تخلیق یا ارتقاء

آصف اثر

معطل
اللہ پاک نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ’’اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے تخلیق کیا‘‘۔ نور 45
ہر زندہ چیز کو۔
وجعلنا من الماء کل شیء حی ۔
اس میں تو کہیں بھی تخلیق کا ذکر نہیں ہے۔ وجاہت حسین
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
ہمارے جسم میں نئے بہتر قسم کے کیمیکل فطری طور پر بنتے رہتے ہیں، جو ہمیں بیماریوں سےمحفوظ اور ہماری بہتر صحت قائم رکھتے ہیں۔ تحقیق میں مصنوعی طریقے سے اِن انزائمز اور اینٹی باڈیز کی اثریت کو (میوٹیشن کے ذریعے) بڑھانے کا اضافہ ہے اور کچھ نہیں۔ ”فطری انتخاب“ تمام جانداروں میں پہلے سے موجود ہے۔
ڈاروِن کا یہ تصور پیش کرنا کہ:
.Natural Selection is a "principle by which each slight variation [of a trait], if useful, is preserved"​
درست تھا لیکن کوئی کارنامہ نہیں تھا۔ کیوں کہ اس اصول کے تحت چمپنزی وغیرہ کا انسانوں میں تبدیل ہونا ممکن ہی نہیں۔ لہذا اس بہانے ارتقا کے مفروضے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
في تكوين الإنسان شيئاً فشيئاً حتى يصير إنساناً كاملاً الإنسان يكون أولاً جماداً ميتاً قال الله تعالى: (وكنتم أمواتاً فأحياكم) وذلك حيث كان تراباً وطيناً وصلصالاً ونحوها. ثم يصير نباتاً نامياً كما قال الله تعالى: (والله أنبتكم من الأرض نباتاً) وذلك حيث ما كان نطفة وعلقة ومضغة ونحوها. ثم يصير حيواناً وذلك حيث ما يتبع بطبعه بعض ما ينفعه ويحترز من بعض ما يضره. ثم يصير إنساناً مختصاً بالأفعال الإنسانية وقد نبه الله تعالى على ذلك في مواضع نحو قوله: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلَّقة وغير مخلَّقة)
یہ بات اہم ہے کہ لفظ ’’امرۃ‘‘ نہیں بلکہ زوج آیا ہے۔ جس کا معنی دوست یا کمپنی کے ہوتا ہے۔ یہ معنی قرآن کی سورۃ زخرف آیت 70 کے تحت قرطبی، ابنِ کثیر ، شوکانی وغیرہ نے زوج کا معنی ’’قریبی ساتھی‘‘ بیان کیا ہے۔ اس لئے زوج کا صرف معنی بیوی نہیں ہوتا بلکہ کمپنی بھی مراد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں قصہ آدم سے متعلق دیگر اشکالات کاجواب اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 52 سے یہ موضوع شروع ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف آیت 11 میں جمع کے صیغے کے ساتھ کلام کیا ہے۔ اور جہاں تثنیہ میں کلام ہے وہاں مراد ہے ’آدم اور اس کے ساتھی‘۔
[https://cdn.wccftech.com/kursed/The Reconstruction of Religious Thought in Islam.pdf
يَآ اَيُّ۔هَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّ۔ذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْ۔هَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْ۔هُمَا رِجَالًا كَثِيْ۔رًا وَّنِسَآءً ۚ
اس آیت میں خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْ۔هَا زَوْجَهَا کا ذکر کافی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ”ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں“ سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے ساتھ اُن کی بیوی اماں حوا تھی جن سے اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کو جاری فرمایا۔ جب کہ آدم علیہ السلام سے اُن کی بیوی کا تخلیق ہونا، ڈاروینی ارتقا کی نفی کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ آپ دونوں سے پہلے مرد و عورتیں یعنی کوئی بھی انسان نہیں تھا۔ جب مرد وعورتیں نہ ہوں تو صرف ”دو ہی فرد“ بچ جاتے ہیں۔

