تذکرہ : نامور مصنف " محی الدین نواب " کا ۔۔۔۔۔

باذوق

محفلین
السلام علیکم

یہاں جب میں نے پہلی بار محی الدین نواب کے بارے میں پڑھا تو بڑی حیرت ہوئی کہ اردو کے اتنے مشہور مصنف کا کوئی خاص علیحدہ تذکرہ ، اردو محفل پر موجود ہی نہیں ہے۔

محی الدین نواب کی تعریف ۔۔۔ سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے ۔ ٹیلی پیتھی پر مبنی ان کا سلسلہ وار ناول "دیوتا" تو شائد گئینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے ۔ دنیا ، دنیا کے ممالک ، دنیا کی سیاست اور حالاتِ حاضرہ اور مختلف ممالک کی سیاست و معاشرت ، تہذیب و ثقافت کو اگر کوئی جاننا چاہتا ہے تو اس کو "دیوتا" ضرور پڑھنی چاہئے ۔

محی الدین نواب میرے بہت ہی زیادہ پسندیدہ مصنف رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے "دیوتا" سال 2001ء تک کی تمام قسطیں پڑھی ہیں۔
ان کا ایک مشہور ناول "آدھا چہرا" ہے جس میں ایک ٹکسی ڈرائیور "جانی" کی زندگی کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس ناول میں نواب صاحب نے انسانی نفسیات کی جو گتھیاں الجھائی / سلجھائی ہیں وہ بس انہی کا خاصہ ہے۔

نواب صاحب کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں ، جن میں سے ایک "کچرا گھر" بھی ہے۔

نواب صاحب ہمارے عہد کے ایک قدآور اور نامور ادیب ہیں۔ ان کے بارے میں اردو محفل پر ابھی تک کچھ لکھا ہی نہیں گیا ہے۔
نواب صاحب نے آپ بیتی کی شکل میں ایک طویل ناولٹ بھی لکھا تھا ، کم سے کم اسی کو تو ڈیجیٹائز کر لیا جانا چاہئے۔

نواب صاحب کے ایک اہم ناول " دل پارہ پارہ" کو فلم میں بھی ڈھالا گیا ہے جس کا اسکرین پلے بھی خود انہوں نے لکھا تھا ، مگر وہ اس فلم سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ فلم شائد معمر رانا اور جیا کی پہلی فلم بھی تھی۔
نواب صاحب کا ایک اور مشہور افسانہ وہ ہے جس میں انڈیا سے ان کی ایک فین پاکستان آتی ہے ، پھر ان سے شادی کرتی ہے پھر اس کی وفات بھی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔ (ویسے مجھے شک ہے کہ یہ نواب صاحب کا افسانہ ہے یا علیم الحق حقی کا؟؟)

ایک کردار "اجل" کو بھی انہوں نے تخلیق کیا تھا جس کی بنیاد پر کئی عمدہ افسانے بھی لکھے ہیں انہوں نے ۔۔۔

محترمہ جیہ نے "دیوتا" کو ٹیپ کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی جو بات لکھی ہے ، اس کا ذکر نواب صاحب اپنی آپ بیتی میں کر چکے ہیں۔

نواب صاحب کے بارے میں آپ بھی اپنے تاثرات سے یہاں ضرور آگاہ فرمائیں۔
 

باذوق

محفلین
نواب صاحب کی متذکرہ آپ بیتی کا عنوان تھا : نواب بیتی

نواب صاحب کے ایک فرزند (جن کا نام شائد "جاوید" تھا) عین نوجوانی میں ایک حادثے میں‌ وفات پا گئے تھے۔ وفات سے قبل کا ان کا تحریر کردہ افسانہ "دروازہ" جاسوسی یا سسپنس ڈائجسٹ میں‌ شائع ہوا تھا۔ پڑھ کر واقعی میں‌ کہا جا سکتا تھا کہ باپ کی قلمی ادبی صلاحیتوں کی جینیاتی منتقلی عمل میں آئی۔ مگر افسوس کہ ایک عمدہ قلمکار ابھرنے سے قبل ہی چل بسا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 
نواب صاحب کی جو چند تخلیقات میری نظروں سے گزری ہیں ان میں سے بیشتر ماہنامہ ہما میں شائع شدہ ہیں۔ مثلاً

