جمہوریت ایک مستقل نظام حکومت ہے جس کی جڑیں قدیم یونانی نظام حکومت میں ہیں موجودہ صورت میں اس کی داغ بیل انقلاب فرانس کے بعد پڑی۔ اسلام میں خلافت کا نظام ہے جس کی اپنی شرائط اور طریقہ کار ہیں۔ جمہوریت کا لفظ تک قرآن و سنت میں مذکور نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں اہل ایمان کے باہمی معاملات کو مشورے سے حل کرنے کا حکم دیا ہے:
و امرھم شورٰی بینھم (الشورٰی)
'' اور ان (مومنوں) کے باہمی کام مشورے سے ہوتے ہیں۔''
لیکن مشورہ ان سے لیا جائے گا جو اس کے اہل ہیں۔ اسلامی خلافت میں یہ طریقہ کار نہیں ہوتا کہ ایک جاہل، ان پڑھ آدمی کی رائے کو جو حیثیت حاصل ہو وہی حیثیت ایک عالم اور جہاندیدہ شخص کے مشورے کو دی جائے۔ جمہوری نظام کا یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ اس نے علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کو برابر کر دیا حالانکہ وہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے( سورۃ الزمر)۔
مفکر پاکستان اور جمہوری تماشا
جمہوریت کی اس خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مفکر پاکستان علامہ اقبال نے کہا ہے:
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
تولنے کی بجائے گننے کی وجہ سے مغربی جمہوریت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستوں کے حق میں باقاعدہ قانون منظور کیا جس کی رو سے مرد اور عورت اپنے ہی ہم جنس سے شادی کر سکتے ہیں اور ان کے اس فعل کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی۔اسی گندی ذہنیت کا پھل ہے کہ وہ سعودی عرب پر تنقید کرتے ہیں کہ وہاں جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے Gays اور Lesbians کے ''حقوق'' کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال کی نگاہِ دوررس نے بہت عرصہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد جب تک مسلمان اپنے آئیڈیل سیاسی نظام خلافت کی طرف نہیں پلٹیں گے ان کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد مسلمان جمہوریت کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ اس لیے وہ ''مشرق'' کو '' مغرب'' کی بیماری کا سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
مفکر پاکستان جمہوریت اور ظلم پر قائم بادشاہت میں فرق نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ کے نزدیک دونوں نظام تباہ کن ہیں، فرق صرف ظاہری شکل ہے:
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
علامہ اقبال کی شاعری سے شغف رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ علامہ جمہوری نظام کو ''جمہوری تماشا'' سمجھتے تھے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اپنی مشہور نظم ''ابلس کی مجلس شورٰی'' میں وہ جمہوریت کو اس ابلیسی منصوبے کا حصہ بتاتے ہیں جو اس نے انسانیت کو گمراہ کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت پرانے ظالمانہ نظاموں ہی کا ایک تسلسل ہے، اور ابلیسی نظاموں اور پالیسیوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ اسی کی متعارف کردہ ہے۔ ابلیس کے مشیر کی زبانی وہ کہلواتے ہیں:
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تو نے کیادیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
یہ ساری تفصیل یہ بات واضح کرنے کے لیے عرض کی ہے کہ ہمارے قومی شاعر، اور نظریہ پاکستان کے خالق جمہوریت کی مخالفت میں بعض ملاؤں سے کئی درجے آگے تھے۔۔ جن لوگوں کو ہم قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں ان کے نظریات اور تعلیمات سے اسی قدر ناواقف ہوتے ہیں۔
خلافت راشدہ اور جمہوریت
بعض لوگ خلافت راشدہ میں سے جمہوریت برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں چند سوال عرض ہیں:
۱۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد تھے۔ مہاجرین اور انصار کے اجتماع میں جب انہوں نے حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ الائمۃ من قریش۔ تو سارے انصار خلافت کے دعوے سے دستبردار ہو گئے۔ کیا جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔
۲۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا اور اگر کسی نے اعتراض کیا تو اس کا مسکت جواب بھی انہوں نے دیا۔(بخاری)
۳۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو انہوں نے چھے آدمیوں کی کمیٹی بنائی اور فرمایا کہ ان چھے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لینا۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ پوری مملکتِ اسلامیہ میں سے صرف اہلِ مدینہ نے ان چھے آدمیوں میں سے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ۔ اس وقت اسلامی مملکت کا رقبہ تقریبًا بائیس لاکھ مربع میل تھا اور اس میں حجاز و نجد کے سارے علاقے کے ساتھ ساتھ موجودہ یمن، مصر، ایران، عراق، کویت، اردن، شام اور فلسطین اسلامی قلمرو کا حصہ تھے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خلیفہ بناتے وقت مدینے کے علاوہ کسی دوسری جگہ بھی مشاورت ہوئی ہو۔
۴۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی مملکت کا رقبہ تقریبًا چوالیس لاکھ مربع تھا کیا اس عظیم سلطنت میں ایک دفعہ بھی الیکشن ہوئے تھے۔ آخر اتنی بڑی ریاست میں گورنر نامزد بھی کیے جاتے تھے، تبدیل بھی کیے جاتے تھے کبھی ایسا ہوا ہو کہ مقامی آبادی اپنا گورنر خود مقرر کر لے۔ صرف ایک مثال بتا دیں۔
جمہوریت کے دو بنیادی اجزاء
جمہوری تماشے کے دو بنیادی اجزاء ہیں اول چند لوگوں کا اپنے آپ کو انتخاب کے لیے پیش کرنا، اور اکثریتی فیصلے کے مطابق چناؤ کرنا۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اسلام میں قطعًا یہ گنجائش نہیں ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو امارت کے حصول کے لیے پیش کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور صحیح حدیث ہے کہ '' ہم اس شخص کو کبھی عہدہ نہیں دیں گے جو خود بول کر اسے طلب کرتا ہو۔'' (اوکماقال علیہ الصلوۃ والسلام)۔ جمہوریت میں دوسری فیصلہ کن چیز اکثریتی رائے ہے۔ اسلام میں اکثریت کی بجائے قرآن و سنت اور حق کو تسلیم کیا جاتا ہے چاہے اس کے خلاف بولنے والے کتنے ہی زیادہ ہوں۔قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ کبھی یہ دھوکا مت کھاؤ کہ اکثریت کس کے ساتھ ہے بلکہ یہ دیکھو کہ ''حق'' کس کے پاس ہے۔
قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّہَ يَا اُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃ المائدۃ۔۱۰۰)
'' کہ دیجیے کہ خبیث اور طیب کبھی برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث کی کثرت تجھے اچھی ہی کیوں نہ لگے۔ پس اے عقل والو! اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ۔''
وَاِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ (المائدۃ۔۴۹)
''لوگوں کی اکثریت (اللہ کی) نافرمان ہے۔''
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّہِ انْ يَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُونَ (سورۃ الانعام۔۱۱۶)
''اور اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں۔''
مطلب یہ کہ جمہوری نظام کا بنیادی ستون ''اکثریتی ووٹ'' اسلام کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر اسامہؓ کی روانگی کے موقع پر تمام صحابہ حتٰی کہ عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اس وقت اس لشکر کو بھیجنا مناسب نہیں ۔ ان کے خیال یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر بھیجنے کا حکم دیا تھا تو سارا عرب اسلام کے جھنڈے تلے جمع تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی بغاوتوں اور ارتداد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لہٰذا مدینے کی حفاظت کے لیے اس لشکر کو روک لیا جائے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کی رائے مسترد کر دی اور فرمایا کہ '' میں اس لشکر کو کیسے روک دوں جسے روانہ کرنے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا۔''
