محسن وقار علی
محفلین
اور اگر انتقام لیا بھی جاتا ہے تو ظالم کی بہن بیٹی سے۔
یعنی ایک اور حواکی بیٹی ظلم کا شکار ہو جاتی ہے۔
یعنی ایک اور حواکی بیٹی ظلم کا شکار ہو جاتی ہے۔
حوا کی بیٹی ہماری ایک محترم رکن بھی ہیں۔ اس لئے کچھ اور لکھ دیجیئےاور اگر انتقام لیا بھی جاتا ہے تو ظالم کی بہن بیٹی سے۔
یعنی ایک اور حواکی بیٹی ظلم کا شکار ہو جاتی ہے۔
کیا بات لکھ دی ہےحوا کی بیٹی !!! اگر مظالم کا شکار ہوتی ہے تو اپنی وجہ سے ہی اور حیرت انگیز طور پر میں ان تمام واقعات میں عورت کو ہی ظالم سمجھتی ہوں۔ عزت اور احترام رشتوں کا برقرار رہنا چاہیئے اور میں تو یہ کہتی رہ گئی پچھلے دس سال سے کبھی گھر والوں کو تو کبھی دوستوں کو کہ خدارا صنف کی تفریق کے بغیر رشتوں کا احترام کریں ایسا کریں گے تو ہی معاشرہ تسلسل میں آئے گا۔ عورت ہی حوا کی بیٹی کو یہ سکھاتی ہے کہ '' اب اپنے ابو سے بات نہ کرنا'' اچھا چلو آئندہ احتیاط کرو اور اب بھائی آئے تو یہ ذکر نہ چھیڑناوغیرہ وغیرہ لیکن یہی عورت حوا کی بیٹٰی کی بات کو سمجھے اور آدم کے بیٹے کو خود سمجھائے تو معاملات کیسے نہ سلجھیں گے ۔ ایک عورت ''آدم کے بیٹے'' کو بھڑکا کر خاندان بھر میں آگ لگا سکتی ہے ، برسوں کی محبتوں ، محنتوں کو لمحوں میں غارت کر سکتی ہے، تاج و تخت بدل سکتی ہے تو معاشرے میں سوچ میں تبدیلی بھی لاسکتی ہے۔ یہ جو ہمارے معاشرے میں یہ جو ''مرادنگی'' '' غیرت'' نام کی چیزیں ہیں نا یہ بنائیں تو یقینا مرد نے ہی اپنے آپ کو سپیرئر بتانے کے لیے ہیں اور ان قبولیت کی مہر ثبت کرنے والی بھی عورتیں ۔ باقی میں آکر لکھتی ہوں ابھی ذرا کلاس سے ہو آؤں ۔
بالکل ٹھیک کہا محسن بھائی آپ نے،امجد میانداد بھائی کی بات درست ہے
اس سلسلے میں خواتین کو بچپن سے ہی اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔
جس طرح ہمارے معاشرے میں ایسے کسی سانحے کے وقت الزام عورت پر ہی ڈال دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی "جھوٹی عزت" کی خاطر اس کی جان بھی لے لی جاتی ہے۔ایسے معاشرتی رویوں کے درمیان خواتین سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ اپنے گھر والوں کو خود پر ہونے والے کسی ظلم کے بارے میں فوراَ بتائیں،خام خیالی ہے۔
80 فیصد سے ذائد خواتین کبھی اپنی زبان نہیں کھولا کرتیں(کم از کم اپنے مردوں کے سامنے تو)
اور کیسے کریں؟؟
انہیں اپنی جان کا خطرہ جو ہوتا ہے۔
اسی لیئے میں حوا کی بیٹی کے حوالہ لکھنے کے بجائے ان کا اصل نام اقلیما لکھتا ہوں۔حوا کی بیٹی ہماری ایک محترم رکن بھی ہیں۔ اس لئے کچھ اور لکھ دیجیئے
