دہلی کا دل دہل گیا
دہلی میں انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کے مطابق ’حالیہ قتل وغارت گری ہندوتوا کی بڑی فلم کا محض ٹریلر تھا۔ اصلی فلم مغربی بنگال، حیدرآباد اور ممبئی میں شروع ہونے والی ہے جہاں غیر بی جے پی سیاست دانوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانا ہے۔‘
نعیمہ احمد مہجور سینیئر صحافی
@nayeema1
جمعہ 6 مارچ 2020 6:45
گذشتہ دنوں دہلی فسادات میں ہلاک ہونے والے 31سالہ محمد مدثر کے رشتہ دار ان کے جنازے پر رو رہے ہیں (اے ایف پی)
جب رات کے اندھیرے میں شیرخوار بچوں کو ماں کی چھاتیوں سے الگ کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تو انسانیت بلک بلک کر رو رہی تھی۔ جب پولیس کی وردی میں ملبوس مردوں کی فوج عورتوں کی عصمت دری پر قہقہے لگا رہی تھی تو دلی کا آسمان سیاہ ہو رہا تھا۔
جب ہندو شدت پسند نوجوانوں کو کاٹ کاٹ کر پاس والی گندی نہر میں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ رہے تھے تو نہر کی کیچڑ لال ہو رہی تھی۔ جب خون میں لت پت آدھ مروں کو طبی عملہ ’آتنک وادی‘ کہہ کر ہسپتالوں سے باہر نکال رہے تھے تو فلورنس نائٹینگیل کی روح لرز رہی تھی۔ جب عدالتیں بے بسوں کو انصاف دینے سے انکار کر رہی تھیں تو آنکھوں پر پٹی باندھے انصاف کی دیوی تلملا رہی تھی۔
دہلی کے اس المیے کا سکرپٹ دہلی کے ہی ایوانوں میں بہت پہلے لکھا گیا تھا، جو اصل میں گجرات، آسام، کشمیر اور اترپردیش کا تسلسل ہے جہاں انسانیت اور انصاف پر پہرے بٹھا کر بھٹکتی روحوں کو چیخنے کی اجازت تک نہیں۔
پچیس فروری کی رات شمال مشرقی دہلی میں رہنے والی عزیزی کے لیے ایک ایسی گھناؤنی رات تھی جس نے اس کا سب کچھ چھینا۔ وہ اب بات نہیں کر پاتیں لیکن آنکھوں میں ٹھہرے آنسو اس رات کی داستان خود بتاتے ہیں۔
’وہ خونخوار درندوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے، میرے کپڑے تار تار کیے، دو سال کی بچی میری گود میں تھی، جب انہوں نے میری چھاتیوں کو نوچنا شروع کیا۔ وہ نیچے گر پڑی، وہ اس معصوم بچی پر بھی چڑھ گئے اور وہ وہیں پر بلک بلک کر ڈھیر ہوگئی۔ میرا بیٹا دوڑا دوڑا ہمیں بچانے کے لیے آیا تو اس کو ترشول پر لٹکا کر پیچھے والی نہر میں پھینک دیا گیا۔ وہ نہر کی کیچڑ میں دھنس گیا۔
’میرے شوہر کو ویلڈنگ کی دکان میں آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ کسی نے رحم کھا کر مجھے ہسپتال پہنچا دیا جہاں میرے شوہر کی جھلسی ہوئی لاش رکھی گئی تھی۔ ڈاکٹروں نے تین دن تک نہ بات کی اور نہ لاش دی۔ پھر کسی نے بتایا کہ میں شوہر کو دیکھ نہیں سکتی جس کا جسم ناقابل شناخت ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے لیڈروں سے کہہ دو کہ ہندو دہشت گردوں نے ادھورا کام کیا ہے مجھے مار کر میری کہانی بھی ختم کر دو۔‘
یہ صرف عزیزی کی دل دہلانے والی داستان نہیں بلکہ ان تمام سینکڑوں عورتوں کی بھی ہے، جن کو بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کے دارالحکومت دہلی میں سینکڑوں سفارت خانوں، عالمی اداروں، عالمی اور قومی میڈیا کے ہزاروں چینلوں، درجنوں انسانی حقوق کے کمیشنوں، چھ سو سے زائد اراکین پارلیمان اور 70 سے زائد اسمبلی ممبروں کی موجودگی میں وحشت اور درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کے بچوں کو قتل کردیا گیا، ان کی دکانوں اور مکانوں کو گیس چیمبر میں منتقل کر کے زندہ جلا دیا گیا، جسموں کے حصے کر کے گندے نالوں میں بہا دیا گیا اور ہسپتالوں میں ’آتنک وادی‘ کہہ کر باہر نکالا گیا۔
