سید زبیر
محفلین
یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفایہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
ہے اک زہر سا پھیلا ہوا فضاوں میں
یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفایہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھاُس سے اُس تک پہنچنے کا راستہ پوچھا بہت
جان پائے نہ اُسے ہم کہ وہ مشکل تھا بہت
یہ کس نے آج جگائی ہے عہد رفتہ کی یادہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے اب داد کی طلبیوں بھی ہوتا ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلوں
ہر قدم پر کوئی سمجھاتا ہے دروازے تک
یہ کشمکش الگ ہے کہ کس کشمکش میں ہوںیوں مٹا جیسے کہ دہلی سے گمانِ دہلیتھا مِرا نام و نشاں، نام و نشانِ دہلی(داغ دہلوی)
مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔۔مگر مجھے یوں لگتا ہے جیسے تہمت ایک نہیں تھی۔جبھی تو خواجہ صاحب کو درد تھا۔بیت بازی کا نیا دھاگہ
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
(خواجہ میر درد)