عبدالرحمن سید
محفلین
بھولی بسری یادیں-61- محبت کی جدائی میں پاگل دیوانہ دل،!!!!!
اب تو لگتا تھا کہ اب تمام ھی راستے بند ھوگئے ھیں، اسی طرح جب سے نئے گھر میں شفٹ ھوئے، ایک تو اتنا دور ھے کہ پہنچتے پہنچتے شام ھوجاتی ھے اور دوسرے سارے کام بھی ادھورے ھی رہ جاتے ھیں، اب دماغ میں کچھ سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ھوچکی تھی، نئی جگہ نئے لوگ، اور کچھ نئے دوست بھی بن گئے، اچھا صاف ستھرا ماحول تھا، علاقہ بھی اچھا تھا، لیکن میرا دل اور دماغ پر تو کچھ اور ھی چھایا ھوا تھا، اتنی بےعزتی کے باوجود بھی دل ادھر ھی اٹکا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!
اِدھر گریجویشن کو بھی مکمل کرنا تھا اُدھر دوسری طرف میری جان کہیں اور اٹکی ھوئی تھی، کالج بھی نیا اور دوست بھی نئے، دل بالکل بھی نہیں لگ رھا تھا، اکثر میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، اس ماڈرن علاقے میں جاکر کافی دور سے کھڑے ھوکر اسی کھڑکی کی طرف دیکھنا بھی چاھا لیکن کوئی کامیابی نہیں ھوئی، لیکن کچھ دنوں بعد ایک موچی کے ایک کارنر سے اندازہ لگالیا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ کامیابی کی امید ھوسکتی ھے،
ان کی گلی کے کچھ آگے اگلی گلی کے موڑ پر ھی ایک موچی بیٹھتا تھا، اس کے پاس ھی میں جاکر اپنا جوتا پالش کرانے کے بہانے بیٹھ جایا کرتا اور ساتھ ھی میری نظر ان کے گھر کی سیڑھیوں اور اوپر کھڑکی پر ھی ٹکی رھتی، اور میں اس موچی کے ایک لکڑی کے بکس جو ایک سیمنٹ کے پلر کے ساتھ رکھا تھا، اس پر اس طرح پلر کی آڑ میں بیٹھا کرتا کہ میں تو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا لیکن وہاں سے مجھے دیکھنا مشکل تھا، کبھی کبھی تو موچی کے پاس اچھی خاصی دیر تک بیٹھا رھتا اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا بھی رھتا، اور اسے کچھ پیسے میں زیادہ بھی دے دیتا تھا وہ بھی خوش، مگر اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرا وھاں بیٹھنے کا اصل مقصد کیا تھا،
میں اکثر ھر تیسرے چوتھے روز شام کے وقت کالج کے بہانے گھر سے نکلتا اور اس موچی کے پاس بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی تو جوتے کی پالش کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے چائے بھی بمعہ بسکٹ کے منگوالیتا اور ھم دونوں مل کر چائے اور بسکٹ نوش کرتے اور خوب باتیں بھی کرتے، اور ساتھ ساتھ میری نظریں کسی اور ظرف جمی ھوتیں، اس موچی نے کئی دفعہ پوچھا بھی میں کیا کرتا ھوں اور کدھر رھتا ھوں میں نے بھی اسے گول مال جواب دے دیا وہ ویسے ھی شریف آدمی تھا اور پھر میرے جانے سے ایک آدھ روپے کی آمدنی بھی ھوجاتی اور ساتھ چائے بسکٹ کے مزے بھی آجاتے تھے، صرف ایک ہفتہ میں دو دفعہ ھی آجا سکتا تھا، کیونکہ ایک تو کالج کو بھی وقت دینا پڑتا تھا اور والد صاحب بھی سعودیہ میں ھی تھے، انہیں بھی تقریباً سال ھونے والا تھا، اس لئے مجھے اپنے گھر کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا،
اب تو انکے پاس ایک کار بھی آگئی تھی، جسے انکے والد ھی چلاتے تھے، اور میں نے انکی والدہ اور دونوں بہنوں کو ان کے ساتھ کار میں دیکھا بھی تھا، والدہ آگے اور پیچھے دونوں اب تو وہ دونوں بہت ھی خوبصورت لباس کے ساتھ اور بھی بہت ھی زیادہ حسین لگ رھی ھوتی تھیں، میرے پاس تو کوئی سواری نھیں تھی اور نہ ھی اتنے پیسے ھوتے تھے کہ کسی ٹیکسی یا آٹو رکشہ میں ان کا پیچھا کروں، کہ یہ لوگ کہاں جاتے ھیں،
ایک دن میں نے ننھے کی ذریعے یہ معلوم کرا ھی لیا کہ ان کے والد اب ایک اچھا بزنس کررھے ھیں اور ان کا آفس بھی نزدیک ھی ھے، وھاں بھی جاکر میں نے دیکھا اب تو انکے بڑے ٹھاٹھ ھیں، ایک دن ھمت کرکے میں ان کے آفس پہنچ گیا ان کا ایک اپنا سیکنڈ ھینڈ کاروں کا ایک شوروم تھا، ڈرتے ڈرتے ان کے ایک بڑے شیشے کے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر باھر سے ھی انہیں سلام کیا، انھوں نے اپنے چشمے میں سے جھانکتے ھوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا، میں نے دل میں کہا کہ بیٹا اب تو تیری خیر نہیں، کیونکہ وہ کچھ ٹھیک موڈ میں نہیں لگ رھے تھے، انہوں نے مجھے سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اور خیر خیریت پوچھی میں نے بھی رسماً ٹھیک ٹھاک کہہ دیا، پھر انہوں نے اپنے چپراسی کو اندر بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ چائے پیو گے یا ٹھنڈا، میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن انہوں نے زبردستی کی تو میں نے کہا کہ چائے کے لئے ھاں کردی، ان کا آفس تو بہت شاندار تھا اور شوروم میں بھی پانچ چھ اچھی کاروں کی ایک لائن تھی، اور انکے پاس چھ یا سات اسٹاف ممبر بھی تھے جو بہت ھی نفیس لباس میں سوٹ اور ٹائی لگائے گاھکوں کو گاڑیاں دکھا رھے تھے اور خالو بھی زبردست قسم کا سفاری سوٹ پہنے ھوئے تھے، اور بس ایک دو بات کرکے اپنے کام میں لگ گئے، اور میں بس آگے پیچھے لگی ھوئی مختلف گاڑیوں کی تصویریں ھی دیکھتا رھا، کئی دفعہ وہ نیچے بھی گئے، لیکن مجھ سے کچھ نہیں کہا، جب کافی دیر ھوگئی تو میں نے ان سے اجازت مانگی اور انہوں نے مجھے بغیر دیکھے ھی اچھا کہا اور ایک ڈرایئور کو بلایا اور مجھ سے کہا کہ جہاں جانا ھو یہ ڈرائیور تمھیں چھوڑ دے گا، ان کا انداز مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ اپنی شان و شوکت دکھا رھے ھوں، نہ ھی انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں کسی کا بھی ذکر کیا اور نہ ھی مجھ سے کوئی تفصیل پوچھی، بس ایک اجنبی کی طرح ایک چائے پلائی، اور بس میرے سامنے چپراسی کو کئی دفعہ بلا کر زور سے ڈانٹا بھی اور منہ میں انکے اب سگریٹ کے بجائے ایک پائپ چپکا ھوا دیکھا، جسے انہوں نے دانتوں میں دبایا ھوا تھا، وہ واقعی مجھ پر اپنی امارت کا رعب ڈالنا چاھتے تھے،
میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور بس یہی کہا کہ خالو میں نزدیک ھی بس اسٹاپ سے بس پکڑ لونگا، اور یہ کہتا ھوا میں باھر نکل گیا میری آنکھوں میں آنسو بھی تھے شاید انھوں نے بھی دیکھا ھوگا، لیکن ان کی یہ بےرخی دیکھ کر میں تو حیران ھوگیا کہاں یہ شخص مجھے بہت چاھتا تھا اور آج ان کا اس طرح کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوا، میں تیزی سے قدم بڑھاتا ھوا بس اسٹاپ کی طرف جارھا تھا اور اپنی اس بےعزتی کے برتاؤ کی وجہ سے میرا دماغ خراب ھورھا تھا، اسی وقت میں نے یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ آج کے بعد اب کبھی بھی اس خاندان کی شکل نہیں دیکھوں گا !!!!!!!!!
