تخلیق یا ارتقاء

آصف اثر

معطل
یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ ملحدین کے لیے ارتقا کے سِوا کوئی بھی نظریہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ارتقا کو تسلیم کرنا اور کروانا اِن کی جبلی مجبوری ہے۔
ملحدین کے لیے ارتقاکے رد میں سائنسی دلائل بعد میں دوں گا۔
 

وجاہت حسین

محفلین
بات تو تب تھی جب آپ دلائل سے بات کرتے۔ جذباتی دلائل ہیں تو چلیں ایسے ہی سہی۔
آپ کو مولانا رومی اور اقبال سے زیادہ علم ہے کہ نبی ﷺ نے کیا فرمایا اور کیا نہیں؟ آپ رومی اور اقبال سے بڑے عاشقِ رسول ﷺ ہیں؟
آپ ابو نعیم سے بڑے عالم ہیں قرآن کی لغت کے جو کہ سورۃ نوح کی آیات سے نظریہ ارتقاء کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ میرے دوست بحث کا طریقہ یہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے دلائل تو یہی دکھاتے ہیں کہ آپ قرآن اور اس فنِ تفسیر کا علم شاید نہیں رکھتے۔ ورنہ ایسی بات نہ کرتے۔

اب آپ کے اعتراض برائے اعتراض کی طرف آجاتا ہوں۔
اس آیتِ مبارکہ میں واضح اور غیر مبہم انداز میں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام (انسانوں کے جدامجد) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ جب کہ ڈاروینی ارتقا کے رُو سے (نعوذ باللہ) حضرت آدم علیہ السلام کے جد امجد میں گریٹ ایپس بھی گزرے ہیں۔ اگر آپ خود مفسرِ قرآن نہیں، یا خود کو نہیں سمجھتے تو کیا آپ کسی بھی تفسیر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر ”ڈاروینی ارتقا“ کے تناظر میں فرمایا ہے؟
یہ آپ کی قرآن کی سمجھ کے مطابق ایسا ہوگا۔ اس مسئلے میں میری وہی سمجھ ہے جو اقبال کی ہے۔ اقبال اپنے خطبات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
[...] The purpose of the Quran is further secured by the omission of proper names mentioned in the Biblical narration ‐ Adam and Eve.
The word Adam is retained and used more as a concept than as the name of a concrete human individual. This use of the word is not without authority in the Quran itself. The following verse is clear on the point: 'We Created you; then fashioned you; then said We to the angels, "prostrate yourself unto Adam" (7:33).'​

کیا ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ مذکورہ آیت میں موجود اتنے اہم نکتے کے مفہوم کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تھے؟
یہ قول ہی ثابت کر رہا ہے کہ آپ کا علومِ قرآن کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا۔
پھر بھی چند باتیں پیش کرتا ہوں۔
1۔ جس شخص نے بھی تفاسیر کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ یہ بتا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے تفسیر سے متعلق بہت کم احادیث وارد ہوئی ہیں۔
2۔ ابنِ عباسؓ کی تفسیر سے متعلق تو امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ان سے تفسیر میں ایک سو روایات سے زیادہ ثابت نہیں ہیں۔
3۔جو تفاسیر وارد ہوتی ہیں وہ آثار کی صورت میں وارد ہوتی ہیں جو کہ ظن کا درجہ رکھتی ہیں نہ کہ قطعیت کا۔ کوئی شخص قطعیت کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ فلاں بات ابنِ عباسؓ نے فرمائی۔
4۔ اگر آئمہ اکرام ابنِ عباسؓ کی تفاسیر کو ختمی سمجھتے تو پھر اپنی کوئی تفسیر نہ کرتے۔تفسیر ماتریدی، فخر الدین رازی، زمخشری، قشیری، ابنِ عطیہ، ثعلبی، ماوردی، واحدی، سمعانی وغیرہ ایک بار دیکھ لیں اور خود اندازہ لگائیں کہ ابنِ عباسؓ کے اقوال کو ختمی مانا جاتا ہے یا نہیں۔ اور کتنی روایات واقعتاً تفسیر میں وارد ہوئی ہیں۔
5۔ آپ کی خدمت میں ایک حدیث پیشِ کرتا ہوں۔ اس کو امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا۔ اس کو امام سیوطی نے درِ منثورمیں سورۃ طلاق آیت 12 کی تفسیر میں لکھا کہ
عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {وَمن الأَرْض مِثْلهنَّ} قَالَ: سبع أَرضين فِي كل أَرض نَبِي كنبيكم وآدَم كآدم ونوح كنوح وَإِبْرَاهِيم كإبراهيم وَعِيسَى كعيسى
ترجمہ: ’’ابنِ عباسؓ نے فرمایا: سات زمینیں ہیں۔ ہر زمین پر تمہارے نبی جیسا ایک نبی ہے، تمہارے آدم جیسا ایک آدم ہے، تمہارے نوح جیسا ایک نوح ہے، تمہارے ابراہیم جیسا ایک ابراہیم ہے، اور تمارے عیسیٰ جیسا ایک عیسیٰ ہے۔‘‘
گزارش ہے کہ ذرا بتائیں کہ کیا آپ اس روایت کو مانتے ہیں؟ بتائیں کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ایک نہیں بلکہ 6 اور ثانی اس کائنات میں موجود ہیں؟ (نوٹ: اس کی سند صحیح ہے۔ امام عبد الحی لکھنوی نے اس کی سند کی تصحیح پر ایک مکمل رسالہ تصنیف فرما رکھا ہے)۔
میں آپ کو کتبِ تفسیر سے کئی روایات لا کر دے سکتا ہوں جن پر آپ ایمان نہیں لا سکتے، اگرچہ ان کی سند صحیح ہوگی۔

