عبدالرحمن سید
محفلین
بھولی بسری یادیں،21 - بچپن اور سیکنڈری اسکول میں نئے دوست
دل میں ایک بہت خوشی تھی کہ اب میں نئے اسکو ل میں جاؤنگا اور والد صاحب بھی میرے اس نتیجہ کی وجہ سے بہت خوش تھے، چھوٹے بہن اور بھائی تو ابھی پرائمری میں چھوٹی کلاسوں میں ھی تھے والد صاحب مجھے سیکنڈری اسکول لے گئے اور وھاں دو تین دن کی تگ و دو کے بعد میرا ٹیسٹ ھوا اور میرا داخلہ چھٹی کلاس میں ھوگیا، مجھے بہت خوشی ھوئی،
1960 کا زمانہ اور10 سال کی عمر، ایک نیا اسکول، نئی کلاس، اور نئے دوست !!!!!!
آج میرا چھٹی کلاس میں ایک نئے سیکنڈری اسکول میں پہلا دن تھا، گھر سے اسکول تو کچھ فاصلے پر تھا، لیکن خوشی میں پیدل آتے ھوئے اتنی جلدی اسکول پہنچ گیا کہ پتہ ھی نہیں چلا، پہنچتے ھی اپنے اسکول کی عمارت کی طرف دیکھا تو مجھے ایک فخر سا محسوس ھورھا تھا، کیونکہ ایک تو بہت بڑی ڈبل اسٹوری بلڈنگ اور دوسرے اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت خوبصورت علاقہ میں اس کا وجود تھا، ھر طرف خوبصورت بازار اور سجی سجائی دکانیں اور ساتھ ھی ایک سے ایک حسین بنگلے، اور نذدیک ایک ایرکنڈیشنڈ سینما گھر بھی تھا -
نئے سیکنڈری اسکول میں جاکر تو ایک بالکل ھی نیا ماحول پایا، میں نے اپنی کلاس کے دروازے کے اوپر نام ششم (ب) لکھا دیکھا، کیا ایک عجیب سی خوشی تھی، میں خود کو بھی ایک بڑا بڑا محسوس کر رھا تھا، نیا نیا اسکول کا یونیفارم، قمیض کی جیب پر اسکول کا ایک خوبصورت مونوگرام بنا ھوا، نئے چمکتے کالے جوتے، بار بار ان جوتوں پر سے گرد بھی جھاڑتا رھتا، بچپن سے ایک عادت سی تھی اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی، اس میں میری والدہ کا بہت ہاتھ تھا وہ ھمیشہ ھر شام کو میری اسکول کی تیاری مثلاً یونیفارم، جوتے وغیرہ کو اچھی طرح پہلے سے ھی چیک کرلیتی تھیں اور میں بھی ٹایم ٹیبل کے مطابق دوسرے دن کیلئے اپنے اسکول کے بستے کو تیار کرلیتا تھا -
کلاس روم کی کرسیاں اور میزیں بھی ایک ترتیب سے چار لاٰئنوں میں لگی ھوئی تھیں، وہاں اسکول بلڈنگ کے درمیان ایک خوبصورت سرسبز پارک بھی تھا، غرض کہ اسکول کی ھر چیز بجھے اچھی لگی، ایک اچھی بات تھی کہ لڑکوں کے اسکول کا وقت دوپہر ایک بجے سے شروع ھوتا تھا اور لڑکیوں کو صبح صبح سات بجے کے قریب پہنچنا ھوتا تھا - اسلول کی بلڈنگ کے چاروں طرف ایک بہت لمبی چوڑی باونڈری وال تھی، جہاں ایک طرف کافی پھیلا ھوا صاف ستھرا میدان تھا جہاں ھاف ٹائم میں یا پی ٹی کے پیریڈ میں لڑکے مختلف کھیلوں سے لطف اندوز ھوتے تھے،
میں نے اس اسکول میں کافی محنت سے پڑھائی کی یہاں پانچ سال کا عرصہ ایک مستقل مزاجی سے اور خوب محنت کرکے گزارا اور میٹرک سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا، جو میرا ایک رکارڈ رھا تھا کہ ایک ھی اسکول میں خوب دل لگا کر محنت سے 1960 سے لیکر 1965 تک بغیر کسی وقفہ یا کسی مشکل کے، پورے پانچ سال اطمنان سے پورے کئے کچھ تھوڑی بہت شرارتوں کا بھی ساتھ رھا لیکن وہ قابل قبول تھا -
ان پانچ سالوں میں 10 سال کی عمر سے لیکر 15 سال کی عمر تک کس طرح میں نے اپنی زندگی کا سفر طے کیا، بچپن سے لڑکپن کی طرف میری زندگی نے کیا کیا دلچسپ موڑ لئے، وہ سب اگے لکھوں گا، مگر ھو سکتا ھے کہ وقت اور تاریخ کا صحیح اندازہ نہ ھو کیونکہ ذھن میں تو سب کچھ اچھی طرح محفوظ ھے، لیکن حالات اور واقعات کا صحیح وقت کا تعین کرنا ذرا مشکل ھوگا، میں اپنی کوشش ضرور کرونگا کہ ایک بہتر اور صحیح تسلسل کو قائم رکھ سکوں !!!!!!!!!!!!!
