ایک عجلت سے ادا کرنا ہے اور دوسرے حصے میں کوئی عجلت نہیں ۔ اس کے لئے اللہ تعالی کا فرمان قرآن کریم میں بہت ہی اضح ہے، وہ ہم کو
سورۃ القصص کی آیت نمبر 27 اور 28 میں ملتی ہے۔
28:27 قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا:
میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے
28:28 قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا:
یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے
یہ ہے مرد کی پیداوار میں سے معجل اور غیر معجل کے تعین کے بہترین مثال۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مہر معجل کچھ نہیں ، لیکن غیر معجل آٹھ سے دس سال کی خدمت ہے۔
ملاء اس ک شریعت موسوی کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ جبکہ یہ آیات قرآن حکیم کی ہیں، اور کسی طور بھی رد نہیں کی جاسکتی ہیں۔
جس کو سورۃ طلاق کی آبتدائی آیات سے یہ دلیل نہیں ملتی کہ طلاق یافتہ عورت کی مالی مدد اس وقت تک اس کے شوہر کا فرض ہے ،
اس سے ہم دس سال کی مکمل آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا پھر قانون بنا سکتے ہیں کہ طلاق کی صورت میں مرد کی دس سال کی آمدنی اس کی بیوی کا حق ہوگا، بچوں کا تمام خرچہ تو مرد کی ذمہ داری ہے ہی۔ ۔ کہ یہ حدود اللہ ہیں،
سورۃ طلاق کی وہ آیات جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ طلاق ہافتہ عورت کا یہ حق ہے کہ جب تک اس کا کوئی انتظام نا ہوجائے، اس کا شوہر اس کی کفالت کرے گا۔ اور اس کو اس کے گھر سے نہیں نکالے گا۔
سورۃ طلاق
آیت 1: اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں
جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے،
اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے۔
آیت 6 ۔
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی
آیت 7
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔
برادر محترم، میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ دلائیل کسی بھی ملاء کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مہر میں مرد کی دس سال کی آمدنی لکھی جائے، تاکہ طلاق یافتہ عورت اس آمدنی سے اپنا گذر بسر کرسکے، ہم اس پر تو متفق ہیں ہی کہ بچوںکا تمام کا تمام خرچہ باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا کہ طلاق کے بعد ، بیوی کا تمام خرچہ ، کھانا پینا، گھر کا کرایہ ، اور کسی بھی قسم کے دوسرے اخراجات شابقہ شوہر کا ذمہ ہیں، اس سے ہم دس سال کی آمدنی لکھوا سکتے ہیں یا قانون بنا سکتے ہیں کہ مہر غیر معجل ، شوہر کی دس سال کی آمدنی ہوگا۔
والسلام