یعنی خلیفہ وقت ایک طرف تھے اور سارے صحابہ ایک طرف۔ سب کی رائے یہ تھی کہ لشکر روانہ نہ کیا جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہی کیا جو ان کے شایان شان تھا۔ یہ ہے اسلامی خلافت، کہ ساری دنیا بھی مخالفت میں ووٹ دے تب بھی حق حق ہی رہتا ہے اور اکثریتی رائے غلط چیز کو درست نہیں بنا دیتی۔ نیز یہ کہ خلافت میں مشورہ لیا جاتا ہے لیکن فیصلہ کن حیثیت قرآن و حدیث کو حاصل ہوتی ہے۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ''اسلامی جمہوریت'' کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ جب صحابہ کی اکثریتی رائے کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں رد کر دیا تھا تو بڑا المیہ ہو گا کہ ہم شرعی قانون سازی کے لیے ان لوگوں پر اعتماد کر لیں جو قرآن و حدیث کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہیں اور جو گلی محلے کی سطح پر کرپشن کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ ہمارے وفاقی وزیرِ تعلیم نے ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ قرآن کے چالیس پارے ہیں۔
اسلامی جماعتیں اور جمہوریت
بعض مذہبی جماعتیں جمہوری جدوجہد میں شامل ہوئیں تو انہوں نے اپنا نقطہ نظر یہ کہہ کر بیان کیا کہ "ہم کمتر برائی کو اختیار کر رہے ہیں" لیکن وقت گواہ ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلامی جماعتیں کامیاب ہو بھی جائیں تو جمہوریت کے بانی انہیں حکومت بنانے یا چلانے کی اجازت نہیں دیتے۔ الجزائر کے1991 کے الیکشن اس بات کے گواہ ہیں جہاں پہلے مرحلے میں اسلامی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی تو مغربی آقاؤں کے اشارے پر چلنے والی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا، منتخب صدر کو گھر بھیجا، اسلامی جماعتوں پر پابندی لگا دی اور الیکشن کے دوسرے مرحلے کو کینسل کر دیا۔ اس سے ملتے جلتے حالات مصر میں پیش آئے۔ اخوان المسلمون نے اپنی دعوت اتنے زبردست انداز میں پیش کی تھی کہ دو سالوں میں ان کے ارکان کی تعداد ۲۵ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن حسن البنا کو قتل کر دیا گیا، جماعت کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ مصری معاشرے میں آج بھی اخوان کے حامیوں کی واضح اکثریت ہے لیکن جمال عبد الناصر کے فوجی انقلاب کے بعد سے ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ دورکیوں جاتے ہیں، آپ کے سامنے حماس کی مثال ہے۔ دو سال بھی نہیں ہوئے کہ انہوں نے الیکشن میں بھرپور اکثریت حاصل کی تھی۔ وہ سارے ممالک جو اس سے پہلے جمہوریت جمہوریت پٹاختے تھے انہوں نے حماس کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، فلسطین کو ملنے والی امداد بالکل بند کر دی گئی یہاں تک کہ فلسطینی حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کےلیے بھی رقم نہ تھی۔ حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ حماس کو حکومت چھوڑتے ہی بنی۔
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
ملوکیت اور قرآن
و قتل داؤد جالوت و ءا تٰہ اللہ الملک الحکمۃ (البقرۃ ۔251)
“اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں بادشاہت اور حکمت سے نوازا”
موسٰی علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکا (المائدۃ 20)
“اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جب اس نے تم میں نبی بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا”
سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بادشاہت کی دعا کرتے ہیں:
قال رب اغفرلی و ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی انک انت الوھاب (ص۔35)
“(سلیمان علیہ السلام نے کہا) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے” (ترجمہ سید مودودی)
امرھم شورٰی بینھم کا نفاذ عادل بادشاہ بھی کر سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کا مصداق ان کرپٹ لوگوں ہی کو قرار دیا جائے جو قوم کا خون چوسنے کے بعد اس کی ہڈیاں نوچنے پر بھی تلے بیٹھے ہیں۔
ایک حیرت انگیز انقلاب؟
و اذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اٰ تیتکم من کتٰب و حکمۃ ثم جاءکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ و لتنصرنہ۔ ۔
