قیصرانی
لائبریرین
وزیر یا پھر گورنر؟یا جہاں ایک وزیر خود محض توہین رسالت کے الزام میں پھنس کر اپنے ہی باڈی گارڈ کے ہاتھوں مارا جائے
وزیر یا پھر گورنر؟یا جہاں ایک وزیر خود محض توہین رسالت کے الزام میں پھنس کر اپنے ہی باڈی گارڈ کے ہاتھوں مارا جائے
بنو قریظہ سے یاد آیا کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے اب کس قوم کے مردوں کا سر قلم کیا جائے؟سورہ مبارکہ میں تین مضامین ہیں غزوہ احزاب ، غزوہ بنی قریظہ اور حضور پاک ﷺ کا حضرت زینب سے نکاح
اس بارے تو مجھے حیرت ہے کہ میرا اپنا کزن اسی طرح کے ایک مدرسے میں پڑھتا تھا اور ہر وقت اٹھتے بیٹھے تعریفیں ہوتی تھیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ کون کون سے مضامین پڑھ رہے ہو تو جتنا اصرار کیا، ایک بار بھی جواب نہیں ملاگلی گلی کھلے مدرسوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے کون پڑھا رہا ہے کوئی نہیں جانتا کوئی ریگولیٹینگ باڈی نہیں ہے ان مدرسوں کے پاس سرمایہ کہاں سے آتا ہے ؟
کراچی سے ملنے والی بچیوں کے بارے میں پولیس کا بیان دیکھا تھا آپ نے نجانے کسے بچانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی مگر سوشل میڈیا کے ہاتھ خبر آجانے سے مجبور ہوکر تھوڑی بہت تحقیق اور جھوٹی تفتیش کر کے سب ختم
کوئی بتائے مجھے اتنی کم عمر معصوم بچیاں اپنی ماں کی گود سے زیادہ کس مدرسے سے سیکھ سکتی ہیں اور مدرسے کے نام پر اس ادارے کا اصل مقصد کیا تھا ؟
یہی تو بدقسمتی ہے کہ ہم نے " منافقین " کے حکم میں " نان مسلم اور مشرکین " کو بلاتخصیص شامل کر رکھا ہے ۔اس رو سے تو تمام مشرکین واجب القتل ہوئے
میری بات کا جواب نہیں ہے آپ کے پاسکعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا
فتح مکہ کے موقع پر قتل کئے جانے والے افراد منافق نہیں مشرک تھے ۔
آیات کے لئے نہیں اُن لوگوں کے لئے تھیں جو حضور ﷺ کو ایذا پہنچاتے تھے ان میں مشرکین بھی شامل تھے ۔ کیونکہ پراپیگنڈا مدینہ کے یہودیوں اور مکہ کے مشرکین کی ملی بھگت سے ہی تیار کیا جاتا تھا
اس لئے پہلے تنبیہ اور پھر قتل کا حکم آیا
مدینہ سے یہودیوں کو بے دخل کیا گیا۔
آیت نمر 60 کا ترجمہ ہے
اگر باز نہ آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ لوگ جو ہیجان خیز افواہیں پھیلاتے ہیں مدینہ میں تو ضرور اکٹھا کریں گے ہم تمہیں ان کے خلاف پھر نہ رہیں گے وہ تمہارے ساتھ مدینہ میں مگر تھوڑے دن
اس میں تین قسم کے افراد کا ذکر ہے
منافق
دلوں میں روگ رکھنے والے
اور افواہ ساز
آپ صرف منافق کو لے کر بیٹھ جائیں
یہ جس مذہب کے پیروکار ہیں، ان سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر ابھی ان سے عمران خان کے لو افیئرز کے بارے فتویٰ یا قرآن کی آیت کے مطابق اسلامی سزا کا پوچھ لیں تو دیکھیئے کہ کیسے ان کے ہوش اڑتے ہیں اور پوسٹس کو ڈس لائک کرنا شروع ہو جائے گا۔ ان کا مذہب ان کی ذاتی پسند نا پسند کے مطابق ہوتا ہے۔ جہاں فساد ڈالنا ہوگا، یہ لوگ فوراً سیاق و سباق کے بغیر قرآن اور حدیث کے انبار اٹھا کر پہنچ جائیں گے۔ جہاں اپنے مفاد پر زک پڑتی ہوگی، وہاں سے غائب ہوتا دیکھئےاگر ہم ہر غیر مسلم کا سر قلم کرنے پر ہی یقین رکھتے ہیں تو پھر امن کا نعرہ کیوں ؟
اس وقت شناخت کا ایک طریقہ بھی اپنایا گیا تھا کہ کون "مرد" کہلائے گا۔ اس بارے کون سی حدیث وضاحت کرتی ہے، شاید کوئی شیئر کر دےبنو قریظہ سے یاد آیا کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے اب کس قوم کے مردوں کا سر قلم کیا جائے؟
ہم ہر غیر مسلم کا سر قلم کرنے پر یقین نہیں رکھتے ۔ ایک مسلمان ملک میں رہنے والے غیر مسلم افراد کو توہین رسالت کے قانون کا پاس رکھنا چاہیئے۔ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا ۔ قانون کی زد میں آئے گا۔اگر ہم ہر غیر مسلم کا سر قلم کرنے پر ہی یقین رکھتے ہیں تو پھر امن کا نعرہ کیوں ؟
