آصف اثر
معطل
اللہ پاک نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ’’اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے تخلیق کیا‘‘۔ نور 45
اس میں تو کہیں بھی تخلیق کا ذکر نہیں ہے۔ وجاہت حسینہر زندہ چیز کو۔
وجعلنا من الماء کل شیء حی ۔
آخری تدوین:
اللہ پاک نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ’’اور ہر چیز کو ہم نے پانی سے تخلیق کیا‘‘۔ نور 45
اس میں تو کہیں بھی تخلیق کا ذکر نہیں ہے۔ وجاہت حسینہر زندہ چیز کو۔
وجعلنا من الماء کل شیء حی ۔
في تكوين الإنسان شيئاً فشيئاً حتى يصير إنساناً كاملاً الإنسان يكون أولاً جماداً ميتاً قال الله تعالى: (وكنتم أمواتاً فأحياكم) وذلك حيث كان تراباً وطيناً وصلصالاً ونحوها. ثم يصير نباتاً نامياً كما قال الله تعالى: (والله أنبتكم من الأرض نباتاً) وذلك حيث ما كان نطفة وعلقة ومضغة ونحوها. ثم يصير حيواناً وذلك حيث ما يتبع بطبعه بعض ما ينفعه ويحترز من بعض ما يضره. ثم يصير إنساناً مختصاً بالأفعال الإنسانية وقد نبه الله تعالى على ذلك في مواضع نحو قوله: (يا أيها الناس إن كنتم في ريب من البعث فإنا خلقناكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلَّقة وغير مخلَّقة)
يَآ اَيُّ۔هَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّ۔ذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْ۔هَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْ۔هُمَا رِجَالًا كَثِيْ۔رًا وَّنِسَآءً ۚیہ بات اہم ہے کہ لفظ ’’امرۃ‘‘ نہیں بلکہ زوج آیا ہے۔ جس کا معنی دوست یا کمپنی کے ہوتا ہے۔ یہ معنی قرآن کی سورۃ زخرف آیت 70 کے تحت قرطبی، ابنِ کثیر ، شوکانی وغیرہ نے زوج کا معنی ’’قریبی ساتھی‘‘ بیان کیا ہے۔ اس لئے زوج کا صرف معنی بیوی نہیں ہوتا بلکہ کمپنی بھی مراد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں قصہ آدم سے متعلق دیگر اشکالات کاجواب اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 52 سے یہ موضوع شروع ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف آیت 11 میں جمع کے صیغے کے ساتھ کلام کیا ہے۔ اور جہاں تثنیہ میں کلام ہے وہاں مراد ہے ’آدم اور اس کے ساتھی‘۔
[https://cdn.wccftech.com/kursed/The Reconstruction of Religious Thought in Islam.pdf
ہم صرف اس دنیا کے مکلف ہیں باقی کے نہیں۔ذرا واضح کریں کہ یہ ماننے سے کہ نبی ﷺ ایک نہیں بلکہ 7 ہیں، پر آپ کے ایمان پر فرق کیسے نہیں پڑتا؟
ایک بات یہ ذہن میں رہے کہ میں نے ”انبیاء کے شجروں“ کا جو نکتہ اُٹھایا تھا وہ اُن کے احترام کو مدنظر رکھنے پر زور دینے کے لیے تھا۔ آپ جس بودار مادے سے انسان کی تخلیق کا ذکر فرمارہے ہیں وہ ایک واضح قرآنی نص اور تمام انسانوں کی پیدائش کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں آپ آدم علیہ السلام کے متعلق جو خیالات پیش کررہے ہیں وہ اندازے، احتمالات اور انسانی تشریحات ہیں۔البتہ یہ مان لینے سے کہ انسان کے تخلیق ایک سیاہ بو دار مادہ سے ہوئی (سورۃ حجر) آپ کے ایمان کو فرق نہیں پڑتا۔
یہاں کوئی بھی آنکھیں بند کرکے ہر چیز کو خلافِ قرآن قرار نہیں دے رہا۔البتہ میں اس رویہ کے خلاف ہوں کہ آنکھیں بند کر کے ہر چیز کو قرآن کے خلاف قرار دے دیا جائے۔جبکہ تاویل ممکن ہو۔ جب تک دلائل نہ واضح ہو جائیں تب تک انکار سے بہتر توقف ہے۔ مسلمانوں کا اس مسئلے میں وہی حال ہوتا نظر آرہا ہے جو عیسائیوں گا زمین کی ہیئت کے مسئلے پر ہوا تھا۔
اس آیتِ مبارکہ میں کہیں پر بھی آدم کا ذکر نہیں ہے۔ اور حوا کا نام تو پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اتنا اہم نام تھا اللہ نے نہ جانے کیوں حوا کا نام لے کر صراحت نہ کی۔ مجھے تو اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ’’اے لوگو اس رب سے ڈروجس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء ایک جان یعنی singular cell سے کی اور اس سے پھر اس کا جوڑا بنایا۔‘‘يَآ اَيُّ۔هَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّ۔ذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْ۔هَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْ۔هُمَا رِجَالًا كَثِيْ۔رًا وَّنِسَآءً ۚ