کسی نے روکا نہیں، کسی نے بات نہیں کی اور کسی نے سہارا نہیں دیا۔ ان مناظر کو بیان کرنے کے لیے پتھر دل ہونا چاہیے جو صرف ان چند بھارتی اینکرز کے پاس ہے جو مسلمانوں پر ہونے والی اس بربریت کو فرقہ وارانہ فسادات قرار دے کر ہندوؤں کی چند ہلاکتوں کا مسلمانوں کی ہلاکتوں سے موازنہ کر رہے ہیں۔
اتر پردیش کے بعد دہلی کے ہزاروں ان مسلمانوں کو کوئی نہیں روک رہا جو گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں، ان بےسہارا عورتوں کو کوئی تحفظ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے بیٹوں کو کوئی یقین نہیں دلا رہا کہ ان کو اب زندہ نہیں جلایا جائے گا۔ ان کے شیرخوار بچوں کو کوئی یہ تسلی نہیں دے رہا کہ ان کو یتیم نہیں کیا جائے گا۔
عزیزی کو کسی دور کے رشتہ دار سبحان نے پناہ دی جو خود مظفرآباد کے دنگوں کے دوران بےگھر ہوگئے ہیں اور غازی آباد کے اس علاقے میں رہتے ہیں جو اتر پردیش میں شامل ہے۔ سبحان کہتے ہیں کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ نے مسلمانوں کو بےروزگار اور بےگھر کرنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے، اس پر کس نے اب تک بات کی جو اب دہلی کی خون ریزی پر کریں گے۔
’ہندوستان کے 22 کروڑ مسلمانوں پر مودی کی شکل میں قہر نازل ہوا ہے، جس کی شروعات 2002 میں شروع ہوئی۔ ہر روز دو چار مسلمان ہندو دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ مسلمان مملکتیں اپنے ملکوں میں ہندوؤں کو نوکریوں پر رکھتے ہیں اور مودی کی سرکار مسلمانوں کا قتل عام، بےگھر، بےروزگار اور اب شہریت سے بےدخل کرتی جا رہی ہے۔ کون ہے جو ہماری بےبسی پر بات کرے۔ ہمیں دو ہی راستے نظر آ رہے ہیں یا خاموشی سے ان کے غلام بن جائیں یا ان کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو جائیں۔ اب کوئی تیسرا راستہ نہیں۔‘
چند روز جاری رہنے والی دہشت گردی کی وجہ سے 50 سے زائد افراد ہلاک، 92 مکان، 60 دکانیں، 500 گاڑیاں، چھ گودام، دو سکول اور چار مسجدیں جل کر خاکستر ہو چکی ہیں اور ایک ہزار کروڑ بھارتی روپوں کے برابر نقصان ہوا۔ ہزاروں مسلمان اب سکھ گوردواروں یا کلیساؤں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
دہلی میں انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کے مطابق ’حالیہ قتل وغارت گری ہندوتوا کی بڑی فلم کا محض ٹریلر تھا۔ اصلی فلم مغربی بنگال، حیدرآباد اور ممبئی میں شروع ہونے والی ہے جہاں غیر بی جے پی سیاست دانوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانا ہے اور مسلمانوں کو بھارت میں سرے سے نیست و نابود کرنا ہندوتوا ایجنڈا کا آخری حصہ ہے۔‘
اتنی بربریت اور خون ریزی پر افسوس کے دو الفاظ بولنےکی بجائے جب وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس کے کارن ہولی نہیں منائیں گے تو کیا یہ سمجھنا کافی نہیں کہ انہوں نے خود کو ایک بار پھر ہندو وزیر اعظم جتا کر مسلمانوں کو پس پردہ واضح پیغام دیا ہے؟