گندے انڈے
شگوفہ
معتبر
مقدر (قدرے طویل سلسلہ)
خالی سیپ وغیرہ

بھئی میں تو نواب صاحب کے مداحوں میں سے ہوں۔ اردو دنیا کا طویل ترین ناول دیوتا کا تو صرف اشتہار ہی دیکھ سکا ہوں اب تک کبھی اتفاق نہیں ہوا پڑھنے کا۔ ویسے سماج کا کڑوا سچ نچوڑ کر صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا فن تو کوئی موصوف سے سیکھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کو ایک راز کی بات بتا دوں، کہ نواب صاحب اس محفل کی رکن جیہ کے والد کے دوستوں میں سے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں بھی ان کا فین شین ہوں۔ تاہم پاکستان چھوڑتے ہوئے ایک سٹوڈنٹ کو اس کی لائبریری کے لئے دیوتا کے اس وقت تک کے تمام حصے دیتا آیا تھا :(
 

الف عین

لائبریرین
میں ہی نامراد ایسا ہوں جس نے اس ہستی کا نام بھی نہیں سنا۔ لیکن لگتا ہے کہ پاپولر ادب میں شمار ہے ان کی کتابوں کا۔ اس لئے ثقہ ادیب ان کو گھاس نہیں ڈال رہے۔
 

دوست

محفلین
ان کی کہانیاں سسپنس، جاسوسی اور دوسرے اچھے ڈائجسٹوں میں چھپتی رہتی ہیں۔ دیوتا سے تو سب ہی واقف ہیں۔ یہ اردو کا ہی نہیں غالبًا دنیا کا بھی سب سے لمبا ناول ہے جو ابھی تک لکھا جارہا ہے۔ سن 76 سے اس کی اشاعت شروع ہوئی تھی اسے اب تیس سال سے اوپر ہوگئے ہیں۔ اس وقت اس کے انچاس حصے آچکے ہیں اور ایک حصہ ایک عمومی ڈائجسٹ کے سائز اور اسی طرح کی پرنٹنگ لیے ہوتا ہے۔ فی صفحہ دو کالم اور چھوٹے فونٹ کی چھپائی جیسے اخبار کی ہوتی ہے۔ محی الدین نواب کی ڈھیر ساری کہانیوں میں سے صرف دیوتا شوق سے پڑھتا ہوں‌ باقی کہانیاں اتنی تلخ ہوتی ہیں کہ حلق سے اترتیں ہی نہیں۔ موصوف کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے جس سے ان کی تحریر کم از کم میں فٹ پہچان جاتا ہوں۔ ان کی ایک بھتیجی ہے شاید کشور سلطانہ ان کا انداز تحریر بالکل نواب صاحب جیسا ہے۔ جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکیشنز کا ہی ایک ماہنامہ دلکش خواتین کے لیے شائع ہورہا ہے اس میں ان کے ناول بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اردو محفل کی رکن جویریہ جو سوات سے ہیں‌ نے ایک بار بتایا تھا کہ نواب صاحب کبھی سوات سیر کے لیے یا ویسے آئے تھے اور ان کے والد کی بھی اُن سے ملاقات ہوئی تھی۔ اور یہ کہ نواب صاحب دیوتا کی قسط ریکارڈ کروا دیتے ہیں جسے قلمبند ان کی بھتیجی کشور سلطانہ کرتی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے الفاظ کا چناؤ اور افعال کا انتخاب بالکل نواب صاحب کے طرز تحریر جیسا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
مجھے علم نہیں‌ تھا کہ دیوتا فرہاد علی تیمور کے نام سے یہی لکھتے تھے۔ میں نے دیوتا کچھ خاص نہیں‌ پڑھی، ویسے بھی ایک عمر چاہیے اسے پڑھنے کیلیے۔
تاہم میں نے سسپنس کے آخری صفحات پر چھپنے والی ان کی کہانیاں ضرور پڑی ہیں۔ بہترین لکھتے ہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
محی الدین نواب صاحب پاکستان کے پاپولر ادب یا یوں کہیں کہ ڈائجسٹی ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے۔ میں نے ان کو اتنا تو نہیں پڑھا البتہ سسپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والے ان کے سلسلے وار کہانی "دیوتا" کو کافی حد تک پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ اسی ڈائجسٹ کے آخری صفحات میں چھپنے والی چند کہانیاں بھی پڑھی ہیں۔ ان کا ناول آدھا چہرہ پڑھنا شروع کیا تھا مگر وائے مصروفیت کہ پورا ابھی تک نہ پڑھ سکی۔