“اور (یاد کرو) جب لیا تھا اللہ نے عہد، نبیوں سے کہ یہ جو عطا کی ہے میں نے تم کو کتاب و حکمت (اس احسان کا تقاضایہ ہے کہ) پھر جب آئے تمہارے پاس ایک عظیم رسول تصدیق کرتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اور بہر حال ایمان لاؤ گے اس پر اور مدد کرو گے اس کی۔ ارشاد ہوا! کیا اقرار کرتے ہو تم اور کرتے ہو ان شرائط پر مجھ سے عہد؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا! سو گواہ رہو تم اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔”
عیسیٰ علیہ السلام کے مقاصد بعثت میں سے ایک نبی آخر الزماں کی آمد کی خوشخبری سنانا بھی تھا۔ قرآن کریم ان کا قول یوں بیان کرتا ہے:
و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (الصف)
“اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہو گا”
جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا، اللہ تعالیٰ ان سے خلافت ارضی کا وعدہ فرمایا:
وعد اللہ الذین ءامنوا منکم و عملوا الصٰلحٰت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ۔ ۔ ۔ (النور)
“جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے عمل صالح کیے اللہ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا فرما چکا ہے”
ان قرآنی ریفرنسز کی روشنی میں دیکھیے، کیسی عظیم غلط فہمی ہے کہ جس نبی کی آمد کا صدیوں قرنوں سے اعلان کیا جاتا رہا، اس پر ایمان و نصرت کے وعدے لیے جاتے رہے، دنیا کو خوشخبری سنائی جاتی رہی کہ وہ ان سے “اصر” اور “اغلال” ہٹائے گا (الاعراف)، جس کے ساتھیوں سے خلافت کے وعدے ہوتے رہے، سو برس بھی کامل نہ گزرے تھے کہ اس کے احکامات کو چھپا دیا گیا اور اس کا پورا دین تبدیل ہو گیا یہاں تک کہ مغرب میں جمہوریت کی نشاۃ ہوئی اور اسے دیکھ کر قرآن کے اصل احکامات منکشف ہونا شروع ہوئے۔
سو سال کے اندر عرب اپنی زبان سے اس قدر ناواقف نہ ہو گئے تھے کہ قرآن کے “آسان اور سادہ” احکامات کو چھپا دیا جاتا۔ قرآن گھر گھر میں موجود تھا، مساجد میں پڑھا جاتا تھا، نمازوں میں تلاوت کیا جاتا تھا اور سننے والے اس کا مطلب بلاتکلف سمجھتے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عوام کو اس عظیم روشنی سے فیض یاب ہونے سے روک دیا گیا تھا خیالی تاویلوں کی بجائے ٹھوس ثبوت کا محتاج ہے۔
اس وقت کے بادشاہوں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے دور کو دیکھ لیجیے۔ جمہوری تماشے کی پیداوار کتنے حکمران ایسے ہیں جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہو؟ وہ ایک بادشاہ ہی تو تھا جس نے دنیا کا سب سے بڑا “قرآن پرنٹنگ پریس” قائم کیا۔ تنقید کرنے والے سعودی حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں اور سچ ہے کہ بعض معاملات میں اصلاح کی گنجائش ہے لیکن قرآنی تعلیمات کو عام کرنے میں “شاہ فہد قرآن کمپلیکس” کا کردار بے مثال ہے۔ شاہ فہد نے دنیا کے مختلف خطوں میں قرآن کریم کے لاکھوں نسخے مفت تقسیم کرائے۔ اردو، انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، بنگالی، کیرالہ، پشتو، فارسی، انڈونیشی سمیت دنیا کی شاید ہی کوئی مشہور زبان ہو جس میں اس کمپلیکس نے ترجمہ اور تفسیر شائع نہ کیا ہو۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں میں قرآنی تراجم اور تفاسیر کی بے مثال فراہمی ان کا سنہرا کارنامہ ہے۔ مغربی ممالک میں چلنے اسلامک سنٹرز کو انگریزی اور دوسری متعلقہ زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں ترجمہ و تفسیر فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بادشاہ کا شروع کیا ہوا کام تھا جسے ایک دوسرا بادشاہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلے پر دنیا کے ساری جمہوری حکمرانوں کی کاوشوں کو جمع کر لیجیے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اس دعوے میں کتنا زور ہے کہ بادشاہت فی نفسہ٘ قرآنی دعوت میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔
و امرھم شورٰی بینھم (الشورٰی)
'' اور ان (مومنوں) کے باہمی کام مشورے سے ہوتے ہیں۔''
لیکن مشورہ ان سے لیا جائے گا جو اس کے اہل ہیں۔ اسلامی خلافت میں یہ طریقہ کار نہیں ہوتا کہ ایک جاہل، ان پڑھ آدمی کی رائے کو جو حیثیت حاصل ہو وہی حیثیت ایک عالم اور جہاندیدہ شخص کے مشورے کو دی جائے۔ جمہوری نظام کا یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ اس نے علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کو برابر کر دیا حالانکہ وہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے( سورۃ الزمر)۔
