عبدالرحمن سید
محفلین
بھولی بسری یادیں،!!!!! دوسرا حصہ،- 5- شادی کے بعد نئے مہمان کی آمد اور حج کی تیاری، !
راستے میں ھمیں افسوس ھورھا تھا، کہ مسجد نبوی (ص) میں ھم صرف پانچ وقت کی ھی نمازیں ھی ادا کرسکے، یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی رھا کہ کہ عمرہ اور زیارت بہت ھی سکون اور آرام سے ھوگیا جبکہ ھماری بیگم امید سے تھیں، اور انہیں اس بات کی یہ بھی خوشی تھی کہ پہلی اولاد کی امید کو اپنے بطن میں لئے عمرے اور زیارت کی سعادت حاصل کی، اور ھم دونوں نے بہت دعائیں کیں اس پہلی اولاد کی سلامتی کیلئے، کیونکہ اس سے پہلے تین دفعہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تھا، لیکن اس دفعہ اپنے حبیب کے صدقے ھمیں کامل یقین تھا کہ اس دفعہ ھمیں اللٌہ تعالی اولاد کی نعمت سے محروم نہیں کرے گا،!!!!!!
غالباً اپریل یا مئی 1981 کا زمانہ تھا، موسم تقریباً خوشگوار ھی تھا، کچھ اتنی تپش بھی نہیں تھی، ریاض ائرپورٹ پر ھمارے سسر صاحب ساتھ ماموں سسر بھی موجود تھے، انکے ساتھ ھم اپنے ماموں سسر کے گھر پہنچے، آپ اس وقت سٹی بینک جو اب سعودی امریکن بینک ھے ،وھاں کے جنرل منیجر کے گھر پر ملازم تھے، انہیں بہت ھی اچھا گھر ملا ھو تھا، ھمیں انہوں نے سٹی بنک کے کمپاونڈ کے گیسٹ ھاؤس میں ٹھرایا تھا، بہت خوبصورت کمپاؤنڈ تھا، ھمارے سسر صاحب نے اپنے جاننے والے دوستوں کی فیملیز سے ھمارا تعارف کرایا، ساتھ ھم ان کے یہاں دعوتوں میں بھی مدعو تھے اور خوب گھومایا پھرایا، بھر دوسرے دن ھماری فلائٹ دھران کے لئے تھی، ائرپورٹ پہنچے اور تقریباً ایک ہفتہ بعد ھم اپنے گھر پہنچے، ھماری بیگم تو بہت خوش تھیں اور اپنی خوش قسمتی پر بہت ناز کررھی تھیں کہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ھی انہوں نے عرض مقدسہ جاکر عمرہ اور زیارات کرلیں، جو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں،!!!!!!
مجھے بھی اپنے آپ پر فخر تھا کہ اس سروس کی بدولت مجھے یہ سب کچھ اللٌہ تعالیٰ کے کرم سے نصیب ھوا، اور وہ دن آگیا جس دن ھماری بیگم کو واپس جانا تھا، ، اور پھر ھماری بیگم کو بہت احتیاط بھی کرنی تھی اور یہاں پر دیکھنے بھالنے کیلئے کوئی نہ تھا، اس لئے انہیں واپس جانا ضرور تھا، اور یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ میں خوشخبری والے دن پاکستان میں ھونگا، اسی وعدے پر اپنی بیگم کو رخصت کیا، اور پھر یہاں تین مہینے گزار کر پاکستان واپس چلی گئیں، اس دوران ھمارے سسر صاحب بھی یہاں ھمارے ماموں سسر کے ساتھ تشریف لائے بھی تھے، اب تو ان کے بغیر تو یہاں پر میرا ایک ایک دن گزارنا مشکل ھوگیا تھا، !!!!1
آخر وہ خوشخبری کا دن بھی آگیا کہ جس دن ھمارے گھر ایک ننھا مہمان کے آنے کی امید تھی، مجھے تو بہت ھی مشکل سے چھٹی ملی، میں تو فوراً ھی وہاں سے ایمرجنسی چھٹی پر پاکستان پہنچ گیا، پہچنے سے ایک دن پہلے ھی یعنی 21 دسمبر 1981 کو بیٹے کی ولادت ھوچکی تھی، مجھے نہیں بتایا گیا، کیونکہ میں ننھے مہمان کی آمد سے پہلے پہنچنا چاھتا تھا، خیر کراچی ائرپورٹ پر سب موجود تھے، وھاں پر سب لوگ مجھے مبارکباد دینے لگے، میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا ھی نہیں تھا، !!!!!!!!