نواب صاحب ایک منفرد سٹائل اور اسلوب کے مالک ہیں ایک پیرا پڑھ کر کوئی بھی آسانی سے جان سکتا ہے کہ یہ محی الدین نواب کا لکھا ہے۔ مگر بعض اوقات ان کے تحاریر کو پڑھ کر کوفت بھی ہوتی ہے ۔ وجہ اس کی غیر ضروری تفصیل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ بچوں کا کلاس لے رہے ہوں۔ مگر بحیثیت مجموعی ان کو پڑھنا اچھا لگتا ہے۔

نواب صاحب کے بارے میں میری معلومات مجھے اپنے والد صاحب سے ملی ہیں۔ ان کی زبانی ہی لکھ لیتی ہوں۔

نواب صاحب سے میری صرف تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دمے کے مرض اور کراچی کے آلودگی کی وجہ سے ، جس سے اب کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، وہ 4سالوں سے سوات میں گرمیاں گزارنے آتے ہیں۔ مئی سے ستمبر تک مگر افسوس سوات کے حالات کی وجہ سے شاید وہ اب یہاں کبھی نہ آ سکے۔
میری ان سے پہلی ملاقات جون 2005 میں فضل ربی راہی کے دکان پر ہوئی، جہاں اتوار کے دن آتے تھے اپنی دو بھتیجیوں یا شاید بانجھیوں کے ساتھ۔ ان کے ساتھ پہلی ملاقات نہایت دلچسپ رہی اور ہم نے گھنٹوں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی ۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوئے کہ میں نے دیوتا کے اولین قسط سے لے کر 2004 تک کے سارے قسطیں پڑھیں ہیں۔
ان سے دوسری ملاقات اس سے بھی دلچسپ رہی ، جب ہم ایک ساتھ سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ سیر کرنے گیے اور رات گیے واپس آئے تھے۔ اس ملاقات میں ان کی نجی زندگی کے بارے کافی جاننے کو ملا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ "دیوتا" کے ہیرو نے کیوں اتنی شادیاں کی ہیں؟ تو ہنس کے بولے "کیوں کہ میں نے بھی چار شادیاں کی ہیں" اور بھی بہت کچھ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا مگر وہ آف دی ریکارڈ باتیں ہیں، یہاں ظاہر کرنا اچھا نہیں ہوگا۔
آخری ملاقات ان سے جولائی 2007 میں ہوئی ۔ پچھلے سال کسی مجبوری سے وہ ستمبر تک ٹھہر نہ سکے اور جلد ہی کراچی واپس چلے گیے۔ اب پتہ نہیں کہ ان سے ملاقات ہو کہ نہ ہو۔۔۔۔آخری ملاقات میں ان سے پتہ چلا تھا کہ انہوں نے "دیوتا" کے کتابی سلسلے "گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈز" کے لیے بجھوائے تھے مگر چونکہ (بقول نواب صاحب) اس میں یہودیوں اور امریکیوں کے خلاف کافی مواد تھا اس وجہ سے "دیوتا" کو شامل کرنے سے انکار کیا گیا۔ نواب صاحب چاہتے تھے کہ دیوتا کو کسی سے انگریزی میں ترجمہ کراکے گینیس بک کے لیے بھیجا جائے، اس سلسلے میں ہمارے ایک جاننے والے عنایت اللہ عامر سے ان کی بات ہوئی تھی مگر ایک قسط ترجمہ کرنے کے بعد ہار مان گیے اور یوں یہ بیل منڈھے چڑھ نہ سکی۔
 

جیہ

لائبریرین
آپ کو ایک راز کی بات بتا دوں، کہ نواب صاحب اس محفل کی رکن جیہ کے والد کے دوستوں میں سے ہیں۔

دوست نہیں ہیں شمشاد بھائی ، بس دو چار ملاقاتیں ہوئیں

تبھی تو کہوں کہ جویریہ اپیا میں ادب کے اتنے رس کہاں سے آئے۔ :)
ادب و احترام کا رس تو بابا سے آیا مگر۔۔۔۔ شعر و ادب کا راس مجھ سے بابا میں چلا گیا تھا;)