بالکل ٹھیک کہا اقلیما ، ضرورت مناسب تربیت کی ہے سبھی متعلقین کی چاہے ہو عورت ہو یا مرد کے بچوں کے سلسلے میں ذمہ داری کیسے ادا کی جائے حقیقی معنوں میں ان کو اس قابل کیسے بنایا جائے کہ وہ اپنی پریشانیوں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناروا سلوک کا بارے میں والدین کو اعتماد سے بتا سکیں۔حوا کی بیٹی !!! اگر مظالم کا شکار ہوتی ہے تو اپنی وجہ سے ہی اور حیرت انگیز طور پر میں ان تمام واقعات میں عورت کو ہی ظالم سمجھتی ہوں۔ عزت اور احترام رشتوں کا برقرار رہنا چاہیئے اور میں تو یہ کہتی رہ گئی پچھلے دس سال سے کبھی گھر والوں کو تو کبھی دوستوں کو کہ خدارا صنف کی تفریق کے بغیر رشتوں کا احترام کریں ایسا کریں گے تو ہی معاشرہ تسلسل میں آئے گا۔ عورت ہی حوا کی بیٹی کو یہ سکھاتی ہے کہ '' اب اپنے ابو سے بات نہ کرنا'' اچھا چلو آئندہ احتیاط کرو اور اب بھائی آئے تو یہ ذکر نہ چھیڑناوغیرہ وغیرہ لیکن یہی عورت حوا کی بیٹٰی کی بات کو سمجھے اور آدم کے بیٹے کو خود سمجھائے تو معاملات کیسے نہ سلجھیں گے ۔ ایک عورت ''آدم کے بیٹے'' کو بھڑکا کر خاندان بھر میں آگ لگا سکتی ہے ، برسوں کی محبتوں ، محنتوں کو لمحوں میں غارت کر سکتی ہے، تاج و تخت بدل سکتی ہے تو معاشرے میں سوچ میں تبدیلی بھی لاسکتی ہے۔ یہ جو ہمارے معاشرے میں یہ جو ''مرادنگی'' '' غیرت'' نام کی چیزیں ہیں نا یہ بنائیں تو یقینا مرد نے ہی اپنے آپ کو سپیرئر بتانے کے لیے ہیں اور ان قبولیت کی مہر ثبت کرنے والی بھی عورتیں ۔ باقی میں آکر لکھتی ہوں ابھی ذرا کلاس سے ہو آؤں ۔
اقلیما!!! یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں ۔ کیوں کہ مجھے اس کا مطلب بھی نہیں پتا۔بالکل ٹھیک کہا اقلیما ، ضرورت مناسب تربیت کی ہے سبھی متعلقین کی چاہے ہو عورت ہو یا مرد کے بچوں کے سلسلے میں ذمہ داری کیسے ادا کی جائے حقیقی معنوں میں ان کو اس قابل کیسے بنایا جائے کہ وہ اپنی پریشانیوں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناروا سلوک کا بارے میں والدین کو اعتماد سے بتا سکیں۔
حضرت آدم اور حوا کی بیٹی، آبیل اور قابیل کی بہن جس کی وجہ سے پھر قتل ہوا اس کا نام "اقلیما" یا "Luluwa" تھا۔اقلیما!!! یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں ۔ کیوں کہ مجھے اس کا مطلب بھی نہیں پتا۔
میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں بھائی جان۔ لیکن انہی باتوں کے ساتھ ساتھ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے کلاس میٹ گروپس، سٹڈی گروپس اور فرینڈ گروپس کے ٹرینڈ کو یکسر نظر انداز کرنا درست نہ ہو گا۔ ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئے کہ ایک تو بات چیت والے ہم جماعت اور ہم گروپس وغیرہ ہم سے چھپے نہ ہوں اور پھر ان کی اپنے طور پہ تسلی بھی ضروری ہے۔ اور یہ اپنی بیٹی یا بہن کو پوری طرح اعتماد میں لینے کے بعد ہی ہو سکتا ہے، جہاں پر آپ "ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا" یا "یہ غلط ہے"،"ممکن نہیں" وغیرہ کہیں گے وہاں سے اعتماد کی جگہ رازداری گھسنا شروع ہو جائے گی۔میں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ پہلے بہنوں کے ساتھ دوستی کر لی، پھر بیگم کے ساتھ اور اب بیٹی کے ساتھ بھی دوستی کر رہا ہوں۔ آپ کی کچھ باتوں سے اختلاف ہے۔ مثلا دوست بنا لیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ بہنوں کو اور بیٹیوں کو اتنی محبت اور عزت دوں، اتنی اہمیت دو کہ وہ باہر کسی سے نا ہمدردی حاصل کرنا چاہیں اور نا ہی باہر کسی کو دوست بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کو موبائل رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میری کوئی بھی بہن کسی بھی وقت مجھ سے میرا موبائل لے لیتی ہے اور میں اس کو منع نہیں کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں نیٹ کا استعمال بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میں اپنی بہنوں کو نیٹ کے استعمال کا طریقہ بتا رہا ہوں۔ میرا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے میں ان کی اچھی تربیت پر توجہ دیتا ہوں۔ پھر ان کو اچھا اور بُرا دیکھا دیتا ہوں اور پھر ان پر چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کیا منتخب کرتی ہیں۔ اچھے کے فائدے اور بُرے کے نقصان بھی بتا دیتا ہوں۔ آج الحمداللہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری بہنیں اور میری بیگم میرے ساتھ ہر اس مسئلہ پر بات کر لیتی ہیں جو عام طور پر نہیں کر سکتی
آپ کو جو ٹھیک لگتا ہے آپ اس کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور جو مجھے ٹھیک لگتا ہے میں اس کو ٹھیک سمجھتا ہوں۔ ہاں میں اس بات کو مانتا ہوں کہ میری بہن یا میری بیٹی کی جب شادی ہو تو اس شادی میں ان کی مرضی شامل ہو چاہے پسند کی ہی ہو۔ لیکن میں کبھی برداشت نہیں کروں گا کہ میری بہن یا میری بیٹی مجھے یہ کہہ کے میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ اس بات کے لیے بہن یا ماں کو اعتماد میں لیا جانا چاہے اور ان کی مدد سے بات کرنی چاہے۔میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں بھائی جان۔ لیکن انہی باتوں کے ساتھ ساتھ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے کلاس میٹ گروپس، سٹڈی گروپس اور فرینڈ گروپس کے ٹرینڈ کو یکسر نظر انداز کرنا درست نہ ہو گا۔ ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئے کہ ایک تو بات چیت والے ہم جماعت اور ہم گروپس وغیرہ ہم سے چھپے نہ ہوں اور پھر ان کی اپنے طور پہ تسلی بھی ضروری ہے۔ اور یہ اپنی بیٹی یا بہن کو پوری طرح اعتماد میں لینے کے بعد ہی ہو سکتا ہے، جہاں پر آپ "ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا" یا "یہ غلط ہے"،"ممکن نہیں" وغیرہ کہیں گے وہاں سے اعتماد کی جگہ رازداری گھسنا شروع ہو جائے گی۔
ماشاءاللہ،آپ کو جو ٹھیک لگتا ہے آپ اس کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور جو مجھے ٹھیک لگتا ہے میں اس کو ٹھیک سمجھتا ہوں۔ ہاں میں اس بات کو مانتا ہوں کہ میری بہن یا میری بیٹی کی جب شادی ہو تو اس شادی میں ان کی مرضی شامل ہو چاہے پسند کی ہی ہو۔ لیکن میں کبھی برداشت نہیں کروں گا کہ میری بہن یا میری بیٹی مجھے یہ کہہ کے میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ اس بات کے لیے بہن یا ماں کو اعتماد میں لیا جانا چاہے اور ان کی مدد سے بات کرنی چاہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کوایجوکیشن تو ہوتی ہے لیکن کالج میں خواتین کے کالج کو ہی اہمیت دی جاتی ہے نا کہ کو ایجوکیشن والے کالج وغیرہ میں۔ میرے نزدیک اعتماد یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کویہ تعلیم دیں کے ایسا کرنا درست ہے اور ایسا کرنا غلط ہے۔ اور ہم ان کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ آپ جو منتخب کرو گے ہم وہی کریں گے اور ہماری تربیت ایسی ہو کہ ہمارے بچے اسی کو منتخب کریں جو ہم درست مانتے ہیں۔ یہاں ایک مثال دوں گا۔
تعلیمی میدان میں ہم کہتے ہیں ہمارا بچہ ڈاکٹر بنے لیکن اس کی ڈاکٹر بنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور ہم کہتے ہیں میری بچپن کی خواہش تھی کہ میرا بچہ ڈاکٹر بنے لیکن اس نے میری خواہش پوری نہیں کی۔ پھر کیا ہوتا ہے جب بچہ اپنے والدین کی جزباتی باتیں سنتا ہے تو ڈاکٹر بننے کی تیاری کرتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے۔ نا وہ ڈاکٹر بنتا ہے اور نا ہی وہ کچھ بنتا ہے جو وہ خود بننا چاہتا ہے۔ میرا طریقہ تعلیم کچھ مختلف ہے۔
اب میری خواہش یہ ہے کہ میری بیٹی ادیب بھی بنے اور کمپیوٹر فیلڈ میں ارفع کریم کی طرح نام بھی کمائے۔ اب میں نے جو مستقبل کی حکمت عملی بنائی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ ابھی سے کہانیاں اور کمپیوٹر میں بچوں کے لیے سافٹ وئیر انسٹال کر دیے ہیں۔ جب خود پڑھتا ہوں تو بیٹی کو بھی ساتھ بٹھاتا ہوں تھوڑا سا اونچی آواز میں پڑھتا ہوں تاکہ اس تک آواز جائے۔ پھر جب کمپیوٹر پر کام کرتا ہوں تو اس کو گود میں لیے لیتا ہوں۔ جو کام کرتا ہوں اس کو ساتھ بتاتا ہوں یہ ایسے کرتے ہیں یہ ایسے کرتے ہیں۔ کمپیوٹر پر اے بی سی کے سافٹ وئیر ہیں جو بٹن دبائیں گے وہی آواز نکلے گی پھر وہ کی بورڈ پر ہاتھ مارتی ہے اور اے بی سی کی آواز آتی ہے۔
اب جب یہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائے گی تو انشاءاللہ میں اس سے روز کی ڈائری لکھواں گا اور کمپیوٹر پر ہوم ورک کروایا کروں گا۔ اس طرح اس کی پسند وہی ہو جائے گی جو میری ہو گی اور وہ انشاءاللہ وہی بنے گی جو میں اس کو بنانا چاہوں گا۔ یعنی ادیب اور کمپیوٹر انجینئر۔
جہاں تک اعتماد اور تربیت کی بات ہے تو جیسے ہم پہلی اینٹ لگائیں گے دیوار بھی ایسی ہی بنے گی اس لیے ہمیں شروع سے ہی تیاری کرنی ہوگی تاکہ جس چیز کو ہم درست کہیں ہماری اولاد بھی اس کو درست ہی مانیں۔ لیکن اس کو یہ بھی اعتماد دیا جائے کہ اگر ہم غلط کہہ رہے ہیں تو پھر اس انداز سے ہمیں سمجھائیں جس انداز سے ہم نے اس کو سمجھایا ہے نا کہ وہ نافرمانی پر اتر آئے
اور یاد رہے میری بیٹی ابھی 8 ماہ اور کچھ مہینے کی ہے
بات ماننے یا نہ ماننے کی نہیں بلکہ زندگی کے تجربے اور ارد گرد کے ماحول کی ہے۔ بحث کا ارادہ نہیں کہ ہم مختلف کائناتوں میں رہتے ہیںنا مانیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