عبدالرحمن سید
محفلین
بھولی بسری یادیں،-41 - لڑکپن اور فلموں کا شوق، !!!!!
اب تو میں بڑی مشکل سے نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا، آرٹس کے صرف چار مضامین تھے، جنہیں پاس کرنا تھا، کوشش اس دفعہ ساری کی کہ سارے پیپر کلئیر ھوجائیں، اور بہت امید بھی تھی، مگر پھر بھی کچھ اپنے شوق بھی تھے، لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانا اور ان میں تقسیم بھی کرنا اس کے علاوہ قلمی دوستی بھی جاری رھی، لیکن اخباروں اور بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنے میں وقت کی تنگی کے باعث بہت زیادہ کمی آگئی تھی،
ھمارے اسکول کے نزدیک پہلے ایک ائرکنڈیشنڈ سینما بھی ھوا کرتا تھا، اور اکثر اسکول کے لڑکے ھاف ٹائم میں بھاگ کر فلم دیکھنے جاتے تھے، مجھے بھی اسکا بھی ایک شوق پیدا ھوگیا تھا، اس وقت بھی اتوار کو ھی چھٹی ھوا کرتی تھی تو ھم دو تیں دوست بھی کسی نہ کسی طرح ہاف ٹائم کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فلم دیکھنے کیلئے جاتے تھے اس وقت آگے کی کلاس کا ٹکت 4 آنے کا ھوتا تھا اور پورا مہینہ کچھ نہ کچھ خرچی میں سے بچاکر اور سودے میں سے بھی بچا کر باقی کے پیسے جوڑ کر 4 آنے بنا ھی لیتا تھا،
گھر میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ میں فلم دیکھ کر آرھا ھوں، اس شوق نے اور پڑھائی کی طرف اور بھی توجہ کم کردی اب مہینہ میں ایک دفعہ کے بجائے دو دفعہ فلم دیکھنے کا چکر پال لیا تھا، ایک دفعہ اسکول سے بھاگ کر کافی لڑکے فلم دیکھنے پہنچ گئے اور شاید اسکول میں کسی مخبری کی وجہ سے یہ بھید کھل گیا، ویسے بھی اس دن ایک ڈراونی سی فلم “خاموش رھو“ لگی ھوئی تھی، فلم کے دوران ھی اسکول کا چھاپہ پڑ گیا وہ بھی والدین کے ساتھ، اندھیرے میں ھی آواز آئی چلئے اپنے اپنے بچوں کو پہچانئے، منہ پر ٹارچ کی روشنی سے والدین اور کلاس ٹیچرز بچوں کو پہچان کر اٹھا رھے تھے اور فلم بھی ساتھ ساتھ چل رھی تھی،
ایک تو فلم ڈراونی اوپر سے اسکول کا چھاپہ سب سے پہلے تو میں نے اپنا اسکول بیگ سیٹ کے نیچے پھینکا اور قمیض اُتار کر الٹی پہن لی یعنی اوپن سائڈ پیچھے گھما دی،اور قمیض کو اوپن ھی رکھا اور بالوں کو بھی خوب بکھیر دیا، قمیض بھی الٹی، ایک ّعجیب ھی شاھکار لگتا اگر اندھیرا نہ ھوتا تو، ایسے وقت میں شیطانی دماغ بھی خوب چلتا ھے، ساتھ والے دوست نے بھی ایسا ھی کیا کیونکہ سامنے کی جیب پر اسکول کا مونوگرام بنا ھوا تھا اس سے پہچاننے میں اور بھی آسانی ھورھی تھی، اسکول کے ٹیچرز اور والدین اسکول کے بچوں کو پہچانتے ھوئے ھماری ظرف ھی بڑھ رھے تھے میں نے فوراً اپنے پیر بھی جوتے اتار کر آوپر رکھ لئے تھے-
جیسے ھی وہ میرے نزدیک پہنچے، مجھ پر ایک ٹارچ کی روشنی سی پڑی، میں تو ایک دم گھبرا سا گیا، لیکن پھر بھی ھمت پکڑی ھوئی تھی، ایک نے فوراً دوسرے سے میری قمیض کی طرف ٹارچ کی روشنی ڈالتے ھوئے کہا کہ یہ اسکول کا لڑکا نہیں لگتا، اور اوپر سے میں نے بھی تھوڑا اپنے منہ کو ٹیڑھا کیا اور ذرا غصہ کا موڈ بناتے ھوئے وہاں کے مکرانی لہجے میں کہا کچھ اسی طرح کہا کہ!!!!!!!!!
!!!!! اڑے تم کو ارو برو نظر نہیں آتا ھے کیا، تم لوک کا دماغ تو خراب نہیں ھوگیا نی، اڑے سامنے سے ھٹو ایسا پنچ مارے گا سارا بتیسی باھر کردیگا، !!!!!!!!!!
وہ دو آدمی تھے اور اسکول کے ٹیچر ھی تھے، پھر بھی انکے ری ایکشن سے ڈر بھی لگ رھا تھا، کہ کہیں پہچاں نہ لیں لیکن جان بچ گئی انہوں نے واقعی میرے ایکشن کا آخر اثر لے ھی لیا اور معذرت کے انداز میں کہا کہ !!!
!! بھئی ذرا معاف کیجئے گا کچھ غلط فہمی ھوگئی تھی!!!
یہ کہتے ھوئے وہ دونوں کچھ آگے بڑھ گئے!!!!!!!!!!
کبھی کبھی شیطانی دماغ بھی کام کرجاتا تھا، اور کئی جگہوں پر میں بال بال بچا بھی ھوں، اور کبھی کبھی شکنجے میں جکڑا بھی گیا ھوں، وہ لوگ جیسے ھی سینما کے دروازے سے باھر نکلے اور ادھر ھم دونوں نے اپنی اپنی قمیضیں سیدھی کیں اور سیٹ کے نیچے سے بستہ نکالا، خاموشی سےپیچھے کے دروازے سے بھاگنے کی کوشش کی، جیسے ھی دروازہ کھولا، جان ھی نکل گئی، آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، کاش کے ھم فلم ختم ھونے کے بعد ھی نکلتے تو بہتر ھوتا !!!!!!!!!
سامنے اپنے کلاس ٹیچر کو پایا، انہوں نے خاموشی سے ایک طرف اشارے سے کھڑے ھونے کو کہہ دیا وہ شاید اس وقت سینما کے منیجر سے ھم لڑکوں کے متعلق ھی کوئی ایک ایکشن پلان بنا رھے تھے، اور اسی دوران انہوں نے ھمیں اپنے پاس بلایا اور ایک ھاتھ سے میرے کان پکڑے اور دوسرے ھاتھ سے دوسرے دوست کے کان پکڑے اور ساتھ ساتھ گھماتے ھوئے مروڑتے رھے، اور اسی طرح دونوں کو سب کے سامنے کان مروڑتے ھوئے اسکول کا رخ کیا اور ساتھ ھی کچھ سوال بھی پوچھتے جارھے تھے، ویسے سارے سوال جواب اب یاد تو نہیں ھیں لیکن ان کا انداز گفتگو اور ھمارے جوابات کا ملا جلا انداز کچھ یوں تھا، اگر جواب میں ھم کچھ دیر کرتے یا جھجکتے تو کانوں پر کچھ اور زیادہ دباؤ پڑ جاتا:
ھاں تو بیٹا بتاؤ تو کیسی فلم تھی؟؟؟
اچھی تھی !!!!!
اس فلم میں کون ھیرو تھا؟؟؟
محمدعلی!!!!!!
ھیروئین کون تھی؟؟؟
نیلو!!!!!!
اسکی اماں کون تھی؟؟؟
مینا شوری!!!!!
اچھا اس کی کچھ کہانی تو سناو،؟؟؟؟
کچھ یاد نہیں ھے پوری فلم ھم نے نہیں دیکھی تھی!!!!!!
چلو آج اسکول کے اندر، میں تم دونوں کو میں پوری فلم کی کہانی سناتا بھی ھوں اور ساتھ دکھاؤں گا بھی !!!!!!!!!!!!!!!!
جتنے تمھارے اچھے نام ھیں اور کرتوت تو سارے شیطانوں کی طرح ھیں!!!!
