خوداحتسابی کا موقع ملنا اور خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کتنی راتیں گزری ہیں زندگی کی جن میں آپ نے سونے سے قبل محاسبہ کیا ہے۔ کہ آج کیا برا کیا۔ کیا اچھا کیا۔ جھوٹ، کو مذاق اور بےایمانی کو بازار میں رائج قانون کا نام دے کر ہم نے کس کس گرہ سے دامن نہیں چھڑا رکھا۔ جہاں موقع ملا وہاں ہم نے کب کسی سے رعایت برتی۔ اور اب آجاتے ہیں فرعون والی بات کی طرف۔ ۔۔
فرعون اک تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ دولت تھی۔ اقتدار تھا۔۔ اس کے باوجود بھی وہ ہدایت پر نہ آیا۔۔ حالانکہ اللہ کا رسول اس کے ہدایت لے کر آیا۔ تو پھر سوچیئے۔۔۔ اک ایسا آدمی جس کے پاس نہ مال ہے، نہ طاقت کی انتہا، اور اقتدار۔۔۔ وہ کس برتے پر یہ سب کر رہا ہے۔۔ جب کہ اس کے پاس سب سے مقرب نبی کی کتاب موجود ہے۔ "الفرقان"۔۔ جس کو وہ بچپن سے پڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن اک لفظ بھی اس کے دل کے اندر آگ نہیں جلا پا رہا۔۔ کیوں کہ جو تاثیر ان الفاظ سے اس کے وجود میں آنی چاہیے تھی۔۔ اس کا سارا رس مسجد کا خطیب چوس گیا۔ اب اس کے لیے وہ اک کتاب،، قسمیں اٹھانے، اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہے۔ وہ بھول گیا کہ اس کے اندر فلسفہ حیات ہے۔
اور اب ذرا آجائیں۔۔ ہدایت کی طرف۔۔ کہ جی ہدایت کے موقع ملتے ہیں۔ مغرب نے تحقیق کے علم کی بنیاد رکھی۔۔ شک پر۔۔ شک کرو۔۔ پرکھو۔۔ جانچو۔۔۔ سمجھو۔۔ اور پھر اگر سمجھ میں آئے عمل کرو۔۔ دین نے کہا تجسس نہ کرو۔۔ ہم نے دین کی بات نہ مانی۔۔۔ ہم نے تجسس کیا۔۔ ہم نے شک کیا۔۔۔ اور ہر چیز کی تاویل تلاشنے لگے۔۔ یوں رفتہ رفتہ وہ علم ہم سے کھنچتا چلا گیا۔ شعلہ نوائی رہ گئی۔ عمل کی دولت چھن گئی۔ کیوں کہ علم پر اعتبار نہ رہا تو عمل بھی خاک کی چادر تان کر سو گیا۔۔۔
اب آجائیں ملک کے معاملات کی طرف۔۔۔ اک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوا۔۔۔ لیکن در بدر ٹھوکریں۔۔۔ داخلے کے لیے۔۔۔ آخر باپ نے سفارش ڈھونڈی اور داخلہ کرا دیا۔۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا۔۔ جو شاندار عمارت وجود میں آنی تھی۔۔ اس کی بنیاد میں اک اینٹ سفارش کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔ وہ ہزاروں اینٹیں بیکار گئی۔۔ کیوں کہ انہوں نے پہلے مطلوبہ نتائج نہ دیے تھے۔ تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر اک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔۔۔ اب جن لوگوں نے اس وقت سفارش کی تھی۔ ان کے بچے آنا شروع ہوگئے۔ بقیہ زندگی ان کی سفارش کرتے گزر گئی۔ ریٹائر ہوگیا۔۔ مسجد میں اللہ اللہ کرنے لگا۔۔ نیک ہوگیا۔۔ ایسے میں ہمسائے سے اک بندہ اٹھا اور کہا کہ چلیے قبلہ میرے بیٹے کے لیے کوئی حوالہ فراہم کیجیے۔۔ اب پھر ادھر چل پڑا۔۔۔ تو وہ جو دو سال کی کمائی تھی۔۔ وہ بھی مٹی میں مل گئی۔۔۔
مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس پورے عمل کے دوران بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس کو خود احتسابی کا لفظ کس کس نصاب میں پڑھایا گیا۔ ملک کا فائدہ کیا ہے نقصان کیا۔۔۔ یہ اسے کہاں سکھایا گیا۔ دین کیا ہے دنیا کیا۔۔۔ فانی کیا ہے باقی کیا۔۔ اس کا درس اس کو کس معلم نے دیا۔۔۔
اک فرد اس طرح نہیں بدلتا جس طرح آپ نے کہہ دیا کہ بدل جائے تو خاندان بدل جائے۔۔ جب یہ ساری چیزیں نصاب کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے جو فطرت کو بدل دیں گے۔۔۔ ۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ تبدیلی اک نسل سے نہیں آتی۔۔۔ اپنی بیویوں کی تربیت کرو۔۔ اولاد کی تربیت کرو۔۔ ان کو اچھا برا بھلا سکھاؤ۔۔ وقتی فائدے پر نیکی کو ذبح کرنے کا ہنر مت سکھاؤ انہیں۔۔ پھر کہیں جا کر اس جوہڑ سے کائی ہٹے گی۔۔۔ یہ دریا جو سست روی میں سوکھ رہا پھر تبدیل ہو کر کسی روشن اور صاف سمندر کا حصہ بنے گا۔۔ اور اک صاف اور اجلی قوم جنم لے گی۔۔۔ ۔
پتا نہیں کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ بس اب تھک گیا ہوں۔۔ دل کر رہا ہے اور بھی لکھنے کو۔۔ پر اب سکت نہیں۔۔
پر وعدہ کے مطابق الٹا سیدھا جو بن پڑا جواب حاضر ہے۔