بھولی بسری یادیں،!!!!!!

بھولی بسری یادیں،21 - بچپن اور سیکنڈری اسکول میں نئے دوست

دل میں ایک بہت خوشی تھی کہ اب میں نئے اسکو ل میں جاؤنگا اور والد صاحب بھی میرے اس نتیجہ کی وجہ سے بہت خوش تھے، چھوٹے بہن اور بھائی تو ابھی پرائمری میں چھوٹی کلاسوں میں ھی تھے والد صاحب مجھے سیکنڈری اسکول لے گئے اور وھاں دو تین دن کی تگ و دو کے بعد میرا ٹیسٹ ھوا اور میرا داخلہ چھٹی کلاس میں ھوگیا، مجھے بہت خوشی ھوئی،

1960 کا زمانہ اور10 سال کی عمر، ایک نیا اسکول، نئی کلاس، اور نئے دوست !!!!!!



آج میرا چھٹی کلاس میں ایک نئے سیکنڈری اسکول میں پہلا دن تھا، گھر سے اسکول تو کچھ فاصلے پر تھا، لیکن خوشی میں پیدل آتے ھوئے اتنی جلدی اسکول پہنچ گیا کہ پتہ ھی نہیں چلا، پہنچتے ھی اپنے اسکول کی عمارت کی طرف دیکھا تو مجھے ایک فخر سا محسوس ھورھا تھا، کیونکہ ایک تو بہت بڑی ڈبل اسٹوری بلڈنگ اور دوسرے اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت خوبصورت علاقہ میں اس کا وجود تھا، ھر طرف خوبصورت بازار اور سجی سجائی دکانیں اور ساتھ ھی ایک سے ایک حسین بنگلے، اور نذدیک ایک ایرکنڈیشنڈ سینما گھر بھی تھا -

نئے سیکنڈری اسکول میں جاکر تو ایک بالکل ھی نیا ماحول پایا، میں نے اپنی کلاس کے دروازے کے اوپر نام ششم (ب) لکھا دیکھا، کیا ایک عجیب سی خوشی تھی، میں خود کو بھی ایک بڑا بڑا محسوس کر رھا تھا، نیا نیا اسکول کا یونیفارم، قمیض کی جیب پر اسکول کا ایک خوبصورت مونوگرام بنا ھوا، نئے چمکتے کالے جوتے، بار بار ان جوتوں پر سے گرد بھی جھاڑتا رھتا، بچپن سے ایک عادت سی تھی اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی، اس میں میری والدہ کا بہت ہاتھ تھا وہ ھمیشہ ھر شام کو میری اسکول کی تیاری مثلاً یونیفارم، جوتے وغیرہ کو اچھی طرح پہلے سے ھی چیک کرلیتی تھیں اور میں بھی ٹایم ٹیبل کے مطابق دوسرے دن کیلئے اپنے اسکول کے بستے کو تیار کرلیتا تھا -

کلاس روم کی کرسیاں اور میزیں بھی ایک ترتیب سے چار لاٰئنوں میں لگی ھوئی تھیں، وہاں اسکول بلڈنگ کے درمیان ایک خوبصورت سرسبز پارک بھی تھا، غرض کہ اسکول کی ھر چیز بجھے اچھی لگی، ایک اچھی بات تھی کہ لڑکوں کے اسکول کا وقت دوپہر ایک بجے سے شروع ھوتا تھا اور لڑکیوں کو صبح صبح سات بجے کے قریب پہنچنا ھوتا تھا - اسلول کی بلڈنگ کے چاروں طرف ایک بہت لمبی چوڑی باونڈری وال تھی، جہاں ایک طرف کافی پھیلا ھوا صاف ستھرا میدان تھا جہاں ھاف ٹائم میں یا پی ٹی کے پیریڈ میں لڑکے مختلف کھیلوں سے لطف اندوز ھوتے تھے،

میں نے اس اسکول میں کافی محنت سے پڑھائی کی یہاں پانچ سال کا عرصہ ایک مستقل مزاجی سے اور خوب محنت کرکے گزارا اور میٹرک سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا، جو میرا ایک رکارڈ رھا تھا کہ ایک ھی اسکول میں خوب دل لگا کر محنت سے 1960 سے لیکر 1965 تک بغیر کسی وقفہ یا کسی مشکل کے، پورے پانچ سال اطمنان سے پورے کئے کچھ تھوڑی بہت شرارتوں کا بھی ساتھ رھا لیکن وہ قابل قبول تھا -

ان پانچ سالوں میں 10 سال کی عمر سے لیکر 15 سال کی عمر تک کس طرح میں نے اپنی زندگی کا سفر طے کیا، بچپن سے لڑکپن کی طرف میری زندگی نے کیا کیا دلچسپ موڑ لئے، وہ سب اگے لکھوں گا، مگر ھو سکتا ھے کہ وقت اور تاریخ کا صحیح اندازہ نہ ھو کیونکہ ذھن میں تو سب کچھ اچھی طرح محفوظ ھے، لیکن حالات اور واقعات کا صحیح وقت کا تعین کرنا ذرا مشکل ھوگا، میں اپنی کوشش ضرور کرونگا کہ ایک بہتر اور صحیح تسلسل کو قائم رکھ سکوں !!!!!!!!!!!!!
پوچھتے پوچھتے جب اپنی نئی کلاس میں جیسے ھی اندر داخل ھوا، کیا دیکھتا ھوں کہ آگے کی تمام سیٹوں پر پہلے ھی سے لڑکوں نے قبضہ کیا ھوا تھا اور زیادہ تر بھاری بھرکم، شاید کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، اس لئے بغیر کچھ شکوہ کئے میں خاموشی سے پیچھے نکل گیا اور ایک مجھ جیسے ھی دبلے پتلے لڑکے کے اشارہ پر اسکے ساتھ بیٹھ گیا، اور وہ ھی وہاں پر میرا پہلا دوست بنا، ایک ایک ڈیسک پر تین لڑکے ایک ساتھ بیٹھنے کی گنجائش تھی، پھر ایک اور معصوم سا لڑکا ھماری ھی طرح چشمہ لگائے کلاس میں داخل ھوا، وہ بھی اگے جگہ نہ پا کر پیچھے ھماری ھی طرف آتا ھوا دکھائی دیا، اسے بھی ھم نے اشارہ کرکے اپنے پاس ھی جگہ دے دی -

مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ ھم تینوں کی ڈیسک سب سے پیچھے تھی اور سامنے بلیک بورڈ بھی صحیح طرح نطر بھی نھیں آرھا تھا، جو چشمے والا دوست تھا اسے بھی نظر نہیں آرھا تھا تو ھم دونوں کو کیا نظر آتا، خیر کچھ ھی دیر میں کلاس ٹیچر، جن سے پہلے ھی والد صاحب کے ساتھ ایک چھوٹا سا تعارف بھی ھوچکا تھا، جناب شیخ سعید صاحب ایک گریں سا گؤن پہنے اندر تشریف لے آئے، فوراً تمام کلاس کھڑی ھوگئی، انہون نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سب سے پہلے انہوں نے حاضری لی او پھر باری باری پوری کلاس کا تعارف لیا ساتھ ھی اپنا بھی مختصراً تعارف کرایا، لمبے سے قد اور سر کے اوپر آگے سے کچھ گنجا پن، مگر لگتے ھنس مکھ تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اپنا تعارف کرایا ھم سب بہت خوش تھے، وہ کلاس ٹیچر کے ساتھ انگلش کے شعبہ سے بھی تعلق رکھتے تھے -

ھر ایک گھنٹے کے بعد ایک نئے مضمون کے ٹیچرز آتے گئے اور سب کے ساتھ اپنا بھی تعارف کراتے رھے، ھمیں اپنے حساب سے ایک اردو کے ٹیچر جن کا نام حسبٌر صاحب اور ایک تاریخ کے ٹیچر جنہیں شاہ صاحب کہتے تھے، دونوں بھی کلاس ٹیچر سعید صاحب کے بعد بہت زیادہ پسند آئے، کیونکہ یہ تینوں بہت زیادہ لڑکوں میں گھل مل جاتے اور ھنس ھنس کر باتیں کرتے تھے، باقی کچھ زیادہ تاثر نہ چھوڑ سکے، دو تین تو بالکل خرانٹ لگتے تھے اور کچھ تو بس نہ اچھے لگے اور نہ ھی برے بس درمانے سے تھے،

بیچ میں ایک وقفہ آدھے گھنٹہ کا بھی ھوا، جس میں ھم تینوں دوستوں نے باھر جاکر اپنی اپنی پسند کی چیزیں لیں اور اسکول کے گارڈن میں بیٹھ کر اپنا اپنا تفصیلی تعارف کرانے لگے !!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،22 - بچپن اور سیکنڈری اسکول کی نئی رونقیں:

بیچ میں ایک وقفہ آدھے گھنٹہ کا بھی ھوا، جس میں ھم تینوں دوستوں نے باھر جاکر اپنی اپنی پسند کی چیزیں لیں اور اسکول کے گارڈن میں بیٹھ کر اپنا اپنا تفصیلی تعارف کرانے لگے !!!!!!!!!!!!!!!!!

اب تو ھم تینوں بہت خوش تھے، کیونکہ ھم اب ایک ساتھ ایک ھی ڈیسک پر ایک لائن میں ھی بیٹھتے تھے، اور اتفاق سے ھم تینوں ایک ھم عمر بھی تھے، اسکول ساتھ آنا، ساتھ اسکول میں ھی کھیلنا اور ساتھ ھی ھاف ٹائم میں ایک دوسرے کا ساتھ کھانا پینا اور واپسی میں بھی ساتھ ساتھ رھتا تھا، ایک کا نام شاھد لطیف اور دوسرے کا نام انجم عارف تھا، بعد میں ھمارے ساتھ اور بھی اچھے دوستوں کا اضافہ ھوا جن کا نام کنور آفتاب احمد، فخرعالم، پرویز حمایت، حسیب بیگ، شعیب احمد، حفیط اللٌہ، بدرالمغیز، قابل ذکر ھیں، افسوس اس بات کا ھے کہ کچھ نے تو ھمارا ساتھ آٹھویں کلاس میں پہنچنے سے پہلے ھی چھوڑ دیا تھا اور کچھ ویسے ھی نویں کلاس میں اختیاری مضامین کے جوائن کرنے کی وجہ سے بھی کلاسیں الگ الگ ھوگئی، اور جو دو تیں اچھے دوست رہ بھی گئے تھے وہ بھی میٹرک کرنے کے بعد ایسے غائب ھوئے کہ آج تک مجھے ان سے ملنے کا شدید ارمان ھی رھا ھے، کچھ پرانے دوست ملے بھی لیکن بس کچھ شادی کے بعد اتنی کسی کو فرصت ھی نہ ملی کہ ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے، لیکن آگے کالجوں اور سروس کے بعد دوست بنے بھی اور بجھڑتے بھی رھے، لیکن جب بھی کسی وقت کا کوئی پرانا ساتھی ملتا ھے تو بہت ھی خوشی ھوتی ھے اور قلبی سکون ملتا ھے -

بہرحال اس اسکول میں آخر تک بہت ھی بہتریں دن گزارے، اس اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں کی انتظامیہ بہت بہتر طریقہ سے طالب علموں کو بہتر پڑھائی اور بہتر سے بہتر تفریحات بھی فراھم کرتی تھی، دو چار کے علاؤہ باقی تمام ٹیچرز بہت زیادہ خوش مزاج ساتھ ھی پڑھانے کےبہترین ماھروں میں سے تھے، ان سب کے پڑھانے کا انداز اتنا شاندار ھوتا تھا کہ دل نہیں چاھتا تھا کوئی بھی ان کی کوئی کلاس مس کردیں اور انکا پڑھایا ھوا سبق ھم کبھی نہیں بھولتے تھے -

اور ھر اسلامی تہواروں کے لئے خاص طور سے انتظام کیا جاتا تھا اور عید میلادالنبی کیلئے تو بہت ھی شاندار اور بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا، بڑے بڑے عالم اور مشھور نعت خواں کے علاوہ اسکول سے بھی لڑکوں کو پڑھنے کی دعوت دی جاتی تھی اور مہمان خصوصی بھی آکر بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے -

اس کے علاوہ اس اسکول کی انتظامیہ تفریحات کا ساتھ ساتھ مختلف مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے قابل لڑکوں اور لڑکیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھی اور ھر ضرورت بھی ساتھ پوری کرتے تھے۔ ھر قومی دن پر مارچ پاسٹ کی سلامی کیلئے سب کو تیاری کے ساتھ بھیجا جاتا تھا اسکول کا اپنا بینڈ گروپ بھی تھا، جو مارچ پاسٹ کے وقت سب سے آگے اپنے اسکول کی نمایندگی میوزک کے ساتھ سلامی کے چبوترے کا سامنے سلامی دیتے ھوئے گرر رھا ھوتا تھا، کیا خوبصورت اسپیشل یونیفانم تیار کئے جاتے تھے، لڑکیوں کا گروپ الگ ھی ھوتا تھا، اور اگر کسی باھر ملک سے کوئی سربراہ آتا تھا تو ھمیں مکمل بینڈ کے ساتھ سڑک کے کنارے اپنے ملک کی جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی جھنڈیوں کو تھما کر آنے والے کے استقبال کیلئے کھڑا کردیا جاتا تھا، اور اس وقت تمام سربراہان اوپر سے کھلی لمبی کار میں آتے تھے، اور ھاتھ ہلا ہلا کر سب کو سلامی کا جواب دیتے تھے، بہت خوبصورت اور حسین منظر لگتا تھا، اس وقت مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ کھلی کار میں ھم سب نے اپنے سامنے کئی دفعہ صدر فیلڈ مارشل جرنل ایوب خاں کے ساتھ تقریبا ھر ملک کے سربراہان کو دیکھا، کبھی کبھی تو وہ اپنے مہمان کے ساتھ کار رکوا کر ھم سے ھاتھ ملانے اور شکریہ ادا کرنے آجاتے تھے، اس وقت کتنی خوشی ھوتی تھی کہ ایک ملک کا صدر بالکل ھمارے روبرو کھڑے ھو کر ھم سب سے مل رھے ھیں اور ساتھ دوسرے ملک کے سربراہ بھی ساتھ ھوتے تھے،

ھمیں کیا ھر اسکول کو پہلے ھی سے اظلاع دے دی جاتی تھی کہ ھم نے مین روڈ پر استقبال کےلئے جانا ھے کوئی جگہ بھی خالی نہیں رھتی تھی، تمام سڑکوں پر رنگ برنگی جھنڈیاں لئے چھوٹے بڑے اپنے ملک میں آنے والوں کا عظیم الشان استقبال کرتے نظر آتے تھے-
 
بھولی بسری یادیں،23 - بچپن اور اپنے محلے کی روایات،!!!!!!!!

ھمیں کیا ھر اسکول کو پہلے ھی سے اظلاع دے دی جاتی تھی کہ ھم نے مین روڈ پر استقبال کےلئے جانا ھے کوئی جگہ بھی خالی نہیں رھتی تھی، تمام سڑکوں پر رنگ برنگی جھنڈیاں لئے چھوٹے بڑے اپنے ملک میں آنے والوں کا عظیم الشان استقبال کرتے نظر آتے تھے-

اب کچھ تھوڑا ذرا اسکول کے بعد محلے کے یک جہتی اور رھن سہن کے بارے میں کچھ روشنی ڈال لیں تاکہ کچھ تو ھم اس وقت اور اس زمانے کی اچھائیوں سے سبق لے سکیں، اس وقت بھی انسان ھی تھے اور آج بھی ھم وہی ھیں، ھم کیوں نہیں اچھے بن سکتے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کیوں نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کی کیوں مدد نہیں کرسکتے، پہلے تو فقیر بھی ایک دوسرے فقیر کی مدد کیا کرتے تھے جبکہ اس وقت تو اتنے وسائل اور سہولتیں بھی موجود نہیں تھیں -

اُس وقت کہ لحاظ سے یہ بہت بڑی بات تھی کہ ھمارے لئے ایک ذرا سی خوشی بھی بہت معنی رکھتی تھی اگر ایک پل بھی اگر چھوٹی سی خوشی کا مل جائے تو وہ اپنے حصٌہ کی خوشی بھی لوگوں میں بانٹتے پھرتے تھے، ھم تو پورے محلے کو آطلاع دے دیتے تھے کہ کل بڑے مین روڈ سے صبح 10 بجے صدر صاحب فلانے ملک کے بادشاہ کے ساتھ کھلی کار میں گزریں گے اور ھمارا اسکول کا بینڈ، اسکاوٹس اور کیڈٹس کے ساتھ تمام اسکول وھاں پر موجود ھوگا - ھمارے سے پہلے ھی تمام محلے کے بچے اور بڑے یہاں تک کہ ضعیف لوگ بھی سڑک پر بن سنور کر پہنچ جاتے اور بازار سے جھنڈیاں بھی اپنے پاس سے خرید کر پہنچ جاتے، جیسے کے کسی میلے میں جارھے ھوں -

چاھے کہیں میلہ لگا ھو، یا کہیں جشن عید میلاد النبی کی تقریب ھو، یا کہیں پر کوئی کسی قوالیوں کا مقابلہ ھو، یا کوئی جلسہ جلوس ھو، ھر کوئی یہی چاھتا تھا کہ یہ خبر سب سے پہلے محلے میں جاکر ھر گھر میں اعلان کرادے، اور وقت سے پہلے سب لوگ ایک دوسرے کو اکھٹا کرکےجوق در جوق، ھر محلے سے اکثریت میں پہنچ جاتے تھے، اس کے علاوہ عید اور بقرعید پر ھر خوشیاں ایک ساتھ بانٹتے تھے کوئی بھی فرقہ واریت یا تعصبیت کی کوئی وباء نہیں تھی، محرم کے مہینے میں ھر طبقے کے لوگ جوق در جوق جلسے اور جلوسوں میں اکثریت سے احترام اور ادب کے ساتھ شریک ھوتے تھے اور شہر میں بڑی بڑی بلڈنگوں میں رھنےوالے بھی اپنی اپنی چھتیں فیملیوں کے لئے کھول دیتے تھے اور عورتیں اور بچے آرام سے عَلم اور تعزیئے، زولجناح اور سوگواروں کے جلوسوں کو بہت احترام اور عقیدت سے دیکھا کرتے، پورے پورے محلے ان دنوں خالی ھو جایا کرتے تھے،

آپ اگر مساجد میں نمازیوں کی بات کریں تو، میری ذاتی مشاھدات میں جو بات ھے وہ یہ کہ ھمارے محلے کی اس چھوٹی سی مسجد میں تقریباً ھر نماز میں تمام محلے کے تمام مرد حضرات اور ساتھ بچے بھی باجماعت شامل ھوتے تھے اگر کوئی کسی وجہ سے حاضر نہیں ھوتا تھا تو نماز کے بعد لوگ اس کے گھر جاکر اسکی خیریت بھی دریافت کرتے تھے، ھم بچے چھوٹے بڑے سب سے پہلے مسجد جاکر وضو کرکے نماز کےلئے تیار ھوتے تھے، کچھ تو وہیں کے مولوی صاحب سے قران کا درس اور اسلامی تعلیم لیا کرتے تھے فجر کے بعد ھر نماز سے پہلے اور بعد مسجد کے مولانا صاحب بچوں کو شیڈول کے مطابق درس دیا کرتے تھے اور مولوی صاحب کو تمام محلے والے مل کر ایک جگہ ایمانداری سے چندہ جمع کرکے اس میں سے ھر ماہ کچھ نہ کچھ انکے گزارے کیلئے دیا کرتے تھے، جو بچ جاتا تھا وہ مسجد کی اصلاح اور ضرورت کی چیزیں خریدی جاتی تھیں، اس کے علاوہ تینوں وقت کا کھانا کسی نہ کسی گھر سے پہنچ جاتا تھا اور ھر بچوں کے ختم قران کی تقریب اور عید بقر عیدکے موقع پر مولانا صاحب کے لئے کپڑوں‌ کےجوڑے بھی پہنچ جاتے تھے، اس وقت مولانا صاحب کی بہت عزت ھوتی تھی،

محلے کی صفائی اور فلاح و بہبود کے لئے بھی بڑے بڑے بزرگ مل کر تمام فیصلے کرتے تھے، آپس کے جھگڑے وہیں پر ختم کردیتے تھے اور کسی کو بھی ان بزرگوں کے کسی بھی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ھوتا تھا کیونکہ ھر کوئی تمام بزرگوں کا تہہ دل سے احترام کرتا تھا -

ھمارے گھر کا صحن کچھ بڑا تھا اس لئے اکثر کسی کے ھاں اگر کوئی تقریب ھو تو اسکا اھتمام ھمارے صحن میں ھوتا تھا اور والد صاحب زیادہ تر لوگوں کے ساتھ مل کر ھر تقریب کی رونق بڑھا دیتے تھے، آج تک اس محلے میں جو لوگ ھیں سب والد صاحب کو بہت یاد کرتیے ھیں، یہ سب کچھ ھمارے محلے کا ھی حال نہیں تھا اُس وقت پاکستان کے ھر محلے کی یہی حالت تھی اگر آپ میں سے کوئی بھی اپنے بزرگوں سے پوچھے تو میرے اس ذکر کو وہ 100٪ صحیح قبول کریں گے،

مہمانداری کے حساب سے اگر دیکھا جائے، تو ھر کسی کا مہمان پورے محلے کا مہمان ھوتا تھا اور کئی کئی دن تک مہمان ٹھرا کرتے لیکن کسی ایک کا بوجھ نہیں بنتے تھے وہ مہمان تقریباً ھر گھر کا ایک یا دو وقت کے کھانے پر مدعو ضرور ھوتا تھا، اور مجھے تو اگر کوئی گھر پر مہمان آئے تو کچھ زیادہ ھی خوشی ھوتی تھی اور والد صاحب تو اکثر کہتے تھے کہ مہمان اللٌہ کی رحمت ھوتا ھے اور مہمان کے آنے سے گھر میں برکت ھوتی ھے، اور یہ بھی ان کی زبانی سنا کرتے تھے کہ کسی بزرگ کے پاس ھر روز کھانے پر کوئی نہ کوئی مہمان ضرور ھوتا تھا کبھی کوئی مہمان ساتھ نہیں ھوتا تو ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی رزق میں کمی نہ ھوجائے، یہی حال سب کا اس وقت یھی خواھش ھوتی تھی کہ ان کے ساتھ کھانے پر کوئی نہ کوئی مہمان ضرور ھو اور لوگ بھی مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے،

اس زمانے میں لوگوں میں فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق ھوتا تھا اور ھر ملٹری کے علاقے میں ھر ھفتہ کی رات کو 4 آنے فی کس کے حساب سے ایک اردو یا پنجابی فلم ضرور دکھاتے تھے، اُس وقت کی فلمیں بہت ھی سلجھی ھوئی، اور سبق آموز، مگر بلیک اینڈ وہائٹ ھوتی تھیں، اور لوگوں کے پاس ان چیزوں کے علاوہ کوئی اورتفریح بھی نہیں تھی، ٹیلیوژن تو دور کی بات ھے، ریڈیو تک لوگوں کے پاس نہیں ھوتا تھا، کئی لوگ تو اس وقت بھی ریڈیو کے ڈراموں اور فلموں کے بارے میں بہت برا کہتے تھے اور فلمیں دیکھنے اور ریڈیو سننے پر بہت اعتراض بھی کرتے تھے اور حرام قرار دیتے تھے، لیکن دیکھنے والے ضرور دیکھتے تھے اس میں ھماری فیملی بھی شامل تھی اور ھم بھی والدیں کے ساتھ مہینے میں ایک دفعہ ضرور فلم دیکھنے ملٹری کے علاقہ میں جاتے تھے،!!!!!

اس کہانی کے سلسلے میں آپ اپنی اچھی یا بُری جو بھی رائے ھو، بلا جھجک دے سکتے ھیں تاکہ میں اپنی تحریر کو اپنے پڑھنے والوں اور قدردان دوستوں کے مشوروں کے مطابق کچھ کہانی کی ترتیب میں یا کسی درستگی کے لئے کوئی تبدیلی لاسکوں تو مجھے بہت خوشی ھوگی!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،24 - بچپن، اسکول اور میرا یادگار محلہ،!!!!!

اس زمانے میں لوگوں میں فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق ھوتا تھا اور ھر ملٹری کے علاقے میں ھر ھفتہ کی رات کو 4 آنے فی کس کے حساب سے ایک اردو یا پنجابی فلم ضرور دکھاتے تھے، اُس وقت کی فلمیں بہت ھی سلجھی ھوئی، اور سبق آموز، مگر بلیک اینڈ وہائٹ ھوتی تھیں، اور لوگوں کے پاس ان چیزوں کے علاوہ کوئی اورتفریح بھی نہیں تھی، ٹیلیوژن تو دور کی بات ھے، ریڈیو تک لوگوں کے پاس نہیں ھوتا تھا، کئی لوگ تو اس وقت بھی ریڈیو کے ڈراموں اور فلموں کے بارے میں بہت برا کہتے تھے اور فلمیں دیکھنے اور ریڈیو سننے پر بہت اعتراض بھی کرتے تھے اور حرام قرار دیتے تھے، لیکن دیکھنے والے ضرور دیکھتے تھے اس میں ھماری فیملی بھی شامل تھی اور ھم بھی والدیں کے ساتھ مہینے میں ایک دفعہ ضرور فلم دیکھنے ملٹری کے علاقہ میں جاتے تھے،!!!!!