اگر نہیں تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی پیدائش کو بطورِ مثال پیش کرے جب کہ دوسری جانب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مراد ”ارتقائی پیدائش“ ہو۔
قرآن ہمیں آدم کی تخلیق ارتقاء میں ہی دکھاتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ پہلے کچھ بھی نہیں تھا پھر ایک دم سے آدم ہو گیا۔ بلکہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کبھی پانی کی صورت میں تھا، کبھی مٹی تھا، کبھی اِس حال میں تھا، کبھی اُس حال میں تھا۔ یہ آیات ہی بتاتی ہیں کہ آدم کی تخلیق ارتقاء کے عمل سے گزری ہے۔ اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں۔ اس لیے میں نے اوپر کہا کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے، جبکہ نظریہِ ارتقاء اس کی ایک تفسیر ہے۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ مزید دلائل پر ہوگا۔
ایک گزارش ہے کہ کیا قرآن و سنت کے مخالف ہے اور کیا نہیں ، اس بحث سے پہلے خدارا قرآن و سنت کے کچھ علوم ضرور حاصل کر لیں۔
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ ملحدین کے لیے ارتقا کے سِوا کوئی بھی نظریہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ارتقا کو تسلیم کرنا اور کروانا اِن کی جبلی مجبوری ہے۔
ملحدین کے لیے ارتقاکے رد میں سائنسی دلائل بعد میں دوں گا۔

پوچھنا یہ تھا کہ رومی، اقبال، ابو نعیم، الجاحز، ابنِ خلدون وغیرہ ملحد ہیں؟
 

فرقان احمد

محفلین
ارتقاء خود بخود ہوا یا اس کی ابتداء کرنے والی کوئی ہستی ہے؟ ہماری دانست میں سائنس دانوں کے پاس بھی اس کا واضح جواب موجود نہیں۔ مذہبی تعبیر تو سامنے کی بات ہے اور ذہانت عمومی بھی یہی بتلاتی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔مزید یہ کہ سائنس نے کائنات کی ابتدا کے حوالے سے بگ بینگ کا معروف نظریہ پیش کر رکھا ہے تاہم اس نظریے میں بھی کئی جھول ہیں جن کی طرف بآسانی اشارہ کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے کئی مقالات اور ریسرچ آرٹیکلز بھی موجود ہیں۔ اور پھرآؤٹ پٹ کو بھی دیکھا چاہیے۔ صرف انسان وہ ہستی ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ کرہء ارض پر موجود ہے اور دیگر حیوانات و چرند پرند بظاہر اس کی شعوری قوت اور پوٹینشل کے عشر عشیر بھی نہ ہیں۔ اس لیے جس مخلوق کو کرہء ارض یا شاید کائنات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے، اس کو حیوانات کی صف میں کھڑا کرنا زیادتی ہے۔ یوں بھی انسان صرف 'حیوانی' وجود کا نام نہیں ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کا زور تخیل، احساسات و جذبات، علوم و فنون کے فروغ اور کائنات کی ایکسپلوریشن میں اس کا کردار اس طرح کا ہے کہ اسے محض ایک حیوان تصور کرنا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے اور کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو بظاہر اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس میں کیا شک کہ زیادہ تر مذاہب انسان کے اس امتیازی مقام کی توثیق کرتے ہیں۔ ارتقاء کے نظریے پر یقین رکھنے والے غیر مذہبی افراد کو ان خطوط پر بھی سوچنا چاہیے نہ کہ اپنی توجہ محض انسان کے 'حیوانی' وجود پر مرکوز رکھنی چاہیے۔

