اس لیے یہ ساری اسٹوری مجھے قائل کرنے میں ناکام رہی۔
کلی طور پر متفق ۔
امجد صاحب، آپ کی سوچ اکثربہت منطقی ہوتی ہے اور دلائل قابلِ تسلیم۔ جزاک اللہ!
اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے، سوچا یہاں شئیر کر لوں۔
اردو کتب کے مطالعہ کے شائق خو اتین و حضرات کے علم میں یہ بات ضرورہو گی کہ برصٖغیر میں اردو کتابوں کی طباعت کے آغاز کے دور (انیسویں صدی) میں لکھنؤ میں واقع لیتھو پر چھپائی کرنے والےنوول کشور پریس نامی ایک چھاپہ خانےکا بڑا نام تھا۔ اس ادارے نے اردو زبان میں ادبی، دینی، تاریخی اور ہر نوعیت کی بے شمار کتب چھاپی تھیں۔جن میں سے مقبولیت کے لحاظ سے کافی کتابیں تو بعد میں کئی مرتبہ چھپیں لیکن بعض مرورزمانہ کے ساتھ ناپید ہو گئیں۔
خیر، موضوع سے ہٹے بغیر عر ض کرتا ہوں کہ میں نے نوول کشور پریس کے بارے کافی عرصہ پہلے ،غالباً کسی اخباری کالم میں، کہیں پڑھا تھا (حوالہ دینے سے معذور ہوں کیونکہ بہت پُرانی بات ہے) کہ قرانی آیات پر مشتمل اسلامی کتب کی چھپائی کے دوران اس پریس کے مالک منشی نوول کشور بہ نفس نفیس کپڑے کا ایک تھیلا اپنی پُشت پر لٹکائے مشینوں کے آس پاس رہا کرتے تھے اور چھپائی کے دوران ناکارہ ہوجانے والے کاغذات کو خود اٹھا کر اس تھیلے میں ڈالتے جاتے تھے تاکہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔ بعد میں انہیں مناسب طریقے سے dispose off کر دیتے تھے۔
اگر ایک ہندو کے دل میں ان مقدس اوراق کا اتنا احترام موجود تھا تو ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے،بالکل یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی مسلمان (چاہے اس کا تعلق کسی مسلک سے بھی ہو) کلام اللہ کی بے حرمتی کے بارے میں دیدہ و دانستہ سوچ بھی سکتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اوراق مقدسہ کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نایاب راشد اشرف,
قیصرانی,
سید شہزاد ناصر,
فرحت کیانی,
حسان خان,
فلک شیر,
نیرنگ خیال,
الف نظامی,