ائرپورٹ سے گھر تو مجھے سب لے آئے، مگر اسپتال جانے کیلئے کہا گیا کہ شام تک چلیں گے، ابھی کھانا وغیرہ تو کھا لیں، اور کچھ تازہ دم بھی ھوجائیں، سردی بھی اچھی خاصی تھی، مگر میں تو بے چین تھا کہ پہلے اپنے بیٹے کو دیکھوں، ایک عجیب سا احساس انجانی سی خوشی میں اپنے اندر محسوس کررھا تھا، پہلی اولاد کی خوشی کا وہ احساس آج بھی مجھے یاد ھے، کتنا خوشگوار وہ حسین دن تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا، ھر ایک کے چہرے پر مسکراھٹ اور خوشیوں سے پھولا نہیں سما رھا تھا، والدہ تو شاید اسپتال میں اپنی بہو کے پاس تھیں، والد کو تو بس میں کیا کہوں انکی خوشی سے کھلے ھوئے چہرے کو دیکھ کر میں بھی بہت خوش تھا، اور کیوں نہ ھو ان کے یہاں پہلا پہلا پوتا جو اللٌہ نے دیا ھے،!!!!!
کھانا بھی خوشی کے مارے کھایا نہیں گیا، مجھے تو شرم آرھی تھی کہ میں والد سے کہوں کہ مجھے اسپتال لے چلو، اور سب بہن بھائی مجھے کہہ رھے تھے، کہ اباجی سے پوچھو اور چلو، میری تو ھمت ھی نہیں پڑرھی تھی، اور دل تو ویسے بہت بے قرار تھا، ایک اور محلے کی خالہ آئیں اور کہا، ارے بیٹا تم ابھی تک اپنے بیٹے کو دیکھنے کے اسپتال نہیں گئے، !!!! ابھی میں کچھ کہتا ادھر اباجی فوراً بول پڑے، اسپتال میں شام کو ملنے کے اوقات ھوتے ھیں، بس تھوڑی دیر میں چلتے ھیں،!!!
میں تو اس وقت بھی والد صاحب سے بہت ڈرتا تھا، میں تو مجبور تھا اور سارے میرے پیچھے پڑے تھے، آدھے تو پہلے ھی سے اسپتال میں ھماری والدہ کے پاس تھے، اور ھم یہاں بیٹھے ابا جی کے حکم کا انتظار کررھے تھے، آخر بڑی بی نے تنک کر کہا کہ،!!!! تم تو اب ایک بیٹے کے باپ ھوگئے ھو، اب ایسا بھی کیا ڈرنا، چلو میرے ساتھ چلو،!!!!
میں نے کہا کہ نہیں اباجی کے ساتھ ھی سب کو لے کر جاؤنگا،!!!! اور پھر تو وہ بڑی بی خود ھی یہ کہتی ھوئی نکل پڑیں، کہ میں خود ھی چلی جاؤنگی،!!!! اور وہ کسی ایک میرے بھائی کو لے کر چلی گئیں اور گھر پر شاید میرے ساتھ ایک بہن اور بھائی ھی گھر میں موجود تھے،باقی سب اسپتال ھی میں رونق جمائے ھوئے تھے، اور ھم تینوں یہاں اباجی کے حکم کا انتظار کر رھے تھے،!!!!
ھم سب تو تیار ھی تھے، ابا جی بڑی مشکل سے اٹھے، اور کہا کہ،!!! میں کہے دیتا ھوں میرے پوتے کا نام میں اپنی مرضی سے رکھونگا، کیونکہ سب لوگ نئے نئے ماڈرن نام رکھنے کے چکر میں ھیں،!!!! میں تو کچھ نہ بولا خاموشی سے گردن ھی ھلا دی، اور پھر بس اسٹاپ کی طرف چل دہیے، دو بسیں بدل کر ھم سب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اسپتال پہنچے، وہاں پر مجھے باھر باغیچہ میں سب لوگ مل گئے، خوب گھما گھمی لگی ھوئی تھی، سب کے مزے آرھے تھے، رونق لگی ھوئی تھی، میں تو بھائی کے ساتھ ھی زچہ بچہ وارڈ میں پہنچ گیا، وہاں ھماری اماں اور ساس صاحبہ کو دیکھا اور بچہ تو ایک جھولے میں تھا فوراً ھی بچے کی نانی نے اُٹھا کر مجھے دکھایا، اور مین تو بس دیکھتا ھی رہ گیا، کہ آج دیکھو میں بھی صاحب اولاد ھوگیا کل یہ بڑا ھو گا مجھے ابو ابو کہ کر پکارے گا، ان چند لمحات میں نہ جانے اپنی سوچوں کو کہاں سے کہاں لے گیا،!!!!!