نوٹ: ہمارا تبصرہ محض عمومی نوعیت کا ہے جس کے مخاطب سائنس دان نہیں۔سائنس نے وہی کرنا ہے، جو وہ کر رہی ہے اور شاید ہمیں اس میں مداخلت کا حق بھی نہیں تاہم فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ان تصورات کو زیر بحث لانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو کہ اس کے اپنے وجود اور کائنات سے اس کے تعلق کی ذیل میں آتے ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
میں نے اس آیت کا ترجمہ
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔
بھی پڑھا ہے۔
اس کے علاوہ میرے ذہن میں آرہا ہے کہ کسی صوفیانہ کلام کے لفظ ہیں جو صحیح تو یاد نہیں شاید کچھ اس طرح ہیں "بنایا ڈھایا تے ڈھا کے بنایا"
ارتقاء کی ایک عمومی تعریف بھی ہے۔ کسی بھی شے کی تخلیق میں ارتقائی مراحل تو یقینًا آتے ہیں ۔ آدم کی تخلیق بھی انہیں مراحل سے گزر کر ہوئی ہو گی۔اختلاف اس پر نہیں۔
اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں
فی الحال موضوع بحث ارتقاء کی وہ سائنسی تعریف ہی ہے جو بیالوجسٹس کرتے ہیں۔ جس کی رو سے انسان لازمًا ماضی میں زمین پر بسنے والے کسی جانور کی تبدیل شدہ شکل ہے۔
 

وجاہت حسین

محفلین
ارتقاء خود بخود ہوا یا اس کی ابتداء کرنے والی کوئی ہستی ہے؟ ہماری دانست میں سائنس دانوں کے پاس بھی اس کا واضح جواب موجود نہیں۔ مذہبی تعبیر تو سامنے کی بات ہے اور ذہانت عمومی بھی یہی بتلاتی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔مزید یہ کہ سائنس نے کائنات کی ابتدا کے حوالے سے بگ بینگ کا معروف نظریہ پیش کر رکھا ہے تاہم اس نظریے میں بھی کئی جھول ہیں جن کی طرف بآسانی اشارہ کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے کئی مقالات اور ریسرچ آرٹیکلز بھی موجود ہیں۔ اور پھرآؤٹ پٹ کو بھی دیکھا چاہیے۔ صرف انسان وہ ہستی ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ کرہء ارض پر موجود ہے اور دیگر حیوانات و چرند پرند بظاہر اس کی شعوری قوت اور پوٹینشل کے عشر عشیر بھی نہ ہیں۔ اس لیے جس مخلوق کو کرہء ارض یا شاید کائنات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے، اس کو حیوانات کی صف میں کھڑا کرنا زیادتی ہے۔ یوں بھی انسان صرف 'حیوانی' وجود کا نام نہیں ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کا زور تخیل، احساسات و جذبات، علوم و فنون کے فروغ اور کائنات کی ایکسپلوریشن میں اس کا کردار اس طرح کا ہے کہ اسے محض ایک حیوان تصور کرنا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے اور کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو بظاہر اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باعث امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس میں کیا شک کہ زیادہ تر مذاہب انسان کے اس امتیازی مقام کی توثیق کرتے ہیں۔ ارتقاء کے نظریے پر یقین رکھنے والے غیر مذہبی افراد کو ان خطوط پر بھی سوچنا چاہیے نہ کہ اپنی توجہ محض انسان کے 'حیوانی' وجود پر مرکوز رکھنی چاہیے۔

نوٹ: ہمارا تبصرہ محض عمومی نوعیت کا ہے جس کے مخاطب سائنس دان نہیں۔سائنس نے وہی کرنا ہے، جو وہ کر رہی ہے اور شاید ہمیں اس میں مداخلت کا حق بھی نہیں تاہم فلسفہ، مذہب اور سائنس کے ان تصورات کو زیر بحث لانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو کہ اس کے اپنے وجود اور کائنات سے اس کے تعلق کی ذیل میں آتے ہیں۔

آپ نے اس میں انسان کے جو کلیدی کردار کی بات کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ’شعور‘ ہی وہ امانت ہے جس کا ذکر اللہ پاک نے سورۃ الاحزاب کے آخر میں فرمایا۔
’’بیشک ہم نے ’امانت ‘ آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ بڑی زیادتی کرنے والا بڑا بے خبر و نادان ہےo‘‘
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان کا کوئی تعلق دیگر مخلوقات سے نہ ہو۔ اللہ پاک نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ’’اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے تخلیق کیا‘‘۔ یعنی ایک Common denominator بتا کر یہ واضح کر دیا کہ یہ چیزیں سب جڑی ہوئی ہیں۔
پھر قرآن میں سورۃ حجر کی یہ آیتِ مبارکہ ’’اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (یعنی دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھاo‘‘
اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی تخلیق زمین پر ہوئی ہے اور زمین ہی کے اجزاء سے ہوئی ہے۔
مزید اللہ پاک قرآن میں کئی لوگوں کو ’’جانوروں سے بھی بدتر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ انسان جیسے بھی ہیں جانوروں سے تو بہتر ہی ہیں۔

