یہی کہ اِن کی figurative یا non-literal تشریح ممکن ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو انشاء اللہ ایولوشن پر بات کرنے کے لئے میدان صاف کرے گا۔
اس کو بات سمجھ لیں کہ قرآن اپنی نیچر میں Static نہیں بلکہ Dynamic کتاب ہے۔ یہ زمان و مکان میں چودہ سو سال پہلے رک نہیں گئی۔ بلکہ وقت کے ساتھ ایک کرنٹ کی طرح چل رہی ہے۔ ہر دور میں اس کے نئے معانی ومطالب کھلتے ہیں۔ ہر نظر والا اس سے نئے اسرار کھولتا ہے۔
یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ سائنس کوئی چیز آج دریافت کرتی ہے تو وہ قرآن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے (جیسا کہ اکثر مسلمان کہتے ہیں اور دن رات راگ آلاپتے ہیں)۔ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ کئی ایک مسلمان مفکرین و مفسرین مانتے ہیں کہ قرآن میں Big Bang کا تصور موجود ہے۔ اس ضمن میں سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر تیس اور سورۃ الفلق کی پہلی آیت کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
الفلق کی پہلے آیتِ مبارکہ کا ایک یہ معنی بھی علماء نے بیان کیا ہے۔
’’آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوںo‘‘
سوال یہ ہے کہ 1925 میں جب ہبل نے یہ تھیوری پیش کی تو تھیوری پیش کرنے سے پہلے ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آیا؟ ہماری بڑی سے بڑی تفسیر دیکھ لیں، دور دور تک یہ معنی ان لوگوں کے ہاں اس وقت نہیں پایا جاتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پہلے سائنس دریافت کرتی ہے بعد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے۔وہ یہ کہ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن کی سمجھ کو متاثر کرتی ہے۔
اور کبھی تو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ ہمیں اپنے نظریات بدلنے پڑتے ہیں۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ امام سیوطیؒ اور دیگر کئی بڑے اکابر اس بات پر قرآن سے دلائل قائم چکے ہیں کہ زمین گول (یا انڈے کی صورت) نہیں۔ بلکہ یہ سیدھی ہے۔ اس پر سورۃ الغاشیہ کی آیتِ مبارکہ ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح بچھائی گئی ہےo‘‘ دلیل کی طور پر پیش کی جاتی تھی۔ مگر اب کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ کیوں؟ کیا اب یہ قرآن کے خلاف نہیں؟ اب اس کا ترجمہ علماء یوں کرتے ہیں ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح (گولائی کے باوجود) بچھائی گئی ہےo‘‘
اس لئے یہ تصور واضح رہے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ قرآن کی تفسیر بھی بدلتی ہے۔ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن فہمی کو متاثر کرتی ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ ہم زمانے کے علوم کو سامنے رکھیں اور ہر چیز کو ’’قرآن مخالف‘‘ سمجھنے کی بجائے اس کی جانچ پڑتال کریں۔ اس کو وقت دیں۔ اور دیکھیں کہ وہ نظریہ کہاں تک جاتا ہے۔اسی سے قرآن کے نئے معانی و مطالب کھلیں گے۔
اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ تفسیر کو قرآن کا مقام نہیں دینا چاہیے۔ تفسیر ایک انسانی سعی ہے جو کہ انسان کی طرح محدود ہے۔قرآن کے معانی کسی ایک انسان پر مکمل نہیں کھل سکتے۔ لہذا کسی ایسے مسئلے پر قدیم علماء کے اقوال پیش کرنا جو ان کے زمانے میں در پیش ہی نہیں تھا سراسر زیادتی ہوگی۔ تفاسیر کا استعمال یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک آیت کو کس کس طرح سمجھا گیا۔ نہ کہ یہ کہ اس آیت سے حقیقتاً مراد کیا ہے۔ ارتقاء جیسے نئے مسائل پر لازم ہے کہ ذہن کھلا رکھا جائے اور ’نظریہِ ارتقاء کے ارتقاء‘ پر گہری نظر رکھی جائے۔
کیا آپ ڈاروِن کو (شعوری یا تحت الشعوری طور پر) درست ثابت کرنے کے لیے اتنی واضح آیت کو بھی مبہم سمجھتے ہیں؟
اس آیتِ مبارکہ میں واضح اور غیر مبہم انداز میں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام (انسانوں کے جدامجد) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ جب کہ ڈاروینی ارتقا کے رُو سے (نعوذ باللہ) حضرت آدم علیہ السلام کے جد امجد میں گریٹ ایپس بھی گزرے ہیں۔ اگر آپ خود مفسرِ قرآن نہیں، یا خود کو نہیں سمجھتے تو کیا آپ کسی بھی تفسیر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر ”ڈاروینی ارتقا“ کے تناظر میں فرمایا ہے؟
کیا ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ مذکورہ آیت میں موجود اتنے اہم نکتے کے مفہوم کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تھے؟
جہاں تک ”تشریح ممکن ہے“ کا تعلق ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ جس مفروضے پر بجز ملحدین کے سائنسٹفک کمیونٹی تک ردوقدح کررہی ہو، اس کو ثابت کرنے کے لیے آپ کی ”ممکنہ“ تشریح اُن تمام تشریحات کے مقابلے میں درست ہوگی، جن میں ڈاروینی ارتقا (نوع من النوع) کو باطل کہا گیا ہے؟
کیا آپ کے اس ”مفروضاتی تشریح“ سےحضرت عیسی ابنِ مریم علیہم السلام کی ”بغیر باپ کی“ پیدائش بھی مبہم نہیں ٹھہرتی؟
اگر نہیں تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی پیدائش کو بطورِ مثال پیش کرے جب کہ دوسری جانب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مراد ”ارتقائی پیدائش“ ہو۔