ذرا واضح کریں کہ یہ ماننے سے کہ نبی ﷺ ایک نہیں بلکہ 7 ہیں، پر آپ کے ایمان پر فرق کیسے نہیں پڑتا؟
ہم صرف اس دنیا کے مکلف ہیں باقی کے نہیں۔

البتہ یہ مان لینے سے کہ انسان کے تخلیق ایک سیاہ بو دار مادہ سے ہوئی (سورۃ حجر) آپ کے ایمان کو فرق نہیں پڑتا۔
ایک بات یہ ذہن میں رہے کہ میں نے ”انبیاء کے شجروں“ کا جو نکتہ اُٹھایا تھا وہ اُن کے احترام کو مدنظر رکھنے پر زور دینے کے لیے تھا۔ آپ جس بودار مادے سے انسان کی تخلیق کا ذکر فرمارہے ہیں وہ ایک واضح قرآنی نص اور تمام انسانوں کی پیدائش کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں آپ آدم علیہ السلام کے متعلق جو خیالات پیش کررہے ہیں وہ اندازے، احتمالات اور انسانی تشریحات ہیں۔
آپ کیوں کر انسانی تشریحات کو ایک آیت کے مساوی قرار دے سکتے ہیں۔

البتہ میں اس رویہ کے خلاف ہوں کہ آنکھیں بند کر کے ہر چیز کو قرآن کے خلاف قرار دے دیا جائے۔جبکہ تاویل ممکن ہو۔ جب تک دلائل نہ واضح ہو جائیں تب تک انکار سے بہتر توقف ہے۔ مسلمانوں کا اس مسئلے میں وہی حال ہوتا نظر آرہا ہے جو عیسائیوں گا زمین کی ہیئت کے مسئلے پر ہوا تھا۔
یہاں کوئی بھی آنکھیں بند کرکے ہر چیز کو خلافِ قرآن قرار نہیں دے رہا۔
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
يَآ اَيُّ۔هَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّ۔ذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْ۔هَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْ۔هُمَا رِجَالًا كَثِيْ۔رًا وَّنِسَآءً ۚ
اس آیتِ مبارکہ میں کہیں پر بھی آدم کا ذکر نہیں ہے۔ اور حوا کا نام تو پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اتنا اہم نام تھا اللہ نے نہ جانے کیوں حوا کا نام لے کر صراحت نہ کی۔ مجھے تو اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ’’اے لوگو اس رب سے ڈروجس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء ایک جان یعنی singular cell سے کی اور اس سے پھر اس کا جوڑا بنایا۔‘‘

اس کے مقابلے میں آپ آدم علیہ السلام کے متعلق جو خیالات پیش کررہے ہیں وہ اندازے، احتمالات اور انسانی تشریحات ہیں۔آپ کیوں کر انسانی تشریحات کو ایک آیت کے مساوی قرار دے سکتے ہیں۔

بھائی آپ معاملہ پھر گڈ مڈ کر رہے ہیں۔میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ
نبی کے سوا جب کوئی بھی انسان قرآن کی تفہیم کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ عمل تفسیر ہی ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عام انسان کرے یا وقت کا سب سےبڑا عالم۔