نوٹ: واضح رہے کہ میں ڈارون کے نظریہِ ارتقاء کا مکمل طور پر قائل نہیں ہوں۔ البتہ اس کی possibility سے مجھے انکار نہیں۔ کیونکہ اگرچہ اس کے دلائل میں کمی موجود ہے، مگر جو ہیں وہ بہت قوی ہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک رائے میری بھی سن لیں اتنے قابل لوگوں کے درمیان کچھ عجیب سا لگ رہا ہے مگر کچھ سیکھنے کی غرض سے شمولیت دے رہا ہوں پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں (اس ہمارے سے مراد وہ سب جو میری بات سے اتفاق کرینگے) مذہب نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے کوئ چیز مذہب سے جدا نہیں اس میں کوئ دو رائے نہیں سونے جاگنے کھانے پینے ہنسنے بولنے رونے سب میں مذہب شامل ہے چہ جائیکہ سائنس چلیں جی یہ تو ہو گئی تمہیدی شروعات اب موضوع سے متعلق یعنی تخلیق یا ارتقا سے متعلق عرض یہ ہے کے انسان کو اشرف المخلوق بنایا گیا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کے اس کی ابتدا کمتر ہو ۔ ۔ ۔ بہرحال یہ ایک لامتناہی بحث ہے میں تو اس پر بات کو سمیٹونگا کہ ہم ابن آدم ہیں اور آدم کو دنیا میں انسان ہی کی شکل میں اتارا گیا اور سب اسی نسل سے ہیں ۔۔سمجھ نہیں آتا ۔۔آخر کچھ ابن بندر کہلانے پر کیوں مصر ہیں۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
ایک رائے میری بھی سن لیں اتنے قابل لوگوں کے درمیان کچھ عجیب سا لگ رہا ہے مگر کچھ سیکھنے کی غرض سے شمولیت دے رہا ہوں پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں (اس ہمارے سے مراد وہ سب جو میری بات سے اتفاق کرینگے) مذہب نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے کوئ چیز مذہب سے جدا نہیں اس میں کوئ دو رائے نہیں سونے جاگنے کھانے پینے ہنسنے بولنے رونے سب میں مذہب شامل ہے چہ جائیکہ سائنس چلیں جی یہ تو ہو گئی تمہیدی شروعات اب موضوع سے متعلق یعنی تخلیق یا ارتقا سے متعلق عرض یہ ہے کے انسان کو اشرف المخلوق بنایا گیا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کے اس کی ابتدا کمتر ہو ۔ ۔ ۔ بہرحال یہ ایک لامتناہی بحث ہے میں تو اس پر بات کو سمیٹونگا کہ ہم ابن آدم ہے اور آدم کو دینا میں انسان ہی کی شکل میں اتارا گیا اور سب اسی نسل سے ہیں ۔۔سمجھ نہیں آتا ۔۔آخر کچھ ابن بندر کہلانے پر کیوں مصر ہیں۔۔۔۔

اکمل بھائی چند گزارشات۔
1۔ اشرف المخلوقات۔ کس اعتبار سے؟
2۔ کیا ابو جہل جبرائیل سے افضل ہے؟ چونکہ ابو جہل ’اشرف المخلوقات‘ ہے۔
3۔ انسان کی تخلیق کا حال تو یہ ہے کہ جس قطرہ سے بنتا ہے اسےانسان کے جسم سے خارج ہونے والا ناپاک ترین قطرہ مانا جاتاہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اسے اپنے ’جسم‘ کی تخلیق سے متعلق کس بات پر فخر ہے۔ اللہ پاک تو جگہ جگہ قرآن میں انسان کی یہ ابتداء یاد دلا کر اسے عار دلاتے ہیں۔
4۔ رہی ابنِ بندر والی بات۔ تو یہ علم سے زیادہ انا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔

بہتر ہو کہ جذباتی دلائل کی بجائے اصل معاملہ پر بات کی جائے تاکہ کچھ سیکھنے سکھانے کو ملے۔
 

وجاہت حسین

محفلین
اور جہاں تک رہی بات آدم کو دنیا میں ’’اتارنے‘‘ کی۔ اس پر تو کوئی آیت واضح نہیں کہ آدم کو آسمان سے ’’اتارا‘‘ گیا۔ آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔ اور جس جنت کی اللہ پاک آدم کے قصے میں بات کرتے ہیں وہ لگتا تو یہی ہے کہ دنیا میں ہی ایک باغ تھا۔
اہلِ سنت کے عقیدہ کے امام، امام ماتریدی ؒ تک نے یہ بات کہہ دی ہے کہ قرآن سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ وہی جنت تھی جس کا آخرت میں وعدہ ہے یا دنیا میں کوئی باغ۔
اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟

میں اقبال کے خطبات سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔طویل ہے مگر پڑھنے کے قابل ہے۔ امید کرتا ہوں کہ ہماری گفتگو میں فائدہ مند ثابت ہوگی۔