اسی بچے کو دیکھتے ھوئے بیگم کی طرف دھیان بالکل نہیں گیا، فوراً ھی ادھر اپنی بیگم کو دیکھا، انہوں نے تو اپنا چہرے کو چادر میں ھی چھپایا ھوا تھا، شاید وہ مجھ سے ناراض لگتی تھیں، یا شرما رھی ھونگی، میں نے پوچھا کہ کیا بات ھے ھم سے کس بات کا پردہ، !!!!! تو انکی ایک سہیلی نے جواباً کہا کہ،!!! جناب کچھ خبر بھی ھے آپ نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا،،!!! میں نے پوچھا کہ وہ کونسا وعدہ، !!!! جواب ملا کہ،!!! آپ جو تاخیر سے پہنچے ھیں،!!!! میں نے کہا کہ،!!! بھئی کیا کرسکتا ھوں مجبوری تھی، سیٹ ھی آج کی ملی تھی اور مجھے کیا خواب آیا تھا کہ صاحبزادے میرے آنے سے پہلے ھی وارد ھوجائیں گے،!!!!!!
سامنے سے والد صاحب وارڈ میں داخل ھوئے، اور سب ظرف خاموشی ھوگئی، آتے ھی انہوں نے اپنا اعلان صادر فرما دیا، کہ میں نے اس بچے کا نام آج سے “سید حبیب الرحمٰن“ رکھا دیا ھے، مجھے تو یہ نام اچھا ھی لگا تھا اور سب لوگوں کو بھی بہت پسند آیا، جبکہ کچھ تو پہلے ھی اسکا نام “ذیشان“ رکھنے کا سوچ رھے تھے، لیکن والد صاحب نے جو نام رکھا تھا وہ سب کو ھی پسند آیا، ھر طرف خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، ھمارے ساس اور سسر بھی اپنے پہلے نواسے کو دیکھ کر خوش ھورھے تھے اور والدین بھی پہلے پوتے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رھے تھے، آخر کار بیگم سے رھا ھی نہیں گیا اور انکی نطریں میری ظرف جیسے ھی گھومیں میں نے بھی آنکھوں ھی آنکھوں میں انہیں بیٹے کی مبارکباد دے دی،!!!!!!!
دسمبر 1981 کے آخری دن تھے اور سردی میں کچھ شدت بھی زوروں پر تھی، گھر میں خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، بیگم اسپتال سے گھر پر منتقل ھو چکیں تھیں، مگر وہ بہت ھی زیادہ غمزدہ تھیں، کیونکہ وہ نہیں چاھتی تھیں کہ میں اس طرح باھر رھوں، اور سال میں ایک دفعہ چھٹی میں ملاقات ھو، اور اب تو ایک بچے کی ذمہ داری بھی تھی، میں نے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ کچھ عرصہ مزید انتظار کرلو یا تو میں تمھیں مستقل ویزے پر بلوا لوں گا، یا پھر میں خود واپس اپنا تبادلہ پاکستان کرالونگا، اور میرا بھی اب بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا کہ واپس جاؤں، لیکن کیا کروں مجبوری تھی نوکری کا معاملہ تھا، اور بیگم نے بھی ڈھائی سال میں اب تک ایک دفعہ سعودی عرب کا چکر لگا چکی تھیں اور میں بھی یہ تیسری یا چوتھی مرتبہ پاکستان آیا تھا، لیکن پھر بھی ایک ایسا لگتا تھا کہ کچھ تشنگی باقی ھے،!!!!!!