مجھے بہت ھی زیادہ خوشی ھورھی تھی، جب ایک نئے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر 2 سے اپنی چھٹی جماعت کا پہلا دن گزار کر آرھا تھا، کافی لمبا راستہ تھا، جلدی جلدی خوشی سے اپنے قدم بڑھا رھا تھا، کچھ دیر تک تو میرے نئے دوستوں نے ساتھ دیا، ایک موڑ پر پہنچ کر ایک دوسرے کو اللٌہ حافظ کہا اور سب اپنے اپنے علاقے کی طرف چل دیئے، میں اپنے گلے میں بستہ ٹانگے ھوئے تیز تیز قدم بڑھاتا ھوا اپنے محلے کی طرف قدم بڑھا رھا تھا، فاصلہ تھا کہ ختم ھی نہیں ھورھا تھا، میں چاھتا تھا کہ گھر پہنچوں اور سب کو اپنے اسکول میں گزارا ھوا آج کا پہلا دن کے بارے میں بتاوں،

جیسے ھی گھر پہنچا شام ھوچکی تھی، ھانپتا ھوا، بغیر یونیفارم بدلے ھوئے شروع ھوگیا، ساری اسکول کی شروع سے روداد سنادی، یہ دیکھے بغیر کے گھر میں کون کون ھے، اور میں اتنا خوش تھا کہ بیاں سے باھر ھے، پرائمری کے ایک لمبے سفر سے فارغ ھو کر اب سیکنڈری اسکول میں داخل ھونا بھی میرے لئے ایک فخر کی بات تھی -

وھاں گھر میں والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کے علاوہ بھی ھمارے محلے کی نئی خالہ ابنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ موجود تھیں اور اس طرح میرے چہکنے پر ھنس بھی رھی تھیں، میں نے ایک دم خاموش ھوکر سلام کیا اور بھر باھر نکل گیا تاکہ اپنے دوسرے محلے کے دوستوں کو بھی آج کا واقعہ سناوں، سب کو اکھٹا کیا اور کسی کھیل میں حصہ لینے سے پہلے ھی ساری اسکول میں گزری ھوئی کہانی دھرا دی، سارے بچے بھی بہت انہماک سے سن رھے تھے، جیسے میں کوئی بہت بڑے مشن سے واپس آیا ھوں، میں ھی پہلا لڑکا تھا جس نے اس اسکول میں چھٹی کلاس میں داخلہ لیا تھا باقی تمام محلے کے بچے پرائمری اسکول سے ابتک فارغ نہیں ھوئے تھے اگر کوئی پڑھتے بھی تھے تو وہ بہت بڑے لڑکے تھے جو شاید نویں اور دسویں کلاس میں ھونگے اور ویسے بھی وہ ھماری بچہ پارٹی میں نہیں تھے اس لحاظ سے میں سب کا لیڈر بنا ھوا تھا-

والد صاحب نے وہ دکان جو محلے میں کھولی تھی، مجبوراً انہیں بند کرنی پڑی، کیونکہ ایک تو لوگوں نے لیا ھوا پرانا اب تک ادھار چکایا نہیں تھا دوسرے میرے اسکول کے ٹائم ٹیبل کے حساب سے شام کو دکان کھولنا ممکن نہ تھا، کچھ میں نے بھی دکان سے کافی لوگوں کو بغیر لکھے کافی ادھار دیا ھوا تھا اور کچھ چند لوگ زیادہ تر عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ مجھے بے وقوف بنا کر یا اپنی دکھ بھری داستان سنا کر مجھ سے ادھار سودا لے جاتیں اور میں اباجی کے ڈر سے رجسٹر میں لکھتا ھی نہیں تھا، اور واقعی بہت سے لوگ بہت ھی زیادہ غریب تھے اور ان میں زیادہ تر کا عیسائی مذہب سے تعلق تھا جنکا ھمارے محلے کے ساتھ ھی مگر ایک الگ سے آبادی تھی، اور ھم سب مسلمان بھی ان سب کا ھر لحاظ سے خیال بھی رکھتے تھے -

بہرحال یہ اچھا ھی ھوا کہ اس سے پہلے کہ کوئی زیادہ نقصان ھوتا اباجی نے مکمل طور سے دکان کو خیرباد کہہ دیا مگر اپنا ادھار وصول کرنے ھر پہلی تاریخ کے آتے ھی رجستر اٹھائے ادھار والوں کا دروازہ کھٹکھٹانے ضرور پہنچ جاتے، کچھ لوگوں سے تو ادھار وصول بھی ھوگیا لیکن باقی کا خود اباجی نے بعد میں تنگ آکر میرے خیال میں یا تو معاف کردیا یا شاید بھول ھی گئے اور روزمرہ کے معمول پر آگئے،

اب تو صبح صبح اٹھنے کی اتنی پریشانی نہیں تھی کیونکہ میرے اسکول کا وقت دوپہر کا تھا لیکن ھم سب صبح وقت پر ھی اٹھتے تھے اور والدیں تو فجر کی نماز سے ھی جاگ رھے ھوتے تھے والد صاحب تو قران کی تلاوت میں مصروف رھتے اور کچھ ایک دو حمد و نعت بلند آواز سے پڑھتے تھے اور اڑوس پڑوس کے لوگ بھی بہت شوق سے سنتے تھے بعض تو ان کے سامنے بیٹھ کر بڑے ذوق و شوق سے سنتے، اور ان کا روز کا معمول تھا، فجر کی نماز کے بعد سے دفتر جانے تک، اور انہوں نے اپنی عمر کے آخری وقت تک اپنے اس روز کے معمول کو نہیں چھوڑا اور اکثر گھر کے صحن میں اور مسجد میں بھی میلاد نبی شریف کا باقائدہ اھتمام کراتے تھے اور اس میں تمام محلے کے لوگ شریک ھوتے تھے،اس کے علاوہ عورتیں بھی مل کر ایک الگ سے گھروں میں میلاد شریف کا انتظام کرتی تھیں-

والد صاحب کی ایک نعت ابھی تک میرے کانوں میں گونجتی ھے،

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ٪٪٪ مرادیں غریبوں کی برلانے والا

چھوٹے بہن بھائی صبح کے اسکول میں جاتے تھے، میں چونکہ گھر میں سب سے بڑا تھا اس لئے گھر کے چھوٹے موٹے کام کی ذمہ داری بھی مجھ پر ھی تھی، میرے روز کے معمول میں سے پہلا کام گھر کا سارا پانی بھرنا پڑتا تھا اور پانی کچھ دور کے فاصلے سے لانا پڑتا تھا، محلے کے اور بھی بچے اور بچیاں بھی میری نگرانی میں میرے ساتھ پانی بھرنے جاتے تھے، ایک تو کچھ لوگوں کو مجھ پر بھروسہ بھی تھا اور میں بھی سب کو آوازیں دیتا ھوا نکلتا تھا
اور خالہ کی بڑی بیٹی بھی کبھی کبھار ھمارے ساتھ ھوتی تھیں، جنہیں ھم سب ملکہ باجی کہتے تھے اور ان کی چھوٹی بہن تھی جس کا نام تو شہزادی تھا لیکن ھم سب انہیں زادیہ کے نام سے بلاتے تھے، جب یہ دونوں ھوتی تھیں تو میری اجارہ داری ختم ھوجاتی تھی اور یہ دونوں ھماری لیڈر بن جاتی تھیں - سارے محلے کے بچے ان دونوں سے بہت مرعوب تھے، ساتھ میں بھی، میری تو وہ دونوں بالکل ھی نہیں چلنے دیتی تھیں، وہ بڑی تو پورے محلے کی جگ باجی تھیں-

غرض کہ اسکول بھی چلتا رھا اور محلے کی بھی ھم بچوں نے مل کر رونق لگائی ھوئی تھی، میں سب کے ساتھ گھر کا پانی بھی بھرتا اور محلے کے دوسرے گھروں میں بھی جہاں کوئی بچہ موجود نہیں ھوتا تھا ان کا بھی اپنے دوستوں کی مدد سے ان کے گھر کا پانی بھی بھر دیتا،
اس وقت پانی کو لوگ بہت احتیاط سے استعمال کرتے تھے، کیونکہ اس وقت ھمارے محلے میں کوئی آج کی طرح شاور یا نلکے وغیرہ تو نہیں ھوتے تھے، بالٹیوں اور ڈرموں میں پانی بھر کر رکھتے تھے، اور غسل خانہ میں پانی بالٹیوں میں بھر کر رکھتے اور لوٹے یا مگے سے ضرورت کے مطابق پانی کا استعمال کرتے تھے اور پینے کیلئے کچے مٹی کے گھڑوں کو اونچائی پر ڈھک کر رکھا کرتے تھے اس کا پانی ٹھنڈا اور خوب سوندھی سوندھی خوشبو دار ھوتا تھا اور پینے کا صحیح لطف آتا تھا -

آج میں جب یہ سوچتا ھوں کہ جو وقت اتنی جلدی گزر گیا جیسے گزرا ھوا سب کچھ ایک خواب تھا، پلک جھپکتے ھی عمر تمام ھوگئی، کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ زندگی ایک پانی کے ایک بلبلے کی ظرح ھے، بلبلہ بنتا ھے اور پل بھر میں ختم ھوجاتا ھے، میں بھی پہلے یہ یقین نہیں کرتا تھا، کبھی کبھی سوچتا تھا کہ یہ ھماری زندگی کا سفر کتنا لمبا ھوگا ، شادی ھوگی بچے ھونگے، وہ بڑے ھونگے، انکی شادی کریں گے، کتنا لمبا عرصہ درکار ھوگا، لیکن آج مجھے یہ احساس ھوتا ھے کہ واقعی زندگی کا سفر لگتا تو بہت طویل ھے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو بہت مختصر ھے، !!!!!!!!!!!!!!!!

کبھی کبھی تو میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت انسان سمجھتا ھوں کہ میرے ساتھ زندگی میں کبھی اچھا وقت اور کبھی برا وقت بھی رھا لیکن ان مشکلات سے اللٌہ تعالیٰ نے ھی نجات دلائی اور اور ھمیشہ لوگوں کی نظروں میں ایک عزت بنی رھی، کبھی کبھی میری ھی وجہ سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ضرور ھوئی اور بری مصیبتوں میں بھی گھرا رھا، مگر اللٌہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ھے کہ اس نے مجھے ھر پریشانی سے فوراً چھٹکارا دلایا، یہ سب میری والدہ کی اور بزرگوں کی دعائیں ھی تھیں حالانکہ میں نے شروع میں انکی ممتا کو کئی دفعہ بہت ٹھیس بھی پہنچائی، پھر معافی بھی مانگ کر ان کو گلے لگا کر خوش بھی کرتا رھا اور وہ ھمیشہ میرے لئے روتی ھوئی دعاء کرتی رھیں، وہ سب کچھ شادی سے بہت پہلے کالج کے دور تک، لیکن جب سے پہلی بار نوکری شروع کی اور پہلی تنخواہ ان کے ھاتھ میں رکھی تو مجھے اتنی خوشی اور اتنا سکون ملا کہ میں بیان نہیں کرسکتا، اس کے بعد سے آج تک کبھی بھی ان کا دل دکھانے کی کوشش نہیں کی، چھوٹی موٹی باتیں ضرور ھوئیں ساس اور بہو کے چکر میں، جو ھر گھر میں ھوتا ھے، لیکن زیادہ نہیں !!!! آج بھی جب گھر جاتا ھوں سب سے پہلے ماں کی گود میں اپنا سر رکھ کر روتا ھوں بالکل ایک چھوٹے بچے کی طرح !!!!!!!!!!!!!!!!!

دعاء یہی کرتا ھوں کہ ھر ایک کی ماں کا سایہ ھمیشہ سر پر سلامت رھے !!!!!!!!!!!!!!!!! آمین ٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

ماں کی دعاء اور ٹھنڈی چھاؤں
 
بھولی بسری یادیں،25- بچپن، اور ھماری سادہ زندگی،!!!!

دعاء یہی کرتا ھوں کہ ھر ایک کی ماں کا سایہ ھمیشہ سر پر سلامت رھے !!!!!!!!!!!!!!!!! آمین ٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

ماں کی دعاء اور ٹھنڈی چھاؤں


ان پرانے سادہ اور سہل طور طریقوں میں اپنا ایک سلیقہ حسن، خوشنمائی اور زندگی کا ایک صحیح لطف تھا جو کہ بہت سستا اور دیرپا قائم رھنے کا حامل بھی تھا، ھم بھی زمانے کے دور کے ساتھ اتنی تیری سے بھاگنے لگے کہ اپنی صحیح قدروں، اصولوں اور اپنی روایتوں کے ساتھ ساتھ اپنی اصل پہچان کو بھی پیچھے چھوڑ آئے ھیں -

صرف ایک پانی کی ھی مثال لے لیں کہ پہلے ھم جو پانی دور دور سے اپنے کندھوں پر اور سر پر رکھ کرلاتے تھے تو ھمیں اسکی قدروقیمت کا اندازہ ھوتا تھا، اسی وجہ سے پانی کو ھم اس وقت بہت سنبھال کر اور بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے تھے، آج ھمارے گھروں میں باتھ رومز میں واش بیسن کے ساتھ نہانے کےلئے شاور، فلش کےساتھ دھوتے کے لئے الگ سےشاور، آٹو واشنگ مشینوں اور کچن میں بھی میں سنک کےساتھ دو دو نلکے اور ھر ایک میں ٹھنڈے اور گرم پانی کی دو دو لائنیں، جتنی زیادہ سہولتیں ھیں، اس سے زیادہ اس کا بےقدری اور فضول طریقے سے استعمال کی وجہ سے اس کا بالکل ضیاع ھورھا ھے ،

آج میرے گھر میں بھی اسی طرح پانی کے ساتھ ساتھ دوسری چیزوں کا بھی بےجا استعمال ھے بار بار اسی وجہ سے اکثر میرا اسی بات پر جھگڑا بھی ھوتا رھتا ھے، لیکں نئی نسل ھمیں پرانےخیالات کے لوگ اور بےوقوف سمجھتی ھے وہ کہتے ھیں کہ ھمیں نئی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاھئے آپ لوگ نہ جانے کس دنیا میں رھتے ھیں، مگر میرا جواب یہی ھوتا ھے کہ ھمیں نئی سہولتوں سے فائدہ ضرور اٹھانا چاھئے لیکن اس میں بھی اگر ھم احتیاط کریں تو فضول خرچ سے بچا جاسکتا ھے،

مثلاً پہلے فرد واحد ایک بالٹی پانی سے آرام سے مکمل طور پر آسانی سے غسل کرلیتا تھا لیکن آج ھم شاور ( چھنٌا) کے نیچے خوب مزے سے گنگناتے ھوئے آرام سے دس گنا پانی غسل کرتے ھوئے ضائع کردیتے ھیں، اسکے علاوہ واش بیسن میں تو ھم منہ ھاتھ اس طرح دھوتے ھیں جیسے اباجی نے گھر میں کسی دریا سے مفت کا کنکشن لیا ھوا ھو، اسکے علاوہ برتن اور کپڑے دھوتے وقت تو خواتین بالکل خیال نہیں رکھتیں، نلکوں کو بغیر کسی بریک کے فل کھولے رکھتی ھیں، تاکہ انھیں بار بار نلکوں کو کھولنا اور بند نہ کرنا پڑے، جبکہ ھم خود جانتے ھیں کہ اگر ھم چاھیں تو ایک تھوڑی سی احتیاط کرکے بھی کافی ھر چیز میں بچت کرسکتے ھیں
جس کے ھم سب بھی خود ذمہ دار ھیں، اور ھر ایک چیز کے ضرورت سے زیادہ استعمال کیلئے بھی ھم اوپر جاکر اس کی سزا بھگتیں گے، جسکا کہ ھم سب کو پتہ ھے، لیکن ھم اپنی آنکھیں بند کرلیتے ھیں جیسے کبوتر اپنی آنکھیں‌ بند کرلیتا ھے جب اس پر کسی کے حملے کا خطرہ ھو، کبوتر یہ سمجھتا ھے کہ جیسے اسے آنکھیں بند کرکے کچھ نظر نہیں آرھا تو شاید حملہ کرنے والے کو بھی یہی محسوس ھورھا ھو،

اس وقت جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اس وقت ھماری یا کسی کی بھی والدہ جو زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن وہ آج کل کی پڑھی لکھی خواتیں سے کہیں زیادہ سمجھدار تھیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ جو بھی محدود آمدنی ھے اس کو کس سلیقے سے خرچ کیا جائے کہ اس میں سے کچھ آئندہ کیلئے کچھ بچت بھی ھوجائے، ایک چھوٹی سی مثال صرف کھانے پینے کے حوالے سے، وہ والد کے مشورے سے صرف خشک چیزیں مصالے،چاول، دالیں، آٹا، وغیرہ ضرورت کے مطابق ایک مہینے کیلئے پہلے ھی ایڈوانس میں منگا کر رکھتی تھیں جو تھوک کے بھاؤ والد صاحب لاتے تھے اور بہت ھی سستا پڑتا تھا، باقی روزانہ صرف اس دن کے پکانے کیلئے تازہ چیزیں اتنا ھی منگاتیں، جتنا کہ ضرورت ھوتی تھی -

اب تو روز کے مختلف گھر کے کاموں کی ذمہ داری بھی میرے ھی اُوپر تھی، کیونکہ میرے اسکول کا وقت اب دوپہر کا تھا، روزانہ پہلے پانی بھرنا، پھر گھر کا سودا لانا پھر اسکول وقت قریب ھوجاتا تھا، اور میں اسکول کی تیاری میں لگ جاتا-

گھر کا سودا لانے میں مجھے تقریباً روزانہ آٹھ آنے سے زیادہ نہیں ملتے تھے، اور میں اس میں سے ایک پاؤ قیمہ یا گوشت وہ بھی گائے یا بھینس کا، جو صرف پانچ آنے کا آتا تھا اور ایک آنے کا مصالہ جس میں دو پیاز ھرا دھنیا، پودینا، دو ھری مرچی اور ایک یا دو ٹماٹر اور باقی دو آنے کی اگر کچھ اور سبزی کی ضرورت ھو تو ورنہ وہ بھی مجھے والدہ کو واپس کرنے پڑتے تھے، اس میں سے مجھے صرف دو پیسے اسکول کیلئے ملتے تھے-

ایک پاؤ گوشت یا قیمہ کے ساتھ سبزی یا دال کے ھم سب کیلئے دو وقت کیلئے کافی ھوتا تھا بلکہ اکثر مہمان بھی ھمارے ساتھ شریک ھوتے تھے اور اس میں بھی کافی برکت ھوتی تھی، ایک فایدہ یہ ھوتا تھا کہ تازی چیزیں ھم کھاتے تھے اور ھمیں والدہ ھر ایک کو ضرورت کے مطابق اپنے ھاتھ سے اندازہ کرکے ھر ایک کے پلیٹ میں ڈالتی تھیں،

اگر آج ھم دیکھیں تو ھم خود اندازہ لگا سکتے ھیں کہ کتنا کھانا روز پکتا ھے اور ضائع ھوتا ھے اسکے علاؤہ ڈیپ فریز کیا ھوا ھم کھاتے ھیں، ھمارے اس وقت بھی پیٹ کی گنجائش وھی تھی اور آج بھی وھی ھے بلکہ لوگوں کی پہلے کے وقت میں کچھ زیادہ ھی خوراک ھوا کرتی تھی اور سب خون سیر ھوکر کھاتے تھے-

قیمتوں کو چھوڑ دیں صرف مقدار کو ھی لے لیں، کیا ھم سوچ سکتے ھیں کہ آج ھم ھر چیز کے استعمال میں کتنا اصراف کرتے ھیں اور کتنا ضائع کرتے ھیں،
کیا ھم جانتے ھیں کہ اس کا حساب کس نے، کہاں اور کیسے دینا ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
بھولی بسری یادیں،26- بچپن اور محلے کے لاڈلے کی باجی،!!!!

قیمتوں کو چھوڑ دیں صرف مقدار کو ھی لے لیں، کیا ھم سوچ سکتے ھیں کہ آج ھم ھر چیز کے استعمال میں کتنا اصراف کرتے ھیں اور کتنا ضائع کرتے ھیں،
کیا ھم جانتے ھیں کہ اس کا حساب کس نے، کہاں اور کیسے دینا ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


اب تو میں روز کے معمول میں کافی دلچسپی لینے لگا تھا، بہت شوق سے گھر کا سودا لانے لگا تھا، ایک چھوٹا سا بازار تو تھا لیکن کافی فاصلے پر تھا، کبھی کبھی اپنے کسی دوست کو بھی ساتھ لے لیتا تھا اور محلے کی ھماری دو تیں خالائیں بھی مجھ پر ھی بھروسہ کرتیں، جیسے ھی مجھے جب وہ گھر سے نکلتا دیکھتیں تو دروازوں پر آجاتیں ارے بیٹا ذرا سننا تو میرے لئے آج یہ چیزیں لا دو کوئی تو اچھی خاصی لسٹ پکڑا دیتیں اور کوئی زبانی ھی فرمائیش کردیتیں، مجھے سب کی چیزوں اور پیسوں کا حساب کتاب بھی رکھنا پڑتا تھا، ایک اچھی بات تھی کہ میری اس وقت کی یاداشت بہت اچھی تھی اور سب کچھ مجھے زبانی یاد بھی رھتا تھا کہ کس نے کیا منگایا تھا، کس نے کتنے پیسے دیئے تھے اور کس کو کتنے واپس کرنے تھے،

وھاں پر تمام محلے میں سب کا ایک اکلوتا لاڈلہ تھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ کبھی کسی کے کام کیلئے انکار نہیں کرتا تھا، بعض اوقات تو دوسروں کے چکر میں اپنے گھر کا سودا بھول جاتا تھا، پھر دوبارہ بھاگ کر جاتا اور یاد کرکے سودا لا کر اماں کو دیتا اور اماں ھماری انتطار میں ھی بیٹھی رھتیں کب میں پہنچوں اور وہ کب کھانا پکانا شروع کریں کبھی کبھی دوسروں کی وجہ سے ڈانٹ بھی پڑجاتی تھی اور وہ سیدھا شکایت ھماری ملکہ باجی کو لگا دیتی، بس کیا تھا انہوں نے سیدھا میرا کان پکڑنا اور اپنے گھر لے جاتیں اور خوب ڈانٹتی بھی تھیں، اب تو میری دو امٌائیں ھوگئی تھی -

اب تو بعض اوقات اپنے گھر کے بجائے اپنی منہ بولی باجی سے ھر کام کیلئے اجازت لینی پڑتی تھی، اگر میں نے کوئی ان کی مرضی کے خلاف کام کیا تو میری شامت ھی آجاتی تھی، مگر زادیہ میرے لئے اپنی باجی سے لڑتی تھی اور میری جان بچ جاتی تھی، کبھی تو جیسے ھی میں گھر سے نکلا، پتہ نہیں کہاں سے ان کو پتہ چل جاتا، میں ان کے گھر کے دروازے کے سامنے سے بہت احتیاط کے ساتھ نکلنے کی کوشش بھی کرتا تو فوراً ھی نمودار ھوجاتیں اور بس شروع سوالات پر سوالات کہ کہاں چل دیئے حضور ادھر آئیے بس فوراً انہوں نے میرا کان پکڑا اور گھر کے اندرخوب ڈانٹتیں، اگر میں نے کوئی بہانہ کیا تو وہ اسی وقت تصدیق کرنے مجھے میری اماں کے پاس پہنچ جاتیں، اور اگر میں نے کوئی بہانہ کیا ھوتا تو بس میرے کان اور انکا ھاتھ، وہ اس وقت تک نہیں چھوڑتی تھیں جب تک کہ میں توبہ نہ کرلوں،

اب انہوں نے ھی میرے سدھار کی ذمہ داری لے لی تھی کبھی کبھی تو میں ان کی پابندیوں سے تنگ ھوجاتا تھا اور مشکل یہ تھی کہ ھمارے گھر سے باھر نکلنے کیلئے ان کے گھر کے پاس سے ھو کر جانا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا، کیا کرتا مجبوراً اس ھٹلر باجی کے بغیر اجازت کے جانا مشکل ھوتا تھا جو میرے کھیل کود کے لئے باھر دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں رکاوٹ بنتی تھی، جو بعد میں میرے کیرئیر لئے بہت بہتر ثابت ھوا تھا، لیکن اس وقت مجھے یہ روک ٹوک اچھی نہیں لگتی تھی،

مگر جب مجھے محلے سے کوئی کسی کام کیلئے کہتا تو اسی کام کے بہانے ھی میں باھر بھاگنے کی کوشش کرتا مگر راستے میں جانے کہاں سے وہ کسٹم کی ملکہ مجھے ٹکر جاتی اور بغیر اس کی رضامندی کے مشکل ھوجاتا، اس نے مجھے صرف مجھے چند مخصوص گھروں کے کام کےلئے کبھی منع نہیں کیا جہاں کوئی بڑا لڑکا نہیں تھا، یا اور کوئی مجبوری ھو اور بعض اوقات وہ مجھے ساتھ لےکر بازار جاتی اور میرے ساتھ خریداری میں مدد کراتی، اسی وجہ سے میرے والدیں ملکہ باجی سے بہت خوش تھے کہ اس نے میرا سارا کنٹرول سنبھالا ھوا تھا،

شام کے وقت اسکول سے واپس آکر جب ھاتھ منہ دھو کر تازہ دم ھوجاتا، کچھ دیر کے لئے بہں بھائیوں کو ساتھ لے کر باھر کھیلنے نکلتا، ایک بھائی میرے گود میں بھی ھوتا تھا، میرے باھر نکلتے ھی ھٹلر ملکہ بھی اپنی چھوٹی بہن زادیہ کے ساتھ ھمارا انتظار کررھی ھوتی تھی، اور کچھ بچے بھی اپنے گروپ کے جو ملکہ کی سیلیکشن سے منظور شدہ ھوتے وھی ھمارے گروپ مین شامل ھوسکتے تھے اور ایک بات کی تو داد دینی پڑتی تھی کہ وہ ھم سب کو کھیلوں میں اچھے اور خالص معلوماتی کھیل بھی کھلاتی تھیں اور ھمارے گروپ میں با ادب اور اچھے اخلاق کے بچوں کو ھی داخلہ ملتا تھا، دوسرے گروپ بھی تھا جس میں زیادہ تر شرارتی بچے تھے اور وہ سب ھمارے گروپ سے بہت زیادہ حسد کرتے تھے، لیکن ملکہ باجی کی وجہ سے کوئی بھی نزدیک نہیں آتا تھا، اس لئے تمام بچے ان کے شر سے بچے ھوئے تھے وہ دونوں بھی کسی دوسرے اسکول مین پڑھتی تھیں جس کا وقت میرے اسکول کے مطابق تھا، شاید دونوں چھٹی یا ساتویں کلاس مین ھونگی، مجھے یہ صحیح طرح یاد نہیں،

میری شروع سے فطرت رھی تھی کہ مجھ سے کبھی کسی کے کام کیلئے انکار نہیں ھوتا تھا، جیسے تندور پر سے کسی کیلئے روٹی لگوانی ھی کیوں نہ ھو، اسوقت زیادہ تر تندور کی روٹی زیادہ پسند کرتے تھے، شام کو کھیل کود کے فوراً مغرب کی نماز کے بعد اماں ھماری آٹا گوندھ کر رکھتیں اور ساتھ ایک دو اور جو روٹی پکوانے کیلئے میرے نکلنے سے پہلے ھی آٹا گوندھ کر رھتے تھے، میں اپنے چند مددگار دوستوں کو بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کی اجازت دیتا تھا وہ بھی میرے ساتھ تندور کی طرف چل دیتے تھے، اس وقت ملکہ باجی کو باھر جانے کی اجازت نہیں ھوتی تھی، انکا بھی کبھی کبھی آٹا گوندھا ھوا مجھے لے جانا پڑتا تھا، ورنہ اکثر ان کی اماں توئے پر ھی چپاتی بناتی تھیں،

تندور پر جاکر سب آٹے کے تھال کپڑے ڈھکے ھوئے لائن میں لگا کر ھم سب کھیلنے لگ جاتے، تندور کچھ دوری پر تھا اور ھٹلر ملکہ باجی سے بھی دور کسی روک ٹوک کے مزے سے کھیلتے تھے اور واپس ابک آدھ گھنٹے سے پہلے ھم سب روٹی لگوا کر فارغ ھوجاتے تھے-

ایک دفعہ مجھے بہت دکھ ھوا کہ جب تندور سے روٹیاں لگا کرگھر پہنچا تو اپنی روٹیاں گھر صحن کے پاس ایک چبوترے کے پاس رکھ کر کسی کے گھر انکی روٹیاں پہنچانے گیا تو میں نہ جانے کیوں وھیں سے آگے واپس گھر آنے کے کہیں اور نکل گیا اور اماں کو روٹیوں کے تھال کے بارے مین نہیں کہا اور وھاں ایک چبوترے پر روٹیاں پڑی رھیں اور ادھر ایک ھماری ایک بکری کا بچہ جسے اس سال ھم قربانی کیلئے تیار کرھے تھے اس نے وہ چبوترے پر پڑی ساری روٹیاں کھالیں اور جیسے ھی میں پہنچا وہ آخری روٹی کھا رھا تھا میں گھبرا گیا اب کیا کروں فوراً وہ خالی تھال لے کر تندور کی طرف بھاگا اور وھاں سے روٹیاں خریدیں اور جلدی جلدی واپس آیا اور کسی کو بتائے بغیر اماں کو تھال پکڑا دیا، اور باھر چلا گیا-

واپس آیا تو عشاء کے بعد کھانے کیلئے بیٹھے تو اماں نے پوچھا خاموشی سے پوچھا کہ یہ روٹیاں ھماری تو نہیں لگتی اور میں نے بھی حیرانگی سے کہا ھوسکتا ھے کہ تندور والے نے شاید غلطی سے دوسرے کی روٹیاں رکھ دیں ھونگی، لیکں رات کو سوتے وقت مجھے اپنے اوپر اور بکرے کے اوپر بہت غصہ آرھا تھا-

صبح ھوئی تو اباجی اور دو تیں محلے دار لوگوں کی آوازیں آرھی تھیں میں نے غور سے سنا تو وہ کہ رھے تھے کہ رات کو بکرے نے کیا کھایا تھا جس کی وجہ سے اسکی یہ حالت ھوگئی، میں فوراً بستر چھوڑا اور بھاگ کر باھر آیا تو دیکھا وہی بکرا مجھے دیکھ رھا تھا جیسے میری کسی غلطی کی نشاندھی کررھا تھا، اسکے منہ سے جھاگ سا نکل رھا تھا اور سب یہی کہہ رھے تھے کہ اب اس کا بچنا مشکل ھے -
 
بھولی بسری یادیں،27- بچپن اور ملٹری کا ماحول،!!!!

صبح ھوئی تو اباجی اور دو تیں محلے دار لوگوں کی آوازیں آرھی تھیں میں نے غور سے سنا تو وہ کہہ رھے تھے کہ رات کو بکرے نے کیا کھایا تھا جس کی وجہ سے اسکی یہ حالت ھوگئی، میں نے فوراً بستر چھوڑا اور بھاگ کر باھر آیا تو دیکھا وہی بکرا مجھے دیکھ رھا تھا جیسے میری کسی غلطی کی نشاندھی کررھا تھا، اسکے منہ سے جھاگ سا نکل رھا تھا اور سب یہی کہہ رھے تھے کہ اب اس کا بچنا مشکل ھے -

میرے والد صاحب ایک فوجی تھے اور ان کے ریٹائرمنٹ تک ھم سب نے ملٹری کے ماحول میں ایک اچھا وقت گزارا تھا، اور ھم سب اس ماحول میں اپنے آپ کو محفوظ اور مضبوط سمجھتے تھے،

جیسے ھی اس سے باھر نکلے تو لوگوں کی نفرت اور حسد کی نذر ھوگئے،،،،،،،،،،،،،،،، اور والد صاحب وقت سے پہلے ھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے،!!!!!!