The old Testament curses the earth for Adam's act of disobedience; the Quran declares the earth to be the 'dwelling place' of man and a 'source of profit' to him for the possession of which he ought to be grateful to God. 'And We have established you on the earth and given you therein the supports of life. How little do ye give thanks!' (7:10). Nor is there any reason to suppose that the word Jannat (Garden) as used here means the super-sensual paradise from which man is supposed to have fallen on this earth. According to the Quran, man is not a stranger on this earth. 'And We have caused you to grow from the earth (Surah Nuh)'. The Jannat, mentioned in the legend, cannot mean the eternal abode of the righteous. In the sense of the eternal abode of the righteous, Jannat is described by the Quran to be the place 'wherein the righteous will pass to one another the cup which engenders no light discourse, no motive to sin'. It is further described to be the place 'wherein no weariness shall reach the righteous, not forth from it shall they be cast'. In the Jannat mentioned in the legend, however, the very first event that took place was man's sin of disobedience followed by his expulsion. In fact, the Quran itself explains the meaning of the word as used in its own narration. In the second episode of the legend the garden is described as a place 'where there is neither hunger nor thirst, neither heat nor nakedness'. I am, therefore, inclined to think that the Jannat in the Quranic narration is the connection of a primitive state in which man is practically unrelated to his environment and consequently does not feel the sting of human wants the birth of which alone marks the beginning of human culture. Thus we see that the Quranic legend of the Fall has nothing to do with the first appearance of man on this Planet. Its purpose is rather to indicate man's rise from a primitive state of instinctive appetite to the conscious possession of a free self, capable of doubt and disobedience​
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
بات تو تب تھی جب آپ دلائل سے بات کرتے۔ جذباتی دلائل ہیں تو چلیں ایسے ہی سہی۔
محترم آپ کے جذباتی جواب سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کا ”تحریر میں کیفیات وجذبات“ کو سمجھنے کا ادراک کمزور ہے۔ میں نے جواب انتہائی تحمل سے دیا۔ لیکن آپ کا جذباتی دعویٰ میرے لیے حیران کُن ہے۔
میرے دوست بحث کا طریقہ یہ نہیں ہوتا۔
اس طرح کے دلائل تو یہی دکھاتے ہیں کہ آپ قرآن اور اس فنِ تفسیر کا علم شاید نہیں رکھتے۔ ورنہ ایسی بات نہ کرتے۔
مخاطب کے مطمح نظر کو سمجھنے سے پہلے یہ بات بےمحل ہے۔

آپ ابو نعیم سے بڑے عالم ہیں قرآن کی لغت کے جو کہ سورۃ نوح کی آیات سے نظریہ ارتقاء کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ آپ ابو نعیم سے بڑے عالم ہیں قرآن کی لغت کے جو کہ سورۃ نوح کی آیات سے نظریہ ارتقاء کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ اس طرح کے دلائل تو یہی دکھاتے ہیں کہ آپ قرآن اور اس فنِ تفسیر کا علم شاید نہیں رکھتے۔ ورنہ ایسی بات نہ کرتے۔
استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی قول و تحریر کا ذکر کرتے وقت اس کو سیاق وسباق مع حوالہ پیش کیا جائے۔ جو کم از کم آپ کے اس جملے میں مفقود ہے۔ جہاں تک امام ابو نعیم کے سورۃ نوح کی ذیل میں نظریہ ارتقا کے جواز کا تعلق ہے تو اس پر اقتباس پیش کرنے کے بعد ہی بات ہوگی۔

یہ آپ کی قرآن کی سمجھ کے مطابق ایسا ہوگا۔ اس مسئلے میں میری وہی سمجھ ہے جو اقبال کی ہے۔ اقبال اپنے خطبات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
[...] The purpose of the Quran is further secured by the omission of proper names mentioned in the Biblical narration ‐ Adam and Eve.
The word Adam is retained and used more as a concept than as the name of a concrete human individual. This use of the word is not without authority in the Quran itself. The following verse is clear on the point: 'We Created you; then fashioned you; then said We to the angels, "prostrate yourself unto Adam" (7:33).'​
چلیں کچھ دیر کے لیے فرض کرتے ہیں کہ آدم علیہم السلام کا لفظ ایک ”فرد“ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ”تصور“ کا ہے۔ اور یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ ”جنت“ زمین پر ہی کوئی جگہ تھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی تصور کے لیے ”بیوی“ کو بطورِ صیغۂ واحد استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا خاص طور پر بیوی کا ذکر شامل کرنا آدم علیہ السلام کے کسی concrete فرد ہونے کے لیے کافی نہیں۔
وَيَآ اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَ۔تَكُ۔وْنَا مِنَ الظَّالِمِيْنَ
اس آیت میں آدم علیہ السلام کے لیے صیغہ واحد کے علاوہ تمام صیغے تثنیہ کے ہیں، نہ کہ جمع کے۔ کیا یہ بھی اس کے لیے کافی نہیں کہ وہ ”دو“ تھے۔ نہ کہ کوئی قوم، یا مجمع انسان۔
تیسری بات یہ کہ جنت دوسرے مقامات پر تو ایک غیرزمینی مقام کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن یہاں ہی ”زمینی“ کیوں؟
جب کہ رسول اللہﷺ کا معراج کی رات ”جنت“ کی سیر کا ذکر بھی کسی زمینی جنت کی طرف اشارہ تھا؟