شادی کے بعد ڈھائی سال میں اگر ڈھائی مہینے ساتھ رھیں تو یہ بھی ایک زیادتی ھے، میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی بھی 20 سال کا عرصہ اگر باھر گزارتا ھے اور سالانہ چھٹی بھی آتا ھو تو اس 20 سال کے عرصہ میں صرف 20 مہینے یعنی کہ صرف دو سال سے بھی کم عرصہ وہ بھی قسطوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارنا بہت ھی زیادہ افسوس کی بات ھے،!!!!
میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن بیگم بضد ھی رھیں کہ اب اور اس سے زیادہ بالکل بھی نہیں!!!!، بیگم بھی اپنی جگہ ٹھیک تھیں اور میں اپنی نوکری کی وجہ سے بھی مجبور تھا، کوئی دوسری نوکری ملنا بھی مشکل تھا، اور گھر والے بھی یہی چاھتے تھے کہ میں واپس چلا جاؤں، اپنی کشتی تو ایک منجھدار میں پھنسی ھوئی ھچکولے کھارھی تھی، مگر بیگم اپنی ضد پر ھی اٹکی ھوئی تھیں، مجبوراً مجھے قسم کھانا پڑی، کہ میں اب تمھیں چھوڑ کر نہیں جاؤنگا، لیکن افسوس کہ میں حالات کے پیش نظر اپنی قسم کو برقرار نہ رکھ سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ھے، اور مجھے واپس جانا پڑا، اور اپنی بیگم کی آنکھوں میں آنسو دے کر رخصت ھوگیا، لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ میں جلد ھی بلوالونگا،!!!!!
لیکن جو میں نے قسم توڑی تھی اسکا بہت ھی افسوس ھوا، بہرحال اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، واپس آکر چوتھے مہینے ھی میں نے دوبارہ بیگم اور بچے کا ویزا داخل کردیا اور بیگم اب دوسری مرتبہ اپنے بچے حبیب الرحمن کے ساتھ پہنچ چکی تھیں، اور اس دفعہ سب سب بڑی بات کہ انہوں نے عمرہ کے ساتھ ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ھوگئی، اور ساتھ ھی انکی کچھ ناراضگی بھی کھی حد تک ختم ھو چکی تھی،!!!!!
اور ایک خاص بات کہ ھمارے بچے حبیب نے 6 یا 7 مہینے کی عمر میں ھم دونوں کے ساتھ 1982 میں سخت گرمیوں کے موسم میں حج کی سعادت بھی حاصل کی،!!!! میرا تو دوسرا حج تھا لیکن بیگم کا 6 مہینے کے بچے کے ساتھ یہ پہلا حج تھا، سخت ترین گرمیوں کے دن تھے، اور واقعی ھماری بیگم کی ھمت کی داد دینی پڑتی ھے کہ انہوں نے اس بچے کے ساتھ اور دھران سے مکہ مکرمہ تک بزریعہ کار تقریباً 26 گھنٹے کا سفر کیا جو ھم دوستوں نے مل کر ایک حج کا قافلہ ترتیب دیا تھا، اور سب کی فیملیوں کے ساتھ مل کر تقریباً چار گاڑیوں کا انتظام کیا تھا، !!!!!
بعض اوقات تو یہ چھوٹا چھ سات مہینے کا بچہ حبیب الرحمٰن گرمی سے بے چین ھو کر بہت چیخ و پکار کرتا تھا، اور نماز پڑھتے ھوئے خانہء کعبہ میں حج کے دوران یہ تپتے ھوئے فرش پر تڑپ رھا ھوتا تھا، کئی دفعہ تو اسے گود میں اٹھا کر بھی نماز پڑھنی پڑی، حج کے مکمل ھونے کے فوراً بعد ھی حبیب کی والدہ برداشت نہ کر سکیں اور بے ھوش ھوگی تھیں، جنہیں میں اپنے دوست کی گاڑی میں اسی بے ھوشی کے عالم میں طائف لے آیا تھا، جہاں ھماری کمپنی کا رھائیشی کمپاونڈ تھا، وھاں پر جاکر کچھ دوائی وغیرہ کھلائیں اور پورا دن آرام کیا تب کہیں جاکر وہ کچھ سنبھل گئیں، !!!!!!
یہ اللٌہ کا کرم و مہربانی ھی کی وجہ سے اور پیارے حبیب (ص) کے صدقے انکا حج مکمل ھوچکا تھا، اور حج کے بعد تو ھمارا بیٹا اور بھی صحت مند اور سب کی آنکھوں کا تارا ھوگیا تھا، اس کی معصوم شراتیں آج بھی مجھے یاد ھیں!!!!!
