شمشاد
لائبریرین
ایک وقت آتا ہے کہ کوئلہ بھی ہیرا بن جاتا ہے۔کوئلہ تو کوئلہ ہی رہتا ہے چاہے وہ ہیرے کے ساتھ ہی کیوں نہ رہے۔
ایک وقت آتا ہے کہ کوئلہ بھی ہیرا بن جاتا ہے۔کوئلہ تو کوئلہ ہی رہتا ہے چاہے وہ ہیرے کے ساتھ ہی کیوں نہ رہے۔
ایک وقت آتا ہے کہ کوئلہ بھی ہیرا بن جاتا ہے۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
میں کروں تیری طرح تجھ پر ستمویسے فلک شیر بھائی ! یہ اچھا طریقہ ہے پہلے تو لوگ دو دو ہفتوں کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر آ کر تلاشِ گمشدہ کا اشتہار لگا دیتے ہیں۔
اگوں یعنی آگے کی طرفاس کے لیے پنجابی میں محاورہ استعمال ہوتا ہے "اگوں ہو کے پینا"
یعنی اپنا قصور چھپانے کے لیے کوتوال پہ چڑھائی کرنا۔
ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ صادق آباد میں کون سی الف لیلہ چل رہی ہے کہ پانچ منت محفل پہ تشریف نہیں لا سکے ۔
بھگوان بخشے کشور مرحوم گاتے تھے۔۔۔ "اپنے ہی گراتے ہی نشیمن پہ بجلیاں"احمد بھائی بالکل ٹھیک کہا آپ نے
آپ بھی ان کے لیے ذرا مصالحے دار سا اشتہار بنائیں۔۔آئے بڑے
مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیںارے اب میں اتنے مصالحے کہاں سے لاؤں۔۔۔ ! نین بھائی تو "اُستاد" ہیں اس کام میں۔
شکریہ عمر سیف بھائیاچھا لکھا نیرنگ ۔۔ گُڈ
یادداشت پر اثر ہوگیا ہے بٹیا کی۔۔۔شتونگڑے بھیا
میں تو معصوم ہوں
میں کروں تیری طرح تجھ پر ستم
اے ستم ایجاد! کیوں کیسی کہی
اگوں یعنی آگے کی طرف
پینا یعنی پانی پینا وغیرہ
پنجاب میں نلکے عام لگے ہوتے تھے۔۔۔ اور لوگ آگے کو ہو کر جھک کر دونوں ہاتھوں کا چلّو بنا کر پانی پیا کرتے تھے۔ تو اس حالت کو کہا جاتا تھا اگوں ہو کر پینا۔۔۔ یہی طریقہ مٹکے سے پانی پینے میں بھی رائج تھا۔ کہ اسکوروں کا استعمال عام نہ تھا۔ لیکن ذرا چیمہ صاحب کی الفاظ گری دیکھیے۔۔ کہ کس طرح بات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر کے اپنا ہی مطلب نکالا ہے۔۔ بقول داغ ؔ
تمہاری تحریر میں ہے پہلو ، تمہاری تقریر میں ہے جادو
پھنسے نہ کس طرح دل ہمارا جہاں ہوں یہ پیچ دار باتیں
بھگوان بخشے کشور مرحوم گاتے تھے۔۔۔ "اپنے ہی گراتے ہی نشیمن پہ بجلیاں"
مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بھلا کیا اعتبار تونے، ہزار منہ ہیں ہزار باتیں
شکریہ عمر سیف بھائی
انا للہ وانا الیہ راجعون۔بھگوان بخشے کشور مرحوم گاتے تھے۔۔۔ "اپنے ہی گراتے ہی نشیمن پہ بجلیاں"
اس کے لیے پنجابی میں محاورہ استعمال ہوتا ہے "اگوں ہو کے پینا"
یعنی اپنا قصور چھپانے کے لیے کوتوال پہ چڑھائی کرنا۔
ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ صادق آباد میں کون سی الف لیلہ چل رہی ہے کہ پانچ منت محفل پہ تشریف نہیں لا سکے ۔
یہاں پینا سے مراد مشروب وغیرہ "پی نا" نہیں ہے بلکہ "پے نا"ہے یعنی حملہ کرنا، چڑھائی کرنااگوں یعنی آگے کی طرف
پینا یعنی پانی پینا وغیرہ
پنجاب میں نلکے عام لگے ہوتے تھے۔۔۔ اور لوگ آگے کو ہو کر جھک کر دونوں ہاتھوں کا چلّو بنا کر پانی پیا کرتے تھے۔ تو اس حالت کو کہا جاتا تھا اگوں ہو کر پینا۔۔۔ یہی طریقہ مٹکے سے پانی پینے میں بھی رائج تھا۔ کہ اسکوروں کا استعمال عام نہ تھا۔ لیکن ذرا چیمہ صاحب کی الفاظ گری دیکھیے۔۔ کہ کس طرح بات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر کے اپنا ہی مطلب نکالا ہے۔۔ بقول داغ ؔ
تمہاری تحریر میں ہے پہلو ، تمہاری تقریر میں ہے جادو
پھنسے نہ کس طرح دل ہمارا جہاں ہوں یہ پیچ دار باتیں
انہیں سب پتا ہے۔ ویسے ذرا شاپر کروا رہے ہیں غیر پنجابی خواں حضرات کو۔یہاں پینا سے مراد مشروب وغیرہ "پی نا" نہیں ہے بلکہ "پے نا"ہے یعنی حملہ کرنا، چڑھائی کرنا
یہ جملے پہ کہا ہے گڈی پتر یا کشور کے لیےانا للہ وانا الیہ راجعون۔
جو مرحوم ہوگئے ہیں ان کے لیے کہا ناں بھیایہ جملے پہ کہا ہے گڈی پتر یا کشور کے لیے
ہمیں بھی تو ہر دو اطراف سے مارا جا رہا ہے۔۔۔واہ بھئی۔۔۔ ۔!
آج تو کلاسیکی شاعری کی مار ماری جارہی ہے۔
معذرت خواہ ہوں پنجابی سے ناآشنائی اس کا سبب بنی۔۔۔یہاں پینا سے مراد مشروب وغیرہ "پی نا" نہیں ہے بلکہ "پے نا"ہے یعنی حملہ کرنا، چڑھائی کرنا
ہمیں بھی تو ہر دو اطراف سے مارا جا رہا ہے۔۔۔
چومکھی کیا سورج مکھی کی کوئی قسم ہے۔۔۔ہر دو اطراف سے مارنے والے شاید جانتے نہیں کہ جناب چو مُکھی لڑائی سے بھی نہیں گھبراتے اور سُرخ رو ہو کر ہی واپس لوٹتے ہیں۔
ہم کوئی "حکومت آپا" ہیں جو ہمیں سب پتا ہے۔۔۔انہیں سب پتا ہے۔ ویسے ذرا شاپر کروا رہے ہیں غیر پنجابی خواں حضرات کو۔
چومکھی کیا سورج مکھی کی کوئی قسم ہے۔۔۔
استغفراللہ..............معذرت خواہ ہوں پنجابی سے ناآشنائی اس کا سبب بنی۔۔۔
نہیں آپ ننے ہیں، جو رضیہ کو سبق سنا رہا ہےہم کوئی "حکومت آپا" ہیں جو ہمیں سب پتا ہے۔۔۔