یہ قول ہی ثابت کر رہا ہے کہ آپ کا علومِ قرآن کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا۔
1۔ جس شخص نے بھی تفاسیر کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ یہ بتا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے تفسیر سے متعلق بہت کم احادیث وارد ہوئی ہیں۔
2۔ ابنِ عباسؓ کی تفسیر سے متعلق تو امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ان سے تفسیر میں ایک سو روایات سے زیادہ ثابت نہیں ہیں۔
3۔جو تفاسیر وارد ہوتی ہیں وہ آثار کی صورت میں وارد ہوتی ہیں جو کہ ظن کا درجہ رکھتی ہیں نہ کہ قطعیت کا۔ کوئی شخص قطعیت کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ فلاں بات ابنِ عباسؓ نے فرمائی۔
4۔ اگر آئمہ اکرام ابنِ عباسؓ کی تفاسیر کو ختمی سمجھتے تو پھر اپنی کوئی تفسیر نہ کرتے۔تفسیر ماتریدی، فخر الدین رازی، زمخشری، قشیری، ابنِ عطیہ، ثعلبی، ماوردی، واحدی، سمعانی وغیرہ ایک بار دیکھ لیں اور خود اندازہ لگائیں کہ ابنِ عباسؓ کے اقوال کو ختمی مانا جاتا ہے یا نہیں۔ اور کتنی روایات واقعتاً تفسیر میں وارد ہوئی ہیں۔
5۔ آپ کی خدمت میں ایک حدیث پیشِ خدمت ہے۔ اس کو امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا۔ اس کو امام سیوطی نے درِ منثورمیں سورۃ طلاق آیت 12 کی تفسیر میں لکھا کہ
عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {وَمن الأَرْض مِثْلهنَّ} قَالَ: سبع أَرضين فِي كل أَرض نَبِي كنبيكم وآدَم كآدم ونوح كنوح وَإِبْرَاهِيم كإبراهيم وَعِيسَى كعيسى
ترجمہ: ’’ابنِ عباسؓ نے فرمایا: سات زمینیں ہیں۔ ہر زمین پر تمہارے نبی جیسا ایک نبی ہے، تمہارے آدم جیسا ایک آدم ہے، تمہارے نوح جیسا ایک نوح ہے، تمہارے ابراہیم جیسا ایک ابراہیم ہے، اور تمارے عیسیٰ جیسا ایک عیسیٰ ہے۔‘‘
گزارش ہے کہ ذرا بتائیں کہ کیا آپ اس روایت کو مانتے ہیں؟ بتائیں کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ایک نہیں بلکہ 6 اور ثانی اس کائنات میں موجود ہیں؟ (نوٹ: اس کی سند صحیح ہے۔ امام عبد الحی لکھنوی نے اس کی سند کی تصحیح پر ایک مکمل رسالہ تصنیف فرما رکھا ہے)۔
میں آپ کو کتبِ تفسیر سے کئی روایات لا کر دے سکتا ہوں جن پر آپ ایمان نہیں لا سکتے، اگرچہ ان کی سند صحیح ہوگی۔
میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر اس تناظر میں کیا تھا جس کا ذکر میں نے ”شجرۂ انبیاء علیہم السلام میں جانوروں کو شامل کرنے“ میں کیا ہے۔ اس لحاظ سے آپ کی دلیل اور ”ڈاروینی ارتقا“ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ زمین کے ایک ہونے یا کئی ہونے کی کسی بھی ممکنہ تشریح سے آپ کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن انبیاء کرام کے مبارک اور پاکیزہ شجروں میں (نعوذباللہ) جانوروں کو شامل کرنے کی سعی کرنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔
قرآن ہمیں آدم کی تخلیق ارتقاء میں ہی دکھاتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ پہلے کچھ بھی نہیں تھا پھر ایک دم سے آدم ہو گیا۔ بلکہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کبھی پانی کی صورت میں تھا، کبھی مٹی تھا، کبھی اِس حال میں تھا، کبھی اُس حال میں تھا۔ یہ آیات ہی بتاتی ہیں کہ آدم کی تخلیق ارتقاء کے عمل سے گزری ہے۔کیا قرآن و سنت کے مخالف ہے اور کیا نہیں ، اس بحث سے پہلے خدارا قرآن و سنت کے کچھ علوم ضرور حاصل کر لیں۔
اور وہ ارتقاء جانور سے ہوا، یہ ضروری نہیں۔ اس لیے میں نے اوپر کہا کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے، جبکہ نظریہِ ارتقاء اس کی ایک تفسیر ہے۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ مزید دلائل پر ہوگا۔
کیا آپ کسی ایک آیت کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں آدم علیہم السلام کی تخلیق اور پھر ارتقا، کسی جاندار شے سے کی جانے کا ذکر ہو؟ آدم علیہم السلام کی تخلیق سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں اُن سب میں آدم علیہم السلام کی تخلیق کے لیے ضروری جتنی بھی اشیاء کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ سب بے جان ہیں، جب کہ آپ اُن اشیاء میں جانوروں کو شامل کرنے پر مُصر ہیں۔ آپ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ ”آدم تخلیق کے دوران ارتقا سے گزرے“ اور (نعوذباللہ) ”آدم کو جانور سے ارتقا کرکے تخلیق کیا گیا“ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہاں الفاظِ قرآنی کے لحاظ سے دورانِ تخلیق کی ممکنہ ارتقا کی بات نہیں ہورہی، ڈاروینی ارتقا کی بات ہورہی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اکمل بھائی چند گزارشات۔
1۔ اشرف المخلوقات۔ کس اعتبار سے؟
2۔ کیا ابو جہل جبرائیل سے افضل ہے؟ چونکہ ابو جہل ’اشرف المخلوقات‘ ہے۔
3۔ انسان کی تخلیق کا حال تو یہ ہے کہ جس قطرہ سے بنتا ہے اسےانسان کے جسم سے خارج ہونے والا ناپاک ترین قطرہ مانا جاتاہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اسے اپنے ’جسم‘ کی تخلیق سے متعلق کس بات پر فخر ہے۔ اللہ پاک تو جگہ جگہ قرآن میں انسان کی یہ ابتداء یاد دلا کر اسے عار دلاتے ہیں۔
4۔ رہی ابنِ بندر والی بات۔ تو یہ علم سے زیادہ انا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔

بہتر ہو کہ جذباتی دلائل کی بجائے اصل معاملہ پر بات کی جائے تاکہ کچھ سیکھنے سکھانے کو ملے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اللہ تعالیٰ خود فرمارہے ہیں کہ انسان کو بہت سی دیگر مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان کو اشرف الخلوقات کہنا ایک استعارہ ہے تقابل نہیں۔ پھر انسان کی نوع کلی مشکک ہے جو متفاوت الدرجات ہے یعنی ہر انسان کے ایک دوسرے سے مختلف درجات ہیں ۔ جیسے عام مسلمان اور صحابہ میں اور صحابہ اور انبیاء میں درجات کا فرق ہے۔
ابو جہل جبرئیل سے افضل نہیں لیکن ابوجہل سے جو افضل ہیں یعنی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم وہ جبرئیل سے افضل ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
شائد آپ ”تکوینی فیصلے“ کی اصطلاح سے واقف نہیں۔
 

وجاہت حسین

محفلین
استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی قول و تحریر کا ذکر کرتے وقت اس کو سیاق وسباق مع حوالہ پیش کیا جائے
میں معذرت خواہ ہوں کہ ابو نعیم اصفہانی کا نام ذہن میں آیا۔ اصل کتاب راغب اصفہانی کی ہے۔ اقتباس پیشِ خدمت ہے۔

في تكوين الإنسان شيئاً فشيئاً حتى يصير إنساناً كاملاً الإنسان يكون أولاً جماداً ميتاً قال الله تعالى: (وكنتم أمواتاً فأحياكم) وذلك حيث كان تراباً وطيناً وصلصالاً ونحوها. ثم يصير نباتاً نامياً كما قال الله تعالى: (والله أنبتكم من الأرض نباتاً) وذلك حيث ما كان نطفة وعلقة ومضغة ونحوها. ثم يصير حيواناً وذلك حيث ما يتبع بطبعه بعض ما ينفعه ويحترز من بعض ما يضره. ثم يصير إنساناً مختصاً بالأفعال الإنسانية وقد نبه الله تعالى على ذلك في مواضع نحو قوله: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلَّقة وغير مخلَّقة)
(کتاب: تفصيل النشأتين وتحصيل السعادتين ،الباب الخامس)

ذرا واضح کریں کہ یہ ماننے سے کہ نبی ﷺ ایک نہیں بلکہ 7 ہیں، پر آپ کے ایمان پر فرق کیسے نہیں پڑتا؟
جانوروں کو شامل کرنے کی سعی کرنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔
البتہ یہ مان لینے سے کہ انسان کے تخلیق ایک سیاہ بو دار مادہ سے ہوئی (سورۃ حجر) آپ کے ایمان کو فرق نہیں پڑتا۔