اسکول پہنچنے تک تو انہوں نے ھمارے کانوں کا تو حشر نشر کر ھی دیا تھا، کان بالکل شل ھوگئے تھے اور ساتھ ھی بہت دکھ رھے تھے، ھمیں تو اس تکلیف کا اتنا احساس تو نہیں تھا لیکن جو آگے سزا ملنے والی تھی اسکی زیادہ فکر لاحق تھی کہ نہ جانے کیا ھونے والا ھے !!!!
جیسے ھی اسکول پہنچے تو کیا دیکھتے ھیں پہلے ھی سے جن بچوں کو پکڑ کر لے گئے تھے، ان سب کو اسکول کے درمیان کے پارک میں مرغا بنایا ھوا تھا اور کوئی اگر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو فوراً اسے پیچھے سے ٹھیک ٹھاک ایک ڈنڈے سے ٹھکائی ھوتی، یہ دیکھ کر تو ھماری سٹی ھی گم ھو گئی، آواز تو نکل ھی نہیں رھی تھی!!!!!
مگر اسکول کے اندر گھستے ھی کلاس ٹیچر نے ھمارے کان چھوڑ دئیے اور سیڑھیوں کے پاس ھمیں اپنی کلاس میں جانے کو کہا ھماری کلاس پہلے ھی فلور پر تھی، فوراً ھم دونوں بھاگے اور کلاس روم میں پہنچے تو کوئی بھی نہ تھا، سارے گیلری میں سے نیچے بچوں کو سزا ملتے ھوئے دیکھ رھے تھے، اور ھم دونوں نے بستے اپنی ڈیسک میں رکھے اور باھر گیلری میں آکر دوسروں کے ساتھ نیچے لڑکوں کا حشر دیکھنے لگ گئے، مگر ساتھ ساتھ اپنے اپنے کانوں کو سہلا بھی رھے تھے!!!!!!!
اور ھم دونوں حیران بھی تھے کہ ھمارے ساتھ اتنی مہربانی کیوں ؟؟؟؟
ھماری کلاس سے اس دن صرف ھم دونوں نے ھی آدھے دن کی چھٹی لی تھی اور وہ بھی اپنے کلاس ٹیچر کے کام ھی کی وجہ سے، انہوں نے کچھ ھمیں پیسے دیئے تھے کچھ باسمتی چاول کیلئے، جوکہ ھمارے ملٹری کوٹہ پر اس وقت والد صاحب کو کسی نہ کسی جان پہچان کی وجہ سے رعایتی دام پر اور اچھے قسم کے ملتے تھے، اور میں نے یہ کہہ کر چھٹی لی تھی کہ آج اسٹور جانا ھے اور آپکے لئےچاول لانے ھیں، اگر آپ اجازت دے دیں تو میں اپنے دوست کر لے جاؤں، تاکہ واپسی ہر کرائے کی سائیکل پر شام تک اسکول میں ھم دونوں چاول آپ تک پہنچادیں گے، شاید 10 سیر چاول تھے، اور ویسے بھی والد صاحب ھر ایک کی خدمت اسی طرح ھمیشہ کرتے ھی رھتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں تمام راشن، جس میں آٹا، چاول، دالیں اور خاص کر چینی گھر کے ممبران کے مطابق بذریعہ راشن کارڈ ماھانہ کوٹہ کے صرف مخصوص گورنمنٹ کے راشن شاپس پر ھی ملا کرتا تھا اور ھمیں ملٹری کے کوٹہ پر کچھ زیادہ ھی مل جاتا تھا تو والد صاحب اکثر اسی بہانے سے بھی لوگوں کی ضرورتیں پورا کرتے رھتے تھے -
ماسٹر صاحب کے لئے اباجی نے چاول پہلے ھی سے لاکر گھر میں رکھے ھوئے تھے اور مجھے کہہ بھی دیا تھا کہ جب بھی موقعہ ملے تو انہیں پہنچا دینا یا انہیں کہہ دینا کہ گھر آکر خود لے جائیں، اور میں اس موقعہ کو کھونا نہیں چاھتا تھا، لیکن افسوس کہ ذرا سی ایک غلطی سے اس موقعہ کو فلم دیکھنے کے چکر میں وہ بھی نامکمل اور بےعزتی جو الگ ھوئی سو الگ، بے فضول ضائع کردیا، ویسے میری پلاننگ کبھی ضائع بےکار تو نہیں جاتی تھی، لیکن بس اس دفعہ مقدٌر نے ھم سے کچھ رخ ھی پھیر لیا تھا، اور فلم کے پیسے بھی اسی میں سے خرچ کردئے تھے، تاکہ کرائے کی سائیکل کے بجائے دونوں ملکر وہ چاول اٹھاکر اسکول تک پہنچا دیں گے،
اور وہ چاول ایسے تھے کہ اگر صرف جیب رکھ کر لے جاؤ تو جہاں جہاں سے گزرو گے اسکی مہک ساتھ ساتھ خوشبو بکھیرتی چلی جائے گی، اور اگر ایک گھر میں پک رھے ھوں تو پورے محلے میں پتہ چل جاتا تھا کہ آج کسی گھر میں یہ چاول پک رھے ھیں، اور یہ ھمارے ملک کے باسمتی چاول اب تک عام لوگوں کو دیکھنے کو بھی نہیں ملتے، کیا بات ھے میرے سوھنے دیس کی۔!!!!!!!!