مفکر پاکستان اور جمہوری تماشا
جمہوریت کی اس خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مفکر پاکستان علامہ اقبال نے کہا ہے:
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
تولنے کی بجائے گننے کی وجہ سے مغربی جمہوریت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستوں کے حق میں باقاعدہ قانون منظور کیا جس کی رو سے مرد اور عورت اپنے ہی ہم جنس سے شادی کر سکتے ہیں اور ان کے اس فعل کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی۔اسی گندی ذہنیت کا پھل ہے کہ وہ سعودی عرب پر تنقید کرتے ہیں کہ وہاں جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے Gays اور Lesbians کے ''حقوق'' کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال کی نگاہِ دوررس نے بہت عرصہ پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد جب تک مسلمان اپنے آئیڈیل سیاسی نظام خلافت کی طرف نہیں پلٹیں گے ان کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد مسلمان جمہوریت کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ اس لیے وہ ''مشرق'' کو '' مغرب'' کی بیماری کا سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
مفکر پاکستان جمہوریت اور ظلم پر قائم بادشاہت میں فرق نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ کے نزدیک دونوں نظام تباہ کن ہیں، فرق صرف ظاہری شکل ہے:
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
علامہ اقبال کی شاعری سے شغف رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ علامہ جمہوری نظام کو ''جمہوری تماشا'' سمجھتے تھے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اپنی مشہور نظم ''ابلس کی مجلس شورٰی'' میں وہ جمہوریت کو اس ابلیسی منصوبے کا حصہ بتاتے ہیں جو اس نے انسانیت کو گمراہ کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت پرانے ظالمانہ نظاموں ہی کا ایک تسلسل ہے، اور ابلیسی نظاموں اور پالیسیوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ اسی کی متعارف کردہ ہے۔ ابلیس کے مشیر کی زبانی وہ کہلواتے ہیں:
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تو نے کیادیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
یہ ساری تفصیل یہ بات واضح کرنے کے لیے عرض کی ہے کہ ہمارے قومی شاعر، اور نظریہ پاکستان کے خالق جمہوریت کی مخالفت میں بعض ملاؤں سے کئی درجے آگے تھے۔۔ جن لوگوں کو ہم قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں ان کے نظریات اور تعلیمات سے اسی قدر ناواقف ہوتے ہیں۔
خلافت راشدہ اور جمہوریت
بعض لوگ خلافت راشدہ میں سے جمہوریت برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں چند سوال عرض ہیں:
۱۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد تھے۔ مہاجرین اور انصار کے اجتماع میں جب انہوں نے حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ الائمۃ من قریش۔ تو سارے انصار خلافت کے دعوے سے دستبردار ہو گئے۔ کیا جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔
۲۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا اور اگر کسی نے اعتراض کیا تو اس کا مسکت جواب بھی انہوں نے دیا۔(بخاری)
۳۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو انہوں نے چھے آدمیوں کی کمیٹی بنائی اور فرمایا کہ ان چھے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لینا۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ پوری مملکتِ اسلامیہ میں سے صرف اہلِ مدینہ نے ان چھے آدمیوں میں سے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ۔ اس وقت اسلامی مملکت کا رقبہ تقریبًا بائیس لاکھ مربع میل تھا اور اس میں حجاز و نجد کے سارے علاقے کے ساتھ ساتھ موجودہ یمن، مصر، ایران، عراق، کویت، اردن، شام اور فلسطین اسلامی قلمرو کا حصہ تھے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خلیفہ بناتے وقت مدینے کے علاوہ کسی دوسری جگہ بھی مشاورت ہوئی ہو۔
