وقت کی لہریں پل پل آصف ٹوٹتی رہتی ہیں سوچ کے دریا میں بن جاتے ہیں ہر سو گرداب جانے کون سی قوت میرے دکھ پر غالب آئی اتنے تو مضبوط نہیں تھے ورنہ یہ اعصاب