تحریکِ انصاف حکومت: منشور اور وعدے

فرقان احمد

محفلین
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں جایا جائے تو ایک گھرانے کی اوسط ماہانہ آمدن ستر ہزار برآمد کر لی جائے گی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اوسط تیس ہزار روپوں سے شاید ہی اوپر جاتی ہو۔ تین لاکھ روپے سالانہ ایوریج نکلتی ہو گی تاہم یہ محض ایک اندازہ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
محترم فرخ سلیم صاحب یہ بنیادی نکتہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گھر تو کم آمدن رکھنے والے اور متوسط طبقے کے لیے بنائے جائیں گے تو اس نسبت سے زائد آمدن رکھنے والوں کو اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس حساب سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے تھی۔ ایک عام گھرانہ ایک ماہ کے پانچ ہزار روپے بچا لے تو اسے بہت بڑی بات تصور کیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
محترم فرخ سلیم صاحب یہ بنیادی نکتہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گھر تو کم آمدن رکھنے والے اور متوسط طبقے کے لیے بنائے جائیں گے تو اس نسبت سے زائد آمدن رکھنے والوں کو اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس حساب سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے تھی۔ ایک عام گھرانہ ایک ماہ کے پانچ ہزار روپے بچا لے تو اسے بہت بڑی بات تصور کیا جاتا ہے۔
صحیح فرمایا۔ فی الحال تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسی بالکل واضح نہیں ہے۔ کبھی ڈیم بنانا ہے تو کبھی گھر تو کبھی بیت الخلا۔ خزانہ دیکھو تو منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ یا اللہ اس ملک کا کیا بنے گا۔
 
محترم فرخ سلیم کا کُرسی کی خاطر سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے یہ کہانی پھیلائی تھی۔


Cost: The government of Punjab is spending Rs162 billion for the transportation of 250,000 residents of Lahore. Question: How much is Rs162 billion? Answer: Rs162 billion for 250,000 passengers amounts to Rs650,000 per passenger. For the record, Mehran VX sells for Rs630,000 and, in effect, the government of Punjab could have bought a Mehran VX for each and every passenger.



اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں جایا جائے تو ایک گھرانے کی اوسط ماہانہ آمدن ستر ہزار برآمد کر لی جائے گی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اوسط تیس ہزار روپوں سے شاید ہی اوپر جاتی ہو۔ تین لاکھ روپے سالانہ ایوریج نکلتی ہو گی تاہم یہ محض ایک اندازہ ہے۔
محترم فرخ سلیم صاحب یہ بنیادی نکتہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گھر تو کم آمدن رکھنے والے اور متوسط طبقے کے لیے بنائے جائیں گے تو اس نسبت سے زائد آمدن رکھنے والوں کو اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس حساب سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے تھی۔ ایک عام گھرانہ ایک ماہ کے پانچ ہزار روپے بچا لے تو اسے بہت بڑی بات تصور کیا جاتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہاولپور میں کچی آبادیاں گرائی جا رہی ہیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ٹبہ بدر شیر اور موسیٰ کالونی بھی اسی زد میں۔
ایک مکان بنانا پوری ایک زندگی کھا جاتا ہے۔ یہ کوئی کسی غریب سے پوچھے کہ مکان کیسے بنتا ہے۔
لوگ رو رہے ہیں۔ لوگ سخت پریشان ہیں اور دباؤ کا شکار ہیں۔ میں بتا نہیں سکتی کہ لوگ سڑک پہ بیٹھے کیسے رو رہے ہیں۔
اس کا کوئی حل پہلے نکالنا چاہیے تھا۔ جن قبضہ مافیا نے ان غریب لوگوں کو زمین بیچی وہ تو ظاہر ہے کہ بچ گئے، رگڑا گیا عام غریب آدمی۔ اب اُس کا مکان بھی گیا اور پلاٹ بھی۔ وہ سڑک پہ بیٹھا ہے اپنے گھر والوں سمیت۔ جھونپڑی بنانے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ پیسہ چاہیے۔
انتہائی بھیانک صورتحال ہے۔
کل تک بڑی مشکل سے ایک لاکھ میں ایک چھوٹا سا کمرہ اور چند میٹر چار دیواری بنتی تھی۔ اب اینٹیں اس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب بندہ مکان بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور جو کم آمدن والوں کے لیے گھر بنانے کے منصوبے ہیں، تو جو حالات ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے مجھے یہ خدشہ ہے(خدا کرے کہ میرا خدشہ باطل ثابت ہو۔ آمین!) کہ یہ گھر ہم تم نے ہی لے لینے ہیں، غریب آدمی کل بھی سڑک پہ ہی ہوگا۔
اینٹوں کے بھٹے پہ کام کرنے والے الگ بہت پریشان ہیں۔ ان کی روزی مکمل ختم ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان حالات میں ہم ان کے لیے کیا کریں۔
 
