یاد آتے ہیں وہ شہر وہ بستیاں
اپنا سب کچھ جہاں رکھ کے چلنا پڑا
(نصیر احمد ناصر)
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا کہ میراتیری نسبت نے سنوارا میرا اندازِ حیات
میں اگر تیرا نہ ہوتا سگِ دنیا ہوتا
مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخماب کچھ نہیں تو نیند سے آنکھیں جلائیں ہمآؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم
نہ ٹھہرا ایک بھی امجد میری آنکھوں کے ساحل پرایک انوکھی بستی دھیان میں رہتی ہے
اُس بستی کے باسی مجھے بلاتے ہیں
یہیں سے سیکھے تھے آداب بندگی میں نےیاد کسی کی چاندنی بن کر کوٹھے کوٹھے اتری ہے
یاد کسی کی دھوپ ہوئی ہے زینہ زینہ اتری ہے
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سےیہ بار بار باتیں، یہ بار بار ہنسنا
یہ بے شمار باتیں، یہ بےشمار ہنسنا
نہیں جاتے اب دکھ آ کے گھر سےاب کے وہ درد دے کہ میں رووں تمام عمر
اب کے لگا وہ زخم کہ جینا محال ہو