میں اب بھی کبھی کبھی اپی والدہ کو دیکھتا ھوں کہ وہ والد صاحب کے ملٹری دور میں ملے ھوئے میڈل اور تمغوں کو صاف کر رھی ھوتی ھیں اور میں ان کی آنکھوں میں ایک فخر میں چھپی ھوئی چمکتی ھوئی نمی کی جھلک دیکھتا رھتا ھوں، اور مجھے وہ تمام گزارا ھوا بچپن جو ملٹری کی چار دیواری کے اندر گزرا تھا، وہ مجھے یاد آجاتا ھے، اور جب بھی میں پاکستاں چھٹی جاتا ھوں، تو اس پرانے محلے میں ضرور جاتا ھوں جو اب تک تین طرف سے وھی ملٹری کی ایک مضبوط دیوار اپنے شان و شوکت سے پورے محلے کو اپنے آغوش میں لئے ھوئے ھے،

میں اس محلے میں اب جب بھی جاتا ھوں، اس دیوار کو پیار سے دیکھتا ھوا اسکے ساتھ اپنے ھاتھ سے چھوتا ھوا پورے محلے کا ایک چکر لگاتا ھوں، ساتھ ھی اپنے بچپن کو اس دیوار میں ڈھونڈتا ھوں اور مجھے اپنے بچپن کے وقت کی وہ آوازیں اس محلے کا شور سنائی دینے لگتا، کبھی میری ماں کی آوازیں کبھی والد صاحب کی ڈانٹ کبھی ان کا پیار سے پکارنا، دوستوں کا چہچہانا، میرے بہن بھائی کی آوازیں اور میری زندگی کی حسین خوبصورت یادوں کی وہ گنگناہٹ، یہ سب آوازیں مجھے اس دیوار سے ایک ایکو ساونڈ کی طرح میرے کانوں سے ٹکراتیں، اور یہ سب کچھ ایک عقیدت مند کی طرح محسوس کرتا ھوا، اپنی آنکھوں میں ماضی کی یادوں کو لئے واپس آجاتا ھوں،

وہ ملٹری کی دیوار اب تک ویسی ھی ھے مگر محلے میں کافی تبدیلیاں آگئی ھیں، پکے مکان بن گئے ھیں، بجلی، پانی سوئی گیس، اور ٹیلیفوں کی سہولت بھی تقریباً ھر گھر میں ھے، میر گھر جو پہلے تھا اب وہ بھی پکا ھوگیا ھے، اور ھر سہولت ھے، مگر وہ ملٹری کی دیوار اور اس کے کارنر کی دو دیواریں اب تک اسی طرح کھڑی ھیں جو میرے گھر کو دو طرف سے گھیرے ھوئے ھیں اور کارنر میں ابتک وہ پرانا بجلی کا کھمبا ابھی تک ویسے ھی کھڑا ھے جہاں میں کبھی اسکے ٹمٹماتے بلب کے نیچے چارپائی ڈال کر پڑھتا تھا اور کبھی ھمارے اباجی وھاں اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ اپنی چوپال بھی لگاتے تھے، کبھی وھاں پر محلے کے لوگ میلادالنبی کی چھوٹی سی تقریب یا کسی گھرکی شادی کے سلسلے کی کوئی دعوت تقریب، اس دیوار نے میرا مکمل بچپن اور لڑکپن کا سارا دور کا ایک ایک منظر دیکھا ھے، مار بھی اس کے سامنے کھائی ھے اور بہت پیار اور خلوص بھی اسکے سامنے ملا ھے

آج بھی میں کسی فوجی کو وردی میں اپنے سامنے دیکھتا ھوں تو اس فوجی کو سیلوٹ ضرور کرتا ھوں، جیساکہ میرے والد اپنے سے بڑے آفیسر کو دیکھ کر سیلوٹ کرتے تھے،

مجھے اس بات کا بھی فخر ھے کہ اں کے ریزرو فورس میں آنے کے بعد بھی 1965 اور 1971 کی جنگ کے موقع پر انہیں ھم سب بہں بھائیوں والدہ اور محلے کے لوگوں نے فخریہ انداز میں رخصت کیا تھا جب وہ بڑے خوشی سے وردی پہں کر اپنی مکمل کٹ کے ساتھ واگہہ سیکٹر لاھور کے لئے روانہ ھوئے تھے، فوجی وردی میں وہ کیا خوبرو جوان لگتے تھے، اپنے پاک وطن کی ھر پکار پر انہوں نے لبیک کہا تھا !!!!!!

اس وقت بھی میرے آنکھوں میں آنسو بھر آئے ھیں، میں ان کی مخلص شخصیت کو کبھی نہیں بھول سکتا وہ واقعی ایک پرخلوص اور وطن پرست انسان تھے انہوں نے ھمیشہ ھمیں اپنے پیارے وطن سے محبت کرنے کا سبق دیا، مگر مجھے آج تک اس بات کا افسوس ھے کہ میں اتنا بدقسمت تھا کہ اس عظیم انسان کو اپنےایک کاندھے کا سہارا بھی نہ دے سکا کیونکہ میں ان کے انتقال پر ایک مجبوری کی وجہ سے ان کے پاس نہیں تھا، اسی بدنصیبی پر آج تک میں پچھتاتا ھوں!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،28 - بچپن, محلہ اور ملٹری کی دیوار کی آغوش،!!!!!

اس وقت بھی میرے آنکھوں میں آنسو بھر آئے ھیں، میں ان کی مخلص شخصیت کو کبھی نہیں بھول سکتا وہ واقعی ایک پرخلوص اور وطن پرست انسان تھے انہوں نے ھمیشہ ھمیں اپنے پیارے وطن سے محبت کرنے کا سبق دیا، مگر مجھے آج تک اس بات کا افسوس ھے کہ میں اتنا بدقسمت تھا کہ اس عظیم انسان کو اپنےایک کاندھے کا سہارا بھی نہ دے سکا کیونکہ میں ان کے انتقال پر ایک مجبوری کی وجہ سے ان کے پاس نہیں تھا، اسی بدنصیبی پر آج تک میں پچھتاتا ھوں!!!!!!!!!!

آج جب میں اپنی یاداشتوں کے ایک منجمد ذخیرے کی طرف اپنے آپ کو ماضی کے تصورات کی دنیا میں لے جاتا ھوں تو قدرتی وہ یادوں کا منجمد ذخیرہ میری تصوراتی ذہن کے سامنے سے پگھلتا ھوا گزرنے لگتا ھے اور میں اسے اپنے خود ان ہاتھوں سے سمیٹتا ھوا ایک تحریر کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ھوں،

قیمتوں کو چھوڑ دیں صرف مقدار کو ھی لے لیں، کیا ھم سوچ سکتے ھیں کہ آج ھم ھر چیز کے استعمال میں کتنا اصراف کرتے ھیں اور کتنا ضائع کرتے ھیں،
کیا ھم جانتے ھیں کہ اس کا حساب کس نے، کہاں اور کیسے دینا ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ھوں کہ اُس وقت جب اتنے وسائل اور ذرائع نہیں تھے، لوگوں کی اتنی محدود آمدنی تھی، اس کے علاوہ لوگوں میں پڑھے لکھوں کا تناسب بہت کم تھا اور نہ کوئی سیاسی سمجھ بوجھ پائی جاتی تھی، اتنے سادہ لوگ تھے کہ جس نے جیسا کہہ دیا ویسے ھی یقین کرلیا لیکن ان تمام کے باوجود سب لوگ ایک دردمندانہ دل رکھتے تھے، ایک دوسرے کے لئے جان چھڑکنے کیلئے تیار رھتے تھے -

اپنے محلے میں کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا تھا کہ اگر کسی کا بچہ یا کوئی بڑا اگر چھت سے گر جائے یا باھر کوئی کسی قسم کی چوٹ یا کوئی حادثہ ھوجائے، تو یقیں کریں کہ جس کا بھی وہ بچہ یا رشتہ دار ھے، اسے خبر ھی نہیں ھوتی تھی اور وہ کسی نہ کسی کی کوشش اور ھمدردی کی وجہ سے ڈاکٹر یا اسپتال سے فارغ ھوکر گھر پہنچتا تو اسکے گھر والون کو خبر ھوتی تھی، بلکہ وہ مخلص لوگ تو سب کو خبردار کر جاتے تھے کہ اس زخمی بچے یا بڑے کی خبر اس کے گھر میں نہ ھو، چاھے وہ کوئی غیر مسلم ھی کیوں نہ ھو -

آج بھی مجھے اس محلے کی ھر گلی اور ھر در و دیوار سے بہت پیار ھے، جب بھی میں وہاں جاتا ھوں وہ لوگ میری بہت عزت کرتیے ھیں اور میرا تعارف اتنے پیار اور خلوص کے ساتھ، دوسرے لوگوں سے اس طرح کراتے ھیں کہ میں خود بھی شرمندہ ھوجاتا ھوں، وہاں اب جو بھی اسوقت کے لوگ باقی ھیں، ان کا رھن سہن، اخلاق پیار اور ایک دوسرے سے محبت ابھی تک ویسے کا ویسا ھی ھے، گھر کے نقشے بدل گئے لیکن لوگوں کے دل نہیں بدلے، ابھی بھی وھی ملٹری کی دیواروں کے آغوش میں اپنے اس محلے کو ایک مضبوط قلعے کی طرح پناہ دئیے ھوئے ھے، وہاں کی پہلے کی ایک چھوٹی سی لکڑی کی بنی ھوئی پرانی مسجد اب ایک خوبصورت سنگ مرمر کے فرش سے آویزاں کے روپ میں ڈھل چکی ھے، یہ بھی ایک وہاں کے لوگوں کی پرخلوص کاوشوں کا ایک نتیجہ ھے،

آس پاس کا علاقہ بہت ماڈرن ھوچکا ھے،جگہ بڑی بڑی کئی منزلہ عمارتیں بن چکی ھیں اور سڑکیں جو سنگل تھیں آج ڈبل بن چکی ھیں، ریلوے لاٰئنوں کے اوپر بھی ایک نیا خوبصورت سا بہت بڑا پل بن چکا ھے جو آس پاس کے علاقوں کو آپس میں ملاتا ھے، ھر جہاں نزدیک ھی ایک چوراھے پر ایک پارک تھا، جو کبھی میرے دکھوں اور غموں کا ایک غمگسار تھا، وھاں جاکر اکثر میں اکیلا کبھی کسی مشکل میں ھوتا تو وھاں بیٹھ کر سوچتا تھا کبھی مستقبل کے پروگرام بھی بناتا تھا اور وھیں کبھی کبھی سو بھی جاتا تھا وہ چوراھے پر ایک بہت بڑا پلوں کا “فلائی اور“ بن چکا ھے، اب بھی خاص طور پر وھاں اسکے نیچے جاکر میں اپنے اس چوراھے کے باغیچہ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ھوں، جس کی بھینی بھینی خوشبو اب بھی مجھے وھاں جاکر محسوس ھوتی ھے !!!!!!!!!!!!!!

اکثر اپنے اس اسکول کی طرف بھی میں جاتا ھوں اور ان ان راستوں پر جہاں جہاں میرے قدم پڑے ھیں، میں چلتا ھوں اور پہچاننے کی کوشش کرتا ھوں، وہ چھوٹا سا ایک بازار جہاں سے کبھی میں گھر کا اور ساتھ اپنے محلے کا سودا لایا کرتا تھا اب وہ جگی بھی ایک نئے بازار کی جگہ لے چکی ھے، کوئی بھی پرانا جاننے والا اب اس بازار میں نظر نہیں آتا ھے -

سب کچھ بدل چکا ھے لیکن میرا محلہ چند سہولتوں کے اضافہ ساتھ بالکل ویسا ھی ھے، جسے چاروں طرف وھی ملٹری کی دیوار اپنے مضبوط اور محفوظ آغوش میں لئے ھوئے ھے، لوگ اب کچھ سہمے ھوئے سے نطر آتے ھیں کہ اگر یہ ملٹری کی دیوار اگر سرکار نے گرادی تو اس محلہ کا کیا ھوگا، اسے بھی گرادیا جائے گا، اور یہ میری آخری یادوں کا سہارا بھی مجھ سے چھوٹ جائے گا، میں اب اکثر یہ سوچتا ھوں !!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،29- بچپن اور آرٹ ادب سے لگاؤ،!!!!!!


سب کچھ بدل چکا ھے لیکن میرا محلہ چند سہولتوں کے اضافہ ساتھ بالکل ویسا ھی ھے، جسے چاروں طرف وھی ملٹری کی دیوار اپنے مضبوط اور محفوظ آغوش میں لئے ھوئے ھے، لوگ اب کچھ سہمے ھوئے سے نطر آتے ھیں کہ اگر یہ ملٹری کی دیوار اگر سرکار نے گرادی تو اس محلہ کا کیا ھوگا، اسے بھی گرادیا جائے گا، اور یہ میری آخری یادوں کا سہارا بھی مجھ سے چھوٹ جائے گا، میں اب اکثر یہ سوچتا ھوں !!!!!!!


مجھے افسوس بھی ھے کہ مجھے اپنی کہانی کو بڑھانے میں تھوڑی سی کچھ دشواری یوں پیش آرھی ھے کہ بہت سی ایسی نازک ترین یادداشتیں، جو میرے سیکنڈری اسکول کے وقت سے وابستہ اور بہت ھی زیادہ اھم ھیں، ایک تو میں انکا صحیح وقت اور مقام کا اندازہ کر نہیں پا رھا ھوں، کیونکہ اس میں بیک وقت پانچ مختلف کہانیاں ساتھ ھیں اور انہیں مجھے ساتھ لیکر چلتے ھوئے کچھ مسلئے بھی درپیش آرھے ھیں، کچھ کرداروں کو میں سامنے نہیں لانا چاھتا اور جن کو سامنے لانا چاھتا ھوں انکی رسوائیوں سے ڈرتا بھی ھوں،

تیری رسوائیوں سے ڈرتا ھوں، جب تیرے شہر سے گزرتا ھوں

مگر میں آپ سب سے یہ وعدہ کرتا ھوں کہ کسی کو رسوا کئے بغیر یا کسی کی حق تلفی یا ناراض کئے بغیر اپنی کہانی کو نہایت عمدگی سے آگے بڑھانے کی مکمل کوشش کرونگا،

سیکنڈری اسکول میں جب سے مجھے داخل کرایا گیا، تو میں اپنی تمام ماضی میں گزری ھوئی مشکلات اور مصیبتوں‌ کو بھول چکا تھا، کیونکہ اس اسکول میں تقریباً تین سال بعد ایک پڑھنے کا اچھا ماحول ملا تھا، تمام دوست بھی نفیس ترین اور بااخلاق تھے، جیساکہ میں اس سے پہلے بھی تفصیل سے عرض کرچکا ھوں، حالانکہ یہ بھی ایک گورنمنٹ اسکول ھی تھا، لیکن اس کی انتظامیہ کی تعریف بہت دور دور تک تھی اور یہاں داخلہ بھی بہت مشکل سے ملتا تھا، لیکن والد صاحب نے رابطہ کیا ھمارے محلے کے ایک اس اسکول کے سینیئر سابق طالب علم منیر بھائی سے، جو اس وقت کالج میں تھے،اور انکی ھی سفارش پر داخلہ مل گیا تھا ورنہ میرا اپنی قابلیت سے سیلیکشن ھونا بہت ھی مشکل ھی تھا، کیونکہ میرے مارکس کا وہ اسٹینڈرڈ نہیں تھا، جو اس اسکول میں داخلے کیلئے ضروری تھا، اور کچھ ملٹری کے کوٹہ نے بھی اثر دکھایا تھا،

روز کے معمول بہت اچھی طرح چل رھے تھے، ایک طرف اسکول کی پڑھائی اور دوسری طرف محلے کا رھن سہن اور وہاں کا برتاؤ، تیسرے والدین کی عزت، چوتھے محلے کے دوستوں کے ساتھ الگ ایک اپنی محفل اور اللٌہ تعالیٰ کا شکر تھا کہ میں اپنے آپ کو ھر ماحول میں بالکل فٹ پا رھا تھا، یعنی کہ اپنی زندگی کی گاڑی اپنی صحیح رفتار سے دوڑ رھی تھی، اس میں ھماری ملکہ باجی کا بہت زیادہ ھی عمل و دخل تھا وہ سب سے پہلے ھر ایک کو اخلاق کا بہت اچھا سبق دیتیں اور بعد میں دوسری بات کرتی تھیں، اکثر بچے جو کہ گالیاں بہت بکتے تھے اور نازیبا الفاظوں کا استعمال بے شمار کرتے تھے، اب وہ اچھی اور شائستہ زبان بولنے لگے تھے جو لوگ تو تڑاک سے بولتے تھے اب “آپ جناب“ سے بات کرنے لگے تھے، جسے میں پہلے دل میں ھٹلر باجی کہتا تھا اب میرے لئے ایک محترم ھستی کا مقام رکھتی تھیں اور وہ آج تک میرے دل میں انکا وھی مقام ھے،

بچوں میں لڑائی وغیرہ اب بہت کم ھوتی تھی اور اگر ھوتی بھی تو ملکہ باجی کی وجہ سے فوراً ختم ھوجاتی تھی اور محلے کی رونقیں برقرار رھتی ملکہ باجی نے تو محلے میں ایک گھر میں ھی چھوٹا سا محلے کیلئے اپنے ھی گھر میں ایک ویلفیئر سنٹر ھی کھول لیا تھا، اس میں بچوں کو فری بنیادی تعلیم اور مختلف دستکاری بھی بغیر کسی معاوضے کے سکھاتی تھیں اور اکثر بچے اپنے اسکول کا ھوم ورک کرنے کیلئے بھی ان سے مدد لیا کرتے جس میں ھم سب بڑے بچے بھی انکی مدد میں برابر کے شریک ھوتے، اور خاص طور سے عورتوں میں عیدمیلادالنبی SAW کا انتظام بھی خود کرتیں اور وہ بہت ھی اچھی حمد اور نعتیں درود و سلام ،خوبصورت آواز میں پڑھتی تھیں، اور ھر ایک کی خواھش پر ھر گھر میں انتظام کراتی بھی تھیں -

اس محلے کی خوشیاں ایک وقت میں بہت عروج پر تھیں، میں تو اب محلے کا ایک پکا لاڈلا بن چکا تھا، کیونکہ اکثر محلے کے کسی بھی گھر کے کام کیلئے میں نے کبھی بھی انکار نہیں کیا تھا، جب بھی اپنے گھر کے اسی بھی کام کیلئے باھر نکلتا تو شاید ھی کوئی ایسا وقت ھوتا کہ مجھے کوئی آواز نہیں دیتا تھا اور جیسے ھی باھر نکلتا تو ساتھ میرے ملکہ باجی ضرور چل دیتیں، انہیں بھی بازار سے کچھ نہ کچھ لینا ھوتا تھا اور شاید میرے ساتھ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی سمجھتی تھیں، ویسے بھی اس وقت کوئی ایسا خطرہ یا کسی چھیڑ چھاڑ کا نام و نشان نہیں تھا اور ھر کوئی عورتوں اور لڑکیوں کا دل سے احترام بھی کرتے تھے -

اپنے گھر سے زیادہ اب میں ان کے گھر میں گزارتا تھا یا وہ دونوں میرے گھر پر موجود ھوتیں، اپنے گھر کے کام سے فارغ ھوکر میری والدہ کابھی ھاتھ بٹاتی تھیں، اور میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی سنبھالتی تھیں، اس کی وجہ سے وہ ھمارے والدین کے دلوں میں ایک بہت اچھا مقام بنا چکی تھیں، اور ھماری والدہ کا بھی ان دونوں کے بغیر دل نہیں لگتا تھا، اکثر میں نے دیکھا کہ وہ والدہ کے بالوں میں تیل لگانتی اور کنگھی کرتیں، اور جو بھی کام ھوتا بہت خوشی سے کرتی تھیں، اسی طرح وہ دن اتنی تیزی سے بھاگ رھے تھے کہ پتہ ھی نہیں چلتا تھا،

اسکول کا پہلا سال تو بہت اچھا گزرا، سالانہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر تو نہیں بلکہ قابل قبول ضرور تھے 65٪ کے قریب مارکس لے کے جو اس وقت کی سیکنڈ ڈویژن اور آج کا “بی گریڈ“ کہ سکتے ھیں، بہرحال یہ بھی اللٌہ کا شکر تھا، گھر میں کافی خوشیاں منائی گئیں، چلو ایک سال اور اس اسکول کا بیت گیا اور ساتویں کلاس میں پہنچ گئے، دوستوں کا وھی ھمارا پرانا گروپ تھا اور کلاس ٹیچر بھی وھی جنہیں سب پسند کرتے تھے، اسکے علاوہ باقی سب ٹیچر بھی اپنی اپنی جگہ پر بہت اچھے تھے، 1962 کا سال چل رھا تھا میری عمر اب بارویں سال میں داخل ھوچکی تھیں،

دوسری طرف میرے کچھ بچپن کے شوق بھی میری عمر کے ساتھ ساتھ چل رھے تھے، پہلے کبھی مین اپنی کاپیوں کے اخر میں اردو خوشخطی لکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ خیالی تصاویر بھی بنایا کرتا تھا، جو کہ آھستہ آھستہ وہ عادت ایک پختہ مہارت کا روپ لینے لگی تھی اب میں نے باقائدہ طور سے اس شوق کا سامان بھی رکھنے لگا تھا، پنسلیں اور برش اسکے علاوہ پرانے کیلنڈروں کےپیپرز کو بھی استعمال میں لاتا تھا، جس پر سب سے پہلے میں نے علامہ اقبال کی پنسل اسکیچ سے تصویر بنائی اور اسکے بعد قائداعظم کی تصویر پر مزید ھنرمندی دکھائی، جسے سب لوگوں نے بہت پسند کیا اور خود والد صاحب بھی بہت خوش ھوئے اور ھماری ملکہ باجی نے کچھ زیادہ نوٹس نہیں لیا، ان کا کہنا یہ تھا کہ پہلے پڑھائی کی طرف توجہ دو پھر جب وقت بچے تو، اس طرف دھیان دیا کرو، مگر مجھے اس کا تو جنون کی حد تک شوق ھوگیا اور پڑھائی کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چل رھا تھا -

بعد میں میں نے ایک بہت بڑی ایک البم بنائی اس میں اخباروں سے فلموں کے اشتہار کاٹ کر ان کی نئے سرے سے مختلف ڈیزاین سے تصویریں چپکا کر ایک نیا رنگ دیا اور اپنے ھاتھ سے خوشخط اردو سے نام وغیرہ لکھ کر مزید خوبصورت بنانے کی کوشش کرنے کی کوشش کی بعد میں مشہور فلم اسٹاروں کی تصویروں کو سامنے رکھ کر پنسل اسکیچ سے شاندار تصویریں بنانے لگا، اس کے علاوہ لوگوں کی تصویریں پر بھی کچھ ھاتھ صاف کرنے لگا، اسلامی کتبے اور خانہ کعبہ، گنبد خضریٰ کی تصویریں پہلی بار رنگین کلر سے برش سے بنائی، جسے بہت ھی زیادہ پسند کیا گیا، اب تو لوگ اور دوست بھی فرمائشیں کرنے لگے تھے، لیکن ابھی بھی تھوڑی سی کسر باقی تھی-

میں چاھتا تھا کہ کسی ماھر آرٹسٹ کے پاس جاکر اپنے اس شوق کو لے کر مزید کچھ اور آگے سیکھوں، مگر والد صاحب بھی یہی کہتے تھے کہ پہلے پڑھائی مکمل کرلو، اس کے بعد کسی اچھے آرٹس کے اسکول میں داخلہ لے لینا، میں نے اب مزید پڑھائی کی طرف زور دینا شروع کردیا، اس کے ساتھ ساتھ اپنا شوق بھی پورا کرتا رھا، لیکن یہ واقعی حیرت کی بات تھی کہ چاھے گرمی کا موسم ھو یا سردی کا میں اپنے شوق کے مشن کو لے کر چلتا رھا اور اکثر رات کو اباجی سے چھپ کر بھی لالٹین کی روشنی میں بھی اپنے شوق کی تکمیل کرتا رھا-

اسی شوق اور روزمرہ کی وھی مصروفیات میں بغیر کسی ردوبدل کے اسی تسلسل کے ساتھ ھنسی خوشی سے بھرا ایک سال اور گزر گیا، اور اسی قابل قبول نمبروں سے ساتویں جماعت کو بھی خیرباد کہہ دیا، لیکن کوشش کے باوجود بھی کوئی اچھی پوزیشن نہ لا سکا، اسکی وجہ بھی میرا آرٹ اور ادب کا شوق تھا، ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگراموں کے علاوہ بھی میں بچوں کے رسالوں بھی کچھ کہانیاں وغیرہ لکھنے کی کوشش کی، لیکن زیادہ نہیں بس کچھ دن کے بعد زیادہ وقت نہ نکال سکا، قلمی دوستی بھی ساتھ ایک نئے شوق کے میرے ساتھ لگ گئی اخباروں میں بھی ایک نئے نام سے پہچانے لگا جس میں میرا نام “ارمان شاھد“ ھوا کرتا تھا،

1963 کا سال چل رھا تھا عمر میں بھی ساتھ ساتھ ایک سال کا مزید اضافہ ھو گیا، تیرویں سال کے ایک رنگین شوق کے دور میں شامل ھوگیا تھا، اس وقت شکر ھے کہ ھمارے گھر میں ریڈیو بھی والد صاحب خرید لائے ایک اور نئی خوشی ھمارے گھر میں آگئی تھی، اور ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی ایک بڑکپن کا غرور سا آگیا تھا اور قد میں بھی اچھا خاصہ اضافہ ھوچکا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،30- بچپن سے لڑکپن کے دور میں،!!!!!

1963 کا سال چل رھا تھا عمر میں بھی ساتھ ساتھ ایک سال کا مزید اضافہ ھو گیا، تیرویں سال کے ایک رنگین شوق کے دور میں شامل ھوگیا تھا، اس وقت شکر ھے کہ ھمارے گھر میں ریڈیو بھی والد صاحب خرید لائے ایک اور نئی خوشی ھمارے گھر میں آگئی تھی، اور ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی ایک بڑکپن کا غرور سا آگیا تھا اور قد میں بھی اچھا خاصہ اضافہ ھوچکا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!

