نہیں ۔۔۔ تب الفاظ روٹھ جاتے ہیں سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں
ہم لکھنا کچھ چاہتے ہیں لیکھا کچھ جاتا ہے۔ اور جب کاغذ پر دیکھتے ہیں تو بس ایک ہی نام لکھا ہوتا۔
فقط ایک نام لکھا ہوتا ہے۔
ہم بار بار اس نام کو دیکھتے ہیں
کبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر
کبھی کن اکھیوں سے۔۔۔ اور کبھی اداس نظروں سے
کبھی مسکراتے ہیں
کبھی لجاتے ہیں
سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ایسا کیسے ہو گیا
ہم سو رہے ہیں یا جاگتے میں ہی کوئی سپنا دیکھ رہے ہیں
جب سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں
تو ایک خوہش من کے آنگن میں جاگتی ہے
دماغ بھی اس خواہش کا ساتھ دیتا ہے
تو بالآخر ہمیں ایک ترکیب سوجھ ہی جاتی ہے
کیوں ناں بھابی کو بتا دیں
ان سے پوچھیں کہ بار بار ایک ہی نام کیوں پھسلا جاتا ہے ہمارے قلم سے
ہم پڑھنا چاہیں تو ہمیں حرفوں کی پہچان نہیں ہوتی
آپ ہی ہماری ڈوبتی نیا کو اب پار لگاؤ
اس کاغذ پر جو نام لکھا ہے، گنگناؤ
جیسے ہی کاغذ بھابی کے ہاتھ میں جاتا ہے
نام دیکھ کران کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے
سارے کاغذ پر گل گل گل گل گل لکھا ہوتا ہے
سیدھے ہاتھ سے لکھا ہوتا تو ہم خود پڑھ لیتے
الٹے ہاتھ سے لکھا گُل دماغ کی بتی ہی گُل کر دیتا ہے
لیکن پھر بھی امید ہے کہ دن بدلیں گے
ہم وقت کے وقت سمجھ جائیں گے
کہ بائیں ہاتھ سے نہیں دائیں ہاتھ سے لکھنا ہوتا ہے
یہی امید ہے۔۔۔ یہی امید ہے