یوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ
آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشت بلا ہے ہم ہی نہیں دیوانے لوگ
ابھی تو مل کرچلتےہیں سمندر کی مسافت میں
پھراس کے بعد دیکھیں گے کنارہ کون کرتا ہے
گٹھائیں کون لاتا ہے میری آنکھوں کے موسم میں
پھر اس کے بعد بارش کا نظارہ کون کرتا ہے
یہ خیال سارے ہیں عارضی، یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلُ ِآرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کرسکا نہ قبول میں،وہ شریک راہ سفر تھے
جو میری طلب میری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے ۔۔۔
وہ بام ودر ہوں ایسے جن میں اپنا پن نظر آئے
جو اپنے گھر کی چھت جیسی ہو گر چھت ہو تو ایسی ہو
مجھے کانٹا چھبےُ اور تیری آنکھوں سے لہو ٹپکے
تعلق ہو تو ایسا ہو،محبت ہو تو ایسی ہو
یہی محسوس ہو جیسے کئی صدیاں گزاری ہیں
فقط اک پل کی فرقتُ میں اذیت ہو تو ایسی ہو