۴۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی مملکت کا رقبہ تقریبًا چوالیس لاکھ مربع تھا کیا اس عظیم سلطنت میں ایک دفعہ بھی الیکشن ہوئے تھے۔ آخر اتنی بڑی ریاست میں گورنر نامزد بھی کیے جاتے تھے، تبدیل بھی کیے جاتے تھے کبھی ایسا ہوا ہو کہ مقامی آبادی اپنا گورنر خود مقرر کر لے۔ صرف ایک مثال بتا دیں۔
جمہوریت کے دو بنیادی اجزاء
جمہوری تماشے کے دو بنیادی اجزاء ہیں اول چند لوگوں کا اپنے آپ کو انتخاب کے لیے پیش کرنا، اور اکثریتی فیصلے کے مطابق چناؤ کرنا۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اسلام میں قطعًا یہ گنجائش نہیں ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو امارت کے حصول کے لیے پیش کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور صحیح حدیث ہے کہ '' ہم اس شخص کو کبھی عہدہ نہیں دیں گے جو خود بول کر اسے طلب کرتا ہو۔'' (اوکماقال علیہ الصلوۃ والسلام)۔ جمہوریت میں دوسری فیصلہ کن چیز اکثریتی رائے ہے۔ اسلام میں اکثریت کی بجائے قرآن و سنت اور حق کو تسلیم کیا جاتا ہے چاہے اس کے خلاف بولنے والے کتنے ہی زیادہ ہوں۔قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ کبھی یہ دھوکا مت کھاؤ کہ اکثریت کس کے ساتھ ہے بلکہ یہ دیکھو کہ ''حق'' کس کے پاس ہے۔
قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّہَ يَا اُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃ المائدۃ۔۱۰۰)
'' کہ دیجیے کہ خبیث اور طیب کبھی برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث کی کثرت تجھے اچھی ہی کیوں نہ لگے۔ پس اے عقل والو! اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ۔''
وَاِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ (المائدۃ۔۴۹)
''لوگوں کی اکثریت (اللہ کی) نافرمان ہے۔''
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّہِ انْ يَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُونَ (سورۃ الانعام۔۱۱۶)
''اور اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں۔''
مطلب یہ کہ جمہوری نظام کا بنیادی ستون ''اکثریتی ووٹ'' اسلام کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر اسامہؓ کی روانگی کے موقع پر تمام صحابہ حتٰی کہ عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اس وقت اس لشکر کو بھیجنا مناسب نہیں ۔ ان کے خیال یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر بھیجنے کا حکم دیا تھا تو سارا عرب اسلام کے جھنڈے تلے جمع تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی بغاوتوں اور ارتداد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لہٰذا مدینے کی حفاظت کے لیے اس لشکر کو روک لیا جائے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کی رائے مسترد کر دی اور فرمایا کہ '' میں اس لشکر کو کیسے روک دوں جسے روانہ کرنے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا۔''
یعنی خلیفہ وقت ایک طرف تھے اور سارے صحابہ ایک طرف۔ سب کی رائے یہ تھی کہ لشکر روانہ نہ کیا جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہی کیا جو ان کے شایان شان تھا۔ یہ ہے اسلامی خلافت، کہ ساری دنیا بھی مخالفت میں ووٹ دے تب بھی حق حق ہی رہتا ہے اور اکثریتی رائے غلط چیز کو درست نہیں بنا دیتی۔ نیز یہ کہ خلافت میں مشورہ لیا جاتا ہے لیکن فیصلہ کن حیثیت قرآن و حدیث کو حاصل ہوتی ہے۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ''اسلامی جمہوریت'' کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ جب صحابہ کی اکثریتی رائے کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں رد کر دیا تھا تو بڑا المیہ ہو گا کہ ہم شرعی قانون سازی کے لیے ان لوگوں پر اعتماد کر لیں جو قرآن و حدیث کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہیں اور جو گلی محلے کی سطح پر کرپشن کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ ہمارے وفاقی وزیرِ تعلیم نے ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ قرآن کے چالیس پارے ہیں۔