آٹھویں کلاس میں جانے کے بعد کچھ لگتا تھا کہ طبعیت میں کچھ سنجیدگی سی آگئی تھی، اس دفعہ پہلی بار مجھے ریڈیو پاکستان کے مین گیٹ پر ھی بچوں کے پروگرام میں جانے سے روک دیا گیا کیونکہ میری عمر اب اس بات کی اجازت نہیں دے رھی تھی کہ میں بچوں کے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لے سکوں، جس کا مجھے اس دن بہت زیادہ افسوس بھی ھوا، حالانکہ پچھلے ہفتہ، منگل کے دن ھی ان بچوں کے ساتھ جاکر وہیں سے آڈیشن ٹیسٹ دے کر ھی اجازت نامے لئے تھے، اس دن باقی بچے جو میرے ساتھ تھے، وہ میرے بغیر اندر جانے سے کچھ شرما رھے تھے، لیکن میں نے انہیں بڑی مشکل سے راضی کیا کہ میں یہیں باھر کھڑا ھوں جیسے ھی پروگرام ختم ھو یہاں گیٹ کے پاس آجانا،

مگر پھر بھی ایک بچہ تو بالکل ھی اڑ گیا، اتوار کا دن تھا اور ساری دکانیں بند تھیں ویسے بھی اتنی صبح صبح کون دکان کھولتا ھے، میں اس بچے کو ساتھ لے کر برابر میں اردو بازار کے میں دروازے کا سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر پروگرام کے ختم ھونے کا انتظار کرتا رھا، جہاں سے ریڈیو پاکستاں کے اندر داخلہ کا مین گیٹ بھی نظر آرھا تھا، اسی انتظار میں یہ سوچتا رھا میرے وہ معصوم بچپن کا وہ دور صرف چار دن کے اندر ھی ختم ھوگیا، پچھلے منگل کو مجھے انہیں لوگوں نے اگلے اتوار کے پچوں کے پروگرام کی اجازت دی تھی اور آج مجھے اندر جانے سے منع ھی کردیا کہ میری عمر زیادہ ھے -

پروگرام ختم ھونے کے بعد سب بچوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف واپس ھوا، تھوڑی دور چلنے کے بعد صدر سے اپنے علاقے کی بس میں سب بچوں کو باری باری بٹھایا اور جب بس روانہ ھوئی تو کنڈکٹر سے تین ٹکٹ لئے ایک اپنا اور چار بچوں کے آدھے ٹکٹ، کچھ دیر میں اپنا اسٹاپ آگیا اور چاروں بچوں کو باری باری بس سے اتارا اور ابنے محلے کی ظرف سب کو ساتھ لئے چل رھا تھا، آج چال میں وہ ہل چل نہیں تھی، بچے بھی کچھ میری وجہ سے خاموشی سے چل رھے تھے، ورنہ ھمیشہ میں ان بچوں کے ساتھ اچھلتا کودتا، شور مچاتا بالکل سرکس کے مزاحیہ جوکر کی طرح مذاق کرتا ھوا چلتا تھا،

اب یہ پہلی بار ریڈیو پاکستاں کے بچوں کے پروگرام میں داخلہ پر پابندی لگی تھی، اور میں گھر جاکر اپنے آپ کو شیشے میں دیکھ رھا تھا کیا میری شکل اب اس قابل نہیں رھی کہ بچوں کی محفلوں میں شریک ھوسکوں، اس دن سے دل کو ایسا دھچکا لگا کہ چہرے پر ایک بےزاری سی کیفیت محسوس ھونے لگی، اس دن تو مجھے کافی رونا آتا رھا، سب لوگ پوچھتے بھی رھے کہ کیا بات ھے آج چہرے پر بارہ کیوں بجے ھیں، لیکن میں نے کسی کا بھی صحیح طریقے سے جواب نہیں دیا-

میری حالت ملکہ باجی بھی دیکھ رھی تھیں، انہوں نے مجھے پیار سے سمجھایا کہ اب تم 13 سال کے ھونے والے ھو ، اور وھاں تو صرف 12 سال تک کے عمر کے بچوں کی اجازت ھے، تمھیں تو خوش ھونا چاھئے کہ 12 سال کے بعد بھی تمہیں کتنی دفعہ اجازت مل چکی ھے، اب تو تمھیں بڑوں کے پروگراموں میں حصہ لینا چاھئے، میں تمھارے ساتھ چلونگی اور تمھیں کسی نہ کسی کے پروگرام میں حصہ دلا کر ھی رھونگی، لیکن اس وقت تو میں نے بالکل انکار کردیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آیندہ اس طرف کا تو میں رخ بھی نہیں کرونگا، کئی دنوں تک تو اسکا مجھے بہت افسوس رھا اور اس وقت زیادہ ھوتا جب ھر منگل کی صبح صبح کو بچے تیار ھوکر میرے گھر مجھے ریڈیو پاکستان سے اجازت نامہ لینے کیلئے آجاتے، مگر ان سب کو مایوس ھونا پڑتا یہاں میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی، میں چاھتا تو انہیں اجازت نامہ دلوا بھی سکتا تھا لیکن صرف اپنی خود غرضی کی وجہ سے میں نے ان کے معصوم خواھشوں کو کچل کر رکھ دیا تھا -

میں اب اور کچھ زیادہ اپنے آپ کو مشغول رکھنے لگا تھا، آٹھویں جماعت کے امتحانات بھی نزدیک تھے، اسکی تیاری کے ساتھ ساتھ کچھ تھوڑا سا وقت اپنے شوق کی طرف بھی دے رھا تھا اور اپنی تصویروں کی البم کے خالی صفحوں پر اخباروں کی کٹنگ سے مختلف رنگوں سے اپنے ہاتھوں سے پینٹنگ کرتا رھا، جو بھی گھر آتا اسے وہ البم ضرور دکھاتا، اور لوگ بہت تعریف بھی کرتے، زیادہ تر فلموں کے ھی اشتہار ھی ھوتے تھے اور ساتھ ھی پنسل اسکیچ سے تصویریں بنانا بھی تہیں چھوڑا تھا اب تو ایک تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک تصویر مکمل کر لیتا تھا اور رنگوں کی تصویر جو میں برش کے ساتھ پانی کے کلرز سے بناتا تھا اس کیلئے کچھ اور تھوڑا سا وقت مزید درکار ھوتا تھا -

امتحانات کی تیاری میں والد صاحب کے علاوہ ملکہ باجی میرا ساتھ بہت دیتی تھیں، وہ اور انکی بہں زادیہ بھی اب میرے ھی اسکول میں ھی پڑھ رھی تھیں، لیکن وقت الگ ھی تھے اور شاید وہ نویں کلاس میں اور زادیہ میرے ھی ساتھ آٹھویں کلاس میں پڑھ رھی تھی، بہر حال ھم تینوں امتحانات کی تیاریوں میں لگے رھتے اور جب تھک جاتے تو میرے ساتھ وہ دونوں بیٹھ کر مجھے تصویریں بناتا ھوا دیکھتیں، اور کچھ حیران بھی ھوتیں کہ میری بنائی ھوئی تصویروں میں اتنی بہترین اور صاف مشابہت دیکھ کر پریشان ھوجاتیں حلانکہ مجھے ابھی بھی بہت سی خامیاں نظر آرھی تھیں،

بچوں کیلئے اب مجھے وقت نکالنا بہت مشکل ھورھا تھا، پہلے تو کبھی کبھی ریڈیو پاکستان کے علاوہ ھل پارک، چڑیاگھر یا کبھی سمندر کے کنارے کلفٹن بھی لے جایا کرتا تھا، ساتھ اپنے چھوٹے بہن بھائی بھی ھوتے تھے، مگر ملکہ باجی اور زادیہ کو گھر سے اجازت نہیں ملتی تھی لیکن میں ان کی پوری فیملی کے ساتھ ضرور جاتا تھا، اکثر جب بھی وہ سب کسی تقریب یا فلم دیکھنے یا کہیں گھومنے جارھے ھوتے تھے تو مجھے میرے والدیں سے اجازت لے کر اپنے ساتھ ضرور لے جاتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ خوب خوش رھتا تھا -

بچوں کی خوشی کیلئے مجھے ایک اور شوق کو پالنا پڑا کیونکہ بچے مجھے بہت عزیز تھے، اس شوق کیلئے مجھے کچھ زیادہ ھی محنت کرنی پڑی تھی، !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،31- لڑکپن کے دور کے نئے کھیل تماشے،!!!!!

بچوں کی خوشی کیلئے مجھے ایک اور شوق کو پالنا پڑا کیونکہ بچے مجھے بہت عزیز تھے، اس شوق کیلئے مجھے کچھ زیادہ ھی محنت کرنی پڑی تھی، !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

جب سے ریڈیو پاکستان کے دروازے مجھ پر بند ھوئے، میں نے بھی بچوں کے ساتھ باھر نکلنا تقریباً ختم کردیا تھا، اور بس زیادہ تر اپنے ھی محلے میں ھی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ محفل جما ھی کرلیا کرتا تھا، لیکن بچوں کو تو باھر جانے میں ھی زیادہ خوشی ھوتی تھی، اور لوگ بھی اپنے بچے میرے حوالے کرکے بےفکر ھو جاتے تھے، مگر بچے مجھے باھر لے جانے کی ضد کرتے، لیکں اب میرا دل بالکل نہیں چاھتا تھا، مگر میں نے بچوں کے لئے کچھ اور ھی سوچ رکھا تھا کہ گھر پر ھی کیوں نہ کچھ انکی دلچسپیوں کا ساماں پیدا کیا جائے،

کبھی کبھی ھمارے محلے میں ایک پتلی تماشے والا آتا تھا، جس میں وہ کئی چارپائیوں کو ساتھ جوڑ کر ایک اسٹیج بناتا تھا، اور پیچھے سے وہ مختلف رنگ برنگی پتلیوں کو دھاگوں کی مدد سے اپنی انگلیوں سے نچاتا تھا، ساتھ ساتھ ان پتلیوں کی حرکتوں اور کرداروں کے مطابق اپنے منہ سے آوازیں بھی نکالتا رھتا، کبھی مغل آعظم اور انارکلی، کبھی مُلا دوپیازہ اور بیربل اور کبھی پاٹےخان کے ساتھ بہت سے دوسرے مزاحیہ کھیل مختلف انداز سے پیش کرتا تھا، جسے محلے کے تمام بوڑھے، جوان، بچے، عورتیں اور مرد سب بڑے شوق سے دیکھتے تھے

اس پتلی تماشہ کو لوگ سامنے سے دیکھتے تھے اور میں پیچھے جاکر اس پتلی والے کو پتلیاں نچاتے ھوئے اسکے ھاتھوں کو دیکھتا تھا، میں نے بھی اسکی دیکھا دیکھی گھر پر ھی گتے سے کاٹ کر اس پر مختلف رنگون کی مدد سے کرداروں کی ایک نئی شکل کی مختلف قسم کی پتلیاں بنائی، سر، ھاتھوں اور پیروں کو پنوں اور تاروں کی مدد سے اس طرح جوڑا کہ وہ اسانی سے ھل جل سکیں، پھر ان میں سوراخ کرکے مضبوط کالے دھاگوں سے باندھ کر پہلے خود ھی پریکٹس کی، پھر ایک چھوٹا سا اسٹیج اسی طرح چارپائیوں کو جوڑ کر بناکر “بیک گراونڈ“ کو اماں کے کالے برقے سے ڈارک کرتا، آگے پیچھے ڈھکنے کےلئے چادروں سے کام لیتا اور پیچھے سے مختلف کالے دھاگوں سے پتلیوں کے ھاتھ پیر اور سروں کو انگلیوں کی مدد سے حرکت دیتا اور منہ میں ایک سیٹی رکھ کر اسی پتلی تماشے والے کی طرح آوازیں نکالتا، جسے بچوں نے کافی تفریح لی اوا بہت خوش ھوتے رھے،

اس میں مجھے کافی حد تک کچھ کامیابی بھی ھوئی، لیکن اتنی مہارت سے پتلیوں کو چلا نہ سکا مگر بس اپنے کھیل اور بچوں کی تفریح کی حد تک بہت ھی زیادہ بہتر تھا اگر کچھ دں مزید پریکٹس کرتا تو شاید “پتلی ماسٹر“ ھونے کے چانس تھے، اس میں سب سے مشکل کام اپنی تمام انگلیوں کو مختلف زاویوں سے اپنی منہ کی آواز کے ساتھ ساتھ چلانا پڑتا ھے اور ھر انگلی دھاگے کی مدد سے پتلیوں سے جڑی ھوتی تھی، واقعی بہت مشکل کام تھا، جس کو زیادہ دن تک برقرار نہ رکھ سکا ایک وجہ یہ تھی کہ گھر کی چادریں اور اماں کے دو برقے میں خراب کرچکا تھا، جس کی ڈانٹ بہت کھانی پڑی اور دوسرے یہ کہ میری پتلیاں گتے اور کاغذ کی ھوتی تھیں، جو ایک دفعہ چلانے کے بعد دوسے وقت کیلئے بالکل ناکارہ ھو جاتیں، اس لئے مجبوراً مجھے اس کھیل کو ختم کرنا پڑا،

میں یہ ساری تفریح محلے کے بچوں کے لئے اور کچھ اپنی واہ واہ کےساتھ ساتھ اپنا شوق کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا، اس کے علاوہ بچوں سے یا کسی سے بھی اسکا معاوضہ نہیں لیتا تھا، بس اماں ھماری زندہ باد، کسی نہ کسی طرح انہیں منا کر پیسے کھینچ لیتا تھا، یہ سب کچھ صبح سے لیکر دوپہر اسکول جانے سے پہلے کرتا تھا کیونکہ اس دوران اباجی ڈیوٹی پر اور ھماری ملکہ باجی اور زادیہ اسکول میں ھوتی تھیں، اور کسی کا اتنا ڈر بھی نہیں تھا، اپنے چھوٹے بہن بھائی تو مجھ سے ویسے ھی ڈرتے تھے،

اب پتلی تماشے کے بعد کسی اور نئے کھیل کی فکر میں لگ گیا، وہ کھیل کیا تھا، ایک اور نیا ڈرامہ، جس کے لئے کچھ مہنگا ساماں خریدنا پڑا اور اس کے لئے مجھے کافی جتن کرنے پڑے، جسے اب کبھی سوچتا ھوں تو بہت ھنسی آتی ھے، دن کو اکثر اپنے شوق پورے کرتا اور شام کو اسکول سے واپسی پر اپنی پڑھائی کی طرف دھیاں دیتا تھا، اور باقی روزمرہ کے کام کاج اپنے معمول کے مطابق ھی ھورھے تھے، جیساکہ پہلے ھی میں ذکر کرتا رھا ھوں !!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،32- لڑکپن کے دور میں مہنگے شوق،!!!!

اب پتلی تماشے کے بعد کسی اور نئے کھیل کی فکر میں لگ گیا، وہ کھیل کیا تھا، ایک اور نیا ڈرامہ، جس کے لئے کچھ مہنگا ساماں خریدنا پڑا اور اس کے لئے مجھے کافی جتن کرنے پڑے، جسے اب کبھی سوچتا ھوں تو بہت ھنسی آتی ھے، دن کو اکثر اپنے شوق پورے کرتا اور شام کو اسکول سے واپسی پر اپنی پڑھائی کی طرف دھیاں دیتا تھا، اور باقی روزمرہ کے کام کاج اپنے معمول کے مطابق ھی ھورھے تھے، جیساکہ پہلے ھی میں ذکر کرتا رھا ھوں !!!!!!!!!!!!!!!!!!

اب ایک اور نئے شوق کے چکر میں، تاکہ بچے کسی نہ کسی طرح خوش رھیں، ایک ھمارے محلے میں ایک آدمی اکثر ایک بڑا سا ڈبہ اپنی سائیکل پر رکھ کر آتا تھا، اس میں پانچ یا چھ دوربین کی طرح لیٹربکس جیسے دیکھنے کیلئے لگے ھوتے تھے، اندر ایک طرف ایک سینما کی طرح ایک پردہ ھوتا، دوسری طرف ایک فلم چلانے کی چھوٹی سی ایک مشین لگی ھوتی تھی، جس پر ایک چرخی کے ساتھ فلم کی ریل لپٹی ھوئی ھوتی اور وہ آدمی اس چرخی کو اپنے ھاتھ سے گھماتا ساتھ ایک شیشہ بھی لگا ھوا تھا جس سے وہ سورج کی روشنی کا عکس مشیں کے عدسے پر ڈالتا جہاں سے فلم کی ریل چل رھی ھوتی تھی، اور اس ڈبے کے اندر اس فلم کا عکس پڑتا اور بچوں سے ایک ایک آنہ لے کر شاید دو یا تیں منٹ کی فلم کا کوئی مار دھاڑ یا کوئی رقص کے سین بغیر آواز کے دکھاتا تھا، اور بچے بہت شوق سے یہ بھی دیکھتے تھے -

مجھے بھی ایک اسی طرح کے شوق کا دورہ پڑا کہ میں کیوں نہ بچوں کو بھی اسی طرح کی ایک اور تفریح فراھم کروں، بس اس کام کی دھن میں بازار جاکر روزانہ کوئی نہ کوئی معلومات لیتے کی کوشش کرتا رھا، مگر جب آخری نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے اس شوق کیلئے تو میرے حساب سے کافی رقم درکار ھوگی، میرے منصوبے کے مطابق اس میں کم از کم ایک سو روپے کا نسخہ تھا، جو کہ میرے بس کے بالکل باھر تھا، والد صاحب کی تنخواہ ھی 150 روپے ماھانہ تھی اور وہ پورے گھر کے خرچ پر ھر مہینے 100 روپے سے زیادہ خرچ نہیں کرتے تھے، اور میں اپنے اس شوق کیلئے 100 روپے خرچ کروں یہ تو بالکل ناممکن تھا،

اکثر جب بھی میں فلم دیکھنے جاتا تھا تو مجھے یہ تجسس رھتا تھا کہ پردہ پر حرکت کرتی ھوئی فلم کیسے دکھائی دیتی ھے، میں اکثر بالکل سامنے کا ھی ٹکٹ لیتا تھا اور ان لوگوں کو بےوقوف سمجھتا تھا جو بالکل پیچھے اور گیلری میں بیٹھ کر اور زیادہ پیسے خرچ کرکے فلم دیکھتے تھے، جبکہ اس وقت سب سے آگے چار سے چھ آنے، درمیان میں بارہ آنے، سب سے پیچھے ایک روپیہ اور گیلری کا ٹکٹ صرف سوا روپے سے ڈیڑھ روپے تک ھوتا تھا، میں بھی یہ سوچنے لگا کہ اگر میں بھی کسی طرح ایک چھوٹا سا سینما جیسا بنا لوں اور محلے کے بچوں اور بڑوں سے کچھ نہ کچھ ٹکٹ کےعوض لے کر کچھ گھر کی آمدنی میں بھی اضافہ کرسکتا ھوں، اور یہ بس میں اکیلے ھی اپنے شیخ چلٌی کی طرح اپنے خوابوں کو بنتا رھا،

اور شاید آپ یقیں کریں یا نہ کریں میں نے یہ مہنگا شوق بالکل شیخ چلی کے خوابوں کی طرح مگر حقیقت میں ایک مہینے کے اندر اندر مکمل کیا، سب سے پہلے تو میں نے کچھ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچائے اور کچھ والدہ سے زبردستی رو دھو کر تین روپے اکھٹے کئے، مگر کسی کو بھی خبر نہ ھونے دیا، اور خاموشی سے روزانہ صبح سودا لانے کے وقت ایک چھوٹا سا ایک دھندا بھی پال لیا، جسکے لئے والدہ سے صرف ٹیوشن پڑھنے کے بہانے سے ایک جھوٹ کا سہارا لیا، اس شرط پر کہ وہ اباجی کو بالکل نہیں بتائیں گی، کیونکہ سالانہ امتحان قریب ھیں اور میں اس دفعہ اچھے نمبر لانا چاھتا ھوں -

اب ایک اس سینما کے شوقیہ منصوبے کو پورا کرنے کیلئے کئی اور منصوبے بنانے پڑے اور وہ بھی بغیر کسی کو بتائے اور نہ ھی ساتھ کسی کو شریک کیا، روز کے معمول کی طرح پہلے گھر کا تمام پانی بھرتا، اور پھر سودا لینے کےلئے روزانہ اب بہت جلدی نکل جاتا تھا اور ایک گھر سے بڑی لکڑی کو اٹھاتا اور نکل پڑتا، پہلے دن میں نے ان تین روپے میں سے ایک روپے کے بغیر پھولے ھوئے غباروں کا پیکٹ خریدا جس میں مختلف کلر اور سائزکے تقریباً 100 عدد ھونگے اور باقی دو روپے کے مختلف کھلونے تھوک کے بھاؤ سے ایک ایک درجن لئے اور کسی اور علاقے میں جاکر تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے، وہاں پہنچنے سے پہلے تو کچھ غبارے پھلائے اور لکڑی پر ٹانگے اور کچھ کھلونے بھی لکڑی کے ساتھ ھی لٹکائے اور اس علاقے میں پہنچا تو میرے آس پاس بہت ھی زیادہ بچوں کا رش لگ گیا اور اناً فاناً سارے غبارے جو پُھلا سکا بک گئے اور ساتھ ھی کافی کھلونے بھی بچوں نے خرید لئے، پھر واپس جلدی جلدی سودا لے کر، ایک دکان پر وہ لکڑی اور بچے ھوئے غبارے، کھلونے وغیرہ امانتاً رکھوائے، جہاں سے اکثر سودا لیتا تھا، واپس گھر کی طرف، اماں کو سودے کا حساب دیا اور اسکول جانے کی تیاری میں لگ گیا - اس دن میں نے پیسے گنے تو کل چار روپے بنے اور ابھی تو اور بھی غبارے اور کھلونے باقی تھے،

اسی طرح اب روزانہ ھی مجھے مزید پیسے بڑھانے کی عادت سی ھوگئی اور روزانہ معمول کے مطابق جانا اور تقریباً پندرہ دن تک اسی طرح غبارے اور کھلونے تھوک کے بھاؤ خریدکر اور انہیں بیچ کر مشکل سے بیس روپے تک اکھٹے کئے اور میں بہت تھک بھی گیا اس کے علاؤہ ایک اور دھندا بھی شروع کیا، شب برات کے دن نزدیک تھے اس موقع کو غنیمت جانتے ھوئے میں فوراً تھوک بازار گیا جو بس کے ذریعے صرف آنے اور جانے میں صرف آدھے گھنٹہ کا وقت لگتا تھا، وہاں سے مختلف پٹاخے انار جلیبی اور لہسن پٹاخہ، پُھل جھڑیاں اور مختلف پٹاخے جو بھی مل سکے وہ بیس روپے میں خریدے اور اب روزانہ غباروں کو چھوڑ کر اپنے ھی محلے میں ھی بیچنا شروع کیا لیکں ایک دوسرے دوست کی مدد سے تاکہ ایسا لگے کہ وہ بیچ رھا ھے، اسی طرح میں ایک مہینے میں بہت مشکل سے تقریباً 40 روپے تک بنالئے اور یہ پیسے مختلف بس کے کنڈکٹروں سے دس دس روپے کے نوٹوں کی شکل میں بدلوا بھی لئے مگر اپنے نئے مشن کے لئے تو 100 روپے درکار تھے، اب پھر سوچ میں پڑ گیا کہ کس طرح اپنے سینما کے خواب کو پورا کروں ، ایک مہینہ بھی ھونے والا تھا!!!!!!!

ادھر آٹھویں جماعت کے امتحانات بھی نزدیک آرھے تھے اور میں اپنے شوق کی تکمیل کےلئے اونچی اڑان کے چکر میں لگا ھوا تھا، مگر یہ شاید میری، کیا کہیں کہ خوش قسمتی ھی سمجھ لیں کہ جو اچھے یا برے جو بھی شوق پالے تھے، جن کو میں نے بچپن میں کسی نہ کسی طرح اپنے معمولی وسائل کے ذریعے ھی پورا کرنے کی کوشش کی تھی، ان کی حقیقت میں مجھے اس کی صحیح تعبیر بڑے ھوکر ایک پروفیشنل کیرئیر کے روپ میں ملی بھی، اور کافی حد تک کامیاب بھی رھا، لیکن بس جو اللٌہ تعالٰی کو منظور تھا وھی میرے لئے بہتر ثابت ھوا -
کیونکہ چند مجبوریوں اور کچھ اپنے والد صاحب کی ناپسندیدگی وجہ سے میرے اپنے شوق سے اپنائے ھوئے کیرئیر زیادہ پائیدار ثابت نہیں ھوسکے، اور اس طرح مجھے اپنے تمام شوق کو مکمل طور سے خیرباد کہنا پڑا،!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،33 لڑکپن کے دور میں سینما چلانے کا شوق،!!!

کیونکہ چند مجبوریوں اور کچھ اپنے والد صاحب کی ناپسندیدگی وجہ سے میرے اپنے شوق سے اپنائے ھوئے کیرئیر زیادہ پائیدار ثابت نہیں ھوسکے، اور اس طرح مجھے اپنے تمام شوق کو مکمل طور سے خیرباد کہنا پڑا،!!!!!!!!

اس سے مجھے یہ ضرور سبق ملا کہ اگر انسان شیخ چلی کی طرح خوابوں میں رھنے کے بجائے، اگر صدق دل اور اچھے جذبے سے جتنی محنت کرے گا تو اس سے کہیں زیادہ اللٌہ تعالیٰ اس کا صلہ ضرور دیتا ھے، اُس وقت کے دور میں لوگ محنت ضرور کرتے تھے لیکن زیادہ لالچ نہیں کرتے تھے کچھ وقت اپنے لئے ، اپنے بچوں کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی نکالتے تھے اس کے علاوہ اپنی اور اہل و عیال کی صحت اور خوراک کی طرف بھی خاص توجہ دیا کرتے تھے، کم اور بہتر تازہ غذا، ورزش، نماز کی مکمل پابندی اسکے علاوہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد کچھ چہل قدمی کرکے، اپنے دوست نمازیوں کے ساتھ نماز سے فارغ ھوکر ایک چھوٹی سی چوپال لگاتے، مسئلے مسائل حل کرتے اور کچھ گپ شپ کرتے اور کوشش یہی ھوتی تھی کہ جلد سے جلد سو جائیں کچھ بزرگ تو یاد الہٰی میں رات بھی گزارتے تھے اور تہجد اور نوافل کی نمازوں کے ساتھ اپنی مسجد میں اللۃ کے ذکر کا اہتمام بھی کرتے تھے-

اس وقت زیادہ تر لوگ اپنے وسائل کے اندر ھی رہ کے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے یعنی جتنی چادر ھوتی تھی اتنے ھی اپنے پیر پھیلاتے تھے، بلکہ لوگ تو صدقہ خیرات بھی خوب کرتے تھے اور محلے کے ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آللٌہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت بھی دیتا تھا، اور سکون کے ساتھ ساتھ خوشیوں کا بونس بھی ملتا تھا، اس زمانے میں قلیل آمدنی ھونے کے باوجود لوگوں کے دل بہت وسیع تھے،
ایسے بھی مگر بہت کم لوگ دیکھنے میں آتے تھے جو ھمیشہ پریشان رھتے اور قرضہ میں ڈوبے رھتے اس کی وجہ وہی تھی کہ وہ قدرتی قانون کی پیروی نہیں کرتے تھے، اور اچھے اور متقٌی لوگوں سے دور بھاگتے تھے تاکہ وہ نصیحتیں سننے سے بچ جائیں، مگر بعد میں انہیں کے پاس جاکر ھاتھ بھی خود ھی پھیلاتے تھے -

معاف کیجئے گا کہ کچھ نصیحتوں کی طرف میرا رخ ھوگیا تھا، چلئے اب اصل موضوع پر واپس آتے ھیں !!!!!!!!!!

اس وقت 40 روپے بہت ھوتے تھے،میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، مگر میرے پروجیکٹ کا تخمینہ 100 روپے تک تھا، اس کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں تھا کہ اب مجھے اسی بجٹ میں اپنے چھوٹے سے سینما کے پروجیکٹ کو مکمل کرنا تھا، جس سے میں بچوں کو ایک نئی تفریح فراھم کر سکوں لیکن کچھ معلوماتی فلم یا کوئی کارٹون ٹائپ کی فلم ھو تو بچوں کیلئے بہتر ھوتا، اگر اس میں کامیابی ھوتی تو میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس کو کمائی کا بھی ذریعہ بھی بنا سکتا ھوں،!!!!!!!!!!