راستے میں ھمیں افسوس ھورھا تھا، کہ مسجد نبوی (ص) میں ھم صرف پانچ وقت کی ھی نمازیں ھی ادا کرسکے، یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی رھا کہ کہ عمرہ اور زیارت بہت ھی سکون اور آرام سے ھوگیا جبکہ ھماری بیگم امید سے تھیں، اور انہیں اس بات کی یہ بھی خوشی تھی کہ پہلی اولاد کی امید کو اپنے بطن میں لئے عمرے اور زیارت کی سعادت حاصل کی، اور ھم دونوں نے بہت دعائیں کیں اس پہلی اولاد کی سلامتی کیلئے، کیونکہ اس سے پہلے تین دفعہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تھا، لیکن اس دفعہ اپنے حبیب کے صدقے ھمیں کامل یقین تھا کہ اس دفعہ ھمیں اللٌہ تعالی اولاد کی نعمت سے محروم نہیں کرے گا،!!!!!!
غالباً اپریل یا مئی 1981 کا زمانہ تھا، موسم تقریباً خوشگوار ھی تھا، کچھ اتنی تپش بھی نہیں تھی، ریاض ائرپورٹ پر ھمارے سسر صاحب ساتھ ماموں سسر بھی موجود تھے، انکے ساتھ ھم اپنے ماموں سسر کے گھر پہنچے، آپ اس وقت سٹی بینک جو اب سعودی امریکن بینک ھے ،وھاں کے جنرل منیجر کے گھر پر ملازم تھے، انہیں بہت ھی اچھا گھر ملا ھو تھا، ھمیں انہوں نے سٹی بنک کے کمپاونڈ کے گیسٹ ھاؤس میں ٹھرایا تھا، بہت خوبصورت کمپاؤنڈ تھا، ھمارے سسر صاحب نے اپنے جاننے والے دوستوں کی فیملیز سے ھمارا تعارف کرایا، ساتھ ھم ان کے یہاں دعوتوں میں بھی مدعو تھے اور خوب گھومایا پھرایا، بھر دوسرے دن ھماری فلائٹ دھران کے لئے تھی، ائرپورٹ پہنچے اور تقریباً ایک ہفتہ بعد ھم اپنے گھر پہنچے، ھماری بیگم تو بہت خوش تھیں اور اپنی خوش قسمتی پر بہت ناز کررھی تھیں کہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ھی انہوں نے عرض مقدسہ جاکر عمرہ اور زیارات کرلیں، جو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں،!!!!!!
مجھے بھی اپنے آپ پر فخر تھا کہ اس سروس کی بدولت مجھے یہ سب کچھ اللٌہ تعالیٰ کے کرم سے نصیب ھوا، اور وہ دن آگیا جس دن ھماری بیگم کو واپس جانا تھا، ، اور پھر ھماری بیگم کو بہت احتیاط بھی کرنی تھی اور یہاں پر دیکھنے بھالنے کیلئے کوئی نہ تھا، اس لئے انہیں واپس جانا ضرور تھا، اور یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ میں خوشخبری والے دن پاکستان میں ھونگا، اسی وعدے پر اپنی بیگم کو رخصت کیا، اور پھر یہاں تین مہینے گزار کر پاکستان واپس چلی گئیں، اس دوران ھمارے سسر صاحب بھی یہاں ھمارے ماموں سسر کے ساتھ تشریف لائے بھی تھے، اب تو ان کے بغیر تو یہاں پر میرا ایک ایک دن گزارنا مشکل ھوگیا تھا، !!!!1
آخر وہ خوشخبری کا دن بھی آگیا کہ جس دن ھمارے گھر ایک ننھا مہمان کے آنے کی امید تھی، مجھے تو بہت ھی مشکل سے چھٹی ملی، میں تو فوراً ھی وہاں سے ایمرجنسی چھٹی پر پاکستان پہنچ گیا، پہچنے سے ایک دن پہلے ھی یعنی 21 دسمبر 1981 کو بیٹے کی ولادت ھوچکی تھی، مجھے نہیں بتایا گیا، کیونکہ میں ننھے مہمان کی آمد سے پہلے پہنچنا چاھتا تھا، خیر کراچی ائرپورٹ پر سب موجود تھے، وھاں پر سب لوگ مجھے مبارکباد دینے لگے، میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا ھی نہیں تھا، !!!!!!!!