فلم دیکھنے ھی کے لئے ھر ھفتے یا پندرہ دن کے اندر کوئی نہ کوئی ھم دونوں بہانہ تلاش کرلیتے تھے، مگر اس دفعہ نشانہ کچھ چُوک ھی گیا تھا، اور دوسری طرف ھمارے کلاس ٹیچر کو اس بات پر فخر بھی تھا کہ ان کی کلاس کے تمام لڑکے بہت ھی زیادہ لائق اور ھونہار ھیں اور پورے اسکول میں یہ بات مشہور تھی، مگر ھم دونوں نے ان کے اعتماد کو آخر ٹھیس پہنچا ھی دی، مگر پھر بھی کسی نہ کسی ظرح انہوں نے اپنے ساتھ ھماری عزت بھی رکھ لی ورنہ تو ھم دونوں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح سب کے سامنے مرغے بنے ھوئے سزا پا رھے ھوتے،
بہرحال بڑی شرمندگی ھوئی، ویسے تو کبھی شرمندہ نہیں ھوئے کیونکہ ایسی حرکتوں میں تو ھم نے پہلے سے ھی “پی ایچ ڈی“ کیا ھوا تھا، لیکں اس دفعہ کچھ غیرت جاگی صرف اپنے کلاس ٹیچر کی وجہ سے جو واقعی بہت اچھے اور بہت مہربان بھی تھے، اور انہوں نے پہلے ھی تاکید کردی تھی کہ اپنے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا، مگر پھر بھی کئی لڑکے، جنہیں اسی سلسلے میں سزا ملی تھی وہ بس اسی فراق میں لگے ھی رھے کہ ھم دونوں بھی تو فلم دیکھنے گئے تھے، ھم کیوں نہیں پکڑے گئے، کئی دفعہ انہوں نے ھمارے کلاس ٹیچر سے شکایت بھی لگانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکو ڈآنٹ کر ٹال دیا!!!!!!!!!!!!!
اسی دن شام کو کلاس ٹیچر میرے گھر پہنچنے کے فوراً بعد ھی پہنچ گئے، میں ایک دفعہ پھر سہم گیا، اس سے پہلے ھی میں نے والد صاحب کو ان سے لئے ھوئے چاولوں کی قیمت کے پیسے دے چکا تھا، جو پیسے فلم میں خرچ ھوئے تھے، اسے والدہ سے کوئی اور بہانہ کرکے پورے کردئیے تھے، میں اس بات سے ڈر رھا تھا کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت ھی نہ کردیں، میں بہت ڈرا ھوا اور سہما ھوا ان دونوں کے بیچ کھڑا تھا، اور کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت کے بجائے تعریف ھی کررھے تھے بہت ھی اچھا محنتی اور لائق لڑکا ھے وغیرہ وغیرہ!!!!!!!!!
اور میں کچھ اور ھی سونچ میں لگ گیا کہ اب فلم دیکھنے کیلئے اور دوسری کونسی صورت اختیار کی جائے، کیونکہ یہ عادت بھی بہت بری طرح چپک گئی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!