میں قرآن کے خلاف نہیں جا رہا، میں آپ کی دی گئی قرآن کی تاویل کے خلاف جا رہا ہوں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آپ اپنے فہم کو قرآن کی آیت کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ خیر میں نے جو دلائل دینے تھے میں نے دے دیئے ہیں۔ پڑھنے والے فیصلہ کر لیں گے۔ اور امید کرتا ہوں کہ ہم دونوں کی گفتگو سے انہیں اس مسئلے کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔ دعا کی گزارش ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
کیا کمال کا استدلال ہے۔ فاسلز پر تحقیق کے مطابق جیلی فش کا ارتقائی ظہور کم و بیش 50 کروڑ سال قبل ہی ہوگیا تھا۔ جبکہ جیلی فش تو آج بھی مختلف انواع کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ارتقاء حیات الارض کسی خاص سمت میں نہیں ہوتا۔ جو انواع اپنے اردگرد کے ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتی ہیں وہ قدرتی انتخاب کے تحت "زندہ بچ" جاتی ہیں۔ دیگر انواع اپنے ماحول سے شکست کھا کر معدوم ہو کر رہتی ہیں۔ یہ نظریہ ارتقا کا بنیادی اصول ہے۔
مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ اس بنیادی ارتقائی اصول کو سمجھنے میں آخر کیا مشکل ہے؟ انسانی ذہن کو اسے سمجھنے میں کتنا آئی کیو درکار ہوگا؟ جتنا وقت اس کی نفی میں صرف کیا جاتا ہے۔ اس سے کم اسے پڑھنے میں لگاتے توآج ہم یہ لایعنی بحث نہ کر رہے ہوتے کہ ارتقا مفروضہ ہے یا نہیں۔
ذیل میں جیلی فش کی ایک خوبصورت ویڈیو جو کسی خلائی مخلوق جہاز سے مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن گھبرائیں نہیں۔ یہ زمینی مخلوق ہی ہے۔
تعجب ہے کہ آپ اس اعتراض کے رد میں دوبارہ بالکل ویسی ہی مثال پیش کر رہے ہیں جس پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ تشکیک تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ بات اتنی سیدھی بھی نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس تھیوری کو من و عن تسلیم کرنے میں اس کا کمپلیکس ڈیزائن آڑے آتا ہے۔ صرف Natural Selection کے کاندھوں پر سوار ہو کر کروڑ ہا صدیوں پہ محیط یہ ارتقائی فاصلہ ایک ہی جست میں طے نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاروینین ارتقاء سے اگرچہ ویڈیو کا کوئی خاص ربط معلوم نہیں ہو رہا لیکن بہرحال کافی دلچسپ ہے۔ کسی خلائی شٹل کا ہی گمان ہو رہا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے نزدیک اس کائنات کی تخلیق اُس اوریجنل آئیڈیا کی imitation ہے جو خدا کے ذہن میں آیا اور انسان اپنے تخیل کی بنیاد پر آرٹ یا ایجادات کے ضمن میں جو کچھ تخلیق کرتا ہے وہ اس آئیڈیا کی نقل ہے یعنی an imitation of an imitation ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے، ایک طرف قدرت کی یہ صناعی اور دوسری طرف انسانی ذہن میں کسی خلائی مخلوق کے جہاز کا تصور۔ دونوں کتنے یکساں ہیں۔ واقعتًا اس سارے نظام کے پیچھے کوئی نہ کوئی ان دیکھی طاقت ضرور موجود ہے۔
اب کل کلاں کو یہ دعوٰی مت کر دیجئے گا کہ یہ جیلی فش کسی اڑن طشتری کی ارتقائی شکل ہے۔
 

سید عمران

محفلین
۱) اور جہاں تک رہی بات آدم کو دنیا میں ’’اتارنے‘‘ کی۔ اس پر تو کوئی آیت واضح نہیں کہ آدم کو آسمان سے ’’اتارا‘‘ گیا۔
۲) آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔
۳) اور جس جنت کی اللہ پاک آدم کے قصے میں بات کرتے ہیں وہ لگتا تو یہی ہے کہ دنیا میں ہی ایک باغ تھا۔
۴) اہلِ سنت کے عقیدہ کے امام، امام ماتریدی ؒ تک نے یہ بات کہہ دی ہے کہ قرآن سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ وہی جنت تھی جس کا آخرت میں وعدہ ہے یا دنیا میں کوئی باغ۔
۵) اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔
۶)اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟

۱) وَقُلْنَا يَآ اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظَّالِمِيْنَ (البقرۃ، ۳۵)
’’اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جو چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے نزدیک نہ جاؤ ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘
یہاں آدم و حوا دونوں کے جنت میں رہنے کا واضح ذکر ہے۔ اب یہ جنت (اگر اسے باغ کے معنی میں لیں تو ) زمین پر نہیں آسمان پر تھی۔ اس کی وضاحت اس آیت سے ہوتی ہے:
فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ (البقرۃ،۳۶)
پھر شیطان نے ان کو وہاں سے ڈگمگایا پھر انہیں اس عزت و راحت سے نکالا کہ جس میں تھے، اور ہم نے کہا تم سب اترو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور سامان ایک وقت معین تک۔
اھبط اونچائی سے نیچے اترنے کے معنی میں آتا ہے جبکہ ’’ارض‘‘ کا واضح نام لے کر بتایا گیا کہ اس وقت یہ زمین پر نہیں تھے بلکہ اب ’’زمین‘‘ پر ’’اتارے‘‘ جارہے ہیں۔