اب ان 40 روپے سے اپنے پروجیکٹ کی تکمیل کیسے ھو، یہ سوچ سوچ کر میں بہت پریشان تھا، لیکن یہ بھی ایک مصمم ارادہ کئے ھوئے تھا، کہ کسی نہ کسی طرح اس شوق کو پورا ضرور کرنا ھے، مگر اس کی خبر کسی کو ھونے بھی نہیں دی ورنہ تو مار ھی پڑنی تھی اور اب تو کافی عرصہ بھی ھوگیا تھا، اچھی طرح پٹائی کھائے ھوئے -

ایک دن بس چل دیا کباڑی بازار اور وہاں اپنے پروجیکٹ کا سامان ڈھونڈنے لگا، ایک جگہ مجھے فلم چلانے کی مشین نظر آئی، مکمل چرخی اور ھاتھ کے ہینڈل کے ساتھ اور کچھ فلموں کی ریلیں بھی پڑی ھوئی تھیں، میں نے اس سے پوچھا کہ اس مشین کی کیا قیمت ھوگی اس نے شاید اس وقت ایک سو روپے سے زیادہ کی ھی بتائی تھی، میں خاموش ھی ھوگیا کیونکہ اسی طرح کی مشین دو مہینے پہلے پوچھی تھی تو اس کی قیمت 50 یا 60 روپے تک کی تھی، میں آگے بڑھ گیا اگے بھی بہت سےکباڑی اپنے ھر ٹھیلے پر مختلف نوعیت کے پرانے زمانے کی چیزیں بیچ رھے تھے، اور کافی رش بھی تھا ھر کوئی اپنی پسند کی چیزوں کے چکر میں تھے،

میں بھی کئی مرتبہ اباجی کے ساتھ یہاں آچکا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے کا گُر بھی انہیں سے سیکھا تھا، کہ اگر کوئی 100 روپے قیمت بتائے تو آپ بھی اسے 10 روپے بتاؤ خاص کر کباڑی کی دکان پر، میں جب اپنے کانوں کو ھاتھ لگا کر آگے بڑھا تو انس نے فوراً مجھ سے پوچھا کہ خریدنے آئے ھو یا تفریح کرنے، میں نے فوراً جواب دیا کہ تم کیا سونا بیچ رھے ھو اس کباڑی کی دکان پر، اس نے غصہ سے کہا کہ کیا جیب میں مال ھے، میں نے فوراً جیب سے صرف 20 روپے نکالے اور ھوا میں لہراتے ھوئے اسے نوٹ دکھائے وہ پھر خاموش ھوگیا اور مجھے بلا کر کہا کے کسی کو نہیں بتانا میں تمھیں اپنا بیٹا سمجھ کر آدھی قیمت میں دے دونگا، مین ‌نے مسکراتے ھوئے کہا کہ میرے پاس تو بس یہی 20 روپے ھیں مجھے افسوس ھے کہ میں یہ نہیں خرید سکتا، شکریہ ادا کرتے ھوئے آگے بڑھا ھی تھا تو اس نے دوبارہ آواز دی اور اُسی مشین کی قیمت 50 روپے سے شروع کرتا ھوا اور20 روپے تک بڑی مشکل سے پہنچا اور ساتھ میں میں نے اس سے فلم بھی مانگی تو اس نے اس کی قیمت 5 روپے شاید مانگی لیکن میں نے کہا کہ اس مشین کے ساتھ ھی 20 روپے میں ھی چاھئے، اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ‌ھے جبکہ میرے پاس اور 20 روپے ایک الگ جیب میں رکھے تھے،

آخر جب میں اس کے انکار پراس مشین کو چھوڑ کر کافی آگے نکل گیا اور دوسرے ٹھیلے والے سے اسی طرح کی پروجیکٹر مشین دیکھ ھی رھا تھا تو وھی آدمی میرے پاس آیا اور واپس مجھے لے گیا اور بہت ناراض ھوا کہ تم نے ایک تو مشین کے دام اتنے کم لگائے اور اوپر سے اس کے ساتھ فلم بھی مفت مانگ رھے ھو ، میں نے جواب دیا کہ بھائی میرے پاس اتنے ھی پیسے ھیں اگر دینا ھو تو ورنہ میں جارھا ھوں اور مجھے یہ پکا یقین تھا کہ یہ مجھے اسی قیمت پر ھی دے گا، کیونکہ مجھے پہلے بھی والد صاحب کے ساتھ بار بار بازار جاکر کافی تجربہ ھوگیا تھا کہ کہان پر کس چیز کی کیا قیمت میں بحث کرنی چاھئے، کافی اصرار کے بعد بہت مشکل سے وہ اس بات پر راضی ھوگیا، لیکن بیکار سی فلم گھس پٹی بہت سے جوڑ لگے ھوئے، مجھے دینے لگا، پھر میں نے انکار کردیا آکر میں نے ھی اپنی مرضی سے ایک کارٹون فلم اور ایک جنگلی جانوروں کی فلم لی جو شاید مشکل سے 3منٹ کی ھوگی اور پھر وہاں سے واپس گھر بھاگا، جلدی جلدی سودا لیا اسکول کو بھی دیر ھورھی تھی،

گھر پہنچتے ھی بالکل خاموشی سے اس مشین اور فلم کے تھیلے کو ایک خفیہ جگہ پر چھپایا اور اسکے اُوپر کچھ اور چیزیں رکھ کر یہ اطمنان کرلیا کہ کوئی اور یہاں تک نہیں پہنچ سکتا، پھر اماں کے پاس رونی صورت بناتے ھوئے سودا دیا اور یاد نہیں کہ کیا بہانہ کیا تھا، بہرحال کوئی قابل قبول ھی بہانہ تھا جس کی وجہ سے ڈانٹ نہیں پڑی اور میری ماں تو ویسے ھی بہت سادہ طبیعت کی مالک تھی اور ھمیشہ مجھے اباجی سے ڈانٹ اور مار سے بچاتی تھیں، جس کا میں نے بہت فائدہ اُٹھایا، کیونکہ گھر میں سب بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اپنی ماں کا لاڈلہ بھی تھا -

جلدی جلدی کچھ کھایا پیا اور تیار ھوکر بستہ گلے میں لٹکایا اور اسکول کی طرف بھاگتا ھوا گیا کیونکہ کافی دیر ھوچکی تھی صرف 15 منٹ باقی تھے، اور پہلے ھاف یعنی لڑکیوں کی چھٹی بھی ھوچکی تھی اور گھر پہنچنے والی تھیں اور میں ابھی تک راستہ میں ھی تھا میرے ساتھ کے دوست کب کے اسکول جاچکے تھے، اور میں لڑکیون کے رش سے بچتا بچاتا بھاگ رھا تھا اور ساتھ ان سب کی ھنسی اور مزاحیہ فقرے بازیاں بھی سن رھا تھا، جو مجھے جانتی بھی تھیں،

پہلے بھی ھمیشہ ان سے راستہ میں ضرور ٹکراؤ ھوتا تھا اور میں اپنے دوستوں کے ساتھ ان کا مزاق اڑاتا ھوا جاتا تھا اور وہ بھی ھمیں اسی طرح جواب دیتیں تھیں اور سب ھم ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے کیونکہ زیادہ تر ھمارے محلے کی ھی تھیں اور بہت زیادہ فری تھے، لیکن اس وقت کبھی کسی نے کسی غلط نظر سے کسی بھی لڑکی کو نہیں دیکھا، ان میں ھم تمام دوستوں کی بہنیں بھی شامل ھوتیں تھیں کچھ رشتہ دار بھی اور پھر سب سے بڑھ کر ھماری ٹیم کی استاد لیڈر ملکہ باجی اور ساتھ چھوٹی بہن ان کی اسسٹنٹ اور ھم سب کی بہنیں بھی اس اسکول سے واپسی کے قافلے میں شامل ھوتیں تھیں، سب نے نیلے اور سفید رنگ کے یونیفارم پہنے ھوتے تھے اور ھم لڑکوں نےخاکی پتلوں اور سفید قمیض پہنی ھوتی تھی، ایک عجیب سا خوبصورت سا رنگ برنگا ماحول لگتا تھا کہ سامنے نیلے اور سفید یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں اور ھم سفید اور خاکی یونیفارم پہنے مدمقابل ھوتے تو مذاق اور فقرے بازیوں کا سلسلہ شروع ھوجاتا تھا اور اسی طرح ایک قافلہ دوسرے قافلے کو ھنستے ھوئے ایک دوسرے کو ھاتھ ھلاتے ھوئے گزر جاتے مگر کوئی بدتمیزی نہیں ھوتی تھی-

خیر بات ھورھی تھی کہ بھاگم بھاگ میں اس دفعہ بالکل اکیلا ان سب کے بیچوں بیچ بھاگتا ھوا جارھا تھا اور ان سب کو بھی موقعہ مل گیا تھا خوب میرا مذاق اُڑایا اور تنگ بھی بہت کیا لیکن میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور بھاگتے بھاگتے اپنے دوستوں کے ریوڑ میں شامل ھو ھی گیا اور دوست بھی خوش ھو گئے تھے کیونکہ میں اپنے دوستوں میں ان کا لیڈر تھا، وہ سمجھے کہ شاید آج میں نہ آؤں، ان کا بھی میرے بغیر دل نہیں لگتا تھا -

اور آخر اسکول کی چھٹی کے بعد تھکا ھارا گھر پہنچا اور بستہ رکھ کر فوراً گھر کے ایک کونے میں اس خفیہ جگہ پر پہنچا جہاں پر وہ پروجیکٹر مشیں اور فلموں کی ریل چھپائی تھی، کیا دیکھتا ھوں کے میرے تمام چھوتے بہن بھائی مل کر اس مشیں کے ساتھ کھیل رھے تھے اور فلم کا رول کو پورا ھی کھول دیا تھا پورے کمرے کا کیا حشر نشر ھوا کہ میں کیا بتاؤن میں تو اس وقت سکتے میں ھی آگیا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-34- لڑکپن کے دور میں محنت سے لگاؤ!!!!!

اور آخر اسکول کی چھٹی کے بعد تھکا ھارا گھر پہنچا اور بستہ رکھ کر فوراً گھر کے ایک کونے میں اس خفیہ جگہ پر پہنچا جہاں پر وہ پروجیکٹر مشیں اور فلموں کی ریل چھپائی تھی، کیا دیکھتا ھوں کے میرے تمام چھوتے بہن بھائی مل کر اس مشیں کے ساتھ کھیل رھے تھے اور فلم کا رول کو پورا ھی کھول دیا تھا پورے کمرے کا کیا حشر نشر ھوا کہ میں کیا بتاؤن میں تو اس وقت سکتے میں ھی آگیا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!

میری کہانی کے ہر ایک موڑ پر کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پوشیدہ ھے، اس وقت 20 روپے بھی بہت حیثیت رکھتے تھے، اب میں یہاں بھی ایک اور لیکچر شروع کررھا ھوں، تھوڑا برداشت کرنا پڑے گا، جو صرف آپ کو ھی نہیں بلکہ تمام پڑھنے والوں کے لئے بھی، مجھے امید ھے کہ آپ سب کچھ خیال نہیں کریں گے -

میں نے اپنی ایک لگن کو سامنے رکھتے ھوئے ایک چھوٹی سی محنت کرکے چالیس روپے جمع کئے اور میں نے اس بچوں کے سینما پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے بھی کم سے کم پیسے خرچ کئے اور اس منصوبے میں ایک حد تک میں کامیاب بھی ھوا، جسکا اگلی قسط میں ذکر کرونگا، میں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ غبارے بیچنا یا پٹاخے بیچنا کوئی بری بات ھے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا تھا کہ میں کسی کے علم میں لائے بغیر ھی کام کررھا تھا، اور اس کے علاوہ والد صاحب کا خوف کہ میں اپنی پڑھائی کے بجائے اس طرف کیوں جارھا ھوں، جبکہ وہ ھمارے لئے اپنی ایک مختصر سی تنخواہ میں ھمیں تمام سہولتیں مہیا کررھے تھے-

اُس وقت کے لوگوں میں معاوضہ سے زیادہ محنت کرنے کی ایک لگن اور اچھے سے اچھا نتیجہ یا یوں کہہ لیں کہ کم سے کم وقت میں، ایک عمدہ کوالیٹی کو ابھارنے کی کوشش میں لگے رھتے تھے، انہیں یہ یقین تھا کہ جتنی ایمانداری اور جستجو سے وہ کام کریں گے اس سے کہیں زیادہ اللٌہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت دے گا -

آجکل ھمارے اندر یقین نام کی کوئی چیز نہیں ھے، اور بھروسہ تو بالکل اٹھ چکا ھے، تو سوچ لیں کہ برکت کیسے ھوگی، آج ھم روپئے اور پیسے ھی کو اپنا سب کچھ مانتے ھیں، کوالیٹی، ایمانداری اور محنت کی طرف تو کسی کا بھی دھیان ھی نہیں ھے، یعنی کہ اب بالکل ھم لوگ اسکے برعکس چل رھے ھیں،

ایک یہ ھمارے ذہن میں تو بالکل ھی ایک کونہ تو بالکل کورا ھو چکا ھے کہ اگر ھم محنت اور ایمانداری سے کام کریں گے تو اس سے ھماری ھی ذات کو اس کا فائدہ نہیں ھوگا بلکہ اس سے ھم اپنے ملک کی ترقی میں حصہ دار کی حیثیت سے ھر ایک سنگ میل کا نیا اضافہ بھی کریں گے، اگر ھر انفرادی قوت مل کر ایک جان ھوجائیں اور مشترکہ طور سے ایک دوسرے کا ہاتھ پٹائیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ھم اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے صف میں کھڑا نہیں کرسکتے، ھمارے سب کے اندر بہت زیادہ قدرت کی پیدا کی ھوئی خدا داد صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھیں-

ایک سب سے بری خامی یہ ھے کہ ھم اپنے ھر پیشہ کو ایک علیحدہ علیحدہ اسٹینڈرڈ کے پیمانے میں رکھ کر تولتے ھیں، جبکہ پہلے وقت میں کوئی بھی شخص کسی بھی پیشہ کو برا نہیں سمجھتا تھا، جس طرح کہ اب بھی باھر کے ملکوں میں گریجویٹ لوگ ھیں لیکن وہ ڈرائیونگ بھی کررھے ھیں کھیتوں میں کام کررھے ھیں، پٹرول پمپ اور کیفے یا ریسٹورنٹ میں ویٹر اور مزدور، صفائی ستھرای کرنے والے بھی اچھے تعلیم یافتہ ھیں، لیکن وہاں کوئی بھی کسی پیشہ کو برا نہیں سمجھتے، کوئی بھی کام ھو وہ لوگ لگن اور محنت سے اور خوشی سے کرتے ھیں اور ان سے منسلک کسی بھی کام میں ایک اچھے سے اچھا میعار لانے کیلئے اپنی ھر ممکن کوشش کرتے ھیں،

ھمارے محلے میں بھی ھر قسم کے پیشے سے رکھنے والے ایک ساتھ مل جل کر رھتے تھے، اس میں بابو لوگ سوٹ بوٹ میں دفتر جاتے تھے، تو ساتھ وہاں معمار، بڑھئی اور لوہار حضرات بھی تھے، رکشہ،اور ٹیکسی ڈرائیور اس کے علاوہ بس کے کنڈکٹر بھی تھے، گدھا گاڑی چلانے، اور خود ٹھیلے پر سبزی، گوشت اور شربت فالودہ بیچنے والے بھی وہیں رھائیش پذیر تھے، فوجی جوان ھو یا کوئی صوبیدار ھو یا پولیس سے تعلق ،موچی، نائی یا دھوبی بھی گاڑی کے مکینک حضرات بھی ساتھ ھی رھتے تھے اس کے علاوہ گھڑی ریڈیو اور گراموفون کے مکینک بھی موجود تھے ، دو تیں ڈاکٹر بھی تھے ساتھ نرس اور دائیاں بھی تھیں، صفائی کرنے والے بھی موجود تھے، اور ایک اچھی بات یہ تھی کہ ھر ایک اپنے محلے کے لئے بلامعاوضہ خدمات انجام دیتے تھے، صرف اگر باہر سے اگر کسی پرزے کی ضرورت نہ ھو تو وہ بھی وہ بالکل سستے میں دلوا بھی دیتے تھے،

غرض کہ ھر پیشہ سے منسلک لوگوں کی ایک اچھی تعداد موجود تھی، اور سب لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ھوکر آتے تو سب ملکر اپنے محلے کی مسجد میں اکھٹا ھو کر نماز باجماعت پڑھتے تھے، اگر کوئی موجود نہ ھوتا تو اسکے گھر جاکر ظبعیت کی خبر گیری کرتے، اور بلاناغہ ھر رات کو سب بڑوں کی ایک بیٹھک ھوتی تھی اور گپ شپ کے علاوہ ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی اپنی ماھرانہ رائے اور خدمات پیش کرتے تھے، شادی بیاہ سے لیکر گھر کی ریپئر وغیرہ تک میں سب لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، اور کسی کے ھاں اگر کوئی مہمان آجاتا تو وہ پورے محلے کا مہمان ھوتا، حتیٰ کہ محلے کی نالیاں وغیرہ صاف کرنے کےلئے بھی سب ملکر اپنی خدمات پیش کرتے تھے-

ایسی بات نہیں ھے کہ اب ھمارا وہ جذبہ نہیں رھا یا وہ صلاحتیں ختم ھو گئیں، اب بھی ھم سب میں وھی ماہرانہ صلاحیت اور خصوصیات موجود ھیں، جو پہلے کبھی سامنے اپنے ملک میں موجود تھیں، جیساکہ ھم سب جو آجکل بیرونی ممالک میں اپنی ماھرانہ خدمات انجام دے رھے ھیں اور دوسرے ملک ھماری انہی خصوصیات سے فائدہ بھی اٹھا رھے ھیں، یہاں ھم جتنی محنت کرتے ھیں اگر اسی لگن کے ساتھ اس سے آدھی بھی اگر ھم اپنے ملک میں محنت کریں تو ھمارے ساتھ ساتھ ھمارے ملک کو اتنا فائدہ ھو کہ ھم سوچ بھی نہیں سکتے،

لیکن افسوس کہ ھم سب جو باہر ھیں بہت مجبور ھیں کہ ھمیں اپنی صلاحیتوں کو اپنے ھی ملک میں ابھارنے کا موقع نہیں دیا جاتا، ھر جگہ اچھی پوسٹ کیلئے رشوت کا سہارا لیا جاتا ھے، کیڈٹ اور سول سروسز میں عام لوگوں کے بچوں کا جانا ایک معجزے سے کم نہیں ھے، اگر کوئی ایمانداری سے کوئی کاروبار کرنا چاھتا ھے تو وہ اپنے ھی بڑے اداروں کے پلے ھوئے بدمعاشوں کو بھتہ دیئے بغیر ان کے زیر اثر آئے بغیر کوئی کام شروع نہیں کرسکتے-

یہاں تک کہ بھیک مانگنے والوں کو، فٹ پاتھ پر بیچنے والوں کو، بازار میں ٹھیلا لگانے والوں کو بھی ھر جگہ کی مناسبت سے ماھانہ یا روزانہ یا ھفتہ وار ایک اچھی خاصی رقم وھاں کے علاقے کے مقرر کردہ چیرمین کو ادا کرنی پڑتی ھے چاھے کمائی ھو یا نہ ھو، ھر کوئی انکا کھاتہ پورا کرنے کیلئے بے ایمانی کرنے پر مجبور ھے کیونکہ اگر اس نے مقررہ وقت سے پہلے بھتہ کی رقم نہ چکائی تو وہ اس دھندے سے بے دخل ھو سکتا ھے، یہی حال چھوٹے بڑے ھوٹلوں ریسٹورنٹ اور یا کوئی بھی کاروبار ھو بغیر کھلائے پلائے شروع نہیں کرسکتے اور جو کررھے ھیں وہ دوسروں کو بھتہ تو ضرور دیتے ھیں لیکن سرکار کو انکم ٹیکس دینے سے پیچھے بھاگتے ھیں -

ان کے پیچھے کون کون سے کرم فرما سرگرم ھیں، یہ سب جانتے ہیں، لیکن ھر ایک کی زبان پر ایسا تالا لگا ھوا ھے کہ جسکی چابی لگتا ھے کہ کہیں کھو گئی ھے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-35- لڑکپن کے دور اور سینما کا پروجیکٹ،!!!

ان کے پیچھے کون کون سے کرم فرما سرگرم ھیں، یہ سب جانتے ہیں، لیکن ھر ایک کی زبان پر ایسا تالا لگا ھوا ھے کہ جسکی چابی لگتا ھے کہ کہیں کھو گئی ھے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

معاف کیجئے گا، میں پھر سے اپنے کہانی کے ٹریک سے نیچے اتر گیا تھا، میں پھر دوبارہ وہیں سے سلسلہ جوڑتا ھوں جہاں سے سلسلہ منقطع ھوا تھا،!!!!!

اور آخر اسکول کی چھٹی کے بعد تھکا ھارا گھر پہنچا اور بستہ رکھ کر فوراً گھر کے ایک کونے میں اس خفیہ جگہ پر پہنچا جہاں پر وہ پروجیکٹر مشیں اور فلموں کی ریل چھپائی تھی، کیا دیکھتا ھوں کے میرے تمام چھوتے بہن بھائی مل کر اس مشیں کے ساتھ کھیل رھے تھے اور فلم کا رول کو پورا ھی کھول دیا تھا پورے کمرے کا کیا حشر نشر ھوا کہ میں کیا بتاؤن میں تو اس وقت سکتے میں ھی آگیا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!

میں تو یہ دیکھ کر پریشان ھوگیا انہوں نے تومیری ساری محنت پر پانی ھی پھیر دیا تھا، زیادہ زور سے ڈانٹ بھی نہیں سکتا تھا، بڑی مشکل سے پورے فلم کے رول کو سمیٹا اور مشین کے ھینڈل وغیرہ کو اکھٹا کرکے اسی جگہ چھپا دیا اور سب کو خاموشی سے خبردار کیا کہ آئندہ میری کسی بھی چیز کو ھاتھ نہیں لگانا، وہ سب ڈر کر بھاگ تو گئے لیکن مجھے اس بات کا احساس ھوا کہ کہیں یہ سب اباجی سے شکایت نہ لگا دیں، فوراً دوڑا ھوا ان کے پاس پہنچا اور کچھ مکھن لگایا، اور انہیں اس مشین کے بارے میں کسی کو نہ بتانے کا وعدہ لیا،

اس رات تو مجھے بالکل نیند نہیں آئی، بس اپنے اس پروجیکٹ کے بارے میں ھی سوچتا رھا کہ کس طرح اس کو آپریشن میں لایا جائے، صبح ھوتے ھی معمول کے مطابق سب سے پہلے فوراً گھر کا پانی بھرا اور جلدی سے بازار کا سودا خرید لایا، والدہ بھی پریشان کہ آج اسے کیا ھوگیا ھے، اور پھر اپنے پروجیکٹ کی طرف چلا فلم رول کو چرخی پر چڑھایا اور اسے سیٹ کرنے کی جگہ تلاش کی ایک کمرے کا کونے میں ایک میز کے نچلے حصہ کو سینما گھر بنایا، ایک طرف پروجیکٹر مشیں کو ایک چھوٹے سے اسٹول پر رکھا، دوسری طرف سفید دیوار کو اسکرین بنایا، اور میز کے اُوپر ایک بڑی سی چادر ڈال کر کچھ کچھ اندھیرا کرنے میں کامیاب ھوگیا،

پہلے پریمئیر شو پر بہں بھائیوں کو چادر اٹھا کر میز کے نیچے بٹھادیا ایک وقت میں اس میز کے نیچے چھ بچے مشکل ھی سے آسکتے تھے، بہرحال ایک وقت میں چھ بھی کافی تھے، خیر میں نے چرخی گھمائی تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، کیونکہ اسکرین کے اوپر پروجیکٹر کے ذریعے روشنی کیسے پہنچے گی اس کا تو میں نے سرے سے سوچا ھی نہیں تھا اب تو بہن بھائیوں نے تو میرا مذاق اڑانا شروع کردیا، اب کیا کروں اس کا کیا حل نکالوں بجلی کا ایک بلب اندر لگا ھوا تھا، مگر گھر پر تو بجلی تھی ھی نہیں تو بلب کیسے چلتا، ایک کوشش اور کی کہ کھڑکی کھول کر ایک آئینہ سے دھوپ کا عکس پروجیکٹر پر ڈالنے کی ناکام سی کوشش کی، لیکں روشنی کو وھاں تک نہ پہنچا سکا،

دوسرے دن مایوسی سے اپنا لٹکتا ھوا چہرہ لے کر اسی کباڑی کے پاس پہنچا اور ساری کہانی سنائی اس نے جواب دیا کہ ایک صورت ھے کی ایک ٹارچ خریدو اور وہ بھی پاور فل بیٹری والی اسکو تم پروجیکٹر کے ساتھ جوڑ کر اپنا کام چلا سکتے ھو، ھر کباڑی کے پاس ڈھونڈا مگر اس ٹائپ کی ٹارچ نہیں ملی، پھر مجبوراً مجھے نئی ٹارچ خریدنی پڑی اور وہ بیٹری سیل کے ساتھ مجھے 15 روپے کی پڑی،

جلدی جلدی گھر پہنچا اور ٹیبل کے نیچے گُھسا اور کسی کو بتائے بغیر ھی ٹارچ کو مشین کے پیچھے ڈھکن کو کھول کر بیچ میں اس ظرح تاروں سے باندھ کر فکس کیا کہ اسکی روشنی سیدھے مشین کے عدسے پر پڑے اور وہاں سے گزرتی ھوئی فلم کا عکس سامنے کی دیوار پر پڑے، اس میں شکر ھے کہ کامیاب ھوگیا اب دوبارا فلم کے رول کو سیٹ کیا اور ایک سرا چرخی سے لے کر عدسے کے سامنے بنے ھوئے سانچے کے درمیان سے گزارتا ھوا نیچے والی چرخی میں پھنسا دیا اور اب تو خوشی کا ٹھکانا ھی نہ رھا اور فوراً سب بہں بھائیوں کو بلایا جو ابھی اسکول نہیں جاتے تھے دو تو بہنیں اسکول گئی ھوئی تھیں، باقی تین گھر پر ھی ھوتے تھے بہر حال انکو پھر دّعوت دی کہ آجاؤ، اماں کو تو پتہ چل ھی گیا تھا لیکن بےچاری خاموش ھی رھیں ھمیشہ کی طرح، اور سب کو جمع کیا، جس میں دو تین شاید محلے کے بچوں کو بھی شامل کرلیا تھا، کیونکہ وہاں چھ بچوں سے زیادہ کی گنجائش نہیں تھی،

آخر وہ وقت آھی گیا فوراً میں نے ٹارچ کو آن کیا اس کی روشنی جیسے ھی پروجیکٹر سے ھوکر سامنے کی دیوار پر پڑی اور میں نے فوراً ھاتھ سے چرخی کے ھینڈل کو گھمانا شروع کردیا میرا خوشی کے مارے برا حال تھا میرا پروجیکٹ کامیاب ھوگیا تھا سامنے کارٹون فلم حرکت کررھی تھی، لیکں افسوس کہ وہ پردے پر الٹی چل رھی تھی یعنی سر نیچے اور پیر اوپر، پھر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بچوں کا تو پتہ ھی ھے وہ لگے میرا پھر سے مذاق اڑانے، !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

دیوار کو تو الٹا نہیں کرسکتا تھا، بلکہ پروجیکٹر مشین کو ھی الٹا کردیا، پھر ڈرتے ڈرتے ٹارچ کو آن کیا اور ھینڈل کو گھمایا، پکچر تو سیدھی ھوگئی لیکن ایسا لگ رھا تھا کہ سب کارٹون کے سارے کردار الٹے چل رھے ھوں، ایک اور نئے مسلئے میں پھنس گیا، اور پھر بچوں نے پھر مذاق شروع کردیا، میں نے سب کو ڈانٹ کر بھگادیا، جاتے جاتے تو ایک نے کہا کہ آج تو اباجی سے آپ کی شکایت کریں گے، ایک اور مصیبت، میں مسکین کس کس مورچے کو سنبھالوں، دوبارہ ان سب کو چاکلیٹ کہلانے کے وعدہ پر راضی کرلیا -

دوسرے دن پھر میں اسی کباڑی کے پاس گیا اور غصہ سے سارا ماجرا سنادیا اس نے بھی اسی غصہ کو مجھ پر ھی پلٹا دیا اور کہنے لگا کہ بھائی میرا اس میں کوئی قصور نہیں ھے، الٹی ھو یا سیدھی فلم تو چل رھی ھے نا، اس کو اس کے مکینزم کے بارے میں علم نہیں تھا، کافی بحث کے بعد اس نے آخر میں یہی کہا کہ بھائی خدا کیلئے وہ مشین مجھے واپس لادو، اور اپنے پیسے واپس لے جاؤ، میں وہان سے مایوسی کی حالت میں نکلا اور سوچا کہ کوئی چھوٹی سی مشکل ھے جو کہ مشیں کو الٹا کرو تو پکچر واپس اپنے ماضی کی ظرف چل پڑتی ھے اور اگر سیدھا رکھو تو پکچر الٹی یعنی سر اُوپر اور پیر نیچے دکھائی دیتے ھیں۔

صدر میں ایک دکان پر ایک کیمرے کی دکان پر ایک چھوٹا سا پروجیکٹر دیکھا تھا، میں نے سوچا کہ شاید وہ دکان والا میری اس گتھی کو سلجا دے، فوراً وہاں پہنچا اور اس سے کہا کہ چچا ایک مشورہ چاھئے، اس نے بھی مزاقاً میری حالت دیکھتے ھوئے کہا کہ یہ شادی کا دفتر نہیں ھے، میں نے ایک دم سے اپنا منہ بنایا اور آگے چل دیا،

پھر اس چچا نے مجھے آواز دی، شاید اسے کچھ میری بے بسی پر رحم آگیا تھا اور مجھ سے معذرت کرتے ھوئے پوچھا بتاؤ کیا مشورہ چاھئے، میں نے ساری کہانی دھرادی، وہ بہت ھنسا اور کہا کہ تھوڑا سا عقل سے کام لو اور کہا کہ فلم کو دوبارا لپیٹو اور اس کے آخری سرے سے فلم کو پروجیکٹر میں لگا کر چلاؤ - اور کہا کہ خیال رکھنا کہ پروجیکٹر میں فلم کو الٹا یعنی سر نیچے اور پیر اوپر کرکے لگاو گے تو پردے پر فلم سیدھی نظر آئے گی -

میں نے دل میں کہا کہ یہ چچا پھر میرے ساتھ مذاق کررھا ھے، بہلا یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ فلم کو الٹی ڈالو تو اس کا عکس اسکرین پر سیدھا کیسے نظر آئے گا، اس وقت میرے اس چھوٹے سے دماغ میں تو یہی بات گھسی تھی، بہرحال مجھے اپنا منصوبہ ناکام ھوتا ھی نظر آیا، بس اب یہی سوچنے لگا کہ اب ایک آخری کوشش کرونگا اور پھر بھی کامیاب نہ ھوا تو یہ مشین واپس ھی کردوں گا -!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-36- لڑکپن کے شوق کا پڑھائی پر اثر،!!!!!

