یہ فقط غرور کی بات ہے کہ زباں سے اپنی نہ تم کہو
تمہیں ورنہ اسکی خلش تو ہے کہ تمہاری بزم میں ہم نہیں
نگہ شوق کا حال نہ پوچھسربسر اضطراب ہو کے رہی(فانی بدایونی)
نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کہ در و دیوار۔۔۔ !
غالب
یہ فسانہ محبت یہ وفا کی داستانیں
کوئی اور ذکر چھیڑو میرا دل لہو لہو ہے۔۔۔ !
وہ میں نے آپ کے شعر کا جواب دیا تھاارے جناب شمشاد بھائی نے جو شعر دیا وہ حرف " ی " پہ ختم ہوا
آپ نے "ی" سے شروع ہونے والا شعر لکھنا تھا۔
اب میں آپ کے دوسرے والے شعر کے آخری حرف " ی" سے شعر لکھتی ہوں
یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں