فاخر
محفلین
آپ جانتے ہیں ؛لیکن پھر بھی تعجب کا اظہا رکررہے ہیں ۔ گاندھی کا نظریہ سکولر تھا اس میں کوئی شک نہیں ؛لیکن اسی کے برعکس ہیڈ گوار Keshav Baliram Hedgewar اور ساورکر جیسے لوگوں کا نظریہ سیکولر نہیں تھا۔ اس لیے ایک ایسی تنظیم کی بنا ڈالی گئی جو صرف اور صرف اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھا کرتی تھی، جس کو آج کے وقت میں ’’آر ایس ایس‘‘ کہتے ہیں۔ اسی آر ایس ایس نے مذہب کے نام کی سیاست کرنا شروع کردی۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں، وہ تمام مسلم مخالف فسادات ہی ہیں سوائے سکھ مخالف فساد کے ۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش اور تڑکا آر ایس ایس کی خرافات کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے آر ای ایس نے جن سنگھ نامی سیاسی پارٹی تشکیل دی، جس پر پابندی لگادی گئی، پھر بی جے پی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ جس کے تحت یہ بھی کہا جارہاہے کہ کانگریس نے اس پارٹی کے قیام میں بھرپور مدد کی ۔ اپنے کئی قدآور لیڈران کو استعفیٰ دلوا کر بی جے پی میں شامل کرایا ۔ پھر بی جے پی نے مذہب کی سیاست کا تڑکہ لگایا جو آج یہ مذہب کی سیاست کا پودا تناور درخت بن گیا ہے۔اسکی سیاست میں مذہب کی اتنی شدید آمیزش کیسے ممکن ہوئی؟ کیا بھارت کی سپریم کورٹ لمبی تان کر سو رہی ہے؟ بھارت کے سیکولر آئین کا دفاع کرنا کس کا کام ہے؟
رہی بات عدالتِ عظمیٰ کے ’’لمبی تان کر سونے کی‘‘ ۔ تو اب عدالتِ عظمیٰ کا نام باقی رہ گیا ہے۔ کئی فیصلے ایسے آئے ہیں جس سے اس کی شفافیت پر اب انگلی اٹھنے لگی ہے،بالخصوص مسلم مسائل کے تئیں عدالتِ عظمیٰ کاکردار بہت حد تک مشتبہ ہوچکا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا شرمندگی کی بات ہوسکتی ہے کہ :’ اقوام متحدہ کے سفیر نئے شہریت ترمیمی قانون کیخلاف بھارت آکر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کررہے ہیں ؛لیکن اس معاملہ میں از خود نوٹس لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مرلی دھر نے دہلی فساد کے معاملہ پر رات کے بارہ بجے کے قریب اپنے گھر پر سماعت کرتے ہوئے حکام کیخلاف سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اشتعال انگیز بیانات کے مرتکب ہیں ان کیخلاف فوراً کاروائی کرتے ہوئے آیف آئی آر درج کیا جائے ۔ بیچارے جسٹس مرلی دھر نے رات میں یہ حکم دیا ؛لیکن اگلے ہی شب صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ ان کا تبادلہ پنجاب ہائی کورٹ کردیا گیا۔