میں ہی نامراد ایسا ہوں جس نے اس ہستی کا نام بھی نہیں سنا۔ لیکن لگتا ہے کہ پاپولر ادب میں شمار ہے ان کی کتابوں کا۔ اس لئے ثقہ ادیب ان کو گھاس نہیں ڈال رہے۔

بابا جانی ایسی بات نہیں نواب صاحب جو لکھ رہے ہیں اگرچہ اعلی پائے کا ادب نہیں مگر لکھنے والے بہت خوب ہیں، مجھے تو کرشن چندر اور ان میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ وہ لکھتے صرف ڈائجسٹوں کے لیے ہے اس کی وجہ روزگار ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں بتایا تھا کہ وہ اپنی تحریروں سے ماہانہ 3 لاکھ روپے تک کما رہے ہیں
 

Rashid Ashraf

محفلین
بھائی باذق
نواب بیتی کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائیں، کب کہاں کس سن میں شائع ہوئی ؟

السلام علیکم

۔

محترمہ جیہ نے "دیوتا" کو ٹیپ کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی جو بات لکھی ہے ، اس کا ذکر نواب صاحب اپنی آپ بیتی میں کر چکے ہیں۔

نواب صاحب کے بارے میں آپ بھی اپنے تاثرات سے یہاں ضرور آگاہ فرمائیں۔
 

یوسف-2

محفلین
محی الدین نواب ۔۔۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے بارے میں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ نواب صاحب اپنے قلم سے قاری کے دل کو گدگداتے بھی ہیں، مرعوب بھی کرتے ہیں، انسانی جذبات و احساسات سے آشنا بھی کرتے ہیں، تعلیم بھی دیتے ہیں، تربیت بھی کرتے ہیں اور اگرچاہیں قاری کے دل کو اس کے سینے سے باہر نکال کر تڑپنے اور سسکنے کے لئے چھوڑ بھی دیتے ہیں :D مجھے یاد نہیں کہ مِیں نے محی الدین نواب کی کتنی تحریریں پڑھیں اور کیا کیا پڑھیں اور کیا کیا نہیں پڑھیں۔ البتہ گذشتہ چار ساڑھے چار عشروں سے کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے ضرور یاد ہے کہ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں باقی سب کی کہا نیوں پر اس طرح غالب ہیں کہ طویل کہانیاں لکھنے اور مسلسل لکھنے کے باوجود ان کی ہر کہانی ایک شاہکار کہانی لگتی ہے۔ اور یہ خوبی کسی بڑے سے بڑے ادیب میں بھی نہی پائی جاتی۔ نواب صاحب کی کہانیاں! الامان و الحفیظ۔ ۔کہانی پر نواب صاحب کا نام لکھا ہو یا نہ ہو، کہانی کے اولین صفحات غائب ہوں یا آخری صفحات نہ ملیں۔ آپ اگر نواب صاحب کی تحریروں سے آشنائی رکھتے ہیں تو چند سطریں پڑھ کر بھی آگاہ ہوجائیں گے کہ یہ نواب صاحب کے قلم سے لکھی گئی ہیں۔
نواب صاحب ہجرت کے بعد اندرون لاہور میں رہائش پذیر ہوئے۔ لاہور میں رہتے ہوئے بھی گو انہوں نے خوب لکھا مگر یہاں انہوں نے قلم کی مزدوری زیادہ تر ایسے کی کہ لوگ انتہائی قلیل معاوضہ دے کر ان سے کہانیا ں ’’خرید لیتے‘‘ اور اپنے نام سے چھپواتے۔ قیام لاہور کے دوران ان کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ ناشرین انہیں ’’لفٹ‘‘ کرانے کوتیار نہ تھے۔ لہٰذا روٹی روزی کی خاطر وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کہ انہیں کوئی اور کام آتا نہیں تھا۔ کسی طرح ان کی شہرت سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ کے مالک مدیر تک پہنچی اور انہوں نے انتہائی پُرکشش معاوضہ پرنواب صاحب کو اپنے پرچوں کے لئے اس شرط پر بُک کرلیا کہ وہ ان کے ادارے کے سوا کہیں اور نہیں لکھیں گے۔ معاشی تنگی ختم ہوئی تو نواب صاحب کے قلم کی روانی نے دریا کی روانی اور سمندر کے جوار بھاٹا کو پیچھے چھوڑ دیا۔
سکہ بند ادبی پرچوں کے مدیران اور ان سے وابستہ ادیبوں نے ویسے بھی کمرشیل ڈائجسٹوں میں لکھنے والوں کو کبھی "قبول" نہیں کیا۔ ادب کے ان چوہدریوں اور وڈیروں کا زبان حال سے یہ کہنا تھا کہ کوئی ہمارے سامنے زانو تلمذ تہہ کئے بغیر ادیب کیسے بن سکتا ہے۔ اور جنہیں ہم ادیب نہ مانیں، انہیں کون ادیب مانے گا۔ ادب کے ان ٹھیکیداروں میں "جذبہ رقابت" کی ایک اور وجہ کمرشیل پرچوں میں لکھنے والوں کی معاشی "خوشحالی" بھی ہے۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ہم تو عشروں سے لکھتے رہنے کے باوجود جتنا نہیں کما سکتے، وہ یہ کہانی کار چند سالوں میں کما لیتے ہیں۔ بلا شبہ محی الدین نواب پاکستان کے "مہنگے ترین قلمکاروں" میں سے ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
نواب صاحب کے ایک اہم ناول " دل پارہ پارہ" کو فلم میں بھی ڈھالا گیا ہے جس کا اسکرین پلے بھی خود انہوں نے لکھا تھا ، مگر وہ اس فلم سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ فلم شائد معمر رانا اور جیا کی پہلی فلم بھی تھی۔
نواب صاحب کا ایک اور مشہور افسانہ وہ ہے جس میں انڈیا سے ان کی ایک فین پاکستان آتی ہے ، پھر ان سے شادی کرتی ہے پھر اس کی وفات بھی ہو جاتی ہے ۔۔۔ ۔۔ (ویسے مجھے شک ہے کہ یہ نواب صاحب کا افسانہ ہے یا علیم الحق حقی کا؟؟)

