فرقان احمد
محفلین
کسی بھی ملک کے وزیراعظم یا صدر کو یہ بات زیب نہیں دیتی ہے کہ وہ اس طرح کے ٹویٹ کرتے پھریں۔ یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔ کسی بھی ملک میں وزیراعظم کو تو شاید وہ آخری فرد ہونا چاہیے جو اس طرح کا بیان جاری کرے۔ افسوس ناک ٹویٹ!
دنیا بدل چکی ہے۔ ٹرمپ اور عمران کے ٹویٹر ہینڈلز کا اثر پھیل رہاہے۔ آئندہ وقتوں میں اور ملکوں کے سربراہان بھی سارا کام ٹویٹر پر کیا کریں گے۔کسی بھی ملک کے وزیراعظم یا صدر کو یہ بات زیب نہیں دیتی ہے کہ وہ اس طرح کے ٹویٹ کرتے پھریں۔ یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔
ایک دوست فرما رہے تھے، قیامت قریب آن لگی ہے۔ ایک ہم تھے جو مانے نہیں دے رہے تھے۔دنیا بدل چکی ہے۔ ٹرمپ اور عمران کے ٹویٹر ہینڈلز کا اثر پھیل رہاہے۔ آئندہ وقتوں میں اور ملکوں کے سربراہان بھی سارا کام ٹویٹر پر کیا کریں گے۔
یوں بھی بات ٹویٹر ہینڈلز کی نہیں ہو رہی ہے۔ عمران خان کا مذکورہ بیان یا ٹویٹ نامناسب ہے۔دنیا بدل چکی ہے۔ ٹرمپ اور عمران کے ٹویٹر ہینڈلز کا اثر پھیل رہاہے۔ آئندہ وقتوں میں اور ملکوں کے سربراہان بھی سارا کام ٹویٹر پر کیا کریں گے۔
آپ کی بات کی تائید کرتی ہوںقومی قرضہ کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے؟
ٹیکس کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
جب تک اداروں کی ڈی پرائیوٹائزیشن نہ ہوگی تب تک قرضہ ختم نہیں ہوگا
باہر کے ملک کی کارپوریٹس کی انویسمنٹ بڑھی گی اور پاکستانی کرنسی ڈی ویلیو ہوگی.
سب سے پہلا قدم اداروں کو تحویل میں لینا. اک کمزور حکومت گرتی اکانومی تب تک مضبوط نہیں ہوگی جب تک اس کی جڑ مضبوط نہ ہو.
پرائیوٹائزیشن اچھی تب ہوتی جب ملک کے ادارے مضبوط ہوں
بھارت کو اسی زبان میں جواب دیا گیا ہے جس کی انہوں نے شروعات کی تھیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ شریف دور والا مسخرہ پن اب نہیں چلے گا۔ کیا وزیر اعظم پاکستان کے لئے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا بھارتی ترجمان کو زیب دیتا تھا؟ اس میں سیدھا عمران خان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس کا جواب دینا ضروری تھا۔یوں بھی بات ٹویٹر ہینڈلز کی نہیں ہو رہی ہے۔ عمران خان کا مذکورہ بیان یا ٹویٹ نامناسب ہے۔
زبردست۔ آج صبح ایک صاحب سے اسی حوالہ سے بحث ہو رہی تھی۔آپ کی بات کی تائید کرتی ہوں
اور مزید اضافہ کروں گی کہ جو محکمے پہلے سے حکومت کی سربراہی میں چل رہے ہیں ان میں گھوسٹ ملازمین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو کافی بھاری مقدار میں ماہانہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں
ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو روزانہ اپنے اپنے دفاتر میں حاضر تو ہوتی ہے لیکن صبح لیٹ آفس اٹینڈینس بہا نہ یہ کہ بچوں کو سکول ڈراپ کرنا ہے، پھر آفس آکر ایک ڈیڑھ گھنٹہ اخبار کا مطالعہ اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ میں ضائع، ابھی آفس ورک کی تفصیل اکٹھی ہی ہوئی تھی کہ بچوںکو واپس لانے اور لنچ کرنے کا بہانہ
اکثر لوگ بچوں کو سکول سے گھر چھوڑنے جاتے ہیں تو واپسی ہی نہیں ہوتی ، اگر کچھ لوگ واپس آجائیں تو آفس ٹائم تقریباً اختتام کے قریب ہوتا ہے
ان ملازمین کی بیخ کنی کے لیئے نئے قوانین بنائے جائیں کہ صرف ایسے ملازمین کے خلاف ہی کارروائی نہیں ہوگی بلکہ ان کے افسران کے خلاف بھی انضباطی کارروائی ہوگی کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اپنے سٹاف کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے
کوشش تو یہی ہے۔ لیکن میڈیا مرچ مصالحے لگا کر بیان کرتا ہے۔دانشمندی اسی میں ہے کہ اخراجات کم کیئے جائیں اورنئےمالی وسائل پیدایا تلاش کیئے جائیں
کیا وزیر اعظم پاکستان کے لئے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا بھارتی ترجمان کو زیب دیتا تھا؟ اس میں سیدھا عمران خان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس کا جواب دینا ضروری تھا۔
اس پر کل کافی بحث ہو چکی ہے۔ ایک کیمپ کہتا ہے عمران خان کو بھارتی ترجمان کے لیول تک نہیں اترنا چاہئے تھا۔ دوسرے کا ماننا ہے کہ چونکہ بھارت نے عمران خان کی ذات پر حملہ کیا تو اس کا جواب وہی بہتر دے سکتے تھے۔ کل فواد چوہدری کے مؤقف سے یہ بھی سمجھ آیا کہ ٹویٹ عمران خان نے ذاتی حیثیت سےکیا تھا۔ جبکہ سفارتی لیول پر جواب پرسوں ہی سفارتخانہ کی جانب سے دیا جا چکا ہے۔بھارتی ترجمان کی بات کا جواب پاکستانی ترجمان کے لیے دینا مشکل تھا کیا جو وزیراعظم پاکستان کو یہ زحمت اٹھانا پڑی؟
پاکستان کا نظام عدل زندہ باد!واہ جی واہ۔ چوہدری صاب پائندہ باد !!
گورنر پنجاب گورنر ہاؤس پنجاب میں عوام سے گھل مل گئے۔ یہ ہوتی ہے تبدیلی۔
کوشش کرتے ہیں۔ فی الحال وزیر اعظم ہاؤس عوام کے لئے کھولا جا رہا ہے۔جاسم بھائی یہی کھلوا دیں راما میڈوز جانے والے سیاح حضرات کے لئے۔
کوشش کرتے ہیں۔ فی الحال وزیر اعظم ہاؤس عوام کے لئے کھولا جا رہا ہے۔