۲) آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔ اور روایات سے پتا چلتا ہے کہ پھر زمین سے جنت میں گئے اور وہاں حضرت حوا کی تخلیق ہوئی۔

۳) اس کا ذکر نمبر ایک میں ہوچکا ہے۔

۴)یہ تو ثابت ہوگیا کہ یہ جنت تھی، زمین نہیں۔ اب اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ وہی جنت تھی جس میں مومنین مرنے کے بعد دوبارہ جائیں گے:
الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (المومنون، ۱۱)
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا (مریم، ۶۳)
اگر اس جنت کا حضرت آدم والی جنت سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو لفظ وراثت استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

۵) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ (البقرۃ، ۳۴)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی نافرمانی کرنے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نہیں نکالا ۔ جبکہ بعد کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اس نے حضرت آدم کو بہکا کر شجر ممنوعہ کھلا دیا تب اللہ تعالیٰ نے آدم و ابلیس دونوں سے باز پرس کی۔ آدم نے غلطی کا اقرار کرکے توبہ کی جبکہ ابلیس نے کٹ حجتی کی تب ابلیس کو بطور سزا اور آدم کو بطور آزمائش ایک ساتھ جنت سے اتار کر زمین پر بھیجا گیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ، ۳۸)
ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگرتمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے پس جو میری ہدایت پر چلیں گے ان پرنہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

۶) اس میں بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جنت کو وراثت بنانے کی ضرورت تھی۔ اس لیے جنت دکھا کر زمین پر بھیجا کہ ہمارے احکامات پر عمل کرنے کا انعام اس صورت میں عطا کیا جائے گا!!!
 

سید عمران

محفلین
۱) اس آیتِ مبارکہ میں کہیں پر بھی آدم کا ذکر نہیں ہے۔
۲) اور حوا کا نام تو پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اتنا اہم نام تھا اللہ نے نہ جانے کیوں حوا کا نام لے کر صراحت نہ کی۔
۳) مجھے تو اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ’’اے لوگو اس رب سے ڈروجس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء ایک جان یعنی singular cell سے کی اور اس سے پھر اس کا جوڑا بنایا۔‘‘

۱) اس آیت کی ابتدا ء اے انسان کہہ کرکی۔ اور انسان کا جد اوّل کون تھا یہ سب کو معلوم ہے ۔

۲) اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں لیا سوائے حضرت مریم کے۔

۳) پھر اس کے بعد کیا ہوا؟؟؟
 

وجاہت حسین

محفلین
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس چیز کی طرف توجہ دلائی۔ میرے ذہن سے نکل گیا تھا کہ یہ بات ابھی باقی ہے کرنا۔
ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور
اس کا جواب میں اوپر دےچکا ہوں۔ لفظ زوج کئی معانی کا حامل ہے۔ اس کے معنی کمپنی، دوست احباب بھی ہوتے ہیں اور قرآن میں مستعمل بھی ہیں۔ اس لئے اس جگہ پر ’بیوی‘ ترجمہ کرنا خالصتاً آپ کی تفسیر ہے۔