اب تو میں بڑی مشکل سے نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا، آرٹس کے صرف چار مضامین تھے، جنہیں پاس کرنا تھا، کوشش اس دفعہ ساری کی کہ سارے پیپر کلئیر ھوجائیں، اور بہت امید بھی تھی، مگر پھر بھی کچھ اپنے شوق بھی تھے، لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانا اور ان میں تقسیم بھی کرنا اس کے علاوہ قلمی دوستی بھی جاری رھی، لیکن اخباروں اور بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنے میں وقت کی تنگی کے باعث بہت زیادہ کمی آگئی تھی،
ھمارے اسکول کے نزدیک پہلے ایک ائرکنڈیشنڈ سینما بھی ھوا کرتا تھا، اور اکثر اسکول کے لڑکے ھاف ٹائم میں بھاگ کر فلم دیکھنے جاتے تھے، مجھے بھی اسکا بھی ایک شوق پیدا ھوگیا تھا، اس وقت بھی اتوار کو ھی چھٹی ھوا کرتی تھی تو ھم دو تیں دوست بھی کسی نہ کسی طرح ہاف ٹائم کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فلم دیکھنے کیلئے جاتے تھے اس وقت آگے کی کلاس کا ٹکت 4 آنے کا ھوتا تھا اور پورا مہینہ کچھ نہ کچھ خرچی میں سے بچاکر اور سودے میں سے بھی بچا کر باقی کے پیسے جوڑ کر 4 آنے بنا ھی لیتا تھا،
گھر میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ میں فلم دیکھ کر آرھا ھوں، اس شوق نے اور پڑھائی کی طرف اور بھی توجہ کم کردی اب مہینہ میں ایک دفعہ کے بجائے دو دفعہ فلم دیکھنے کا چکر پال لیا تھا، ایک دفعہ اسکول سے بھاگ کر کافی لڑکے فلم دیکھنے پہنچ گئے اور شاید اسکول میں کسی مخبری کی وجہ سے یہ بھید کھل گیا، ویسے بھی اس دن ایک ڈراونی سی فلم “خاموش رھو“ لگی ھوئی تھی، فلم کے دوران ھی اسکول کا چھاپہ پڑ گیا وہ بھی والدین کے ساتھ، اندھیرے میں ھی آواز آئی چلئے اپنے اپنے بچوں کو پہچانئے، منہ پر ٹارچ کی روشنی سے والدین اور کلاس ٹیچرز بچوں کو پہچان کر اٹھا رھے تھے اور فلم بھی ساتھ ساتھ چل رھی تھی،
ایک تو فلم ڈراونی اوپر سے اسکول کا چھاپہ سب سے پہلے تو میں نے اپنا اسکول بیگ سیٹ کے نیچے پھینکا اور قمیض اُتار کر الٹی پہن لی یعنی اوپن سائڈ پیچھے گھما دی،اور قمیض کو اوپن ھی رکھا اور بالوں کو بھی خوب بکھیر دیا، قمیض بھی الٹی، ایک ّعجیب ھی شاھکار لگتا اگر اندھیرا نہ ھوتا تو، ایسے وقت میں شیطانی دماغ بھی خوب چلتا ھے، ساتھ والے دوست نے بھی ایسا ھی کیا کیونکہ سامنے کی جیب پر اسکول کا مونوگرام بنا ھوا تھا اس سے پہچاننے میں اور بھی آسانی ھورھی تھی، اسکول کے ٹیچرز اور والدین اسکول کے بچوں کو پہچانتے ھوئے ھماری ظرف ھی بڑھ رھے تھے میں نے فوراً اپنے پیر بھی جوتے اتار کر آوپر رکھ لئے تھے-
جیسے ھی وہ میرے نزدیک پہنچے، مجھ پر ایک ٹارچ کی روشنی سی پڑی، میں تو ایک دم گھبرا سا گیا، لیکن پھر بھی ھمت پکڑی ھوئی تھی، ایک نے فوراً دوسرے سے میری قمیض کی طرف ٹارچ کی روشنی ڈالتے ھوئے کہا کہ یہ اسکول کا لڑکا نہیں لگتا، اور اوپر سے میں نے بھی تھوڑا اپنے منہ کو ٹیڑھا کیا اور ذرا غصہ کا موڈ بناتے ھوئے وہاں کے مکرانی لہجے میں کہا کچھ اسی طرح کہا کہ!!!!!!!!!