پوچھتے پوچھتے جب اپنی نئی کلاس میں جیسے ھی اندر داخل ھوا، کیا دیکھتا ھوں کہ آگے کی تمام سیٹوں پر پہلے ھی سے لڑکوں نے قبضہ کیا ھوا تھا اور زیادہ تر بھاری بھرکم، شاید کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، اس لئے بغیر کچھ شکوہ کئے میں خاموشی سے پیچھے نکل گیا اور ایک مجھ جیسے ھی دبلے پتلے لڑکے کے اشارہ پر اسکے ساتھ بیٹھ گیا، اور وہ ھی وہاں پر میرا پہلا دوست بنا، ایک ایک ڈیسک پر تین لڑکے ایک ساتھ بیٹھنے کی گنجائش تھی، پھر ایک اور معصوم سا لڑکا ھماری ھی طرح چشمہ لگائے کلاس میں داخل ھوا، وہ بھی اگے جگہ نہ پا کر پیچھے ھماری ھی طرف آتا ھوا دکھائی دیا، اسے بھی ھم نے اشارہ کرکے اپنے پاس ھی جگہ دے دی -
مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ ھم تینوں کی ڈیسک سب سے پیچھے تھی اور سامنے بلیک بورڈ بھی صحیح طرح نطر بھی نھیں آرھا تھا، جو چشمے والا دوست تھا اسے بھی نظر نہیں آرھا تھا تو ھم دونوں کو کیا نظر آتا، خیر کچھ ھی دیر میں کلاس ٹیچر، جن سے پہلے ھی والد صاحب کے ساتھ ایک چھوٹا سا تعارف بھی ھوچکا تھا، جناب شیخ سعید صاحب ایک گریں سا گؤن پہنے اندر تشریف لے آئے، فوراً تمام کلاس کھڑی ھوگئی، انہون نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سب سے پہلے انہوں نے حاضری لی او پھر باری باری پوری کلاس کا تعارف لیا ساتھ ھی اپنا بھی مختصراً تعارف کرایا، لمبے سے قد اور سر کے اوپر آگے سے کچھ گنجا پن، مگر لگتے ھنس مکھ تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اپنا تعارف کرایا ھم سب بہت خوش تھے، وہ کلاس ٹیچر کے ساتھ انگلش کے شعبہ سے بھی تعلق رکھتے تھے -
ھر ایک گھنٹے کے بعد ایک نئے مضمون کے ٹیچرز آتے گئے اور سب کے ساتھ اپنا بھی تعارف کراتے رھے، ھمیں اپنے حساب سے ایک اردو کے ٹیچر جن کا نام حسبٌر صاحب اور ایک تاریخ کے ٹیچر جنہیں شاہ صاحب کہتے تھے، دونوں بھی کلاس ٹیچر سعید صاحب کے بعد بہت زیادہ پسند آئے، کیونکہ یہ تینوں بہت زیادہ لڑکوں میں گھل مل جاتے اور ھنس ھنس کر باتیں کرتے تھے، باقی کچھ زیادہ تاثر نہ چھوڑ سکے، دو تین تو بالکل خرانٹ لگتے تھے اور کچھ تو بس نہ اچھے لگے اور نہ ھی برے بس درمانے سے تھے،
بیچ میں ایک وقفہ آدھے گھنٹہ کا بھی ھوا، جس میں ھم تینوں دوستوں نے باھر جاکر اپنی اپنی پسند کی چیزیں لیں اور اسکول کے گارڈن میں بیٹھ کر اپنا اپنا تفصیلی تعارف کرانے لگے !!!!!!!!!!!!!!!!!