ایک لطیفہ کچھ کچھ یاد آ گیا۔
دو بستیوں کے درمیان ایک ندی گزرتی تھا، اس میں راستہ ڈھونڈنے کے لیے ایک صاحب کو گہرائی ناپنے کا کہا گیا۔
انھوں نے مختلف جگہ سے گہرائی ناپی، تو وہ بالترتیب، 1،3،5،7،8،5،2،1 فٹ تھی۔ انھوں نے اوسط نکالی اور بتایا کہ 4 فٹ گہری ہے۔ نتیجہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
The government of Punjab is spending Rs162 billion for the transportation of 250,000 residents of Lahore. Question: How much is Rs162 billion?
اسوقت ڈالر ریٹ کم تھا۔ اب اورنج ٹرین 200 بلین روپے سے زیادہ مہنگا ہو گیا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
سمجھ نہیں آتا کہ ان حالات میں ہم ان کے لیے کیا کریں۔
پورے معاشی نظام کی سرجری ہونے والی ہے۔ سابقہ حکومتوں نے سی پیک، آئی ایم ایف، اور دیگر مالیاتی اداروں کے نام پر جو قرضے چڑھا کر قوم سے ظلم کیا ہے۔ اس کو ٹھیک کرتے کچھ عرصہ لگے گا۔
باقی یہ غربا کے گھروں کو گرانے والی بات درست ہے۔ پہلے حکومت کو انہیں نئے سرکاری گھروں میں بطور متبادل ڈالنا چاہئے تھا۔ اس کے بعد تجاوزات گراتے۔ یہ اُلٹا کام کر رہے ہیں جس کا سخت رد عمل آئے گا۔
 

ربیع م

محفلین

جاسمن

لائبریرین
غریب بندہ جسے دیہاڑی کی پڑی ہوتی ہے، وہ کیا سخت ردِ عمل دے گا حضورِ والا! یہ لوگ تو ڈاکٹر کو فیس دے کے بھی ڈانٹ سُن کے خاموشی سے آجاتے ہیں۔ جن لوگوں کے ردِ عمل کا ڈر تھا، ابھی انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔
ڈرے ہوئے لوگ۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! ابھی تو محض آغاز ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھیے!
اصل میں سابقہ حکومت کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ کے نام پر چین نے جو ایشیا میں اُدھم مچایا تھا۔ اس کی کلی کھلنا شروع ہو گئی ہے۔ چین نے شروع شروع میں یہی کام افریقہ کے چند پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا تھا۔ جب مغرب نے اس بدمعاشی پر ایکشن نہیں لیا تو اسے بڑے پیمانہ پر ایشیا میں شروع کر دیا۔
چینی بدمعاشی کچھ یوں ہے کہ وہ ہرسال اربوں ڈالرز کے قرضے تعمیراتی پراجیکٹس کے نام پر پسماندہ ممالک کو فراہم کرتا ہے۔ ان پراجیکٹس کو تعمیر کرنے کے ٹینڈرقرض شرائط کے تحت چینی کمپنیوں کو جاتے ہیں۔ یوں یہ مہنگے قرضے براستہ چینی کمپنیز واپس چینی خزانے میں منتقل ہو تے ہیں۔ اور جو بیچارے غریب ملک قرضے لیتے ہیں وہ ان کی عدم ادائیگی کے جال میں بری طرح پھنستے جاتے ہیں۔ بالآخر اس میں سے نکلنے کیلئے ان پسماندہ ممالک کے پاس دو ہی حل بچتے ہیں
  • قرضوں پر ڈیفالٹ کر دیا جائے جس کا نتیجہ مزید قرضے نہیں ملیں گے
  • ملکی املاک اور اثاثے چینیوں کے حوالے کر دئے جائیں
2017 میں ہمسایہ ملک سری لنکا چینی قرضوں کی تاب نہ لا کر اپنی ایک بندرگاہ 99 سال کیلئے چین کے حوالہ کر چکا ہے۔
مستقبل میں اگر پاکستان بھی خدانخواستہ چینی قرضوں پر دیوالیہ پن کا شکار ہوا تو مجبورا گوادر اور اس جیسے دیگر قیمتی اثاثے چینیوں کے حوالے کرنا پڑیں گے۔ بھارت اور مغرب چیختا رہ گیا کہ ان چینی چکرومیں نہ پڑو۔ مگر ہمارے سابقہ تجربہ کار حکمرانوں کے سروں پر ہمالیہ سے اونچی چین دوستی سوار تھی۔ اب نئی حکومت کو ان کے کارنامے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
ذیل میں دیکھیں چینی سرمایہ کاری کے چند نمونے جو صرف اور صرف چینیوں کی فلاح کیلئے ہیں۔
ports-945.png

