مہاجروں کی اکثریت ایم کیو ایم کی حامی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے 80 کی دہائی کے اواخر اور 90 کے اوائل میں یہ بات درست ہو۔ مگر مہاجروں کا بڑا طبقہ ایسا ہے کہ جو سیاسی اور تنظیمی کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ پڑھائی اور روزگار کے سلسلے میں زیادہ فکر مند رہتا ہے۔ ایم کیو ایم (یا کسی بھی سیاسی جماعت )کے جتنے بھی کارکنان سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں (یا جامعات و کالجوں میں پڑھتے ہیں) ان میں سے اعشاریہ 1 فیصد بھی سنجیدگی سے دفتر کا کام کرتے ہوں (یا پڑھائی کرتے ہوں) تو میں پھانسی کی سزا ہنسی خوشی قبول کر لوں گا۔ سنجیدہ لوگ ایسے چکروں میں پڑنے کے بجائے اپنا کرئیر بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
متفق۔ دوسری سیاسی اور طلبہ تنظیموں کی طرح ایم کیو ایم کے کارکنان کا یہ رویہ بھی انھیں غیر مفید اور نقصان دہ تنظیموں کی صف میں کھڑا کردیتا ہے۔ ساری فکری نشستیں اور دعوے دھرے رہ جاتے ہیں جب آپ تحریک کے کارکنان کو اپنے حقیقی فرائض کی ادائیگی میں غیر مخلص دیکھتے ہیں۔
یوں تو خیر جس بنیاد پر مہاجر قومیت کی بات کی جاتی ہے، میں اس کا مخالف ہوں اور ایسی کسی قومیت سے خود کو منسوب کرنے کی بجائے پاکستانی کہلانا پسند کرتا ہوں، لیکن مروجہ تعریفوں کے تحت مہاجروں میں شامل ہونے کے باوجود میں کبھی ایم کیو ایم کا حمایتی نہیں رہا۔ وجہ؟ تحریک کے بے تحاشا منفی پہلو۔