!!!!! اڑے تم کو ارو برو نظر نہیں آتا ھے کیا، تم لوک کا دماغ تو خراب نہیں ھوگیا نی، اڑے سامنے سے ھٹو ایسا پنچ مارے گا سارا بتیسی باھر کردیگا، !!!!!!!!!!
وہ دو آدمی تھے اور اسکول کے ٹیچر ھی تھے، پھر بھی انکے ری ایکشن سے ڈر بھی لگ رھا تھا، کہ کہیں پہچاں نہ لیں لیکن جان بچ گئی انہوں نے واقعی میرے ایکشن کا آخر اثر لے ھی لیا اور معذرت کے انداز میں کہا کہ !!!
!! بھئی ذرا معاف کیجئے گا کچھ غلط فہمی ھوگئی تھی!!!
یہ کہتے ھوئے وہ دونوں کچھ آگے بڑھ گئے!!!!!!!!!!
کبھی کبھی شیطانی دماغ بھی کام کرجاتا تھا، اور کئی جگہوں پر میں بال بال بچا بھی ھوں، اور کبھی کبھی شکنجے میں جکڑا بھی گیا ھوں، وہ لوگ جیسے ھی سینما کے دروازے سے باھر نکلے اور ادھر ھم دونوں نے اپنی اپنی قمیضیں سیدھی کیں اور سیٹ کے نیچے سے بستہ نکالا، خاموشی سےپیچھے کے دروازے سے بھاگنے کی کوشش کی، جیسے ھی دروازہ کھولا، جان ھی نکل گئی، آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، کاش کے ھم فلم ختم ھونے کے بعد ھی نکلتے تو بہتر ھوتا !!!!!!!!!
سامنے اپنے کلاس ٹیچر کو پایا، انہوں نے خاموشی سے ایک طرف اشارے سے کھڑے ھونے کو کہہ دیا وہ شاید اس وقت سینما کے منیجر سے ھم لڑکوں کے متعلق ھی کوئی ایک ایکشن پلان بنا رھے تھے، اور اسی دوران انہوں نے ھمیں اپنے پاس بلایا اور ایک ھاتھ سے میرے کان پکڑے اور دوسرے ھاتھ سے دوسرے دوست کے کان پکڑے اور ساتھ ساتھ گھماتے ھوئے مروڑتے رھے، اور اسی طرح دونوں کو سب کے سامنے کان مروڑتے ھوئے اسکول کا رخ کیا اور ساتھ ھی کچھ سوال بھی پوچھتے جارھے تھے، ویسے سارے سوال جواب اب یاد تو نہیں ھیں لیکن ان کا انداز گفتگو اور ھمارے جوابات کا ملا جلا انداز کچھ یوں تھا، اگر جواب میں ھم کچھ دیر کرتے یا جھجکتے تو کانوں پر کچھ اور زیادہ دباؤ پڑ جاتا:
ھاں تو بیٹا بتاؤ تو کیسی فلم تھی؟؟؟
اچھی تھی !!!!!
اس فلم میں کون ھیرو تھا؟؟؟
محمدعلی!!!!!!
ھیروئین کون تھی؟؟؟
نیلو!!!!!!
اسکی اماں کون تھی؟؟؟
مینا شوری!!!!!
اچھا اس کی کچھ کہانی تو سناو،؟؟؟؟
کچھ یاد نہیں ھے پوری فلم ھم نے نہیں دیکھی تھی!!!!!!
چلو آج اسکول کے اندر، میں تم دونوں کو میں پوری فلم کی کہانی سناتا بھی ھوں اور ساتھ دکھاؤں گا بھی !!!!!!!!!!!!!!!!
جتنے تمھارے اچھے نام ھیں اور کرتوت تو سارے شیطانوں کی طرح ھیں!!!!