دل میں ایک بہت خوشی تھی کہ اب میں نئے اسکو ل میں جاؤنگا اور والد صاحب بھی میرے اس نتیجہ کی وجہ سے بہت خوش تھے، چھوٹے بہن اور بھائی تو ابھی پرائمری میں چھوٹی کلاسوں میں ھی تھے والد صاحب مجھے سیکنڈری اسکول لے گئے اور وھاں دو تین دن کی تگ و دو کے بعد میرا ٹیسٹ ھوا اور میرا داخلہ چھٹی کلاس میں ھوگیا، مجھے بہت خوشی ھوئی،
1960 کا زمانہ اور10 سال کی عمر، ایک نیا اسکول، نئی کلاس، اور نئے دوست !!!!!!
آج میرا چھٹی کلاس میں ایک نئے سیکنڈری اسکول میں پہلا دن تھا، گھر سے اسکول تو کچھ فاصلے پر تھا، لیکن خوشی میں پیدل آتے ھوئے اتنی جلدی اسکول پہنچ گیا کہ پتہ ھی نہیں چلا، پہنچتے ھی اپنے اسکول کی عمارت کی طرف دیکھا تو مجھے ایک فخر سا محسوس ھورھا تھا، کیونکہ ایک تو بہت بڑی ڈبل اسٹوری بلڈنگ اور دوسرے اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت خوبصورت علاقہ میں اس کا وجود تھا، ھر طرف خوبصورت بازار اور سجی سجائی دکانیں اور ساتھ ھی ایک سے ایک حسین بنگلے، اور نذدیک ایک ایرکنڈیشنڈ سینما گھر بھی تھا -
نئے سیکنڈری اسکول میں جاکر تو ایک بالکل ھی نیا ماحول پایا، میں نے اپنی کلاس کے دروازے کے اوپر نام ششم (ب) لکھا دیکھا، کیا ایک عجیب سی خوشی تھی، میں خود کو بھی ایک بڑا بڑا محسوس کر رھا تھا، نیا نیا اسکول کا یونیفارم، قمیض کی جیب پر اسکول کا ایک خوبصورت مونوگرام بنا ھوا، نئے چمکتے کالے جوتے، بار بار ان جوتوں پر سے گرد بھی جھاڑتا رھتا، بچپن سے ایک عادت سی تھی اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی، اس میں میری والدہ کا بہت ہاتھ تھا وہ ھمیشہ ھر شام کو میری اسکول کی تیاری مثلاً یونیفارم، جوتے وغیرہ کو اچھی طرح پہلے سے ھی چیک کرلیتی تھیں اور میں بھی ٹایم ٹیبل کے مطابق دوسرے دن کیلئے اپنے اسکول کے بستے کو تیار کرلیتا تھا -
کلاس روم کی کرسیاں اور میزیں بھی ایک ترتیب سے چار لاٰئنوں میں لگی ھوئی تھیں، وہاں اسکول بلڈنگ کے درمیان ایک خوبصورت سرسبز پارک بھی تھا، غرض کہ اسکول کی ھر چیز بجھے اچھی لگی، ایک اچھی بات تھی کہ لڑکوں کے اسکول کا وقت دوپہر ایک بجے سے شروع ھوتا تھا اور لڑکیوں کو صبح صبح سات بجے کے قریب پہنچنا ھوتا تھا - اسلول کی بلڈنگ کے چاروں طرف ایک بہت لمبی چوڑی باونڈری وال تھی، جہاں ایک طرف کافی پھیلا ھوا صاف ستھرا میدان تھا جہاں ھاف ٹائم میں یا پی ٹی کے پیریڈ میں لڑکے مختلف کھیلوں سے لطف اندوز ھوتے تھے،
میں نے اس اسکول میں کافی محنت سے پڑھائی کی یہاں پانچ سال کا عرصہ ایک مستقل مزاجی سے اور خوب محنت کرکے گزارا اور میٹرک سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا، جو میرا ایک رکارڈ رھا تھا کہ ایک ھی اسکول میں خوب دل لگا کر محنت سے 1960 سے لیکر 1965 تک بغیر کسی وقفہ یا کسی مشکل کے، پورے پانچ سال اطمنان سے پورے کئے کچھ تھوڑی بہت شرارتوں کا بھی ساتھ رھا لیکن وہ قابل قبول تھا -
ان پانچ سالوں میں 10 سال کی عمر سے لیکر 15 سال کی عمر تک کس طرح میں نے اپنی زندگی کا سفر طے کیا، بچپن سے لڑکپن کی طرف میری زندگی نے کیا کیا دلچسپ موڑ لئے، وہ سب اگے لکھوں گا، مگر ھو سکتا ھے کہ وقت اور تاریخ کا صحیح اندازہ نہ ھو کیونکہ ذھن میں تو سب کچھ اچھی طرح محفوظ ھے، لیکن حالات اور واقعات کا صحیح وقت کا تعین کرنا ذرا مشکل ھوگا، میں اپنی کوشش ضرور کرونگا کہ ایک بہتر اور صحیح تسلسل کو قائم رکھ سکوں !!!!!!!!!!!!!