 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اصل میں سابقہ حکومت کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ کے نام پر چین نے جو ایشیا میں اُدھم مچایا تھا۔ اس کی کلی کھلنا شروع ہو گئی ہے۔ چین نے شروع شروع میں یہی کام افریقہ کے چند پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا تھا۔ جب مغرب نے اس بدمعاشی پر ایکشن نہیں لیا تو اسے بڑے پیمانہ پر ایشیا میں شروع کر دیا۔
چینی بدمعاشی کچھ یوں ہے کہ وہ ہرسال اربوں ڈالرز کے قرضے تعمیراتی پراجیکٹس کے نام پر پسماندہ ممالک کو فراہم کرتا ہے۔ ان پراجیکٹس کو تعمیر کرنے کے ٹینڈرقرض شرائط کے تحت چینی کمپنیوں کو جاتے ہیں۔ یوں یہ مہنگے قرضے براستہ چینی کمپنیز واپس چینی خزانے میں منتقل ہو تے ہیں۔ اور جو بیچارے غریب ملک قرضے لیتے ہیں وہ ان کی عدم ادائیگی کے جال میں بری طرح پھنستے جاتے ہیں۔ بالآخر اس میں سے نکلنے کیلئے ان پسماندہ ممالک کے پاس دو ہی حل بچتے ہیں
  • قرضوں پر ڈیفالٹ کر دیا جائے جس کا نتیجہ مزید قرضے نہیں ملیں گے
  • ملکی املاک اور اثاثے چینیوں کے حوالے کر دئے جائیں
2017 میں ہمسایہ ملک سری لنکا چینی قرضوں کی تاب نہ لا کر اپنی ایک بندرگاہ 99 سال کیلئے چین کے حوالہ کر چکا ہے۔
مستقبل میں اگر پاکستان بھی خدانخواستہ چینی قرضوں پر دیوالیہ پن کا شکار ہوا تو مجبورا گوادر اور اس جیسے دیگر قیمتی اثاثے چینیوں کے حوالے کرنا پڑیں گے۔ بھارت اور مغرب چیختا رہ گیا کہ ان چینی چکرومیں نہ پڑو۔ مگر ہمارے سابقہ تجربہ کار حکمرانوں کے سروں پر ہمالیہ سے اونچی چین دوستی سوار تھی۔ اب نئی حکومت کو ان کے کارنامے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
ports-945.png

چین نے سرمایہ کاری نہ کی ہوتی تو آج آپ کو شاید آئی ایم ایف بھی قرض نہ دیتا۔ سی پیک صرف اقتصادی منصوبہ نہیں ہے، مغربی ممالک پر دباؤ بڑھانے کی ایک تدبیر بھی ہے۔ اگر موجودہ حکومت سی پیک سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو متبادل معاشی پلان سامنے لایا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مغربی ممالک پر دباؤ بڑھانے کی ایک تدبیر بھی ہے۔ اگر موجودہ حکومت سی پیک سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو متبادل معاشی پلان سامنے لایا جائے۔
آئی ایم ایف نے بھی کچی گولیوں نہیں کھیلیں۔ قرض دینے کی پہلی شرط ہی یہی رکھی ہے کہ پاکستان اور چین نے سی پیک سے متعلق جو معاہدے کر رکھے ہیں۔ ان کی تفصیلات دنیا کو بتائیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان یہ تفصیلات آئی ایم ایف کے حوالہ کرنے سے معذرت کر چکا ہے۔
یعنی اب تحریک انصاف حکومت دونوں اطراف سے بری طرح پھنس گئی ہے۔ اگر تفصیلات دیتے ہیں تو سی پیک خطرے میں۔ اگر نہیں دیتے تو آئی ایم ایف کا پیکیج خطرے میں ۔ اک واری فیر شیر! :)
 

فرقان احمد

محفلین
آئی ایم ایف نے بھی کچی گولیوں نہیں کھیلیں۔ قرض دینے کی پہلی شرط ہی یہی رکھی ہے کہ پاکستان اور چین نے سی پیک سے متعلق جو معاہدے کر رکھے ہیں۔ ان کی تفصیلات دنیا کو بتائیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان یہ تفصیلات آئی ایم ایف کے حوالہ کرنے سے معذرت کر چکا ہے۔
یعنی اب تحریک انصاف حکومت دونوں اطراف سے بری طرح پھنس گئی ہے۔ اگر تفصیلات دیتے ہیں تو سی پیک خطرے میں۔ اگر نہیں دیتے تو آئی ایم ایف کا پیکیج خطرے میں ۔ اک واری فیر شیر! :)
پاکستان کی عوام خان صاحب کو سی پیک کے ساتھ کسی کھلواڑ کی اجازت شاید نہ دے گی کیونکہ اب یہ منصوبہ مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیے اور کافی حدتک قومی بیانیے کا بھی ایک جزو بن چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ شاید یہ ممکن ہے کہ چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدوں کے حوالے سے نظرثانی کر لی جائے اور اس معاہدے کو پاکستان کے حق میں مزید بہتر بنا لیا جائے۔ آئی ایم ایف بھی شاید پاکستان کو قرض دینے کی طرف ہی جائے گا۔ ابھی تو مذاکرات کا ڈول ہی ڈالا گیا ہے۔
 
Top