اب تو لگتا تھا کہ اب تمام ھی راستے بند ھوگئے ھیں، اسی طرح جب سے نئے گھر میں شفٹ ھوئے، ایک تو اتنا دور ھے کہ پہنچتے پہنچتے شام ھوجاتی ھے اور دوسرے سارے کام بھی ادھورے ھی رہ جاتے ھیں، اب دماغ میں کچھ سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ھوچکی تھی، نئی جگہ نئے لوگ، اور کچھ نئے دوست بھی بن گئے، اچھا صاف ستھرا ماحول تھا، علاقہ بھی اچھا تھا، لیکن میرا دل اور دماغ پر تو کچھ اور ھی چھایا ھوا تھا، اتنی بےعزتی کے باوجود بھی دل ادھر ھی اٹکا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!
اِدھر گریجویشن کو بھی مکمل کرنا تھا اُدھر دوسری طرف میری جان کہیں اور اٹکی ھوئی تھی، کالج بھی نیا اور دوست بھی نئے، دل بالکل بھی نہیں لگ رھا تھا، اکثر میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، اس ماڈرن علاقے میں جاکر کافی دور سے کھڑے ھوکر اسی کھڑکی کی طرف دیکھنا بھی چاھا لیکن کوئی کامیابی نہیں ھوئی، لیکن کچھ دنوں بعد ایک موچی کے ایک کارنر سے اندازہ لگالیا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ کامیابی کی امید ھوسکتی ھے،
ان کی گلی کے کچھ آگے اگلی گلی کے موڑ پر ھی ایک موچی بیٹھتا تھا، اس کے پاس ھی میں جاکر اپنا جوتا پالش کرانے کے بہانے بیٹھ جایا کرتا اور ساتھ ھی میری نظر ان کے گھر کی سیڑھیوں اور اوپر کھڑکی پر ھی ٹکی رھتی، اور میں اس موچی کے ایک لکڑی کے بکس جو ایک سیمنٹ کے پلر کے ساتھ رکھا تھا، اس پر اس طرح پلر کی آڑ میں بیٹھا کرتا کہ میں تو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا لیکن وہاں سے مجھے دیکھنا مشکل تھا، کبھی کبھی تو موچی کے پاس اچھی خاصی دیر تک بیٹھا رھتا اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا بھی رھتا، اور اسے کچھ پیسے میں زیادہ بھی دے دیتا تھا وہ بھی خوش، مگر اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرا وھاں بیٹھنے کا اصل مقصد کیا تھا،
میں اکثر ھر تیسرے چوتھے روز شام کے وقت کالج کے بہانے گھر سے نکلتا اور اس موچی کے پاس بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی تو جوتے کی پالش کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے چائے بھی بمعہ بسکٹ کے منگوالیتا اور ھم دونوں مل کر چائے اور بسکٹ نوش کرتے اور خوب باتیں بھی کرتے، اور ساتھ ساتھ میری نظریں کسی اور ظرف جمی ھوتیں، اس موچی نے کئی دفعہ پوچھا بھی میں کیا کرتا ھوں اور کدھر رھتا ھوں میں نے بھی اسے گول مال جواب دے دیا وہ ویسے ھی شریف آدمی تھا اور پھر میرے جانے سے ایک آدھ روپے کی آمدنی بھی ھوجاتی اور ساتھ چائے بسکٹ کے مزے بھی آجاتے تھے، صرف ایک ہفتہ میں دو دفعہ ھی آجا سکتا تھا، کیونکہ ایک تو کالج کو بھی وقت دینا پڑتا تھا اور والد صاحب بھی سعودیہ میں ھی تھے، انہیں بھی تقریباً سال ھونے والا تھا، اس لئے مجھے اپنے گھر کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا،
اب تو انکے پاس ایک کار بھی آگئی تھی، جسے انکے والد ھی چلاتے تھے، اور میں نے انکی والدہ اور دونوں بہنوں کو ان کے ساتھ کار میں دیکھا بھی تھا، والدہ آگے اور پیچھے دونوں اب تو وہ دونوں بہت ھی خوبصورت لباس کے ساتھ اور بھی بہت ھی زیادہ حسین لگ رھی ھوتی تھیں، میرے پاس تو کوئی سواری نھیں تھی اور نہ ھی اتنے پیسے ھوتے تھے کہ کسی ٹیکسی یا آٹو رکشہ میں ان کا پیچھا کروں، کہ یہ لوگ کہاں جاتے ھیں،