اسکول پہنچنے تک تو انہوں نے ھمارے کانوں کا تو حشر نشر کر ھی دیا تھا، کان بالکل شل ھوگئے تھے اور ساتھ ھی بہت دکھ رھے تھے، ھمیں تو اس تکلیف کا اتنا احساس تو نہیں تھا لیکن جو آگے سزا ملنے والی تھی اسکی زیادہ فکر لاحق تھی کہ نہ جانے کیا ھونے والا ھے !!!!
جیسے ھی اسکول پہنچے تو کیا دیکھتے ھیں پہلے ھی سے جن بچوں کو پکڑ کر لے گئے تھے، ان سب کو اسکول کے درمیان کے پارک میں مرغا بنایا ھوا تھا اور کوئی اگر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو فوراً اسے پیچھے سے ٹھیک ٹھاک ایک ڈنڈے سے ٹھکائی ھوتی، یہ دیکھ کر تو ھماری سٹی ھی گم ھو گئی، آواز تو نکل ھی نہیں رھی تھی!!!!!
مگر اسکول کے اندر گھستے ھی کلاس ٹیچر نے ھمارے کان چھوڑ دئیے اور سیڑھیوں کے پاس ھمیں اپنی کلاس میں جانے کو کہا ھماری کلاس پہلے ھی فلور پر تھی، فوراً ھم دونوں بھاگے اور کلاس روم میں پہنچے تو کوئی بھی نہ تھا، سارے گیلری میں سے نیچے بچوں کو سزا ملتے ھوئے دیکھ رھے تھے، اور ھم دونوں نے بستے اپنی ڈیسک میں رکھے اور باھر گیلری میں آکر دوسروں کے ساتھ نیچے لڑکوں کا حشر دیکھنے لگ گئے، مگر ساتھ ساتھ اپنے اپنے کانوں کو سہلا بھی رھے تھے!!!!!!!
اور ھم دونوں حیران بھی تھے کہ ھمارے ساتھ اتنی مہربانی کیوں ؟؟؟؟
ھماری کلاس سے اس دن صرف ھم دونوں نے ھی آدھے دن کی چھٹی لی تھی اور وہ بھی اپنے کلاس ٹیچر کے کام ھی کی وجہ سے، انہوں نے کچھ ھمیں پیسے دیئے تھے کچھ باسمتی چاول کیلئے، جوکہ ھمارے ملٹری کوٹہ پر اس وقت والد صاحب کو کسی نہ کسی جان پہچان کی وجہ سے رعایتی دام پر اور اچھے قسم کے ملتے تھے، اور میں نے یہ کہہ کر چھٹی لی تھی کہ آج اسٹور جانا ھے اور آپکے لئےچاول لانے ھیں، اگر آپ اجازت دے دیں تو میں اپنے دوست کر لے جاؤں، تاکہ واپسی ہر کرائے کی سائیکل پر شام تک اسکول میں ھم دونوں چاول آپ تک پہنچادیں گے، شاید 10 سیر چاول تھے، اور ویسے بھی والد صاحب ھر ایک کی خدمت اسی طرح ھمیشہ کرتے ھی رھتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں تمام راشن، جس میں آٹا، چاول، دالیں اور خاص کر چینی گھر کے ممبران کے مطابق بذریعہ راشن کارڈ ماھانہ کوٹہ کے صرف مخصوص گورنمنٹ کے راشن شاپس پر ھی ملا کرتا تھا اور ھمیں ملٹری کے کوٹہ پر کچھ زیادہ ھی مل جاتا تھا تو والد صاحب اکثر اسی بہانے سے بھی لوگوں کی ضرورتیں پورا کرتے رھتے تھے -
ماسٹر صاحب کے لئے اباجی نے چاول پہلے ھی سے لاکر گھر میں رکھے ھوئے تھے اور مجھے کہہ بھی دیا تھا کہ جب بھی موقعہ ملے تو انہیں پہنچا دینا یا انہیں کہہ دینا کہ گھر آکر خود لے جائیں، اور میں اس موقعہ کو کھونا نہیں چاھتا تھا، لیکن افسوس کہ ذرا سی ایک غلطی سے اس موقعہ کو فلم دیکھنے کے چکر میں وہ بھی نامکمل اور بےعزتی جو الگ ھوئی سو الگ، بے فضول ضائع کردیا، ویسے میری پلاننگ کبھی ضائع بےکار تو نہیں جاتی تھی، لیکن بس اس دفعہ مقدٌر نے ھم سے کچھ رخ ھی پھیر لیا تھا، اور فلم کے پیسے بھی اسی میں سے خرچ کردئے تھے، تاکہ کرائے کی سائیکل کے بجائے دونوں ملکر وہ چاول اٹھاکر اسکول تک پہنچا دیں گے،
اور وہ چاول ایسے تھے کہ اگر صرف جیب رکھ کر لے جاؤ تو جہاں جہاں سے گزرو گے اسکی مہک ساتھ ساتھ خوشبو بکھیرتی چلی جائے گی، اور اگر ایک گھر میں پک رھے ھوں تو پورے محلے میں پتہ چل جاتا تھا کہ آج کسی گھر میں یہ چاول پک رھے ھیں، اور یہ ھمارے ملک کے باسمتی چاول اب تک عام لوگوں کو دیکھنے کو بھی نہیں ملتے، کیا بات ھے میرے سوھنے دیس کی۔!!!!!!!!