لفظ اھبط میں بلندی سے پستی کی طرف آنے کا اشارہ موجود ہے۔ مگر اس میں آسمان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لفظ اھبط قرآن میں دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے۔مثلاً:
قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ البقرہ 61
علامہ مودودی صاحب کا ترجمہ: ’’تو موسی نے کہا ’’کیا ایک بہتر چیز کی بجائے تم ادنیٰ چیز لینا چاہتے ہو۔ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو۔جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا۔
پیر کرم شاہ ازہری کا ترجمہ: موسیؑ نے کہا کیا تم لینا چاہتے ہو وہ چیز جو ادنیٰ ہے اس کے بدلہ میں جو عمدہ ہے۔ (اچھا) جا رہو کسی شہر میں تمہیں مل جائے گا جو تم نے مانگا۔
اینٹر نیشنل ٹرانسلیشن کے مطابق اس کا مطلب ہے
Moses said, "Would you exchange what is better for what is less? Go into [any] settlement and indeed, you will have what you have asked
یعنی البقرہ آیت 61 میں لفظ اھبط ’’جا رہو‘‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اب لفظ ھبط سے متعلق میں ایڈورڈ لین کی مشہور و مقبول عربی - انگریزی لغت میں ھبط کے یہ معانی درج ہیں۔
He or it Descended, went down, or went down a declivity; and it is sloped down; He became lowered, or degraded; We descended into the valley; He entered; Moving from place to another place; It also signifies falling into Evil; the being, or becoming low, abject, mean, or vile. Falling from an honorable station
مزید معانی کے لیے یہ لغت کا یہ لنک ملاحظہ فرمائیں
Lanes Lexicon
واضح رہے کہ لفظ ’’اھبطوا الارض‘‘ استعمال نہیں ہوا۔
ان معانی کو سمجھنے کے بعد مطلب یہ بنتا ہے کہ اب تم ان باغات سے نکل کر بقیہ زمین میں پھیل جاؤ۔ یا جیسے اقبال کہتے ہیں کہ اعلیٰ شعوری مقام سے پست شعوری مقام کی طرف چلے جاؤ۔ ان آیات میں کہیں پر بھی ’’آسمان سے اترنے ‘‘ یا زمین پر الگ سے ’’اتارے جانے‘‘ کی دلیل نہیں ملتی۔

) آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔ اور روایات سے پتا چلتا ہے کہ پھر زمین سے جنت میں گئے اور وہاں حضرت حوا کی تخلیق ہوئی۔
اس معاملے میں گزارش کروں گا کہ تخلیق اور ہیئتِ کائنات سے متعلق تمام تر روایات کو جمع کریں اور خود مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ وہ کس قدر قابلِ اعتبار ہیں۔ (میں منکرِ حدیث نہیں ہوں)۔ البتہ اخبارِ آحاد میں کیا قبول اور کیا رد ہے، اللہ کے فضل سے اس بات کو صحیح سے جانتا ہوں۔

)یہ تو ثابت ہوگیا کہ یہ جنت تھی، زمین نہیں
نہیں بھائی۔ ثابت نہیں ہوا۔

) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ (البقرۃ، ۳۴)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی نافرمانی کرنے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نہیں نکالا
یہ کس طرح اس آیت سے ثابت ہوتا ہے؟

البتہ سورۃ ص کی آیات سے تو واضح پتا چلتا ہے کہ سجدہ نہ کرنے پر فوراً نکالا گیا۔ ملاحظہ ہو:
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ {73} إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ {74} قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ {75} قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ {76} قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ {77} وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ {78}
ترجمہ: پس سب کے سب فرشتوں نے اکٹھے سجدہ کیاoسوائے ابلیس کے، اس نے تکبّر کیا اور کافروں میں سے ہوگیاo(اﷲ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے، کیا تو نے (اس سے) تکبّر کیا یا تو (بزعمِ خویش) بلند رتبہ (بنا ہوا) تھاoاس نے (نبی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے) کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اِسے مٹی سے بنایا ہےoارشاد ہوا: سو تو (اِس گستاخئ نبوّت کے جرم میں) یہاں سے نکل جا، بے شک تو مردود ہےoاور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت رہے گیo

) اس میں بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جنت کو وراثت بنانے کی ضرورت تھی۔ اس لیے جنت دکھا کر زمین پر بھیجا کہ ہمارے احکامات پر عمل کرنے کا انعام اس صورت میں عطا کیا جائے گا!!!
کوئی بات بنی نہیں دوست۔ جنت نہ آپ نے دیکھی نہ میں نے۔ اس لئے یہ دلیل بعید از قیاس ہے۔