میں نے دل میں کہا کہ یہ چچا پھر میرے ساتھ مذاق کررھا ھے، بہلا یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ فلم کو الٹی ڈالو تو اس کا عکس اسکرین پر سیدھا کیسے نظر آئے گا، اس وقت میرے اس چھوٹے سے دماغ میں تو یہی بات گھسی تھی، بہرحال مجھے اپنا منصوبہ ناکام ھوتا ھی نظر آیا، بس اب یہی سوچنے لگا کہ اب ایک آخری کوشش کرونگا اور پھر بھی کامیاب نہ ھوا تو یہ مشین واپس ھی کردوں گا -!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

گھر واپس پھر اس مایوسی کےساتھ آیا اور بغیر مشین کی طرف دیکھے جو میز کے نیچے پڑی میرا مذاق اُڑا رھی تھی، جلدی سے تھوڑا بہت کھانا کھایا اور تیار ھوکر اسکول چلاگیا، وہاں پر بھی بس اپنے اس پروجیکٹ کی ناکامی کے صدمہ سے اداس کلاس روم میں بیٹھا رھا، ہاف ٹائم میں بھی باھر نہیں گیا، گھر واپسی کے وقت بھی میں بہت آہستہ آہستہ واپس گھر کی طرف لوٹ رھا تھا،

دوسرے دن بھی صبح معمول کے مطابق پہلے پانی بھرنے کے بعد سودا لے کر آیا اور بس صرف پروجیکٹر کے ھی بارے میں ھی سوچتا رھا 35 روپے خرچ کر بیٹھا تھا، اور نتیجہ کچھ بھی نہیں، بہرحال میں اکیلا ھی میز کی چادر اٹھا کر مشین کو باھر نکالا اور پھر سوچا کہ کیا حرج ھے اگر چچا کے مذاق کو بھی آزما کر ایک دفعہ دیکھ لیتیے ھیں، فلم کی ریل کو ایک چرخی سے دوسری چرخی کی طرف لپیٹا اور پھر چچا کے کہنے پر ھی اس فلم کی ریل کو الٹی تصویر کے ساتھ ھی پروجیکٹر مشین کے سامنے والے حصے کو کھول کر کھانچے سے گزارتا ھوا ایک سرا نیچے والی چرخی میں پھنسا کر ایک چکر دے کر، ٹارچ کو روشن کیا اور مشین کے ھینڈل کو گھمایا اور سامنے ٹیبل کی طرف دیوار پر دیکھا، تو واقعی حیران رہ گیا، وہی کارٹون فلم بالکل صحیح چل رھی تھی، بس اب تو ھاتھ کے گھمانے پر منحصر تھا، جتنا تیز چلاؤ فلم کے منظر تیز بھگنے لگتے اور آہستہ کرو تو فلم بھی سلوموشن کی طرح دکھائی دیتی -

مگر مجھے یہ منطق اس وقت پھر بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ الٹی فلم کے رول سے جب روشنی منعکس ھوکر پردے پر دکھائی دیتی ھے وہ کیسے سیدھی ھو جاتی ھے، میں نے سوچا کہ اب اس منطق کے بارے میں سوچنا کیا، اپنا تو کام ھوگیا، پھر بچوں کو اکھٹا کیا اور جس طرح سینما ھال میں ھوتا ھے، پہلے سب کو گھر کی کھڑکی سے سینما کیلئے ٹکٹ بانٹے، جو میں نے خود اپنے ھاتھ سے ڈیزاین کئے تھے اور پھر کھڑکی کو بند کرکے سب کو کہا کہ دروازے پر لائن میں کھڑے ھوجائیں، میں فوراً دروازے پر پہنچا اور ھر بچے سے ٹکٹ لے کر آدھا پھاڑ کر ھاتھ میں تھمایا اور سب کو میز کے نیچے بٹھا دیا اور پھر میں نے پروجیکٹر کی چرخی کو گھمایا اور ساتھ ھی ٹارچ کو روشن کیا، پھر کیا تھا کارٹون فلم اسٹارٹ، اس وقت بلیک اینڈ وھائٹ فلم ھی ھوا کرتی تھی، تین منٹ کی کی فلم تھی، بچے بڑے خوش ھوئے اس سے زیادہ میں بہت خوش ھوا کہ ایک میری محنت کام آگئی،

بس دوسرے دن سے صبح کے وقت سارے گھر کے کاموں سے فارغ ھوکر بس میں اپنے اس سینما کے پروجیکٹ کو مزید کامیاب بنانے کی دھن میں لگ گیا، شام کے وقت اباجی کا ڈر تھا، اس لئے بس دن کا وقت ھی چُنا تھا، اباجی ڈیوٹی پر اور امآں جی گھر پر، انکو تو پٹانا کوئی مشکل نہیں تھا، مگر وہ روز یہی کہتی تھیں کہ اس فلمی چکر کو بند کردو، ورنہ جس دن تمھارے ابا کو پتہ چل گیا تو تمھاری شامت آجائے گی، مگر انکی اس بات کا مجھے کوئی بھی اثر نہیں ھوتا تھا، اتوار کو ناغہ ھوتا تھا کیونکہ اس دن چھٹی بھی ھوتی تھی،

دن میں روشنی زیادہ ھونے کی وجہ سے مجھے کمرے میں مکمل اندھیرا کرنے کیلئے تمام کھڑکیاں اور دروازوں کو اچھی طرح بند کرنا پڑتا تھا، اب تو روزانہ ھی بڑے شوق سے فلم چلانے کا انتظام کرتا اور بالکل سینماوں کی طرح سینما کے ٹکٹ کی کھڑکی سے ٹکٹ کا بانٹنا، ٹکٹ بھی خود ڈیزاین کرنا اور گیٹ پر جاکر ٹکٹ پھاڑنا اور اندر انھیرے اسی ٹارچ کی روشنی سے بچوں کو انکی جگہ پر بٹھانا اور باقائدہ ایک پوسٹر بھی بنایا تھا جس پر فلم کا ایسے ھی فرضی نام لکھ کر کچھ تصویریں بنا کر لکھ دیتا تھا کہ آج شب کو فلاں سینما میں فلاں فلم دیکھئے اور سینما میں صرف تین منٹ کی ایک ھی کارٹون اور جانوروں کی فلم بار بار دکھاتا رھا اور بچے بھی بور ھوگئے، آخر اس پروجیکٹ کو بھی نظر لگ گئی ایک دوست کو مشین میں کچھ گڑبڑ کی وجہ سے اسے ٹھیک کرانے کو دی اور وہ ساتھ فلم کی ریل بھی دے دی، اس کے بعد اس نے شکل ھی نہیں دکھائی،

اس پروجیکٹ کے بعد پھر سے میں نے تصویریں بنانے کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کردیا، وہ بھی میرا ایک پسندیدہ شوق تھا، مگر ان تمام حرکتوں کی وجہ سے مجھے آٹھویں کلاس کے سالانہ امتحان میں بہت کم نمبر آئے اور ایک مضموں میں فیل بھی ھوگیا، اور مگر مجھے پھر بھی نویں کلاس میں پرموٹ پاس کردیا گیا کیونکہ 33٪ مارکس تھے اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے سالانہ امتحانات کے دنوں میں ٹائیفایڈ ھوگیا تھا، اور اسی وجہ سے میں والد صاحب کی ڈانٹ سے بچ بھی گیا، لیکن پھر بھی میں نے امتحانات میں بیماری کے باوجود کچھ تھوڑی بہت محنت بھی ضرور کی تھی،

اباجی کو کافی دکھ بھی ھوا تھا لیکن وہ میری حالت دیکھ کر مجھے کافی تسلی دیتے رھے کہ کوئی بات نہیں بیٹا، دل پر مت لینا شکر ھے کہ کم نمبر ھی صحیح لیکن نویں کلاس میں تو پہنچ گیا اور میں بھی کچھ ان دنوں ضرورت سے زیادہ مسکین بن گیا تھا، میں ویسے بھی بچپن سے ھی کچھ ڈرامے بازی کی شوق کی وجہ سے بھی کبھی کبھی ایسا ڈرامہ کھیل جاتا تھا کہ لوگ اسے واقعی حقیقت سمجھتے تھے، کئی دفعہ اپنے اس ڈرامائی حرکتون کی وجہ سے ھی گھر میں یا باہر کئی دفعہ مشکلوں سے جان بچائی، جن کا ذکر میں پہلے نہ کرسکا کیونکہ کافی ایسی بچپن کی یادداشتیں تھیں، جو میں بھول چکا ھوں، جو مجھے یاد تھیں وہ میں تحریر کرچکا ھوں،

اور ایک بات کا مجھے اب تک تعجب ھے کہ یہ بچپن کے شوق آگے چل کر میرے پروفیشنل کیرئیر میں بھی آئے مگر زیادہ عرصہ میرے ساتھ نہیں رہ سکے، تصویروں کے ساتھ ساتھ میں بچوں کے اخبارات میں بھی چھوٹی چھوٹی نظمیں اور کہانیاں بھی لکھتا تھا، اور قلمی دوستی کا بھی ایک بھوت سوار تھا مگر نام ارمان شاھد تھا، میرے پاس خطوط کا ایک ڈھیر ھوتا تھا اور روزانہ ھر خط کا جواب بھی دینا میرا ایک محبوب مشغلہ تھا اس کے علاؤہ ریڈیو پاکستان سے آڈیشن ٹیسٹ کے لئے دعوت نامہ بھی آیا تھا، مگر افسوس کے اس ٹیسٹ میں پاس نہیں ھوسکا لیکن وہاں کے ریجنل منیجر نے کہا کہ آپ کی آواز میں تھوڑی سی جھجک ھے مگر بول اچھا لیتے ھو، اور ابھی تمھارے عمر بھی کم ھے میں نے جواب دیا کہ سر مجھے اسکرپٹ پڑھتے ھوئے کوئی بھی ڈایلاگ ڈرامائی انداز میں بولنا کچھ مشکل لگتا ھے، مجھے سچویشن بتا دیجئے اور ڈایلاگ دے دیجئے میں یاد کرکے بغیر اسکرپٹ کے بہترین اسکی ادائیگی کرسکتا ھوں، لیکن افسوس کہ انہوں نے کہا کہ بیٹا ریڈیو پاکستان میں مائیک کے سامنے براہ راست بولنا پڑتا ھے یہ کوئی اسٹیج شو نہیں ھے، اور بس یہی جواب دیا کہ آپ کی عمر جب 18 سال کی ھوجائے تو میرے پاس ضرور چلے آنا اگر میں زندہ رھا تو تمھیں ضرور اپنے ڈرامہ میں ضرور ساین کرونگا، ان کا نام شاید زیڈ اے بخاری صاحب تھا، جو بعد میں ریجنل ڈائریکٹر بن گئے تھے -

ریڈیو پاکستان سے تو مایوسی ھوئی لیکن اسکول اور محلے میں چھوٹے چھوٹے ڈرامے اور فنکشن وغیرہ کرکے بھی اپنے شوق میں مزید پختگی لانے کی کوشش میں لگا رھا اور ساتھ ساتھ اخباروں اور بچوں کی دنیا اور نونہال جیسے بچوں کے رسالوں میں کچھ نہ کچھ لکھتا رھا، اس کے علاوہ پینٹنگ اور پنسل اسکیچ اور اخباروں کی کٹنگ سے البم بنانا بھی اپنے شوق کے ساتھ رکھا-

سن 1964 کا نویں کلاس اور تقریباً 14 سال کی عمر ھوگی، اس کلاس میں کافی دوست بھی بچھڑ گئے تھے، کیونکہ کئی دوستوں کو اچھے نمبر لانے کی وجہ سے سائنس میں داخلہ مل گیا تھا اور ھم جیسوں کو کم نمبروں کی وجہ سے آرٹس میں داخلہ مل سکا، غنیمت ھے مل گیا ورنہ تو آٹھویں کلاس میں ھی رھنے کا ڈر تھا !!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-37- لڑکپن میں مچھلی کے شکار کا شوق،!!!

سن 1964 کا نویں کلاس اور تقریباً 14 سال کی عمر ھوگی، اس کلاس میں کافی دوست بھی بچھڑ گئے تھے، کیونکہ کئی دوستوں کو اچھے نمبر لانے کی وجہ سے سائنس میں داخلہ مل گیا تھا اور ھم جیسوں کو کم نمبروں کی وجہ سے آرٹس میں داخلہ مل سکا، غنیمت ھے مل گیا ورنہ تو آٹھویں کلاس میں ھی رھنے کا ڈر تھا !!!!!!!!!!!!!!!!!!

مجھ میں ایک بری عادت تھی کہ اگر کسی نئے شوق کو اگر پکڑ لیا تو اسی کے پیچھے پڑ جاتا تھا یا تو اسے مکمل کرکے رھتا یا جب تک وہ کام بگڑ نہ جائے اس وقت تک اسکی جان نہیں چھوڑتا تھا،جس کی وجہ سے میری پڑھائی بہت ھی زیادہ ڈسٹرب رھی، ھر ایک کے والدین تو یہی چاھتے ھیں کہ ان کی اولاد اچھی تعلیم حاصل کرے، لیکن اکثر والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر خاص نظر نہیں رکھ پاتے یا ان کو اتنے دباؤ اور غصے کے زیراثر رکھتے ھیں کہ بچے پھر کوئی اور چوری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ھوجاتے ھیں -

مجھے ماں کی طرف سے بہت زیادہ لاڈ پیار ملا اور وہ ھر وقت مجھے والد صاحب کی ڈانٹ اور غصہ کے عتاب سے بچاتی رھیں، جس کا میں نے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا، اور دوسری طرف والد صاحب کا غصہ، حد سے زیادہ سختی کی وجہ اور ڈانٹ کے ڈر سے میں نے غلط طریقوں سے دوسرے کاموں میں اپنے آپ کو الجھا لیا، اور پڑھائی کی طرف سے اپنا دھیان بہت کم کردیا، اور ایسا بھی نہیں تھا کہ والد کے پیار میں کوئی کمی تھی، ھماری تمام ضروریات کا خاص خیال رکھتے اور من پسند کی چیزیں خرید کر دیتے بھی تھے،

بہت سی ایسی باتیں ھیں جو کافی دلچسپ تھیں لیکن یادوں کے دریچوں میں آتے آتے رہ جاتی ھیں، میں چاھتا ھوں کہ ابھی میں اپنے آپ کو آٹھویں جماعت تک ھی رکھوں کیونکہ اس میں بجپن اور لڑکپن کی شرارتیں اور کافی دلچسپ واقعات پوشیدہ ھیں، جن کو میں یاد کرنے کی کوشش کررھا ھوں، جو جو مجھے یاد آتا جائے گا، ویسے ھی تحریر کرنے کی کوشش کروں گا، اورجو کچھ مجھے مختصراً یاد ھے وہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا جاونگا، لیکن میں مقررہ وقت اور عمر کا صحیح تعین نہیں کرسکتا،

اپنے ایک اور شوق کے بارے میں بتاتا چلوں، مچھلی کے شکار کا شوق جو مجھے والد صاحب کی ظرف سے ھی ورثہ میں ملا تھا، مجھے اب تک یاد ھے کہ وہ راولپنڈی میں چُھٹی والے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد مجھے ساتھ لے کر سواں ندی کے پاس بلاناغہ مچھلی کے شکار پر لے کر جاتے تھے اور میں بھی بہت شوق سے ان کے ساتھ جاتا تھا اور دوپہر تک ھم شکار کرکے واپس آجاتے تھے، اور گھر کے علاوہ محلے والے بھی مچھلی کے ذائقے سے محروم نہیں رھتے تھے، کراچی پہنچ کر ان کا یہ شوق تقریباً ختم ھی ھو گیا تھا، لیکن میں نے انکی یہ گدی سنبھال لی تھی اور اکثر دوستوں کے ساتھ مچھلی پکڑنے نکل جاتا تھا کبھی اجازت لے کر اور کبھی یونہی چوری چھپے -

اسی طرح ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ سمندر کے کنارے گھومنے اور ساتھ مچھلی کے شکار کیلئے نکل گئے، شاید اسکول جانے کے بجائے ھم دونوں نے سمندر کی طرف کا پروگرام بنا لیا، باقی دوستوں کو پہلے سے ھی اطلاع دے چکے تھے،!!! وہاں اس دن سمندر کی لہریں بہت دور تھیں اور تفریح کے ساتھ کچھ مچھلی بھی پکڑنے کا بھی پروگرام تھا ڈور کانٹے اور مچھلی کی خوراک بھی ساتھ مکمل انتظام کے ساتھ گئے تھے، کتابوں کے بستے یاد نہیں کہ کہاں چھپا کر رکھے تھے،

گھر سے میں کچھ دیر پہلے ھی نکل گیا تھا اور باقی دوست پہلے ھی سے مقرر کردہ جگہ پر مل گئے تھے، وہاں سے بس میں بیٹھ کر سمندر کے کنارے پہنچے، اس دفعہ ھم سب نے ایک نئی جگہ کا انتخاب کیا تھا، وہاں پر دور ایک ٹیلہ نطر آیا اور سمندر کی لہریں بھی اس ٹیلے کو چُھو کر واپس جارھی تھیں، ھم نے یہی سوچا کہ اس ٹیلے پر چڑھ کر مچھلی کا شکار کرتے ھیں تاکہ ڈور کو گھما کر سمندر میں دور تک پھینکنے میں آسانی ھو، ٹیلہ کافی فاصلہ پر تھا، کافی دیر لگی وہاں ٹیلے تک پہنچنے میں، خیر ھم سب نے ٹیلے کی دوسری طرف جہاں سمندر تھا وہاں بیٹھ کر جگہ کو کچھ صاف ستھرا کیا اور صحیح طرح بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ایک دوست گھر سے دری لایا تھ اسے بجھا کر ھم سب نے شکار کی تیاری شروع کردی، کچھ دیر کے بعد ھم تین دوست ھی بچے تھے، باقی جا چکے تھے،!!!!

ھم تینوں دوستوں نے کچھ گھر سے اور کچھ راستے سے کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ لے آئے تھے، سامنے سمندر کا ایک خوبصورت منطر بھی تھا اور دور سے چھوٹی بڑی کشتیاں بھی آ جا رھی تھیں اسکے علاوہ بڑے بڑے بحری جہازوں کو بھی انکی مخصوص سائرن کی آواز کے ساتھ ھم بخوبی دیکھ سکتے تھے، اور دور سے کراچی کی بندرگاہ بھی نطر آرھی تھی، جہاں بڑے بڑے بحری جہاز لنگر انداز تھے اور بڑی بڑی آسمان کو چھوتی ھوئی کرینیں سامان اتارتی ھوئی نظر آرھی تھیں، اس دفعہ ھمیں بہت اچھی جگہ ملی تھی اور ھم نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ آئندہ بھی ھم یہیں پر مچھلی کے شکار کے لئے آیا کریں گے، کیونکہ وہاں بیٹھتے ھی ایک دوست نے جیسے ھی گھما کر ڈور پھینکی تو فوراً ھی چند سیکنڈ بعد ایک درمیانے سائز کی مچھلی پھنس گئی تھی،

پیچھے کا منظر ٹیلے کے وجہ سے نظر نہیں آرھا تھا اور ھمیں کچھ پرواہ بھی نہیں تھی کہ پیچھے کیا ھورھا ھے، ھم سب تو مچھلی پکڑنے اور سمندر کے ساحلی منظر سے لطف اندوز ھورھے تھے، کہ اچانک کچھ دیر بعد یہ محسوس ھوا کہ سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اُوپر چڑھ رہا ھے کیونکہ پانی اب ھمای دری کے اُوپر تک آگیا تھا اور ھم دری اور ساماں کو اسی رفتار سے اُوپر کی طرف کھسکتے جارھے تھے، اور ھم لوگ اپنے کام میں اتنے مگن رھے کہ پیچھے کی طرف مُڑ کے نہیں دیکھا کہ وھاں کا کیا حال ھوگا -

جب پانی کچھ زیادہ ھی اُوپر آگیا اور ھم اُوپر کی طرف چڑھتے چلے گے تو پیچھے کا منطر نظر آگیا، اور کیا دیکھتے ھیں کہ وہاں بھی سمندر کافی دور تک پھیلتا جارھا تھا، ھم سب کی جان ھی نکل گئی، کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اسی پریشانی میں شام ھوتی جارھی تھی اور سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اُوپر چڑھتا آرھا تھا اور ھم چوٹی تک پہنچ چکے تھے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

پانی بہت آہستہ آہستہ اُوپر چڑھ رہا تھا اور وہ ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا، باقی تمام چیزیں تو پانی میں بہہ گئیں، بس ھم تینوں تھر تھر کانپ رھے تھے اور پریشان بھی تھے، شام ھو رھی تھی، اسکول کا وقت بھی ختم ھو رھا تھا، وھاں سے کافی شور بھی کیا، مدد کیلئے لوگوں کو بلانے کی کوشش بھی کی لیکن نہ کوئی دور سمندر میں کشتی والا ھماری آواز سن سکتا تھا اور نہ ھی دوسری طرف دور ساحل کے پار سڑک پر آنے جانے والے کو ھماری آواز پہنچ رھی تھی، بس ایک ھی صرف اُوپر والا ھماری آواز سن سکتا تھا، خوب ھم نے اس وقت اُوپر والے سے گڑگڑا کر معافی مانگی اور ھماری آنکھوں میں آنسو چھلک رھے تھے کیونکہ اب تو کوئی بچنے کا راستہ بھی نہیں تھا، اتنے میں سونے پر سہاگہ یہ ھوا کہ ھلکی ھلکی بارش بھی شروع ھوگئی،

پریشانی میں ایک اور اضافہ، مگر اچانک نیچے دیکھا کہ پانی کی سطح گرتی جاررھی تھی اور ھماری کچھ جان میں جان آئی، جیسے ھی پانی ھمارے گھٹنوں تک پہنچا وھاں سے ھم سرپٹ پانی میں اچھلتے ھوئے بھاگے، لیکن گھر پہنچنے تک مغرب کا وقت ھوچکا تھا سب گھر والے پریشان تھے، مجھے دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی، خوب ڈانٹ تو پڑی لیکن مار کھانے سے بچ گیا، اسکی وجہ یہ تھی کہ مجھے سخت بخار چڑھ گیا تھا، مزید اور تین دن کی اسکول سے چھٹی کرنی پڑی، بعد میں یہ بخار ٹائیفایڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا، آٹھویں جماعت کے سالآنہ امتحانات سر پر تھے، ٹائم ٹیبل آچکا تھا اور میں بالکل ھی پڑھائی کی ظرف دھیان نہیں دے سکتا تھا والد صاحب نے بھی مجھے تسلی دے دی تھی کہ صحت ھے تو جہان ھے -

اس حادثے کے بعد آئندہ کیلئے توبہ کرلی کے سمندر پر نہیں جائیں گے اگر کہیں جانا بھی ھو تو گھر سے اجازت لے کر جائیں گے!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-38- لڑکپن اور ریل کی پٹری پر کھیل،!!!!!!

اس حادثے کے بعد آئندہ کیلئے توبہ کرلی کے سمندر پر نہیں جائیں گے اگر کہیں جانا بھی ھو تو گھر سے اجازت لے کر جائیں گے!!!!!!

پہلے بھی ایسے کئی حادثوں کا شکار ھوتے ھوتے اللٌہ تعالیٰ نے بچایا ھے، زیادہ تفصیل سے مجھے یاد تو نہیں ھے لیکن کوشش کرتا ھوں کہ اپنی کچھ بچی کچھی یادوں کو سمیٹ کر آپ کے سامنے پیش کرسکوں،

بچپن میں ھم اسکول سے واپسی پر اکثر کبھی کبھی مین ریلوے لائن کی طرف سے بھی چکر لگا کر آتے تھے، جبکہ وہ راستہ کچھ دور پڑتا تھا اور جب میں شاید چھٹی جماعت میں زیرتعلیم تھا، ھم بچے اس وقت ٹرینوں کو اپنے سامنے سے گزرتے ھوئے دیکھ کر بہت خوش ھوتے تھے اس کے علاوہ اپنے پاس ایک پیسہ کا سکہ ضرور بچا کر رکھتے تھے اگر اس دن ھمیں ریلوے لائن کی ظرف سے جانے کا ارادہ ھو تو!!!!!!!!!!!

یہ گھر والوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ھم کبھی کبھی ریلوے لائن کی طرف سے بھی آتے ھیں وھاں سے گزرنا ھمارے لئے ویسےتو بالکل منع تھا، کیونکہ ان لائنوں پر بہت اسپیڈ سے ٹرینیں گزرتی تھیں اور کئی حادثے بھی ھوچکے تھے، لیکن ھم بچے اپنی دھن میں مگن کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر ایسے ایسے کام کرجاتے تھے کہ اب اگر سوچتا ھوں تو رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیں،

خیر ھم تو تھے من موجی، ٹرینوں کی پٹری کے پاس کھڑے ھوکر پہلے یہ ھم دیکھتے تھے کہ کونسی طرف کا سگنل کُھلا ھے، اسی لائن کی ایک پٹری کے اُوپر ایک لڑکا اپنا ایک سکہ رکھ کر پیچھے ہٹ جاتا تھا اور ٹرین کا انتطار کرتے تھے، اور دور سے ھی سکٌے پر نظر رکھتے تھے جیسے ھی ٹرین سامنے سے اس سکٌے کے اُوپر سے گزرتی، ھم سب فوراً اس سکٌے کو ڈھونڈنے کے لئے بھاگتے، یہ خیال کئے بغیر ھی کہ دوسری لائن پر بھی گاڑی آسکتی ھے، اور اپنے سکٌہ کو ڈھونڈ کر اسےچپٹا دیکھ کر خوش ھو جاتے کہ دونوں طرف سے اس کا نقشہ ھی بگڑ جاتا تھا،

پھر باری باری ھر ایک لڑکا اپنے اپنے سکے اسی طرح ٹرین کی پٹری پر رکھ کر پچکا کر دیکھتا اور ھم سب مقابلہ کرتے کہ کس کا سکہ کتنا چوڑا ھوگیا کئی دفعہ حادثہ کا شکار ھوتے ھوتے بچے بھی ھیں، لیکن پھر بھی عقل ٹھکانے نہیں آئی تھی،

اور ایک دن جو شاید میری زندگی کا بہت ھی خطرناک دن تھا وہ میں آپ سب کے سامنے پیش کررھا ھوں، اس دن بھی معمول کی طرح ھم لڑکے اپنے سکٌوں کے چوڑا کرنے کے مقابلے کیلئے نکلے ھم سب بہت خوشی خوشی ریلوے لائن کی طرف جارھے تھے، جب ریلوے لائین پر پہنچے تو ھر لڑکا اپنی اپنی باری پر ٹرین کے گزرنے سے پہلے اپنا سکٌہ لائین پر رکھ دیتا اور ٹرین کے گزرنے کے بعد سکٌہ اٹھا کر دیکھ کر مقابلے کے لئے رکھ دیتے مقابلے میں جیتنے والے کے لئے شرظ یہ ھوتی تھی کہ سکٌہ کو گولائی کے ساتھ جتنا زیادہ چوڑا ھونا تھا وھی سکٌہ مقابلے میں اوّل نمبر آتا تھا،

وہاں پر ڈبل لائینیں تھیں دونوں طرف سے ٹرینوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، اور تقریباً ھر پانچ منٹ کے بعد ایک ٹرین ضرور گزرتی تھی، اس میں ایکسپریس ٹرین، لوکل ٹرین اور سامان لے جانے والی گوڈز ٹرین بھی ھوتیں تھیں، اب تک تو ھمیں یہ بھی زبانی معلوم ھوگیا تھا کہ کونسی ٹرین کس وقت ھمارے سامنے سے گزرے گی، اور سگنل کے ڈاؤن ھوتے ھی کبھی کبھی تو بحث ھوجاتی اور ساتھ ھی شرط بھی لگ جاتی تھی کہ ابھی تیزگام گزرے گی یا کراچی ایکسپریس، یا کوئی اور لوکل ٹرین یا پھر لال گڈز ٹرین گزرنے والی ھے اور ھر ایک نے اپنی اپنی ٹرینیں بھی مخصوص بھی کرلیں تھیں مجھے شروع سے ھی تیزگام پسند تھی، اور مجھے اس کے وقت کا بھی پتہ تھا وہ شام کو ھی کراچی کینٹ سے راولپنڈی کے لئے روانہ ھوتی تھی اور ھماری خصوصی جگہ پر بیس یا پچیس منٹ کے بعد گزرتی تھی اور ایک خاص بات تھی کہ میں نے اس وقت تیزگام کو کبھی بھی لیٹ ھوتے نہیں دیکھا تھا، اسے ھم فوجی ٹرین بھی کہتے تھے اور پہلے بچپن میں والدین کے ساتھ بھی میں نے اس ٹرین میں بہت سفر کیا تھا اور بعد میں بھی اسی تیزگام سے ھی سفر کرے پر ترجیح دیتا رھا -

اب میرے باری آئی بلکہ اکثر میری پہلے ھی باری آجاتی تھی کیونکہ ھمارے پہنچتے ھی پہلے ھمارا واسطہ تیزگام سے ھی پڑتا تھا، اسی لئے ھم اسکول سے بھاگ بھاگ کر پہنچتے تھے کہ تیزگام نہ نکل جائے، کبھی کبھی ایسا بھی ھوا کہ ھمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ھی تیزگام یا تو ھمارے سامنے سے گزررھی ھوتی تھی یا گزر چکی ھوتی تھی، جسکا مجھے بہت دکھ ھوتا تھا، میں سکٌہ رکھوں یا نہ رکھوں لیکن ھمیشہ اسکول سے واپسی پر اگر دوسرے راستہ پر بھی ھوتا تو اسی وقت تیزگام دور سے بھی سیٹی بجاتی ھوئی نطر آجاتی تھی، اور میں اسے ھاتھ ھلا کر ھمیشہ رخصت کررھا ھوتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ سیٹی بجا کر مجھے الوداع کر رھی ھو، مجھے واقعی تیزگام سے بہت محبت تھی، اور آج بھی تیزگام کو بہت چاھتا ھوں، جیسے کہ وہ جیتی جاگتی کوئی میری یادگار شاھکار پری ھو،

جیسے ھی ھم وہاں پہنچے تو پہلے سے ھی تیزگام کا سگنل ڈاون تھا، میں فوراً ھی جلدی سے پٹری کی طرف گیا اور اپنا سکٌہ رکھ کر واپس مڑنے کے بجائے دوسری لائن کی طرف تیزی سے بھاگا کیونکہ تیزگام سامنے سے سیٹی بجاتی ھوئی میری طرف اسپیڈ سے بڑھ رھی تھی،

مگر میری بدقسمتی یہ کہ دوسری لائن پر بھی مخالف سمت کی طرف سے بھی ایک اور ایکسپریس ٹرین دوڑتی ھوئی آرھی تھی ھالانکہ مجھے میرے کسی دوست کی آواز بھی گونجتی ھوئی سنائی دی تھی کہ اُدھر سے بھی ٹرین ‌آرھی ھے واپس آجاؤ اس طرف نہ جاؤ، مگر میرے حواس اتنے بگڑ گئے تھے کہ میں کوئی فیصلہ نہ کرپایا اور دوسری لائین کی طرف ھی دوڑا، جہاں ایک اور ایکسپریس ٹرین تیز رفتار کے ساتھ آرھی تھی، اور میرے حواس گُم تھے !!!!!!!!!!!!!!!!

