گُلِ یاسمیں
لائبریرین
فیر اوکھیاں تے میلاں دوروں لنگھ جاندیاں ہون گیاںسوکھیاں گلاں میرے پلے نیں پیندیاں
فیر اوکھیاں تے میلاں دوروں لنگھ جاندیاں ہون گیاںسوکھیاں گلاں میرے پلے نیں پیندیاں
ذرا دیر کے لیے غیر متفق کی ریٹنگ دے کر میں نے آپ کو بتایا۔ کہ لازمی لکھنا ہو گاہمیں تو سوچنا بھی نہیں آتا ڈھنگ سے۔
ایسی باتیں کر سکتی ہو۔۔ فقرے چست کر سکتی ہو۔ اپنے چوٹ کے واقعے کو کسی مزاحیہ سکرپٹ میں بدل سکتی ہو۔ لیکن افسانہ لکھتے قلم کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے کیافیر اوکھیاں تے میلاں دوروں لنگھ جاندیاں ہون گیاں
گُلِ یاسمیں ایسی باتیں آپ سے کب سن رہے ہیںاور اب صاحب کو کھانا چاہئے ۔ ہم کچن یاترا پر جا رہے ہیں ۔
ہمیں بس زیک بھائی کی غیر متفق ریٹنگ اچھی نہیں لگتی کیونکہ وہ ہمارے اچھے والے بھائی ہیں۔ جب کہ آپ لڑتے ہی رہتے ہیں ہمیشہ۔ذرا دیر کے لیے غیر متفق کی ریٹنگ دے کر میں نے آپ کو بتایا۔ کہ لازمی لکھنا ہو گا
مجھے خود بھی اچھی نہیں لگتی اسی لیے ہٹا دیہمیں بس زیک بھائی کی غیر متفق ریٹنگ اچھی نہیں لگتی کیونکہ وہ ہمارے اچھے والے بھائی ہیں۔ جب کہ آپ لڑتے ہی رہتے ہیں ہمیشہ۔
ہم نے دیکھی بھی نہیں آپ کی ریٹنگ۔
ابھی سن لیں بھائی۔۔۔ کہنے میں کیا حرج ہے۔گُلِ یاسمیں ایسی باتیں آپ سے کب سن رہے ہیں
دینے کی ضرورت کیا تھی پھرمجھے خود بھی اچھی نہیں لگتی اسی لیے ہٹا دی
نہیں۔ جھوٹ موٹ والا نہیںابھی سن لیں بھائی۔۔۔ کہنے میں کیا حرج ہے۔
آخر کو پریکٹس بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اسی بہانے وہ ہو جائے گی۔
ایویں ای۔۔۔دینے کی ضرورت کیا تھی پھر
نہیں ۔۔۔ تب الفاظ روٹھ جاتے ہیں سوچیں منتشر ہو جاتی ہیںایسی باتیں کر سکتی ہو۔۔ فقرے چست کر سکتی ہو۔ اپنے چوٹ کے واقعے کو کسی مزاحیہ سکرپٹ میں بدل سکتی ہو۔ لیکن افسانہ لکھتے قلم کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے کیا
سچی والے کو ہم نے "صاحب" کہہ کر تھوڑی پکارنا ہے۔۔۔ ہم تو "اے جی" ۔۔۔۔ "او جی" کہیں گے روؤف بھائینہیں۔ جھوٹ موٹ والا نہیں
بھگتیں ابایویں ای۔۔۔
مار کھاؤ گی لڑکی۔۔۔ ہمارے صبر کو اتنا مت آزماؤ ۔۔۔ کہ ایک دننہیں ۔۔۔ تب الفاظ روٹھ جاتے ہیں سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں
ہم لکھنا کچھ چاہتے ہیں لیکھا کچھ جاتا ہے۔ اور جب کاغذ پر دیکھتے ہیں تو بس ایک ہی نام لکھا ہوتا۔
فقط ایک نام لکھا ہوتا ہے۔
ہم بار بار اس نام کو دیکھتے ہیں
کبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر
کبھی کن اکھیوں سے۔۔۔ اور کبھی اداس نظروں سے
کبھی مسکراتے ہیں
کبھی لجاتے ہیں
سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ایسا کیسے ہو گیا
ہم سو رہے ہیں یا جاگتے میں ہی کوئی سپنا دیکھ رہے ہیں
جب سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں
تو ایک خوہش من کے آنگن میں جاگتی ہے
دماغ بھی اس خواہش کا ساتھ دیتا ہے
تو بالآخر ہمیں ایک ترکیب سوجھ ہی جاتی ہے
کیوں ناں بھابی کو بتا دیں
ان سے پوچھیں کہ بار بار ایک ہی نام کیوں پھسلا جاتا ہے ہمارے قلم سے
ہم پڑھنا چاہیں تو ہمیں حرفوں کی پہچان نہیں ہوتی
آپ ہی ہماری ڈوبتی نیا کو اب پار لگاؤ
اس کاغذ پر جو نام لکھا ہے، گنگناؤ
جیسے ہی کاغذ بھابی کے ہاتھ میں جاتا ہے
نام دیکھ کران کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے
سارے کاغذ پر گل گل گل گل گل لکھا ہوتا ہے
سیدھے ہاتھ سے لکھا ہوتا تو ہم خود پڑھ لیتے
الٹے ہاتھ سے لکھا گُل دماغ کی بتی ہی گُل کر دیتا ہے
لیکن پھر بھی امید ہے کہ دن بدلیں گے
ہم وقت کے وقت سمجھ جائیں گے
کہ بائیں ہاتھ سے نہیں دائیں ہاتھ سے لکھنا ہوتا ہے
یہی امید ہے۔۔۔ یہی امید ہے
اب آپ لوگ بھی امید پر مضمون لکھئیے۔۔۔۔
اے جی، او جیسچی والے کو ہم نے "صاحب" کہہ کر تھوڑی پکارنا ہے۔۔۔ ہم تو "اے جی" ۔۔۔۔ "او جی" کہیں گے روؤف بھائی
ہم سے جو ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گامار کھاؤ گی لڑکی۔۔۔ ہمارے صبر کو اتنا مت آزماؤ ۔۔۔ کہ ایک دن
نہیں نہیں ۔۔۔ ہم تو القاب بتا رہے تھے ۔۔۔اے جی، او جی
انڈیا کا گانا سن رہی ہو کیا
بالی وڈیا فقرے بازیہم سے جو ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گا
ہم جو کہتے ہیں کر کے دکھا دیتے ہیں بھائی
اور جو نہیں کہتے وہ تو کر ہی دیتے ہیں۔
توبہ ہے بھائی۔۔۔ نام تو صحیح لیںبالی وڈیا فقرے بازی