فلم دیکھنے ھی کے لئے ھر ھفتے یا پندرہ دن کے اندر کوئی نہ کوئی ھم دونوں بہانہ تلاش کرلیتے تھے، مگر اس دفعہ نشانہ کچھ چُوک ھی گیا تھا، اور دوسری طرف ھمارے کلاس ٹیچر کو اس بات پر فخر بھی تھا کہ ان کی کلاس کے تمام لڑکے بہت ھی زیادہ لائق اور ھونہار ھیں اور پورے اسکول میں یہ بات مشہور تھی، مگر ھم دونوں نے ان کے اعتماد کو آخر ٹھیس پہنچا ھی دی، مگر پھر بھی کسی نہ کسی ظرح انہوں نے اپنے ساتھ ھماری عزت بھی رکھ لی ورنہ تو ھم دونوں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح سب کے سامنے مرغے بنے ھوئے سزا پا رھے ھوتے،
بہرحال بڑی شرمندگی ھوئی، ویسے تو کبھی شرمندہ نہیں ھوئے کیونکہ ایسی حرکتوں میں تو ھم نے پہلے سے ھی “پی ایچ ڈی“ کیا ھوا تھا، لیکں اس دفعہ کچھ غیرت جاگی صرف اپنے کلاس ٹیچر کی وجہ سے جو واقعی بہت اچھے اور بہت مہربان بھی تھے، اور انہوں نے پہلے ھی تاکید کردی تھی کہ اپنے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا، مگر پھر بھی کئی لڑکے، جنہیں اسی سلسلے میں سزا ملی تھی وہ بس اسی فراق میں لگے ھی رھے کہ ھم دونوں بھی تو فلم دیکھنے گئے تھے، ھم کیوں نہیں پکڑے گئے، کئی دفعہ انہوں نے ھمارے کلاس ٹیچر سے شکایت بھی لگانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکو ڈآنٹ کر ٹال دیا!!!!!!!!!!!!!
اسی دن شام کو کلاس ٹیچر میرے گھر پہنچنے کے فوراً بعد ھی پہنچ گئے، میں ایک دفعہ پھر سہم گیا، اس سے پہلے ھی میں نے والد صاحب کو ان سے لئے ھوئے چاولوں کی قیمت کے پیسے دے چکا تھا، جو پیسے فلم میں خرچ ھوئے تھے، اسے والدہ سے کوئی اور بہانہ کرکے پورے کردئیے تھے، میں اس بات سے ڈر رھا تھا کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت ھی نہ کردیں، میں بہت ڈرا ھوا اور سہما ھوا ان دونوں کے بیچ کھڑا تھا، اور کلاس ٹیچر میری والد صاحب سے شکایت کے بجائے تعریف ھی کررھے تھے بہت ھی اچھا محنتی اور لائق لڑکا ھے وغیرہ وغیرہ!!!!!!!!!
اور میں کچھ اور ھی سونچ میں لگ گیا کہ اب فلم دیکھنے کیلئے اور دوسری کونسی صورت اختیار کی جائے، کیونکہ یہ عادت بھی بہت بری طرح چپک گئی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!