ائرپورٹ سے گھر تو مجھے سب لے آئے، مگر اسپتال جانے کیلئے کہا گیا کہ شام تک چلیں گے، ابھی کھانا وغیرہ تو کھا لیں، اور کچھ تازہ دم بھی ھوجائیں، سردی بھی اچھی خاصی تھی، مگر میں تو بے چین تھا کہ پہلے اپنے بیٹے کو دیکھوں، ایک عجیب سا احساس انجانی سی خوشی میں اپنے اندر محسوس کررھا تھا، پہلی اولاد کی خوشی کا وہ احساس آج بھی مجھے یاد ھے، کتنا خوشگوار وہ حسین دن تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا، ھر ایک کے چہرے پر مسکراھٹ اور خوشیوں سے پھولا نہیں سما رھا تھا، والدہ تو شاید اسپتال میں اپنی بہو کے پاس تھیں، والد کو تو بس میں کیا کہوں انکی خوشی سے کھلے ھوئے چہرے کو دیکھ کر میں بھی بہت خوش تھا، اور کیوں نہ ھو ان کے یہاں پہلا پہلا پوتا جو اللٌہ نے دیا ھے،!!!!!
کھانا بھی خوشی کے مارے کھایا نہیں گیا، مجھے تو شرم آرھی تھی کہ میں والد سے کہوں کہ مجھے اسپتال لے چلو، اور سب بہن بھائی مجھے کہہ رھے تھے، کہ اباجی سے پوچھو اور چلو، میری تو ھمت ھی نہیں پڑرھی تھی، اور دل تو ویسے بہت بے قرار تھا، ایک اور محلے کی خالہ آئیں اور کہا، ارے بیٹا تم ابھی تک اپنے بیٹے کو دیکھنے کے اسپتال نہیں گئے، !!!! ابھی میں کچھ کہتا ادھر اباجی فوراً بول پڑے، اسپتال میں شام کو ملنے کے اوقات ھوتے ھیں، بس تھوڑی دیر میں چلتے ھیں،!!!
میں تو اس وقت بھی والد صاحب سے بہت ڈرتا تھا، میں تو مجبور تھا اور سارے میرے پیچھے پڑے تھے، آدھے تو پہلے ھی سے اسپتال میں ھماری والدہ کے پاس تھے، اور ھم یہاں بیٹھے ابا جی کے حکم کا انتظار کررھے تھے، آخر بڑی بی نے تنک کر کہا کہ،!!!! تم تو اب ایک بیٹے کے باپ ھوگئے ھو، اب ایسا بھی کیا ڈرنا، چلو میرے ساتھ چلو،!!!!
میں نے کہا کہ نہیں اباجی کے ساتھ ھی سب کو لے کر جاؤنگا،!!!! اور پھر تو وہ بڑی بی خود ھی یہ کہتی ھوئی نکل پڑیں، کہ میں خود ھی چلی جاؤنگی،!!!! اور وہ کسی ایک میرے بھائی کو لے کر چلی گئیں اور گھر پر شاید میرے ساتھ ایک بہن اور بھائی ھی گھر میں موجود تھے،باقی سب اسپتال ھی میں رونق جمائے ھوئے تھے، اور ھم تینوں یہاں اباجی کے حکم کا انتظار کر رھے تھے،!!!!
ھم سب تو تیار ھی تھے، ابا جی بڑی مشکل سے اٹھے، اور کہا کہ،!!! میں کہے دیتا ھوں میرے پوتے کا نام میں اپنی مرضی سے رکھونگا، کیونکہ سب لوگ نئے نئے ماڈرن نام رکھنے کے چکر میں ھیں،!!!! میں تو کچھ نہ بولا خاموشی سے گردن ھی ھلا دی، اور پھر بس اسٹاپ کی طرف چل دہیے، دو بسیں بدل کر ھم سب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اسپتال پہنچے، وہاں پر مجھے باھر باغیچہ میں سب لوگ مل گئے، خوب گھما گھمی لگی ھوئی تھی، سب کے مزے آرھے تھے، رونق لگی ھوئی تھی، میں تو بھائی کے ساتھ ھی زچہ بچہ وارڈ میں پہنچ گیا، وہاں ھماری اماں اور ساس صاحبہ کو دیکھا اور بچہ تو ایک جھولے میں تھا فوراً ھی بچے کی نانی نے اُٹھا کر مجھے دکھایا، اور مین تو بس دیکھتا ھی رہ گیا، کہ آج دیکھو میں بھی صاحب اولاد ھوگیا کل یہ بڑا ھو گا مجھے ابو ابو کہ کر پکارے گا، ان چند لمحات میں نہ جانے اپنی سوچوں کو کہاں سے کہاں لے گیا،!!!!!