سید عمران بھائی۔ در اصل ہو یہ رہا ہے کہ کچھ تصورات آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ سنے سنائے ہیں یا آپ کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ غیر شعوری طور پر آپ ان کی عینک سے قرآن کو دیکھ رہے ہیں اور بہت ساری باتیں جو آیات میں نہیں ہوتی وہ بھی آپ ان میں بیان کر جاتے ہیں۔اور ہر انسان ایسے ہی کرتا ہے۔ اس لئے جو ابتداء میں میں نے تفسیر سے متعلق نکات بیان کئے ہیں ان کو ایک مرتبہ تسلی سے دوبارہ دیکھ لیں۔ اگر آپ اپنا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تو میں نے بھی اپنے تمام تراجم کو قرآن سے پیش کیا ہے۔ والسلام۔
 

سید عمران

محفلین
۱) اس کا جواب میں اوپر دےچکا ہوں۔ لفظ زوج کئی معانی کا حامل ہے۔ اس کے معنی کمپنی، دوست احباب بھی ہوتے ہیں اور قرآن میں مستعمل بھی ہیں۔
یہاں مرد کے ساتھ عورت کے لیے زوج کے لفظ سے بیوی ہی مراد لی گئی گرل فرینڈ یا کزن نہیں۔
 

وجاہت حسین

محفلین
ہر زندہ چیز کو۔
وجعلنا من الماء کل شیء حی ۔

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (نور 45)
اور اللہ نے ہر چلنے پھرنے والے (جاندار) کی پیدائش پانی سے فرمائی، پھر ان میں سے بعض وہ ہوئے جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہوئے جو دو پاؤں پر چلتے ہیں، اور ان میں سے بعض وہ ہوئے جو چار (پیروں) پر چلتے ہیں، اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا رہتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (الانبیاء 30)
ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی۔
 

وجاہت حسین

محفلین
یہاں مرد کے ساتھ عورت کے لیے زوج کے لفظ سے بیوی ہی مراد لی گئی گرل فرینڈ یا کزن نہیں۔

ایک بار اس پر غور فرما لیں۔
یہ بات اہم ہے کہ لفظ ’’امرۃ‘‘ نہیں بلکہ زوج آیا ہے۔ جس کا معنی دوست یا کمپنی کے ہوتا ہے۔ یہ معنی قرآن کی سورۃ زخرف آیت 70 کے تحت قرطبی، ابنِ کثیر ، شوکانی وغیرہ نے ’’قریبی ساتھی‘‘ بیان کیا ہے۔ اس لئے زوج کا صرف معنی بیوی نہیں ہوتا بلکہ کمپنی بھی مراد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں قصہ آدم سے متعلق دیگر اشکالات کاجواب اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 52 سے یہ موضوع شروع ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف آیت 11 میں جمع کے صیغے کے ساتھ کلام کیا ہے۔ اور جہاں تثنیہ میں کلام ہے وہاں مراد ہے ’آدم اور اس کے ساتھی‘۔
 

سید عمران

محفلین
لفظ اھبط میں بلندی سے پستی کی طرف آنے کا اشارہ موجود ہے۔ مگر اس میں آسمان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
پھر ایسی کون سی جگہ سے اترے کہ باقاعدہ اس کے لیے اھبط استعمال کیا گیا ہے۔
دیگر معنی کے علاوہ اھبط سے اترنے کا معنی نہ لینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔
 

وجاہت حسین

محفلین
پھر ایسی کون سی جگہ سے اترے کہ باقاعدہ اس کے لیے اھبط استعمال کیا گیا ہے۔
دیگر معنی کے علاوہ اھبط سے اترنے کا معنی نہ لینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔
اگر آپ میرے پیچھے کی تمام تحاریر بغور پڑھ لیں تو پھر یہ سوال باقی نہیں رہتا۔
 

سید عمران

محفلین
اس معاملے میں گزارش کروں گا کہ تخلیق اور ہیئتِ کائنات سے متعلق تمام تر روایات کو جمع کریں اور خود مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ وہ کس قدر قابلِ اعتبار ہیں۔ (میں منکرِ حدیث نہیں ہوں)۔ البتہ اخبارِ آحاد میں کیا قبول اور کیا رد ہے، اللہ کے فضل سے اس بات کو صحیح سے جانتا ہوں۔
کوئی مستند و منصوص دلیل نہیں۔
 
Top