ہمارا ایک شعر آپ کی خدمتِ عالیہ میں پیش ہے:
مت ڈرا شورِ حشر سے ناصح
روز میرے مکاں سے اٹھتا ہے
حکمِ "کُنْ" اس دہاں سے اٹھتا ہے
آفرینش کی "ہاں" سے اٹھتا ہے
نوحہ کیسا مکاں سے اٹھتا ہے
عالمِ بے کراں سے اٹھتا ہے
شعر کنجِ دہاں سے اٹھتا ہے
صورتِ آہ جاں سے اٹھتا ہے
عشق آتش بجھی تو سوچیں گے
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
ہائے کیا ہو گی بزم کی تنہائی
شخص اک درمیاں سے اٹھتا ہے
مت ڈرا شورِ حشر سے ناصح
روز میرے مکاں سے اٹھتا ہے
واعظا! نفرتوں کا اک بھبکا
کیوں ترے ہر بیاں سے اٹھتا ہے
آج زندہ دلی کا لاشہ بھی
شہرِ زندہ دلاں سے اٹھتا ہے
حسن پر نام تک نہیں آیا
عشق لیکن جہاں سے اٹھتا ہے
شاید ہو رفتگاں کی گردِ ملال
ابر سا کارواں سے اٹھتا ہے
عشق کے کاروبار پر صد حیف
جی یہ سود و زیاں سے اٹھتا ہے
کیا مسیحا اٹھا ہے پہلو سے
درد اک جسم و جاں سے اٹھتا ہے
بارِ ایقان بر وفائے دوست
کب کسی بد گماں سے اٹھتا ہے
کیا عجب عہد ہے کہ نشّہ تک
دستِ پیرِ مغاں سے اٹھتا ہے
لطف بوسے کا پوچھتے کیا ہو
لب و نطق و زباں سے اٹھتا ہے
چشمِ ساقی ہے کائنات فشاں
پردہ سِرِّ نہاں سے اٹھتا ہے
کیوں سدا شورِ طعنہ و دشنام
حجرۂ دوستاں سے اٹھتا ہے
غلغلہ میری حسرتوں پہ محیط
سینۂ رازداں سے اٹھتا ہے
رختِ ہستی ہے اور سفر میں فقیر
ساز و برگ آسماں سے اٹھتا ہے
متصل روح و جسم تجھ سے تھے
ربط اب درمیاں سے اٹھتا ہے
چپ اے گستاخ! مستِ خواب زماں
تیرے شورِ فغاں سے اٹھتا ہے
پند گر! جشن ہو کہ آج بشیرؔ
بزمِ آوارگاں سے اٹھتا ہے
(فاتح الدین بشیرؔ)