اسلامی جماعتیں اور جمہوریت
بعض مذہبی جماعتیں جمہوری جدوجہد میں شامل ہوئیں تو انہوں نے اپنا نقطہ نظر یہ کہہ کر بیان کیا کہ "ہم کمتر برائی کو اختیار کر رہے ہیں" لیکن وقت گواہ ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلامی جماعتیں کامیاب ہو بھی جائیں تو جمہوریت کے بانی انہیں حکومت بنانے یا چلانے کی اجازت نہیں دیتے۔ الجزائر کے1991 کے الیکشن اس بات کے گواہ ہیں جہاں پہلے مرحلے میں اسلامی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی تو مغربی آقاؤں کے اشارے پر چلنے والی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا، منتخب صدر کو گھر بھیجا، اسلامی جماعتوں پر پابندی لگا دی اور الیکشن کے دوسرے مرحلے کو کینسل کر دیا۔ اس سے ملتے جلتے حالات مصر میں پیش آئے۔ اخوان المسلمون نے اپنی دعوت اتنے زبردست انداز میں پیش کی تھی کہ دو سالوں میں ان کے ارکان کی تعداد ۲۵ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن حسن البنا کو قتل کر دیا گیا، جماعت کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ مصری معاشرے میں آج بھی اخوان کے حامیوں کی واضح اکثریت ہے لیکن جمال عبد الناصر کے فوجی انقلاب کے بعد سے ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ دورکیوں جاتے ہیں، آپ کے سامنے حماس کی مثال ہے۔ دو سال بھی نہیں ہوئے کہ انہوں نے الیکشن میں بھرپور اکثریت حاصل کی تھی۔ وہ سارے ممالک جو اس سے پہلے جمہوریت جمہوریت پٹاختے تھے انہوں نے حماس کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، فلسطین کو ملنے والی امداد بالکل بند کر دی گئی یہاں تک کہ فلسطینی حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کےلیے بھی رقم نہ تھی۔ حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ حماس کو حکومت چھوڑتے ہی بنی۔
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
ملوکیت اور قرآن
قرآن کریم سے شغف رکھنے والا کوئی شخص جب ملوکیت پر طعن کرتا ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔جمہوریت کا تو لفظ تک قرآن کریم میں نہیں لیکن مبنی بر عدل ملوکیت قرآنی نظر میں اتنی راندہ درگاہ نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں پیش کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ داؤد علیہ السلام پر اپنی نعمتیں گنواتے ہوئے فرماتے ہیں۔فاروق سرور خان نے کہا:صاحبو، دوستو، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے قران کے اس جمہوری نظام کو ترک کردیا اور صفحوں کے صفحے ملوکیت یعنی بادشاہت پر لکھ ڈالے۔
و قتل داؤد جالوت و ءا تٰہ اللہ الملک الحکمۃ (البقرۃ ۔251)
“اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں بادشاہت اور حکمت سے نوازا”
موسٰی علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکا (المائدۃ 20)
“اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جب اس نے تم میں نبی بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا”
سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بادشاہت کی دعا کرتے ہیں:
قال رب اغفرلی و ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی انک انت الوھاب (ص۔35)
“(سلیمان علیہ السلام نے کہا) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے” (ترجمہ سید مودودی)
امرھم شورٰی بینھم کا نفاذ عادل بادشاہ بھی کر سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کا مصداق ان کرپٹ لوگوں ہی کو قرار دیا جائے جو قوم کا خون چوسنے کے بعد اس کی ہڈیاں نوچنے پر بھی تلے بیٹھے ہیں۔
ایک حیرت انگیز انقلاب؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کا وعدہ تمام نبیوں سے لیا جاتا رہا ہے۔ زبانی ایمان ہی کا نہیں عملی مدد و نصرت کا وعدہ۔ سورۃ آل عمران میں آیت 81 فرمایا:فاروق سرور خان نے کہا:رسول کریم کی وفات کے بعد حکومت خاندانوںمیں منتقل ہونے میں 100 سال بھی نہیں لگے۔ قرآن کے ان آسان اور سادہ احکامات کو مکمل طور پر چھپا دیا گیا اور عام کردیا گیا کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بنیادی مقصد یہ رہا کہ عوام اس عظیم کتاب کو روشنی نہ حاصل کریں
و اذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اٰ تیتکم من کتٰب و حکمۃ ثم جاءکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ و لتنصرنہ۔ ۔
“اور (یاد کرو) جب لیا تھا اللہ نے عہد، نبیوں سے کہ یہ جو عطا کی ہے میں نے تم کو کتاب و حکمت (اس احسان کا تقاضایہ ہے کہ) پھر جب آئے تمہارے پاس ایک عظیم رسول تصدیق کرتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اور بہر حال ایمان لاؤ گے اس پر اور مدد کرو گے اس کی۔ ارشاد ہوا! کیا اقرار کرتے ہو تم اور کرتے ہو ان شرائط پر مجھ سے عہد؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا! سو گواہ رہو تم اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔”
عیسیٰ علیہ السلام کے مقاصد بعثت میں سے ایک نبی آخر الزماں کی آمد کی خوشخبری سنانا بھی تھا۔ قرآن کریم ان کا قول یوں بیان کرتا ہے:
و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (الصف)
“اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہو گا”
جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا، اللہ تعالیٰ ان سے خلافت ارضی کا وعدہ فرمایا:
وعد اللہ الذین ءامنوا منکم و عملوا الصٰلحٰت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ۔ ۔ ۔ (النور)
“جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے عمل صالح کیے اللہ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا فرما چکا ہے”
ان قرآنی ریفرنسز کی روشنی میں دیکھیے، کیسی عظیم غلط فہمی ہے کہ جس نبی کی آمد کا صدیوں قرنوں سے اعلان کیا جاتا رہا، اس پر ایمان و نصرت کے وعدے لیے جاتے رہے، دنیا کو خوشخبری سنائی جاتی رہی کہ وہ ان سے “اصر” اور “اغلال” ہٹائے گا (الاعراف)، جس کے ساتھیوں سے خلافت کے وعدے ہوتے رہے، سو برس بھی کامل نہ گزرے تھے کہ اس کے احکامات کو چھپا دیا گیا اور اس کا پورا دین تبدیل ہو گیا یہاں تک کہ مغرب میں جمہوریت کی نشاۃ ہوئی اور اسے دیکھ کر قرآن کے اصل احکامات منکشف ہونا شروع ہوئے۔
سو سال کے اندر عرب اپنی زبان سے اس قدر ناواقف نہ ہو گئے تھے کہ قرآن کے “آسان اور سادہ” احکامات کو چھپا دیا جاتا۔ قرآن گھر گھر میں موجود تھا، مساجد میں پڑھا جاتا تھا، نمازوں میں تلاوت کیا جاتا تھا اور سننے والے اس کا مطلب بلاتکلف سمجھتے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عوام کو اس عظیم روشنی سے فیض یاب ہونے سے روک دیا گیا تھا خیالی تاویلوں کی بجائے ٹھوس ثبوت کا محتاج ہے۔
اس وقت کے بادشاہوں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے دور کو دیکھ لیجیے۔ جمہوری تماشے کی پیداوار کتنے حکمران ایسے ہیں جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہو؟ وہ ایک بادشاہ ہی تو تھا جس نے دنیا کا سب سے بڑا “قرآن پرنٹنگ پریس” قائم کیا۔ تنقید کرنے والے سعودی حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں اور سچ ہے کہ بعض معاملات میں اصلاح کی گنجائش ہے لیکن قرآنی تعلیمات کو عام کرنے میں “شاہ فہد قرآن کمپلیکس” کا کردار بے مثال ہے۔ شاہ فہد نے دنیا کے مختلف خطوں میں قرآن کریم کے لاکھوں نسخے مفت تقسیم کرائے۔ اردو، انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، بنگالی، کیرالہ، پشتو، فارسی، انڈونیشی سمیت دنیا کی شاید ہی کوئی مشہور زبان ہو جس میں اس کمپلیکس نے ترجمہ اور تفسیر شائع نہ کیا ہو۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں میں قرآنی تراجم اور تفاسیر کی بے مثال فراہمی ان کا سنہرا کارنامہ ہے۔ مغربی ممالک میں چلنے اسلامک سنٹرز کو انگریزی اور دوسری متعلقہ زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں ترجمہ و تفسیر فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بادشاہ کا شروع کیا ہوا کام تھا جسے ایک دوسرا بادشاہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلے پر دنیا کے ساری جمہوری حکمرانوں کی کاوشوں کو جمع کر لیجیے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اس دعوے میں کتنا زور ہے کہ بادشاہت فی نفسہ٘ قرآنی دعوت میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