اسی بچے کو دیکھتے ھوئے بیگم کی طرف دھیان بالکل نہیں گیا، فوراً ھی ادھر اپنی بیگم کو دیکھا، انہوں نے تو اپنا چہرے کو چادر میں ھی چھپایا ھوا تھا، شاید وہ مجھ سے ناراض لگتی تھیں، یا شرما رھی ھونگی، میں نے پوچھا کہ کیا بات ھے ھم سے کس بات کا پردہ، !!!!! تو انکی ایک سہیلی نے جواباً کہا کہ،!!! جناب کچھ خبر بھی ھے آپ نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا،،!!! میں نے پوچھا کہ وہ کونسا وعدہ، !!!! جواب ملا کہ،!!! آپ جو تاخیر سے پہنچے ھیں،!!!! میں نے کہا کہ،!!! بھئی کیا کرسکتا ھوں مجبوری تھی، سیٹ ھی آج کی ملی تھی اور مجھے کیا خواب آیا تھا کہ صاحبزادے میرے آنے سے پہلے ھی وارد ھوجائیں گے،!!!!!!
سامنے سے والد صاحب وارڈ میں داخل ھوئے، اور سب ظرف خاموشی ھوگئی، آتے ھی انہوں نے اپنا اعلان صادر فرما دیا، کہ میں نے اس بچے کا نام آج سے “سید حبیب الرحمٰن“ رکھا دیا ھے، مجھے تو یہ نام اچھا ھی لگا تھا اور سب لوگوں کو بھی بہت پسند آیا، جبکہ کچھ تو پہلے ھی اسکا نام “ذیشان“ رکھنے کا سوچ رھے تھے، لیکن والد صاحب نے جو نام رکھا تھا وہ سب کو ھی پسند آیا، ھر طرف خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، ھمارے ساس اور سسر بھی اپنے پہلے نواسے کو دیکھ کر خوش ھورھے تھے اور والدین بھی پہلے پوتے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رھے تھے، آخر کار بیگم سے رھا ھی نہیں گیا اور انکی نطریں میری ظرف جیسے ھی گھومیں میں نے بھی آنکھوں ھی آنکھوں میں انہیں بیٹے کی مبارکباد دے دی،!!!!!!!
دسمبر 1981 کے آخری دن تھے اور سردی میں کچھ شدت بھی زوروں پر تھی، گھر میں خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، بیگم اسپتال سے گھر پر منتقل ھو چکیں تھیں، مگر وہ بہت ھی زیادہ غمزدہ تھیں، کیونکہ وہ نہیں چاھتی تھیں کہ میں اس طرح باھر رھوں، اور سال میں ایک دفعہ چھٹی میں ملاقات ھو، اور اب تو ایک بچے کی ذمہ داری بھی تھی، میں نے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ کچھ عرصہ مزید انتظار کرلو یا تو میں تمھیں مستقل ویزے پر بلوا لوں گا، یا پھر میں خود واپس اپنا تبادلہ پاکستان کرالونگا، اور میرا بھی اب بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا کہ واپس جاؤں، لیکن کیا کروں مجبوری تھی نوکری کا معاملہ تھا، اور بیگم نے بھی ڈھائی سال میں اب تک ایک دفعہ سعودی عرب کا چکر لگا چکی تھیں اور میں بھی یہ تیسری یا چوتھی مرتبہ پاکستان آیا تھا، لیکن پھر بھی ایک ایسا لگتا تھا کہ کچھ تشنگی باقی ھے،!!!!!!
شادی کے بعد ڈھائی سال میں اگر ڈھائی مہینے ساتھ رھیں تو یہ بھی ایک زیادتی ھے، میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی بھی 20 سال کا عرصہ اگر باھر گزارتا ھے اور سالانہ چھٹی بھی آتا ھو تو اس 20 سال کے عرصہ میں صرف 20 مہینے یعنی کہ صرف دو سال سے بھی کم عرصہ وہ بھی قسطوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارنا بہت ھی زیادہ افسوس کی بات ھے،!!!!
میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن بیگم بضد ھی رھیں کہ اب اور اس سے زیادہ بالکل بھی نہیں!!!!، بیگم بھی اپنی جگہ ٹھیک تھیں اور میں اپنی نوکری کی وجہ سے بھی مجبور تھا، کوئی دوسری نوکری ملنا بھی مشکل تھا، اور گھر والے بھی یہی چاھتے تھے کہ میں واپس چلا جاؤں، اپنی کشتی تو ایک منجھدار میں پھنسی ھوئی ھچکولے کھارھی تھی، مگر بیگم اپنی ضد پر ھی اٹکی ھوئی تھیں، مجبوراً مجھے قسم کھانا پڑی، کہ میں اب تمھیں چھوڑ کر نہیں جاؤنگا، لیکن افسوس کہ میں حالات کے پیش نظر اپنی قسم کو برقرار نہ رکھ سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ھے، اور مجھے واپس جانا پڑا، اور اپنی بیگم کی آنکھوں میں آنسو دے کر رخصت ھوگیا، لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ میں جلد ھی بلوالونگا،!!!!!
لیکن جو میں نے قسم توڑی تھی اسکا بہت ھی افسوس ھوا، بہرحال اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، واپس آکر چوتھے مہینے ھی میں نے دوبارہ بیگم اور بچے کا ویزا داخل کردیا اور بیگم اب دوسری مرتبہ اپنے بچے حبیب الرحمن کے ساتھ پہنچ چکی تھیں، اور اس دفعہ سب سب بڑی بات کہ انہوں نے عمرہ کے ساتھ ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ھوگئی، اور ساتھ ھی انکی کچھ ناراضگی بھی کھی حد تک ختم ھو چکی تھی،!!!!!
اور ایک خاص بات کہ ھمارے بچے حبیب نے 6 یا 7 مہینے کی عمر میں ھم دونوں کے ساتھ 1982 میں سخت گرمیوں کے موسم میں حج کی سعادت بھی حاصل کی،!!!! میرا تو دوسرا حج تھا لیکن بیگم کا 6 مہینے کے بچے کے ساتھ یہ پہلا حج تھا، سخت ترین گرمیوں کے دن تھے، اور واقعی ھماری بیگم کی ھمت کی داد دینی پڑتی ھے کہ انہوں نے اس بچے کے ساتھ اور دھران سے مکہ مکرمہ تک بزریعہ کار تقریباً 26 گھنٹے کا سفر کیا جو ھم دوستوں نے مل کر ایک حج کا قافلہ ترتیب دیا تھا، اور سب کی فیملیوں کے ساتھ مل کر تقریباً چار گاڑیوں کا انتظام کیا تھا، !!!!!
بعض اوقات تو یہ چھوٹا چھ سات مہینے کا بچہ حبیب الرحمٰن گرمی سے بے چین ھو کر بہت چیخ و پکار کرتا تھا، اور نماز پڑھتے ھوئے خانہء کعبہ میں حج کے دوران یہ تپتے ھوئے فرش پر تڑپ رھا ھوتا تھا، کئی دفعہ تو اسے گود میں اٹھا کر بھی نماز پڑھنی پڑی، حج کے مکمل ھونے کے فوراً بعد ھی حبیب کی والدہ برداشت نہ کر سکیں اور بے ھوش ھوگی تھیں، جنہیں میں اپنے دوست کی گاڑی میں اسی بے ھوشی کے عالم میں طائف لے آیا تھا، جہاں ھماری کمپنی کا رھائیشی کمپاونڈ تھا، وھاں پر جاکر کچھ دوائی وغیرہ کھلائیں اور پورا دن آرام کیا تب کہیں جاکر وہ کچھ سنبھل گئیں، !!!!!!
یہ اللٌہ کا کرم و مہربانی ھی کی وجہ سے اور پیارے حبیب (ص) کے صدقے انکا حج مکمل ھوچکا تھا، اور حج کے بعد تو ھمارا بیٹا اور بھی صحت مند اور سب کی آنکھوں کا تارا ھوگیا تھا، اس کی معصوم شراتیں آج بھی مجھے یاد ھیں!!!!!