یہ بات اہم ہے کہ لفظ ’’امرۃ‘‘ نہیں بلکہ زوج آیا ہے۔ جس کا معنی دوست یا کمپنی کے ہوتا ہے۔ یہ معنی قرآن کی سورۃ زخرف آیت 70 کے تحت قرطبی، ابنِ کثیر ، شوکانی وغیرہ نے زوج کا معنی ’’قریبی ساتھی‘‘ بیان کیا ہے۔ اس لئے زوج کا صرف معنی بیوی نہیں ہوتا بلکہ کمپنی بھی مراد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں قصہ آدم سے متعلق دیگر اشکالات کاجواب اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 52 سے یہ موضوع شروع ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف آیت 11 میں جمع کے صیغے کے ساتھ کلام کیا ہے۔ اور جہاں تثنیہ میں کلام ہے وہاں مراد ہے ’آدم اور اس کے ساتھی‘۔
https://cdn.wccftech.com/kursed/The Reconstruction of Religious Thought in Islam.pdf

رہی بات لفظ جنت کی۔ تو وہ آدم کی کہانی کے علاوہ بھی زمینی مقامات کے لئے قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ رعد آیت4۔ اسی طرح سورۃ نبا آیت 16 کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ جہاں تک معراج کی بات ہے، تو نبی ﷺ نے جو مشاہدات فرمائے وہ یقیناً دنیا کے کسی باغ میں نہیں ہوا کرتے، اس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ دنیا میں نہیں۔جبکہ آدم کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ بعید ہے کہ اس جنت میں ہو جو آخرت کے لئے اللہ نے تیار کر رکھی ہے۔

نہیں کسی ایک آیت میں مجھے ایسی چیز نہیں ملی جو یہ کہے کہ انسان کی ابتداء کسی اور جاندار چیز یا حیوان سے ہوئی اور نہ ہی میں جانور کو ڈالنے پر مصر ہوں۔ اور یہی ایک وجہ ہے جس وجہ سے میں پوری طرح نظریہ ارتقاء کو قبول نہیں کرتا۔ بلکہ اس پر مزید دلائل اور تحقیق کا منتظر ہوں تاکہ معاملہ واضح ہو۔ کیونکہ قرآن ہی کہتا ہے کہ مخلوقات کی ابتداء کا جواب تحقیق میں ہے۔
البتہ میں اس رویہ کے خلاف ہوں کہ آنکھیں بند کر کے ہر چیز کو قرآن کے خلاف قرار دے دیا جائے۔جبکہ تاویل ممکن ہو۔ جب تک دلائل نہ واضح ہو جائیں تب تک انکار سے بہتر توقف ہے۔ مسلمانوں کا اس مسئلے میں وہی حال ہوتا نظر آرہا ہے جو عیسائیوں کا زمین کی ہیئت کے مسئلے پر ہوا تھا۔

مسلمان مفکرین اس مسئلے پر کیا کہتے تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم ریسیرچ پیپر شئیر کرنا چاہوں گا۔
http://pu.edu.pk/images/journal/uoc/PDF-FILES/(11) Dr. Sultan Shah_86_2.pdf
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
نوبل پرائز کی خبر میں ڈاروینی ارتقا کا نہیں، بلکہ ”نوع میں تغیرات“ کو مؤثر انداز میں تیز تر کرنے کا ذکر ہے۔ تجربات کے بعد جو اِنزائم حاصل ہوئے وہ پہلے سے 256 گُنا زیادہ مؤثر انداز میں کام کرسکتے ہیں۔
جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس میں ڈاروِن کے پرنسپلز کو استعمال کیا گیا، جو کسی ”نوع“ کو دوسرے ”نوع“ میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ یہی میکنزم تمام جانداروں میں کارفرما ہے لیکن مذکورہ خبر میں ذکر کیے گئے اثرپذیری سےکم اثرپذیر ہوتاہے۔
اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق ادویہ سازی، بیماریوں کےخلاف مدافعت بڑھانا اور کیمائی تعاملات کی رفتار کو (بذریعہ بہتر کیے گئے نئے خامروں کے) زیادہ مؤثر بنانے سے ہیں، نہ کہ ڈاروینی ارتقا سے۔
 
آخری تدوین:
في تكوين الإنسان شيئاً فشيئاً حتى يصير إنساناً كاملاً الإنسان يكون أولاً جماداً ميتاً قال الله تعالى: (وكنتم أمواتاً فأحياكم) وذلك حيث كان تراباً وطيناً وصلصالاً ونحوها. ثم يصير نباتاً نامياً كما قال الله تعالى: (والله أنبتكم من الأرض نباتاً) وذلك حيث ما كان نطفة وعلقة ومضغة ونحوها. ثم يصير حيواناً وذلك حيث ما يتبع بطبعه بعض ما ينفعه ويحترز من بعض ما يضره. ثم يصير إنساناً مختصاً بالأفعال الإنسانية وقد نبه الله تعالى على ذلك في مواضع نحو قوله: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلَّقة وغير مخلَّقة)
گوکہ میں یہاں کسی قسم کی بحث میں شریک نہیں ہوں لیکن یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ اس عبارت میں کون سا نظریہ ارتقاء ثابت کیا گیا ہے؟
 
آخری تدوین:
Top