اسے ایک معجزہ ھی کہہ سکتے ھیں کہ جب میرے حواس ٹھکانے پر آئے تو میں نے اپنے آپ کو دونوں ریلوے لائینوں کے درمیان اکڑوں بیٹھا ھوا کانوں میں انگلیاں دبائے ھوئے پایا اور آس پاس سے دونوں ٹرینیں مخالف سمتوں کی طرف سے اپنی اسپیڈ سے نکل گئیں، باقی کے دوست بھاگے ھوئے آئے اور مجھے پکڑکے سائڈ پر لے گئے، شکر ھے کہ میں اپنے حواس میں تھا اور دوسرے تو یہی سمجھ رھے تھے کہ میں ٹرین کے نیچے آگیا، اس دن کے بعد سے وہاں سے گزرنا ھی چھوڑ دیا -!!!!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-39- لڑکپن اور بارش کے مزے،!!!!!

اسے ایک معجزہ ھی کہہ سکتے ھیں کہ جب میرے حواس ٹھکانے پر آئے تو میں نے اپنے آپ کو دونوں ریلوے لائینوں کے درمیان اکڑوں بیٹھا ھوا کانوں میں انگلیاں دبائے ھوئے پایا اور آس پاس سے دونوں ٹرینیں مخالف سمتوں کی طرف سے اپنی اسپیڈ سے نکل گئیں، باقی کے دوست بھاگے ھوئے آئے اور مجھے پکڑکے سائڈ پر لے گئے، شکر ھے کہ میں اپنے حواس میں تھا اور دوسرے تو یہی سمجھ رھے تھے کہ میں ٹرین کے نیچے آگیا، اس دن کے بعد سے وہاں سے گزرنا ھی چھوڑ دیا -

ایسے کئی واقعے ھیں جن سے میں کئی بار بال بال بچا ھوں، بچپن اور لڑکپن بھی کیا چیز ھے، کسی موسم کا اثر بھی نہیں ھوتا ھے چاھے گرمی ھو سردی ھو بارش ھو، طوفان ھو، بچپن میں بس اپنی ھی نئی نئی شرارتوں میں مگن رھتے ھیں،

بارشوں کے دوراں ھم بچوں کو ایک موقعہ مل جاتا تھا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ھنگامہ کرنے کا، ھمارے محلے کے ساتھ ھی ملٹری کے علاقے میں امرود اور آم اور نیمبوں کے باغات تھے، عام دنوں میں تو مالی ھمیشہ ان باغوں کی ڈیوٹی پر معمور رھتا تھا لیکن صرف بارش کا ھی ایک ایسا موسم ھوتا تھا کہ وہ نظر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ سے ھم بچے بارشوں کا بہت بےچینی سے انتطار کرتے تھے، جیسے ھی بارشیں شروع ھوئیں ھم سب کی تو جیسے لاٹری ھی نکل آتی تھی، ایک تو اسکول سے چھٹی اور دوسرے باغوں میں بہار آجاتی تھی، خوب اپنی مرضی سے، درختوں پر چڑھ جانا اور کچے آموں اور نیمبووں کو توڑ کر گھروں میں پہچانا اور پکے پکے امرودوں کو مل بیٹھ کر کھانا -

ان باغوں میں مجھے کوئل کی کوک بہت اچھی لگتی تھی، اسکے علاوہ دوسرے پرندوں کی آوازیں جب آپس میں ٹکراتی تھیں تو ایک حسین سا سماں ھوتا تھا لگتا تھا کہ ھم سب واقعی ایک کسی گھنے جنگل میں ھیں، وھاں سے نکلنے کو بھی جی نہیں چاھتا تھا، بارش میں ھم سب بھیگے ھوئے خوب کھیلتے بھی رھتے تھے، جبکہ والدہ بہت غصہ بھی ھوتی تھیں، انکی تو پروا ھی نہیں کرتے بس جیسے ھی ابا جان کے آنے کا وقت قریب ھوتا تو فوراً میں تو گھر کی راہ لیتا، اور گھر جاکر نہا دھو کر کپڑے بدل کے جلدی سے کتاب اٹھا کے پڑھنے بیٹھ جاتا،

ایک دن یہی بارشوں کا سلسلہ تھا، اور ھم تمام دوست بھی انہیں باغوں کے حشر نشر میں لگے ھوئے تھے، میرا ایک دوست اوپر درخت پر چڑھ کر امرود توڑ ٹوڑ کر پھینک رھا تھا اور میں نیچے جھکا ھوا امرود چن رھا تھا، اسی دوران درخت کے اوپر سے ایک بڑا پتھر میری کمر پر گرا اور میں وہیں بیٹھ گیا، چند لمحوں تک تو مجھے کچھ ھوش نہیں رھا، لیکن میں بالکل کھڑا نہیں ھوسکتا تھا، ایسی تکلیف میں نے کبھی بھی محسوس نہیں کی آنکھوں سے پانی جاری تھا، بڑی مشکل سے دو لڑکوں نے مجھے پکڑا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے جو محلے میں ھی رھتے تھے، وہ صبح کے وقت گورنمنٹ اسپتال میں جاتے تھے اور شام کو محلے سے کچھ ھی فاصلے پر ھی اپنا کلینک کھول کر بیٹھ جاتے تھے بہت اچھے انسان تھے، اس دن شاید بارش کی وجہ سے ھی وہ گھر پر ھی موجود تھے انہوں نے میری کمر پر کچھ دوائی لگائی، ساتھ ایک انجیکشن لگایا اور کچھ گولیاں اور پاوڈر کی پڑیاں بھی دی-

ڈاکٹر صاحب بہت اچھے تھے پیسے بھی نہیں لئے، میں نے ان سے کہا کہ آپ گھر پر مت بتائیے گا، انہون نے جواباً وعدہ کیا اور کچھ نصیحتیں بارش کے حوالے سے کیں کہ بارشوں میں باھر مت کھیلا کرو اور باغوں میں بھی مت جایا کرو کیونکہ اکثر بارشوں کے موسم میں باغوں میں خطرناک قسم کے سانپ اور بچھو وغیرہ بھی ھوتے ھیں، جس سے کچھ بھی نقصان ھوسکتا ھے، اور بعض وقت تو بھوت وغیرہ بھی چپک جاتے ھیں، اور انہوں نے بہت سے حوالے بھی دیے کہ فلاں لڑکا پاگل ھوگیا تھا اور فلاں لڑکے کو سانپ نے کاٹا تھا اگر وقت پر اسپتال نہیں جاتا تو بچ جاتا اور کسی کو بچھو نے کاٹ لیا تھا، ان کی نصیحتیں سن کر تو اور بھی ھم ڈر گئے، کمر کا بھیانک درد دو تین دن میں ٹھیک تو ھو گیا لیکن بعد میں باغ میں جانے کی ھمت ھی نہیں کی -

کافی عرصہ بعد ایک دفعہ پھر دوسرے دوستوں کے اسرار پر ایسے ھی ایک بارش کے موسم میں پھر دماغ خراب ھوا، پہنچ گئے پھر اسی باغ میں لیکں بہت احتیاط کے ساتھ، ساتھ ڈر بھی لگ رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کی نصیحتیں بار بار کانوں میں گونج بھی رھی تھیں، میں نے دوستوں سے کہا بھی کہ یاد ھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا تھا لیکن دوستوں نے کہا ھمیں تو اتنا عرصہ ھوگیا آج تک تو کچھ نہیں ھوا کچھ نہیں ھوگا میں تو ڈر ڈر کے ان سب کے پیچھے خوفزدہ ھوکر چل رھا تھا، کچھ تو درختوں میں چڑھ گئے اور کچھ درختوں پر پتھروں کی بوچھاڑ کرکے اپنی قسمت آزمائی کررھے تھے،

میں بس تماشائی بنا بس سب کے تماشے دیکھ رھا تھا اور یہ میں نے کہا بھی کہ بھئی واپس چلو دیر ھوگئی ھے، لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ھورھا تھا، اچانک ایک دم کیا دیکھا کہ باغ کا مالی شور مچاتا ھوا آرھا تھا سارے لڑکے بھاگے ایک لڑکا اس مالی کے ھتے چڑھ گیا اور میں نے ڈر کے خاموشی سے ایک جھاڑی میں چھلانگ لگادی، جہاں میرا ھی استقبال کرنے کیلئے شہد کی مکھیوں کا ایک بہت بڑا جھنڈ موجود تھا، اور پھر کیا تماشا میرے ساتھ ھوا، چیخ بھی نہیں سکتا تھا اور ان شہد کی پیاری سویٹ مکھیوں سے جان بھی چھڑا نہیں سکتا تھا،

میں تھا اور وہ سویٹ شہد کی مکھیاں تھیں، لگتا تھا کہ کیا لگتا تھا کچھ حوش ھوتا تو پتہ لگتا کہ کیا لگ رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!‌

ساری شہد کی مکھیاں بار بار مجھ پر ھی حملہ کررھی تھیں، تکلیف کے مارے برا حال تھا سارے منہ پر ٹانگوں میں گردن پر جہاں جہاں انہیں موقع ملا اپنے سارے ڈنگ چبھو دئیے، میں شدید تکلیف کی وجہ سے بہت تڑپ رھا تھا بڑی مشکل سے چھپتا چھپاتا باھر نکلا، بارش بھی تھم چکی تھی، سیدھا گھر پہنچا اور راستے میں بھی کوئی دوست نطر نہیں آیا، سب شاید مالی کے ڈر سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اور پتہ نہیں اس لڑکے کا کیا ھوا جو مالی کے قابو میں آگیا تھا،

بہرحال مالی سے جان چھوٹی لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، بدھو گھر تو آگئے، اب گھر میں کیاجواب دوں گا، یہ سوچ کر بہت پریشان تھا منہ پر ھاتھ نہیں لگا سکتا تھا، لگتا تھا کہ چہرے پر آبلے پڑ گئے ھیں،
جیسے ھی گھر میں آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو رونا آگیا پورا چہرا سوج کر ایک عجیب سے ھی نقشہ میں تبدیل ھوگیا تھا، اب اسی تکلیف میں بستر میں گھس کر چادر اوڑھ لی، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے اور تڑپتا رھا آخر اماں نے سمجھ ھی لیا کہ دال میں کچھ کالا ھی ھے، فوراً انہوں نے چادر کھسکائی اور میرا چہرہ دیکھ کر وہ بھی تڑپ گئیں فوراً ھی محلے کے بڑی بوڑھی عورتوں کو بلایا اور انہوں نے پتہ نہیں اپنے کیا کیا دیسی ٹوٹکے استعمال کئے، اسی وقت والد صاحب بھی آگئے اور بہت تلملائے اور والدہ پر خامخواہ ھی غصہ ھوگئے، بہر حال رات گئے تک مجھے ان دیسی ٹوٹکوں سے آرام آھی گیا -!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،-40- لڑکپن اور پکنک کا انوکھا واقعہ،!!!!!!!!

بہرحال مالی سے جان چھوٹی لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، بدھو گھر تو آگئے، اب گھر میں کیاجواب دوں گا، یہ سوچ کر بہت پریشان تھا منہ پر ھاتھ نہیں لگا سکتا تھا، لگتا تھا کہ چہرے پر آبلے پڑ گئے ھیں،
جیسے ھی گھر میں آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو رونا آگیا پورا چہرا سوج کر ایک عجیب سے ھی نقشہ میں تبدیل ھوگیا تھا، اب اسی تکلیف میں بستر میں گھس کر چادر اوڑھ لی، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے اور تڑپتا رھا آخر اماں نے سمجھ ھی لیا کہ دال میں کچھ کالا ھی ھے، فوراً انہوں نے چادر کھسکائی اور میرا چہرہ دیکھ کر وہ بھی تڑپ گئیں فوراً ھی محلے کے بڑی بوڑھی عورتوں کو بلایا اور انہوں نے پتہ نہیں اپنے کیا کیا دیسی ٹوٹکے استعمال کئے، اسی وقت والد صاحب بھی آگئے اور بہت تلملائے اور والدہ پر خامخواہ ھی غصہ ھوگئے، بہر حال رات گئے تک مجھے بھی ان دیسی ٹوٹکوں سے آرام آھی گیا -


بچپن کی شرارتیں اور وہ ساتھ تکلیفیں جو آٹھائیں ان میں بھی ایک الگ ھی مزا اور چاشنی تھی، دل تو چاھتا ھے کہ بچپن کے دور سے بالکل نہ نکلوں اور ساری زندگی بچپن کے ھی دور میں گم رھوں اور ایک واقعہ آپ سب کی نذر کرتا رھوں، لیکن بہت ساری بچپن کی یادیں کچھ ادھوری سی ھیں، جیسے جیسے یاد آتی جائیں گی میں پیش کرتا رھونگا-

ایک اور واقعہ اسکول کا دھندلا دھندلا سا یاد آرھا ھے، ھمارے اس اسکول کی یہ خاص بات ضرور تھی کہ لڑکوں کو اکثر پکنک کیلئے مختلف تفریح گاھوں پر ضرور لے جایا کرتے تھے، اور ھر پکنک کا اپنا ایک الگ مزا ھوا کرتا تھا، مگر ایک پکنک کا سفر مجھ کو تھوڑا تھوڑا یاد آرھا ھے جب ھماری پوری کلاس نے کراچی سے شاید 60 میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے علاقہ ٹھٹھہ میں پکنک کا پروگرام بنایا تھا، جہاں پر تھوڑے سے دور کے فاصلے پر ایک بہت بڑے بزرگ کا مزار تھا اور اسکے ساتھ ھی ایک “مکلی کا قبرستان“ کے نام سے ھے، جو کہتے ھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ھے جہاں پر محمد بن قاسم کے زمانے کے آثار بھی ھیں اور پرانے مقبرے بھی ھیں،

اگر ھم بذریعہ بس جاتے تو جلدی پہنچ سکتے تھے لیکن ٹیچروں نے ٹریں کے راستہ ھی پروگرام بنایا تھا کیونکہ وہاں سے کوئی ایک بہت بڑی جھیل نزدیک پڑتی تھی، اور اس کے لئے پسنجر ٹرین کا ھی انتخاب کیا تھا، کیونکہ یہ ھی چھوٹے اسٹیشن پر رکتی تھی، تین دن کا پروگرام تھا اسکول سے ھی ھم تمام لڑکے اکھٹے ھوکر الگ الگ بسوں میں بیٹھ کر اسٹیشن پہنچے ھر ٹیچر کے سپرد دس دس لڑکے تھے اور ھم سب اپنے اپنے ٹیچرز کی سربراہی میں ایک پہلے سے ھی ریزرو ڈبے میں بیٹھے اور وہ پسنجر ٹرین کراچی سے آہستہ آہستۃ خراماں خراماں چلی، راستے میں وہ ھر ایک اسٹیشن پر رکتی ھوئی چھک چھک کرتی اپنے مخصوص سیٹی کے ساتھ چلی جا رھی تھی راستہ میں کوئی بڑا اسٹیشں نہیں آیا تھا سارے ھی راستے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن نظر آئے، کسی کسی جگہ تو پلیٹ فارم ھی نہیں ھوتا تھا، لوگوں کو اترنے چڑھنے میں بڑی مشکل ھوتی تھی،!!!!!!

اس پسنجر ٹرین کا بھی ایک الگ ھی لطف تھا، گاڑی پلیٹ فارم سے نکلی اور پھر بھی لوگ سوار ھوتے رھے بمعہ سامان کے قلی ان کو دھکا دے کر بٹھاتے بھی رھے اور مزدوری اور ساتھ بھتہ بھی لیکر ھی اترتے رھے جبکہ ٹرین کافی آگے تک نکل گئ تھی -

اس پسنجر ٹرین میں بھی کافی پکنک کا سماں تھا، کچھ مسافر تو ھمارے اسٹوڈنٹ کے ریزرو ڈبے میں بھی آگئے تھے، کافی بحث اور تکرار کے باوجود بھی ان لوگوں نے اترنے کا نام نہیں لیا اور زیادہ تر بغیر ٹکٹ ھی تھے، اور قلیوں نے انہیں بےوقوف بنا کر کچھ پیسوں کے عوض انہیں ھمارے ڈبے میں زبردستی ھی گھُسا دیا تھا اب کیا کرتے مجبوری تھی،

ارے سائیں!! بس تھوڑی دور کی تو بات ھے راستے میں ھم اتر جائے گا، ھم اپکی کرسی پر نہیں بیٹھے گا، ادھر نیچے ھی ٹھیک ھے، سائیں خدا تم کو خوش رکھے نی،!!!!!

ایک نے ذرا التجا کرتے ھوئے کہا تو ھمارے ایک ٹیچر نے بھی جواباً کہا کہ کوئی بات نہیں، سائیں بیٹھ جاؤ،!!! شاید انہوں نے بھی انکی گھنی مونچھوں سے ڈرتے ھوئے ھی کہا تھا!!!!!

ایک دو سائیں تھوڑی تھے وہ تو کوئی آٹھ دس تھے تھے، بمعہ اپنے کنبہ کے ساتھ اور زیادہ تر خانہ بدوش ھی لگتے تھے، سب زیادہ تر گیٹ کے پاس اور کچھ نے تو باتھ روم کے دروازے پر ھی ڈیرہ ڈالا ھوا تھا، کسی کے ساتھ بندروں کو جوڑا تھا، جو ان کے کمر میں رسی سے بندھے ھوئے تھے، اور بار بار اچھل کود کررھے تھے، اور لڑکوں کو بھی چھیڑ چھیڑ کا موقع مل گیا تھا، ایک دوسرے کو بندروں کی طرف اشارہ کرکے رشتہ داری جوڑ رھے تھے، اور سارے ڈبے میں ایک دھما چوکڑی مچی ھوئی تھی،!!!!

کوئی ایک بندر کی طرف اشارہ کرکے کہہ رھا تھا کہ دیکھ جیدی تیرا بھائی تجھے دیکھ کر مسکرا رھا ھے، کوئی بندروں کو اپنی کھانی پینے کی چیزوں میں سے کھلانے کی کوشش کررھا تھا اور کچھ تو خالی مستی ھی کررھے تھے، بار بار بندروں کو انہیں کی چھڑی سے چھیڑ رھے تھے، اس اثنا میں ایک بندر فخرعالم کی چھیڑچھاڑ سے تنگ آکر اسکے کندھے پر شور مچاتا ھوا چڑھ گیا، بڑی مشکل سے اس بندر سے جان چھڑائی چند ایک کھروچ آئی، کچھ بچت ھوگئی، لڑکوں نے اس کا رکارڈ لگانا شروع کردیا، ارے دیکھو بھائی بھائی میں جھگڑا ھوگیا، ٹیچروں نے لڑکوں کو خوب ڈانٹا لیکن لڑکے کہاں سدھرنے والے تھے اور ویسے ٹیچر حضرات بھی ساتھ ساتھ خوب ان باتوں سے تفریح لے رھے تھے،

کسی کے پاس تو چھوٹا سا ریچھ اور اسکے ساتھ بکری بھی تھی، مگر اس کے نزدیک نہ کوئی نہیں گیا بلکہ کسی نے چھیڑا تک نہیں لیکن لڑکے آوازیں وقفہ وقفہ سے آوازیں ضرور کستے رھے ایک لڑکا جسکا نام تو بدرالمغیز تھا لیکن اسے پیار سے بدرو کہتے تھے کچھ تو اس کی شراتوں سے تنگ آکر بدروح بھی کہتے تھے، اس نے تو سب کو تنگ کیا ھوا تھا، ھر کوئی اس سے پریشان رھتا تھا اور اس سے چھپنے کی کوشش کرتا تھا ایک لڑکا پرویز حمایت جو بہت ھی شریف تھا اسکا تو یہ بدرو ھمیشہ پیچھا ھی لئے رھتا تھا،

یہ ٹریں تو ھر جگہ ھی رک جاتی تھی، بعض اوقات تو آدھے آدھے گھنٹے کے لئے رک جاتی تھی شاید کسی ایکسپریس ٹرین کو آگے گزارنے کےلئے مگر کبھی کبھی تو لگتا ھے کہ “سگنل مین“ شاید بھول ھی جاتا ھو کہ اس گاڑی کو بھی آگے جانا، اگے کچھ ایک اور چھوٹے سے اسٹیشن کےدوسرے پلیٹ فارم پر جہاں لاوارث اور فالتو سمجھ کر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کو کھڑی کردیتے ھیں، اپنی یہی پسنجر ٹرین کافی دیر تک رکی رھی، آخر سگنل بھی کھل گیا، لیکن ٹرین ٹس سے مس نہیں ھوئی، ایک لڑکا باھر سے خبر لایا، کہ انجن ڈرائیور ھی غائب ھے، اور جب انجن ڈرائیور واپس آیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنی فیملی کو لینے کے لئے نزدیکی گاؤں گیا ھوا تھا اور اپنے گھر والوں اور بچوں کو ایک ڈبے میں چڑھا رھا تھا،

اس اسٹیشن پر ایک قلی تھا ایک ھی اسٹیشن ماسٹر تھا وہ ھی ٹکٹ بیچتا تھا ساتھ کسی پسنجر گاڑی کے آنے پر ھی ٹکٹ چیک بھی کرتا تھا اور اس کے علاؤہ وہ ضرورت پڑنے پر سگنل ڈاؤن بھی کرتا تھا اور آنے جانے والی ٹرینوں کو سبز جھنڈی بھی دکھاتا تھا، یعنی کہ وہ پورے اسٹیشن کا اکلوتا ھی اسٹاف تھا، اور شاید جب انکے پاس تنخواہ کا پے رول آتا تھا تو وہ کم از کم 10 اسٹاف کا تو ضرور ھوتا ھوگا، یہ معلومات تو بعد میں مجھے میرے ایک ریلوے کے ملازم دوست سے پتہ چلا کہ یہاں تو ایسا ھی ھوتا ھے ورنہ سوچو کہ اس چھوٹی سی تنخواہ میں گزارا کیسے ھو، اور بھی بہت سے رازوں کا انکشاف بھی کیا تھا، اب خیال آتا ھے ھر دفعہ ریلوے کو خسارہ ھی کیوں برداشت کرنا پڑتا ھے -

ھمیں تو گورنمنٹ کی طرفسے اسٹوڈنٹ کے رعائیتی ٹکٹ ملے تھے اور باقی جو سفر کررھے تھے بغیر ٹکٹ تھے کچھ تو قلیوں نے لوگوں سے پیسے اینٹھ کر کر بٹھا دیا تھا، کچھ ھر اسٹیشن سے وہاں کہ ماسٹر اور ٹرین کے ٹکٹ چیکر اور گارڈ آپس میں ھی معاملہ طے کرکے مسافروں کو کسی نہ کسی ڈبہ میں جگہ ھو یا نہ ھو سامان کے ساتھ دھکا ضرور دے دیتے تھے، بہت ھی ثواب کا کام کرتے تھے ھر مسافر کو کسی نہ کسی طرح اسکی منزل تک پہنچا ھی دیتے تھے، اور آج تک یہ سلسلہ بہت ھی کامیابی سے چل رھا ھے، اگر کراچی یا کسی بھی بڑے اسٹیشن پر آپ اپنی سیٹ رزرو کرانے جائیں تو آپکی خواھش کے مطابق کبھی بھی سیٹ نہیں ملے گی اور اگر آپ وھاں کے قلی سے رابطہ کریں تو فوراً ھی جتنی سیٹیں اور برتھیں آپکو چاھئے اپکے ھاتھ میں موجود مگر اسکی قیمت قلی کے ھاتھ میں تھمانی ضرور پڑتی ھے، کیا بات ھے ھر ریلوئے اسٹیشن کا بادشاہ صرف قلی اور صرف قلی ھی ھوتا ھے-

معاف کیجئے گا میں کچھ اپنی پٹری سے ھی اتر گیا تھا، خیر ھماری ٹرین کو بھی آخر کچھ دھچکا سالگا کچھ ھلچل سی محسوس ھوئی باھر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ سارا گاؤں وہ انجن ڈرائیور کی فیملی کو چھوڑنے آیا ھوا تھا اور سب ھاتھ ھلا ھلا کر سب کو الوداع کہہ رھے تھے کچھ تو ھمیں بھی دیکھ کر ھاتھ ھلارھے تھے، کسی نے ایک فقرہ ھی کس دیا کہ کیا وہ تمھاری ماسی یا خالہ ھے، جسے تم لوگ ھاتھ ھلا کر جواب دے رھے ھو، یہ سنتے ھی سب نے شرمندگی سے ھاتھ اندر کرلئے، !!!!!!!!!!!!!!!

خیر بڑی مشکل سے یہ چھک چھک کرتی نازوں کی پلی ھوئی پسنجر ٹرین اپنے مقررہ اسٹیشن پر پہنچی جس کا نام “جنگ شاھی“ تھا، کوئی چھوٹا سا بازار اسٹیشں کے باھر نظر آرھا تھا لیکن نہ کوئی جنگ کے آثار تھے اور نہ ھی کوئی شاھی مقبرہ تھا،

شکر ھے پہنچ تو گئے مگر دوپہر گزرچکی تھی دو بج رھے تھے، سب کو بہت سخت بھوک لگ رھی تھی، صبح سے چلے ھوئے یہ وقت آگیا تھا 5 گھنٹے ھوچکے تھے اگر بس سے آتے تو شاید ایک گھنٹے سے پہلے ھی پہنچ جاتے اور ابھی تو کافی سفر باقی تھا اسٹیشن سے پھر شاید کسی بس میں بیٹھ کر جانا تھا، کچھ موسم اچھا ھی تھا ورنہ تو حالت بہت خراب ھوجاتی-

اسٹیشن پر اتر تو گئے اور سب لڑکوں کو ایک شاھی عالمگیر سرائے میں ھم سب کو لے جایا گیا جہاں ابھی دوپہر کے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرنا تھا، جیسے ھی ھم اس شاھی سرائے میں گھسے تو اندر اندھیرا اور چمگادڑوں کا بسیرا، ھمارے اندر گھسنے سے پہلے ھی انہوں نے پھڑپھڑانا اور چیخنا چلانا شروع کردیا ھم سب تو واپس بھاگے اور صحن میں ھی بیٹھ کر دریاں بچھا کر کچھ تو لیٹ گئے کچھ بازار کی طرف نکل لیئے، اور کچھ ٹیچروں کے ساتھ مل کر کھانا پکانے کا انتظام کرنے میں لگ گئے،

باقی بچے ھم تین چار دوست تو کیا کرتے، مل کر اپنی اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے بارے میں سوچنے لگے، کیونکہ بھوک لگ رھی تھی اور جس طرح کھانے پکانے کا بندوبست ھورھا تھا وہ امید تو نہیں تھی کہ شام تک بھی تیار ھو جائے!!!!!!!!!!