ایک دن میں نے ننھے کی ذریعے یہ معلوم کرا ھی لیا کہ ان کے والد اب ایک اچھا بزنس کررھے ھیں اور ان کا آفس بھی نزدیک ھی ھے، وھاں بھی جاکر میں نے دیکھا اب تو انکے بڑے ٹھاٹھ ھیں، ایک دن ھمت کرکے میں ان کے آفس پہنچ گیا ان کا ایک اپنا سیکنڈ ھینڈ کاروں کا ایک شوروم تھا، ڈرتے ڈرتے ان کے ایک بڑے شیشے کے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر باھر سے ھی انہیں سلام کیا، انھوں نے اپنے چشمے میں سے جھانکتے ھوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا، میں نے دل میں کہا کہ بیٹا اب تو تیری خیر نہیں، کیونکہ وہ کچھ ٹھیک موڈ میں نہیں لگ رھے تھے، انہوں نے مجھے سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اور خیر خیریت پوچھی میں نے بھی رسماً ٹھیک ٹھاک کہہ دیا، پھر انہوں نے اپنے چپراسی کو اندر بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ چائے پیو گے یا ٹھنڈا، میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن انہوں نے زبردستی کی تو میں نے کہا کہ چائے کے لئے ھاں کردی، ان کا آفس تو بہت شاندار تھا اور شوروم میں بھی پانچ چھ اچھی کاروں کی ایک لائن تھی، اور انکے پاس چھ یا سات اسٹاف ممبر بھی تھے جو بہت ھی نفیس لباس میں سوٹ اور ٹائی لگائے گاھکوں کو گاڑیاں دکھا رھے تھے اور خالو بھی زبردست قسم کا سفاری سوٹ پہنے ھوئے تھے، اور بس ایک دو بات کرکے اپنے کام میں لگ گئے، اور میں بس آگے پیچھے لگی ھوئی مختلف گاڑیوں کی تصویریں ھی دیکھتا رھا، کئی دفعہ وہ نیچے بھی گئے، لیکن مجھ سے کچھ نہیں کہا، جب کافی دیر ھوگئی تو میں نے ان سے اجازت مانگی اور انہوں نے مجھے بغیر دیکھے ھی اچھا کہا اور ایک ڈرایئور کو بلایا اور مجھ سے کہا کہ جہاں جانا ھو یہ ڈرائیور تمھیں چھوڑ دے گا، ان کا انداز مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ اپنی شان و شوکت دکھا رھے ھوں، نہ ھی انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں کسی کا بھی ذکر کیا اور نہ ھی مجھ سے کوئی تفصیل پوچھی، بس ایک اجنبی کی طرح ایک چائے پلائی، اور بس میرے سامنے چپراسی کو کئی دفعہ بلا کر زور سے ڈانٹا بھی اور منہ میں انکے اب سگریٹ کے بجائے ایک پائپ چپکا ھوا دیکھا، جسے انہوں نے دانتوں میں دبایا ھوا تھا، وہ واقعی مجھ پر اپنی امارت کا رعب ڈالنا چاھتے تھے،
میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور بس یہی کہا کہ خالو میں نزدیک ھی بس اسٹاپ سے بس پکڑ لونگا، اور یہ کہتا ھوا میں باھر نکل گیا میری آنکھوں میں آنسو بھی تھے شاید انھوں نے بھی دیکھا ھوگا، لیکن ان کی یہ بےرخی دیکھ کر میں تو حیران ھوگیا کہاں یہ شخص مجھے بہت چاھتا تھا اور آج ان کا اس طرح کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوا، میں تیزی سے قدم بڑھاتا ھوا بس اسٹاپ کی طرف جارھا تھا اور اپنی اس بےعزتی کے برتاؤ کی وجہ سے میرا دماغ خراب ھورھا تھا، اسی وقت میں نے یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ آج کے بعد اب کبھی بھی اس خاندان کی شکل نہیں دیکھوں گا !!!!!!!!!