اس کے مقابلے میں آپ آدم علیہ السلام کے متعلق جو خیالات پیش کررہے ہیں وہ اندازے، احتمالات اور انسانی تشریحات ہیں۔آپ کیوں کر انسانی تشریحات کو ایک آیت کے مساوی قرار دے سکتے ہیں۔
نبی کے سوا جب کوئی بھی انسان قرآن کی تفہیم کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ عمل تفسیر ہی ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عام انسان کرے یا وقت کا سب سےبڑا عالم۔
تعجب ہے کہ آپ اس اعتراض کے رد میں دوبارہ بالکل ویسی ہی مثال پیش کر رہے ہیں جس پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ تشکیک تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ بات اتنی سیدھی بھی نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس تھیوری کو من و عن تسلیم کرنے میں اس کا کمپلیکس ڈیزائن آڑے آتا ہے۔ صرف Natural Selection کے کاندھوں پر سوار ہو کر کروڑ ہا صدیوں پہ محیط یہ ارتقائی فاصلہ ایک ہی جست میں طے نہیں کیا جاسکتا۔کیا کمال کا استدلال ہے۔ فاسلز پر تحقیق کے مطابق جیلی فش کا ارتقائی ظہور کم و بیش 50 کروڑ سال قبل ہی ہوگیا تھا۔ جبکہ جیلی فش تو آج بھی مختلف انواع کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ارتقاء حیات الارض کسی خاص سمت میں نہیں ہوتا۔ جو انواع اپنے اردگرد کے ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتی ہیں وہ قدرتی انتخاب کے تحت "زندہ بچ" جاتی ہیں۔ دیگر انواع اپنے ماحول سے شکست کھا کر معدوم ہو کر رہتی ہیں۔ یہ نظریہ ارتقا کا بنیادی اصول ہے۔
مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ اس بنیادی ارتقائی اصول کو سمجھنے میں آخر کیا مشکل ہے؟ انسانی ذہن کو اسے سمجھنے میں کتنا آئی کیو درکار ہوگا؟ جتنا وقت اس کی نفی میں صرف کیا جاتا ہے۔ اس سے کم اسے پڑھنے میں لگاتے توآج ہم یہ لایعنی بحث نہ کر رہے ہوتے کہ ارتقا مفروضہ ہے یا نہیں۔
ذیل میں جیلی فش کی ایک خوبصورت ویڈیو جو کسی خلائی مخلوق جہاز سے مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن گھبرائیں نہیں۔ یہ زمینی مخلوق ہی ہے۔
۱) اور جہاں تک رہی بات آدم کو دنیا میں ’’اتارنے‘‘ کی۔ اس پر تو کوئی آیت واضح نہیں کہ آدم کو آسمان سے ’’اتارا‘‘ گیا۔
۲) آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔
۳) اور جس جنت کی اللہ پاک آدم کے قصے میں بات کرتے ہیں وہ لگتا تو یہی ہے کہ دنیا میں ہی ایک باغ تھا۔
۴) اہلِ سنت کے عقیدہ کے امام، امام ماتریدی ؒ تک نے یہ بات کہہ دی ہے کہ قرآن سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ وہی جنت تھی جس کا آخرت میں وعدہ ہے یا دنیا میں کوئی باغ۔
۵) اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شیطان اللہ کی باگاہ سے نکالے جانے کے بعد جنت میں کیا کر رہا تھا۔
۶)اور جب اللہ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو جنت میں رکھ کر پھر یہ نکالنے کا بہانہ وغیرہ بنا کر زمین پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
۱) اس آیتِ مبارکہ میں کہیں پر بھی آدم کا ذکر نہیں ہے۔
۲) اور حوا کا نام تو پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اتنا اہم نام تھا اللہ نے نہ جانے کیوں حوا کا نام لے کر صراحت نہ کی۔
۳) مجھے تو اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ’’اے لوگو اس رب سے ڈروجس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء ایک جان یعنی singular cell سے کی اور اس سے پھر اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
اس کا جواب میں اوپر دےچکا ہوں۔ لفظ زوج کئی معانی کا حامل ہے۔ اس کے معنی کمپنی، دوست احباب بھی ہوتے ہیں اور قرآن میں مستعمل بھی ہیں۔ اس لئے اس جگہ پر ’بیوی‘ ترجمہ کرنا خالصتاً آپ کی تفسیر ہے۔ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور
لفظ اھبط میں بلندی سے پستی کی طرف آنے کا اشارہ موجود ہے۔ مگر اس میں آسمان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لفظ اھبط قرآن میں دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے۔مثلاً:
اس معاملے میں گزارش کروں گا کہ تخلیق اور ہیئتِ کائنات سے متعلق تمام تر روایات کو جمع کریں اور خود مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ وہ کس قدر قابلِ اعتبار ہیں۔ (میں منکرِ حدیث نہیں ہوں)۔ البتہ اخبارِ آحاد میں کیا قبول اور کیا رد ہے، اللہ کے فضل سے اس بات کو صحیح سے جانتا ہوں۔) آیات سے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل زمین میں ہی ہوا۔ اور روایات سے پتا چلتا ہے کہ پھر زمین سے جنت میں گئے اور وہاں حضرت حوا کی تخلیق ہوئی۔
نہیں بھائی۔ ثابت نہیں ہوا۔)یہ تو ثابت ہوگیا کہ یہ جنت تھی، زمین نہیں
یہ کس طرح اس آیت سے ثابت ہوتا ہے؟) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ (البقرۃ، ۳۴)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی نافرمانی کرنے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نہیں نکالا
کوئی بات بنی نہیں دوست۔ جنت نہ آپ نے دیکھی نہ میں نے۔ اس لئے یہ دلیل بعید از قیاس ہے۔) اس میں بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جنت کو وراثت بنانے کی ضرورت تھی۔ اس لیے جنت دکھا کر زمین پر بھیجا کہ ہمارے احکامات پر عمل کرنے کا انعام اس صورت میں عطا کیا جائے گا!!!
یہاں مرد کے ساتھ عورت کے لیے زوج کے لفظ سے بیوی ہی مراد لی گئی گرل فرینڈ یا کزن نہیں۔۱) اس کا جواب میں اوپر دےچکا ہوں۔ لفظ زوج کئی معانی کا حامل ہے۔ اس کے معنی کمپنی، دوست احباب بھی ہوتے ہیں اور قرآن میں مستعمل بھی ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے۔اس جگہ پر ’بیوی‘ ترجمہ کرنا خالصتاً آپ کی تفسیر ہے۔
ہر زندہ چیز کو۔
وجعلنا من الماء کل شیء حی ۔
یہاں مرد کے ساتھ عورت کے لیے زوج کے لفظ سے بیوی ہی مراد لی گئی گرل فرینڈ یا کزن نہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ لفظ ’’امرۃ‘‘ نہیں بلکہ زوج آیا ہے۔ جس کا معنی دوست یا کمپنی کے ہوتا ہے۔ یہ معنی قرآن کی سورۃ زخرف آیت 70 کے تحت قرطبی، ابنِ کثیر ، شوکانی وغیرہ نے ’’قریبی ساتھی‘‘ بیان کیا ہے۔ اس لئے زوج کا صرف معنی بیوی نہیں ہوتا بلکہ کمپنی بھی مراد ہوتی ہے۔
اس تناظر میں قصہ آدم سے متعلق دیگر اشکالات کاجواب اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 52 سے یہ موضوع شروع ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف آیت 11 میں جمع کے صیغے کے ساتھ کلام کیا ہے۔ اور جہاں تثنیہ میں کلام ہے وہاں مراد ہے ’آدم اور اس کے ساتھی‘۔
پھر ایسی کون سی جگہ سے اترے کہ باقاعدہ اس کے لیے اھبط استعمال کیا گیا ہے۔لفظ اھبط میں بلندی سے پستی کی طرف آنے کا اشارہ موجود ہے۔ مگر اس میں آسمان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
آگے ارض کہا گیا ہے۔واضح رہے کہ لفظ ’’اھبطوا الارض‘‘ استعمال نہیں ہوا۔
اگر آپ میرے پیچھے کی تمام تحاریر بغور پڑھ لیں تو پھر یہ سوال باقی نہیں رہتا۔پھر ایسی کون سی جگہ سے اترے کہ باقاعدہ اس کے لیے اھبط استعمال کیا گیا ہے۔
دیگر معنی کے علاوہ اھبط سے اترنے کا معنی نہ لینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔
کوئی مستند و منصوص دلیل نہیں۔اس معاملے میں گزارش کروں گا کہ تخلیق اور ہیئتِ کائنات سے متعلق تمام تر روایات کو جمع کریں اور خود مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ وہ کس قدر قابلِ اعتبار ہیں۔ (میں منکرِ حدیث نہیں ہوں)۔ البتہ اخبارِ آحاد میں کیا قبول اور کیا رد ہے، اللہ کے فضل سے اس بات کو صحیح سے جانتا ہوں۔
یہ دلیل نہیں دی۔ بات کرنے سے پہلے اس مسئلے پر تحقیق کی دعوت دی ہے۔کوئی مستند و منصوص دلیل نہیں۔