وہ فلم معمر رانا کی پہلی فلم تھی ۔ سید نور صاحب نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا
اور وہ افسانہ تو لفظ بلفظ یاداشت میں محفوظ ہے ۔ صفیہ ان کے ناولز پڑھ پڑھ کر ان کی فین ہو گئی اور ایک دن ٹرین میں بیٹھ کر لاہور آگئی۔ لیکن اس سے پہلے ان کی خط وکتابت شروع ہو چکی تھی۔ خواتین کی نفسیات کو جس خوبصورت طریقے سے اس میں بیان کیا گیا ہے اس کی تعریف کیلئے الفاظ نہیں۔ ان کو پڑھنے کا چسکا تب سے ہے جب بچے ٹارزن اور عمرو عیار پڑھتے ہیں۔
 
ہم نے ان کی مشہور زمانہ تحریر یا تصنیف دیوتا آخر تک پڑھی ہے بلاشبہ کمال کے لکھاری ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور شائد محی الدین نواب وہ واحد شخصیت ہیں جن سے ملنے کو دل کرتا ہے کچھ بھید کی باتیں (کتمان راز)میں نے ان سے ایسی سیکھیں یا ان پر کام کرنے کی یا غور و فکر کرنے کی کوشش کررہا ہوں جو کہ اسرار سر بستہ میں سے ہیں اور ان میں سے کافی پر کام کرچکا ہوں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
موصوف کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے جس سے ان کی تحریر کم از کم میں فٹ پہچان جاتا ہوں۔ ان کی ایک بھتیجی ہے شاید کشور سلطانہ ان کا انداز تحریر بالکل نواب صاحب جیسا ہے۔
بجا فرمایا آپ نے دوست۔۔۔۔! ان کا انداز تحریر آسانی سے پہچانا جاتا ہے جیسے احمد اقبال صاحب کا انداز میں چند سطروں سے پہچان جاتا ہوں۔ دیوتا نواب صاحب کی شان میں تو میری زبان پر بھی بہت سے الفاظ مچل رہے ہیں مگر عثمان صاحب کی طرح میں بھی اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں:) کیونکہ کہ آپ احباب نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ مزید کہا لکھا جائے۔۔۔۔
 
Top