پوچھتے پوچھتے جب اپنی نئی کلاس میں جیسے ھی اندر داخل ھوا، کیا دیکھتا ھوں کہ آگے کی تمام سیٹوں پر پہلے ھی سے لڑکوں نے قبضہ کیا ھوا تھا اور زیادہ تر بھاری بھرکم، شاید کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، اس لئے بغیر کچھ شکوہ کئے میں خاموشی سے پیچھے نکل گیا اور ایک مجھ جیسے ھی دبلے پتلے لڑکے کے اشارہ پر اسکے ساتھ بیٹھ گیا، اور وہ ھی وہاں پر میرا پہلا دوست بنا، ایک ایک ڈیسک پر تین لڑکے ایک ساتھ بیٹھنے کی گنجائش تھی، پھر ایک اور معصوم سا لڑکا ھماری ھی طرح چشمہ لگائے کلاس میں داخل ھوا، وہ بھی اگے جگہ نہ پا کر پیچھے ھماری ھی طرف آتا ھوا دکھائی دیا، اسے بھی ھم نے اشارہ کرکے اپنے پاس ھی جگہ دے دی -
مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ ھم تینوں کی ڈیسک سب سے پیچھے تھی اور سامنے بلیک بورڈ بھی صحیح طرح نطر بھی نھیں آرھا تھا، جو چشمے والا دوست تھا اسے بھی نظر نہیں آرھا تھا تو ھم دونوں کو کیا نظر آتا، خیر کچھ ھی دیر میں کلاس ٹیچر، جن سے پہلے ھی والد صاحب کے ساتھ ایک چھوٹا سا تعارف بھی ھوچکا تھا، جناب شیخ سعید صاحب ایک گریں سا گؤن پہنے اندر تشریف لے آئے، فوراً تمام کلاس کھڑی ھوگئی، انہون نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سب سے پہلے انہوں نے حاضری لی او پھر باری باری پوری کلاس کا تعارف لیا ساتھ ھی اپنا بھی مختصراً تعارف کرایا، لمبے سے قد اور سر کے اوپر آگے سے کچھ گنجا پن، مگر لگتے ھنس مکھ تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اپنا تعارف کرایا ھم سب بہت خوش تھے، وہ کلاس ٹیچر کے ساتھ انگلش کے شعبہ سے بھی تعلق رکھتے تھے -
ھر ایک گھنٹے کے بعد ایک نئے مضمون کے ٹیچرز آتے گئے اور سب کے ساتھ اپنا بھی تعارف کراتے رھے، ھمیں اپنے حساب سے ایک اردو کے ٹیچر جن کا نام حسبٌر صاحب اور ایک تاریخ کے ٹیچر جنہیں شاہ صاحب کہتے تھے، دونوں بھی کلاس ٹیچر سعید صاحب کے بعد بہت زیادہ پسند آئے، کیونکہ یہ تینوں بہت زیادہ لڑکوں میں گھل مل جاتے اور ھنس ھنس کر باتیں کرتے تھے، باقی کچھ زیادہ تاثر نہ چھوڑ سکے، دو تین تو بالکل خرانٹ لگتے تھے اور کچھ تو بس نہ اچھے لگے اور نہ ھی برے بس درمانے سے تھے،
بیچ میں ایک وقفہ آدھے گھنٹہ کا بھی ھوا، جس میں ھم تینوں دوستوں نے باھر جاکر اپنی اپنی پسند کی چیزیں لیں اور اسکول کے گارڈن میں بیٹھ کر اپنا اپنا تفصیلی تعارف کرانے لگے !!!!!!!!!!!!!!!!!