تری نگا ہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
جو دوست یہاں کسی بھی بات کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے ماننے پر تیار نہیں ہیں ان سے دست بستہ عرض ہے کہ جس عدم اعتماد کو انہوں اپنی سوچ کا محور و مرکز بنا رکھا ہے، پہلے اسے اپنی ذات پر لاگو کریں۔۔آپ جب پیدا ہوئے اور کچھ عرصے کے بعد آپ نے ہوش سنبھالا اور آپ کو بتایا گیا کہ فلاں صاحب آپکے والد صاحب ہیں اور فلاں والدہ۔۔آپ نے اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے اس بات کو من و عن تسلیم کرلیا۔ آپ بھی ضرور تسلیم کریں گے کہ اس اعتماد کی بنیاد تو قطعاّ غیر سائنسی ہے۔ انٹلکچوئل دیانت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنا اور اپنے مبینہ والدین کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر "عین الیقین" کی منزل حاصل کریں۔۔اسکے بعد دوسروں کے عقائد کا سائنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیجئے۔Charity begins at home.۔۔۔
اور بات یہیں ختم نہیں ہوگی کیونکہ حق الیقین کا درجہ حاصل کرنے کیلئے قدم قدم پر کئی منزلوں سے گذرنا پڑے گا۔
ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ دنیا میں آپ کو کسی نہ کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ہی پڑ تا ہے اور کئی باتوں کو دوسروں کے علم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسکے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے اور وہ جو کچھ تشخیص کردے اور جو دوا لکھ کر دے دے اسے آپ تسلیم کرلیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ کہیں سے سن رکھا ہے کہ یہ ڈاکٹر مستند ہے۔ جب اسکی تشخیص درست ثابت ہوتی ہے اور دوا اپنا اثر دکھانےلگتی ہے تو آپکو اس ڈاکٹر کی مسیحائی پر پہلے سے نسبتاّ زیادہ مضبوط بھروسہ (یا ایمان) حاصل ہوجاتا ہے۔
مذہب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کسی انسان پر اس درجے بھروسہ کرتے ہیں کہ اسکی کہی ہوئی ہر بات کو سچی اور معتبر جانتے ہیں۔ چنانچہ علم کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اور اس ذریعے کو چار و ناچار آپ بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے تین درجوں میں سے سب سے پہلا درجہ "اسلام" ہے یعنی مان لینا ۔۔۔ ۔اور جب زندگی کے تجربات سے آپکو اس انسان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں تو آپکو اس شخص کی دانائی ، فراست، علم وغیرہ پر مزید ایقان حاصل ہوتا ہے۔۔ہمارے خیال میں تو علم حاصل کرنے کا یہی ایک واحد طریقہ ہے یعنی کسی اور کے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے ابتدائی طور پر بغیر چون و چرا کئے اسی تحقیقات و تسلیم کرلیا جائے اور پھر درجہ بدرجہ اپنی جستجو اور صلاحیت کی مدد سے سے اس پوائنٹ سے آگے بڑھ کر علم میں مزید وسعت ، accuracy اور نکھار لایا جائے۔ جب ہم سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی اصول کارفرما ہے کچھ assumptionsہیں جنہیں ہم بغیر کسی ثبوت کے تسلیم کرکے اپنی تحقیقات کے سلسلے کوآگے بڑھاتے ہیں۔
اب اس دھاگے میں پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا۔ یا تو آپ ود اس جگہ پر پہنچ کر بذاتِ خود اس بات کا مشاہدہ کرلیجئے کہ ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ پہلے سے موجود اپنے علم کی روشنی میں عقل اور منطق و استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ یہاں آکر دو فریق جدا ہوجاتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی منطق اور عقل کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ یہ درست ہے یا نہیں، مذہبی آدمی جسکی منطق کی بنیاد یہی ہے کہ اگر کسی قابلِ بھروسہ آدمی نے( جس کے سچ پر وہ بھروسہ کرسکتا ہے) یہ کہا ہے تو پھر یہ بات ٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔ جبکہ غیر مذہبی آدمی کو چونکہ اس معاملے میں ایسا کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر وہ بھروسہ کرسکے، چنانچہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اسکی منطق یہی کہتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