جی ہاں تو بات ھورھی تھی “جنگ شاھی“ ریلوے اسٹیشن کی، جہاں ھم تمام اسٹوڈنٹس پکنک منانے اسکول کی طرف سے پہنچے تھے، دوپہر کے دو بج چکے تھے، اور دوپہر کے کھانا پکانے کی تیاری ھورھی تھی اور ھم سب کا بھوک کے مارے برا حال تھا، کھانا پکانے والی ٹیم الگ ھی تشکیل دی ھوئی تھی جنہوں نے کھانا پکانے کا خشک سامان، پہلے سے ھی کراچی سے بندوبست کرکے آئے تھے، اور تازہ ساماں جیسے سبزی، گوشت کا پکنک پوانٹ سے ھی خریدنے کا پروگرام تھا اور ویسے بھی ھر ایک ٹولی کو مختلف کام کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں،

وہاں پر اسٹیشن کے ساتھ ھی بازار سے ھی کچھ دیسی تازی مرغیاں کٹوائی گئیں، اس کے علاوہ کچھ تازہ گوشت، ساتھ ھی ھری سلاد دھنیاں پودینہ ھری مرچ وغیرہ بھی وہاں پرھی آسانی سے مل گیا، وہاں پھر شاید بریانی اور قورمے کا پروگرام بن رھا تھا، پکانے والی ٹیم جو کھانا پکانے میں مشہور تھی، اس میں کچھ اسپشل ماھر ٹیچرز بھی تھے جو ھمیشہ ھر پکنک میں اپنے کھانے پکانے کے جوھر ضرور دکھاتے تھے اور وہ ھی پکنک کے تمام پروگرام کو منظم طریقہ سے بڑے شوق سے ترتیب بھی دیتے تھے، جس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا تھا، اور واقعی وہ لوگ ھمیشہ بڑے اھتمام سے بہت ھی خوش ذائقہ کھانا تیار کرتے تھے،

ایک ٹیچر کے پاس کیشئیر کی ذمہ داری تھی اور ان کے دو اسسٹنٹ لڑکے ھوتے جن کا کام صرف ضرورت کے وقت باھر کی خریداری اور سارا حساب کتاب انہی ٹیچر کو دینا ھوتا تھا، جن کے پاس اسکول کا فنڈ ھوتا تھا جو تمام پکنک کا تخمینہ لگاکر ایڈوانس میں ھی اندازاً لگا کر اسٹوڈنٹس سے بھی اکھٹا کرتے تھے اور کچھ اسکول کی طرف سے بھی فنڈ شامل کر لیا کرتے تھے اور اس بات کی تو گارنٹی تھی کہ سب کچھ ایمانداری سے ھی ھوتا تھا اور ساتھ ٹیچرز بھی اپنا اپنا حصہ بھی ضرور شامل کیا کرتے تھے، اور اگر کبھی کچھ کمی ھوجاتی تھی تو تمام ٹیچرز مل کر اس کمی کو اپنی جیب سے پورا کرتے تھے، جو اس اسکول کے ٹیچرز کی تمام خصوصیات میں سے ایک منفرد خاصیت تھی -

بہرحال ھمارے گروپ یا ٹولی جو 5 لڑکوں پر مشتمل تھی ضرورت پڑنے پر مختلف کاموں کی ذمہ داری تھی، جیسے لکڑی جلانےکےلئے اور پانی پینے کےلئے اور پکانے کیلئے بندوبست کرنا وغیرہ وغیرہ، جس میں ھم پہلے ھی سے ماسٹر تھے، ھم لڑکوں نے فورآً اپنا کام ضرورت کے مطابق کرکے، اجازت لےکر آگے بازار کی ظرف نکل گئے، کیونکہ بھوک بہت لگ رہی تھی اور ابھی کھانا تیار ھونے میں کافی وقت تھا، بازار کی طرف ایک ھوٹل نظر آیا جہاں ھم نے بیٹھ کر دال اور سبزی کے سالن اور روٹی سے کچھ بھوک کو مٹایا -

واپس آئے تو کچھ ٹیچرز، نزدیک ھی کسی جھیل پر جانے کا پروگرام بنا رھے تھے، وھاں پر ایک ٹریکٹر کے ذریعے کچھ ٹیچرز کی نگرانی میں باقی لڑکوں کو ساتھ لے کر، پکانے والی ٹیم کو چھوڑ کر، بقایا سب نکل پڑے، پہلے تو اس جھیل پر جانے کا پروگرام دوپہر کے کھانا کھانے کے بعد تھا، مگر کھانے میں کچھ تاخیر ھونے کے سبب پروگرام پیں کچھ تبدیلی ھوگئی تھی، اس ٹریکٹر کے پچھلے ٹرالر میں پر ھم بیٹھ تو گئے لیکن جھیل تک پہنچتے پہنچتے جو کچھ کھایا پیا تھا وہ سب کا سب ھضم ھوگیا،

دھوپ کچھ زیادہ تھی، تھوڑا بہت گھومے پھرے کچھ لڑکوں اور ٹیچروں نے تصویریں بھی اتاریں ھم بھی پھوکٹ میں شامل ھوگئے، پھر اسے ٹریکٹر سے ھی واپس آگئے، شام ھورھی تھی ، کھانا آخری دم وخم پر تھا، ایک ٹیم نے فوراً اپنی ذمہ داری کے حساب سے، دری وغیرہ بچھائی اور اوپر پرانے آخبار، جو ساتھ لائے تھے، بچھائے اس ٹیم کا کام کھانا کھلانا تھا، سب نے ہاتھ منہ دھوئے اور بیٹھ گئے اور بس کچھ ھی دیر میں کھانا لگا دیا گیا، اور پھر کیا تھا سب کھانے پر اس بری طرح ٹوٹے کہ کھانا کھلانے والی پارٹی کبھی سالن لاتی تو روٹی ختم ھوجاتی اور کبھی روٹی لاتے تو سالن ختم، پھر بریانی کا دور چلا وہ بھی اس ظرح کہ کھلانے والے بریانی کے تھال بھر بھر کر لاتے رھے ادھر پہلے والے تھال ختم، کھلانے والے بھی بریانی یا قورمے کے تھال لاتے لاتے بیچ میں سے اچھی اچھی بوٹیاں اچک لیتے تھے، کیونکہ انہیں بھی بہت سخت بھوک لگی ھوئی تھی-

یہ دعوت ایسی لگ رھی تھی کہ جیسے کسی شادی میں کھانا کھا رھے ھوں، اس میں چند اس علاقے کےمعزز لوگ بھی شامل ھوگئے تھے، جنہوں نے یہ مغلیہ خاندان کی سرائے بمعہ چمگادڑوں کے بغیر کسی معاوضے کے دے کر ھم پر مہربانی کی تھی، اندر تو کوئی چمگادڑوں کی وجہ سے نہیں گیا بس باھر ھی مغلیہ صحن میں ھی بیٹھ کر کچھ تو اکبر بادشاہ کے روپ دھارے ھوئے لیٹ گئے اور کچھ شاجہاں کی طرح اس سرائے کو تاج محل سمجھ کر ممتاز محل کے گن گانے لگے اور کچھ تو بےچارے اپنی ٹیم کو لیکر مقرر کردہ ذمہ داری کو لےکر برتن دھونے میں لگ گئے مگر وھاں کے کچھ مقامی لوگوں نے بھی کچھ مدد کرکے کھانا کھانے کا اپنا حق ادا کردیا -

کھانا کھاتے ھی سب کو پھر الرٹ کردیا کہ بھئ سب اٹھو، بس آگئی ھے چلو اپنا اپنا سامان سمیٹو اور بس میں بیٹھو، اگلے پوائنٹ پر جانا ھے، اب کھانا کھا کر سب ھی ٹن ھوگئے تھے، بہرحال بڑی مشکل سے جلدی جلدی بس میں گھسے کسی کو بیٹھنے کی جگہ ملی کسی کو نہیں، بڑا بڑا سامان تو چھت پر ھی چڑھا دیا لیکن چھوٹا موٹا سامان بس کے اندر ھی لے گئے، مجھ سمیت کافی لڑکوں کو جگہ تو مل گئی لیکن جو بعد میں بس کی چھت پر سامان رکھ کر چڑھے تو انہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی، وہ بس بھی ایسی تھی کہ بندے کو کبڑا بن کر کھڑا ھونا پڑا ، پتہ نہیں آگے کتنا اور سفر تھا، کچھ تو بےچارے چھت پر ھی چڑھ گئے، ایک اور سونے پر سہاگہ یہ کہ کوئی ایک اور پسنجر ٹرین آگئی اور بس والے نے اس کے پسنجر اٹھانے کیلئے بس کو اور مزید کچھ دیر کے لئے روک دیا -

ھم جو بس میں تھے انکا تو مزید حشر نشر ھورھا تھا ایک تو اس بس کے شیشے ایسے تھے کہ کھلنے کا نام ھی نہیں لیتے تھے اور اوپر سے کنڈکٹر نے اور بہت سے مزید اور مسافروں کو بمعہ سازوسامان کے اندر بس میں زبردستی پھنس پھنسا کر گھسیڑ دیا تھا، کیا عالم تھا، کبھی ایسا جم غفیر نہیں دیکھا تھا، پسینہ سر سے پیر تک بہہ رھا تھا، اور لوگوں کے پاس سے تو ایسی مہک آرھی تھی لگتا تھا کہ شاید برسوں ھوگئے ان لوگوں کو نہائے ھوئے، خیر کیا کرتے مجبوری تھی، کچھ بلکہ بہت کچھ سہنا پڑ رھا تھا،

بڑی مشکل سے بس کی گھڑگھڑاہٹ کے کانپنے سے یہ محسوس ھوا کہ اب شاید بس نے اپنے سفر کے آغاز کرنے کی ٹھان لی ھے، خیر ھانپتی کاپتی ھلتی جلتی اچھلتی بس نے آھستہ آھستہ چلنا شروع کیا، کہیں کہیں سے تھوڑی بہت ھوا آرھی تھی، جیسے ھی بس بازار کے حدود سے باھر نکلی، تو اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آرھا تھا، خیر میں تو بےچارے اوپر چھت والوں کا اور کھڑے ھوئے دوستوں اور ٹیچروں کا سوچ رھا تھا کہ نہ جانے کیا حال ھورھا ھوگا،

اسی سوچ میں گُم ایک نیند کا جھٹکا مجھے آیا ھی تھا کہ ایک مرغی کڑکڑاتی ھوئی میرے گود میں گری اور میں ایک دم گھبرا گیا اور اپنے دل پر ھاتھ رکھ لیا ایسا لگا کہ جان ھی نکل گئی،ایک تو رش اور اوپر سے کسی کے ٹوکرے میں سے مرغیاں پھڑپھڑاتی ھوئی باھر نکل رھی تھیں، بس کیا تھا بس میں ایک ھنگامہ ھوگیا، میرے پاس جو مرغی گری اسے پکڑ کر بیٹھا تھا کہ کہیں اور نہ نکل جائے کہ اچانک ایک مقامی آدمی کا سر میری شکل کے سامنے الٹا ھی آگیا اور مجھ سے مرغی چھین کر غصہ سے کہا، جو میں بالکل سننے کے موڈ میں نہیں تھا، ایک تو میں نے اس کی مرغی سنبھالی اور اس نے مجھ پر ھی چیخنا شروع کردیا !!!!!

اوئے چھوکرے اس مرغی کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا وہ تم نے کدھر کو گم کردیا !!!!!!!

میں نے ڈرتے ھوئے جواب دیا کہ،،،،،،،،،،،،،

دیکھو سائیں!!! ھم سے آپ قسم لے لو، ھمارے نصیب میں آپکی مرغی ھی آئی تھی، اسکا بچہ ھم نے نہیں دیکھا !!!!!!!!!!!

اس نے اور غصہ سے کہا کہ،!!!!!
ھم کچھ نہیں جانتا ھے، ھم کو تو اس کا بچہ ابھی چاھئے، یہ مرغی تمھارے گود میں تھا تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ ھی تھا اور کدھر کو جائے گا، ھم تو اس کا پیسہ لے کر چھوڑے گا ورنہ تم کو ادھر ھی ختم !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

یہ کس مشکل میں پھنس گیا میرے ساتھ ھی کوئی اور اسکی ظرح ایک مقامی بیٹھا تھا جس نے آدھی سے زیادہ سیٹ گھیرے ھوئے تھی اور میں کھسکتے کھسکتے گرنے ھی والا تھا، اس نے اس مرغی والے کو اپنی زبان میں کچھ شاید میری حمایت میں ھی کہا، جسکی وجہ سے میری جان خلاصی ھوئی، اور میں اسی خوشی میں کھڑا ھوگیا اور اپنی چھوٹی جو جگہ بچی تھی وہ بھی اس کو دے دی کہ بس یہی خوش رھے !!!!!!!!!


مرغی کا بچہ تو چھوڑیں، جو بھی مرغیاں اسکے ٹوکرے میں سے نکلیں تھیں اس میں سے صرف ایک ھی مرغی میرے پاس مل بھی گئی ورنہ باقی میں سے کچھ نے تو کھڑکیوں سے چھلانگ ماردیں تھیں اور کچھ کو تو اندر ھی لوگوں نے اپنے ھی بغل میں دبوچ لیں، جو بعد میں ھی پتہ چلا،

جو مرغیاں نیچے کود گئی تھیں ان کے پیچھے تو اس مرغی والے نے چھلانگ ماردی تھی وہ بھی چلتی بس میں سے اور پیچھے کی طرف منہ کرکے، نہ جانے اس بے چارے کو کتنی چوٹ آئی ھوگی کیونکہ ایک تو خود بھی بھاری بھر کم ، ساتھ خالی ٹوکرا بھی ھاتھ میں اور وہ اترا بھی تو چلتی بس میں پیچھے کی طرف منہ کرکے، اور باھر اندھیرا بھی تھا، ایک آواز تو آئی تھی بڑی زور کی چیخنے کی، لیکں بس ڈرائیور نےاپنی زبان میں اپنے کنڈکٹر سے کچھ پوچھا اور اسکے جواب میں اس نے بس کو اور تیز چلانا شروع کردیا تھا، کسی کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ
،،،،،،،،،،، سائیں!!!!! خاموش رھو پیچھے ڈاکو سائیں لوگ آرھا ھے !!!!!

اور بس ڈرائیور نے اندر کی ٹمٹماتی ھوئی بتی بھی بجھا دی تھی اور آگے پیچھے کی لائٹ بھی بالکل بند کردی تھی، اندر تو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رھا تھا، اور ھم اسکول کے لڑکوں کو تو یہ پہلا اور آخری تجربہ تھا، ڈر کے مارے جان نکلی جارھی تھی، ٹیچروں کے بھی منہ سے کوئی آواز نکل نہیں رھی تھی، کیونکہ وہاں کے ڈاکوؤں کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن واسطہ آج ھی پڑا تھا!!!!

نہ جانے ڈرائیور بس کو اندھیرے میں کیسے دوڑائے جارھا تھا، بس بھی جھومتی جھامتی، اچھلتی کودتی، اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، پتہ نہیں چھت پر بیٹھے ھوئے لوگوں کا کیا حال ھوا ھوگا، میں بھی اپنی سیٹ اس مرغی کے بچے کے چکر میں گنوا چکا تھا، اور بس کھڑے کھڑے ٹانگیں بھی شل ھوچکی تھیں، کچھ نیند کا غلبہ بھی تھا اور رات کے شاید 10 بجے کا وقت ھوگا، اچانک بس کے اندر سے ھی ایک مرغے نے اپنی آواز کے جادو سے بس کی کھڑکھڑاتی اور چنگھاڑتی شور شرابے میں ایک نئے سُرؤں کا اضافہ کردیا، میں نے سوچا کہ شاید یہ بھی اسی مرغی والے کا مرغا ھوگا، جاگا بھی تو دیر سے جاگا!!!!!

آخر کو ھماری منزل آھی گئی شاید کنڈکٹر نے “مکلی“ کی آواز لگائی تھی، دور سے کچھ مدھم سے تمٹاتی ھوئی روشنی کی جھلک نظر آرھی تھی اور کچھ رنگ برنگی روشنیوں کے بلب بھی جلتے بجھتے نظر آرھے تھے، شاید وہ مکلی کے ایک بڑے بزرگ کا مزار تھا، بہرحال وھاں آہستہ اہستہ سب اپنی کمر سیدھی کرتے ھوئے اتر گئے، اور سامان وغیرہ بھی اتارا اور سب ٹیموں نے اپنے اپنے ممبروں کو پورا کیا ابھی تو آدھے ممبر بھی پورے نہیں ھوئے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ دوسری بس میں آرھے ھیں،

تھکے ھوے تو تھے مزار کے نزدیک سامان لے کر بڑی مشکل سے پہنچے، آگے کافی لوگ سوئے ھوئے تھے، انکو ڈسٹرب کرنا بالکل مناسب نہیں سمجھا، وہاں رات کا اندھیرا تو تھا ھی اور کوئی ھموار جگہ مل نہیں رھی تھی تو اونچے نیچے ٹیلوں اور غیر ھموار جگہ پر ھی غنیمت جان کر سب لڑکوں نے مل کر رات کے اندھیرے میں ھی دریاں اور چادریں الٹی سیدھی کرکے بچھائی، کچھ بھی نطر نہیں آرھا تھا اور سب کے سب تھک کر لیٹ گئے کچھ لڑکے مزار کی طرف حاضری دینے چلے گئے ھم لوگوں میں تو بالکل ھمت نہیں تھی -

صبح ھوکر بھی گزر گئی سورج کی شعائیں منہ پر پڑ رھی تھی اس کے باوجود بھی کسی کی آنکھ کھل نہیں رھی تھی، ایک آواز نے ھم سب کو چونکا دیا اور ھم سب اتنے خوفزدہ ھوئے کہ کانپنے لگے ھر ایک کی حالت خراب تھی چہرے بالکل پیلے پڑچکے تھے وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر بھاگے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

ھم سب سخت تھکان کی وجہ سے گہری نیند میں ڈوبے ھوئے تھے جبکہ سورج کی روشنی اچھی خاصی چاروں طرف پھیل چکی تھی، کسی نے میرے کان میں خاموشی سے کہا کہ ھم لوگ تو قبروں کے اوپر سو رھے ھیں، میں فوراً ھی ڈر کے مارے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اِدھر اُدھر کئی لڑکوں کو دیکھا کہ کچھ نے تو قبروں کو اپنا تکیہ بنایا تھا، کچھ لڑکوں ‌نے قبر کو ایسے گود میں لیا ھوا تھا کہ جیسے کوئی بچہ اپنی امٌاں سے لپٹ کر سو رھا ھو اور کچھ تو وقت سے پہلے ھی سے کھلی ھوئی قبروں میں پیر لٹکا کر خرانٹے لے رھے تھے، کچھ ٹیچروں کا بھی یہی ملا جلا حال تھا -

میں بھی اسی طرح کھلی قبر کے بالکل برابر میں ایک قبر کو تکیہ بنائے لیٹا ھوا تھا، جہاں قبر کے اندر کا سارا حصہ صاف نظر آرھا تھا، ارے باپ رے جو ڈر کر ھم سب لڑکے چیخ کر وھاں سے بھاگے اور دور جاکر کھڑے ھوگئے اور کئی تو کانپ بھی رھے تھے اور پھر ھمارے ٹیچروں نے وھیں پر ھم سب لڑکوں کو بلا کر کہا کہ!!!!!!!!!!

دیکھو بچوں !!!!!!!!!!! یہ ڈر اور خوف کچھ بھی نہیں ھے صرف ذہن کا ایک نفسیاتی اثر ھے، جو بھی چیز آپ اپنے دماغ اور تصور میں بٹھا لو گے وھی تمھاری سوچ ایک حقیقت کا روپ لے کر وھم کے وجود کو تسلیم کر لے گی، جو آپکے ڈر اور خوف کا بعث بھی بن سکتی ھے،
اب یہ بتاؤ کہ ساری رات آپ قبروں پر سوتے رھے اور کچھ بھی محسوس نہ کرسکے کیونکہ آپ سب کو اندھیرا ھونے کی وجہ سے یہ معلوم ھی نہیں ھوسکا کہ یہ “مکلی“ کا سب سے بڑا اور پرانا قبرستان اور پرانے کھنڈرات کے اثرات ھیں، اور اگر یہ پہلے پتہ ھوتا تو کیا آپ لوگ اسطرح بے خبر سو سکتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

وہ خوف کا سحر جو دماغ کو ماؤف کرچکا تھا، آھستہ آھستہ اس کا اثر ختم ھوتا جارھا تھا، اور واقعی اس واقعہ کے بعد کم از کم مجھے تو یہ احساس ھوگیا تھا کہ ڈر اور خوف ھمیشہ اللٌہ تعالیٰ کا ھی ھونا چاھئے اور ھمیں اسکے تمام احکامات کی بجاآوری کرکے اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کرنی چاھئیے-

بہرحال لگتا تھا کہ ناشتہ کا انتظام ھو رھا تھا، چائے کی دیگچی چڑھی ھوئی نظر آئی اور ایک جگہ کچھ انڈے ابل رھے تھے اور دوسری طرف انڈوں کا املیٹ بھی تیار ھورھا تھا کوئی ہاف فرائی کی فرمائیش کررھا تھا اور کوئی فل فرائی کی، کسی نے آملیٹ کا آرڈر دیا ھوا تھا ایک طرف ڈبل روٹی کے سلائسس کا ڈھیر تھا اسکے ساتھ ھی مکھن کا ایک بڑا پیکٹ ایک پلیٹ میں دو تین چھریوں کے ساتھ نطر آیا، دوسری پلیٹ میں دو تین قسم کے شہد اور جام کی بوتلیں رکھی تھیں اور یہ سب کچھ ایک درخت کے نیچے مہم جاری تھی، اور باقی لڑکے ایک لائن میں پلیٹ اٹھائے باری باری ڈبل روٹی کے سلائس اُٹھاتے ھوئے ساتھ مکھن جام یا شہد اپنی اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق ڈالتے ھوئے جہاں انڈے تلے جارھے تھے وھاں کی ٹرے سے جس قسم کا ہاف فائی، فل فرائی ھو چاھے ابلا ھوا ھو یا آملیٹ ھو، ھر کوئی اپنی پلیٹ میں ڈالتا ھوا آگے بڑھ رھا تھا اور آخر میں چائے کا کپ آٹھاتے ھوئے ایک کسی کونے میں یا کسی دوست کے ساتھ پہلے سے بچھی ھوئی دری پر بیٹھ کر ناشتہ کا صحیح لطف اٹھارھا تھا،

اور یہ کھانے پینے کی تقسیم اور دوسرے تمام پکنک سے متعلق کوئی بھی کام کا ھر نظام اتنے سلیقے اور منظم طریقے سے انجام پا رھا تھا کہ کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ھورھی تھی اور کسی کو کسی سے کوئی شکایت بھی سننے یا دیکھنے کو نہیں ملی، اور سب مل جل کر اپنی اپنی پہلے سے ھی مقرر کردہ ذمہ داریاں کو نبھا رھے تھے،

ھمیں اس وقت اپنے اسکول پر بہت فخر تھا کہ اس کا ھر لحاظ سے ایک اپنا ایک بہترین اسٹینڈرڈ تھا اور اسی کی وجہ سے اس اسکول میں داخلہ بھی بہت مشکل سے ملتا تھا، اب نہ جانے کیا حال ھے اللٌہ کو ھی معلوم ھے، پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود کے مقابلوں میں بھی ھمیشہ ھمارا اسکول اچھی پوزیشن لیتا تھا، اور کیا کیا تعریف کروں میرے پاس اسکےلئے الفاظ نہیں ھیں، یہ سب کچھ اچھی اور معیاری تنظیم کی وجہ ھی سے بہتر نظام چل رھا تھا -

اس وقت اسکول کے ٹیچروں کی ایک خاص بات ضرور تھی کہ جو بھی سگریٹ پینے کے عادی تھے انہیں میں نے کم از کم اپنے اسٹوڈنٹ کے سامنے کبھی سگریٹ پیتے ھوئے نہیں دیکھا تھا اور اگر کوئی ٹیچر کہیں ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پی رھا ھو اور سامنے سے کوئی طالب علم آجائے تو وہ فوراً سگریٹ بجھا دیتے تھے، اس کے علاوہ میں نے کبھی بھی کسی ٹیچر کو دوسرے ٹیچرز کے ساتھ کسی بھی طالبعلم کے سامنے کسی قسم کا بھی مذاق یا زور سے باتیں کرتے ھوئے بھی نہیں دیکھا تھا -

بہرحال بہتر سُدھار اور اچھی تنظیم کی ضمانت اُسی ادارے کو ھی دی جاسکتی ھے، جہان پر کم از کم اچھے اصول، اخلاق اور بہتریں ڈسپلین کا خیال رکھا جاتا ھو اور یہ کوئی مشکل بھی نہیں ھے صرف اسکے لئے یک جہتی کی ضرورت ھے اور اپنا ایمان مضبوط ھونا چاھئے -!!!!!!!!

ھاں تو بات ھو رھی تھی ناشتے کی، سب نے مل کر خوب زبردست سیر ھوکر ناشتہ کیا، پھر ان بزرگ کے مزار پر جاکر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی اور تمام “مکلی کے قبرستان“ کے تمام پرانے آثار کو دیکھا، کہا جاتا ھے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا قبرستان کہلاتا ھے اور محمدبن قاسم اور راجہ داھر کی جنگ میں شہید ھونے والوں کے مقبرات بھی یہیں ھیں، اور اتنا بڑآ قبرستان تھا کہ دوسرا کنارا کہاں ختم ھوتا ھے بلکل نظر نہیں آتا تھا -

وھان سے پھر ھم سب نے اپنا اہنا بوریا بسترا اور سازوسامان کو سمیٹا اور وہاں سے دو یا تیں گروپ کی شکل میں بسوں کے ذریعے بغیر کسی پریشانی کے نزدیکی قصبہ“ ٹھٹھہ“ پہنچ گئے، جو ایک چھوٹا سا مغلیہ دور کا ایک تاریخی شہر بھی ھے وھاں کی ایک مغلیہ دور کی ایک خوبصورت سی کئی گنبدوں والی مسجد بھی دیکھنے کو ملی جہاں کی ایک خاص بات تھی کہ بغیر لاوڈاسپیکر کے قاری صاحب کا خطبہ مسجد کے کسی بھی کونے میں سنا جاسکتا تھا جوکہ خود ھم نے باقاعدہ طور سے باری باری اس کا تجربہ اپنی آواز سے ممبر کے پاس جاکر بھی کیا، اور سب نے ھر کونے میں آواز بھی سنی -

اور بہت سی وہاں کی مشھور جگہیں دیکھیں او پھر ایک جگہ منتخب کر کے وہاں اپنا پڑاو ڈالا اور دوپہر کے کھانے کا انتظام اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ھوئے کیا، جس طرح سے کل شام کو جنگ شاھی ریلوے اسٹیشن پر کیا تھا، پکانے والے پکاتے میں مشغول گھومنے والے بازار کے چکر میں اور آرام کرنے والے کچھ دیر کےلئے سو بھی گئے مگر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں کھانا پکانے سے پہلے ھی ختم کرلیں تھی، کچھ کی ذمہ داریاں کھانا کھانے کے بعد آتی تھیں !!!!!

کھانا کھا کر سب لوگوں نے ایک پارک کے سایہ دار درخت کے نیچے دریاں بچھا کر کچھ دیر تک آرام کیا اور شام تک سب نے واپسی کا ارادہ کرلیا بہتر تو یہی تھا کہ براستہ سڑ ک ھی سفر کیا جائے تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائیں، اس تجویز کی منظوری ھوگئی تھی اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ھر گروپ اپنی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ تمام لڑکوں کو انکے گھر تک پہنچائے اور اس پر عمل درآمد شروع ھوگیا، جیسے جیسے بس آتی گئی ایک ایک گروپ گنجائیش کے مطابق بسوں میں سوار ھوتا گیا اور اپنی اپنی منزل کی راہ لی، ھر کوئی بہت تھک چکا تھا، سارے راستے سب بس میں سوتے ھوئے گئے، اور خیریت سے شام تک اپنے اپنے گھر پہنچ گئے -

یہ ھمارے اسکول کی سب سے بہتر اور لمبی پکنک تھی ایک رات اور دو دن تک، بہت ھی اچھا سب نے انجوائے کیا اور کچھ دوستوں نے تصویرں بھی کھینچی تھیں لیکن ملی کسی کو بھی نہیں، دو دن کی تفریح تھی باقی پھر سے وھی اسکول کی گھماگھمی میں گم ھو گئے -

یہ ایک یاد گار تفریح تھی جو کہ آٹھویں کلاس کے وقت کی تھی اور جسے میں شامل نہیں کرسکا تھا، مگر اچانک یاد آگئی تو مجھے کچھ پیچھے جانا پڑا، اور بھی کئی یادیں ھلکی ھلکی ذہن میں کلبلا تو رھی ھیں، لیکن واضع نہیں ھیں، جیسے ھی کوئی دلچسپ واقع ذہن میں مکمل یاد آئے گا تو فوراً لکھوں گا،

اب تو میں بڑی مشکل سے نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا، آرٹس کے صرف چار مضامین تھے، جنہیں پاس کرنا تھا، کوشش اس دفعہ ساری کی کہ سارے پیپر کلئیر ھوجائیں، اور بہت امید بھی تھی، مگر پھر بھی کچھ اپنے شوق بھی تھے، لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانا اور ان میں تقسیم بھی کرنا اس کے علاوہ قلمی دوستی بھی جاری رھی، لیکن اخباروں اور بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنے میں وقت کی تنگی کے باعث بہت زیادہ کمی آگئی تھی،!!!!!!!
 
Top