دھیان سے نایاب بھائیابو سفیان ابوجہل وحشی آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایذا اور تکلیف پہنچانے میں کسی مشرک سے کم تھے ۔
ابوجہل جنگ میں مرا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی کسی کو سزا ملی ۔۔۔؟
میری محترم بہنادھیان سے نایاب بھائی
اگر نئے اسلام میں ان کا نام صحابہ کی لسٹ میں شامل ہوا تو آپ خوامخواہ دھر لئے جائیں گے
کیا ابو لہب کو بھی قتل کیا گیا تھا ۔ جس نے آپ کے بارے گستاخانہ ترین کلمات کہے ۔ جس کی " بد زبانی اور ہرزہ سرائی " کے جواب میں اللہ کی جانب سے " سورہ الہب اور سورہ الکوثر " نازل ہوئیں ۔۔۔۔۔؟جن افرد کو قتل کیا گیا انھوں نے اپنی زبان سے ایسے الفاظ ادا کیے جو توہین رسالت میں آتے تھے۔
ابو لہب معرکہ بدر میں شریک نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب وہاں سے شکست کی خبر مکہ پہنچی اور سفید چوغوں والوں کا ذکر ہوا جو آسمان سے زمین کے درمیاں سواری کر رہے تھے تو وہاں موجود ایک آزاد ہوئے مسلمان غلام نے سن کر کہا کہ وہ فرشتے تھے۔ اس بات پر ابو لہب نے اس کو پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ ماجرا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہُ کی زوجہ لبابہ رضی اللہ تعالی عنہَ کے سامنے پیش آیا۔ انھوں نے اسی وقت خیمے کو سہارنے والے ایک ڈنڈے سے ابو لہب کی پٹائی شروع کر دی۔۔جس سے اس کا سر کھل گیا اور وہ ایک ہفتے بعد موت کا شکار ہو گیا۔کیا ابو لہب کو بھی قتل کیا گیا تھا ۔ جس نے آپ کے بارے گستاخانہ ترین کلمات کہے ۔ جس کی " بد زبانی اور ہرزہ سرائی " کے جواب میں اللہ کی جانب سے " سورہ الہب اور سورہ الکوثر " نازل ہوئیں ۔۔۔۔۔؟
وہ تو قتل نہ ہوا اس سبب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
مفروضہیقیناً ابولہب بھی قتل کیا جاتا اگر وہ فتح مکہ کے موقع پر زندہ ہوتا
بلکل مفروضہ۔۔۔
کعب کے قتل پر لمبی بات ہو سکتی ہے کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا۔ مگر میں اس بات کا قائل ہوں کہ مذہب وہی ہے جو اس کے پیروکار کہتے اور کرتے ہیں۔ چونکہ آج کے مسلمان توہین اور دوسری وجوہات کی بنا پر قتل و غارت کے شوقین ہیں تو میرے نزدیک یہی اسلام ہے۔سورہ احزاب کی آیات 60-62
0. اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے، اور (اسی طرح) مدینہ میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والے لوگ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء رسانی سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر ضرور مسلّط کر دیں گے پھر وہ مدینہ میں آپ کے پڑوس میں نہ ٹھہر سکیں گے مگر تھوڑے (دن)o
61. (یہ) لعنت کیے ہوئے (جنگ جُو، دہشت گرد، فسادی اور ریاست کے خلاف باغیانہ سازشوں میں ملوث) لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، گرفتار کر لیے جائیں اور ایک ایک کو (نشان عبرت بناتے ہوئے ان کی باغیانہ کارروائیوں کی سزا کے طور پر) قتل کر دیا جائے (تاکہ امن کو لاحق خطرات کا صفایا ہو جائے)o
62. اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گےo
صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :
”کون ہے جو کعب بن اشرف یہودی سے نبٹے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ” ایذا“ دی ہے۔“ (بخاری)
صحیح بخاری -> کتاب المغازی
باب : کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصہ
اس پر تفصیلی نوٹ مقدمۃ البخاری پارہ12میں گزر چکا ہے ۔ مختصر یہ کہ بڑا سرمایہ دار یہودی تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو کیا کرتا اور قریش کے کفار کو مسلمانوں کے خلاف ابھار تا ۔ اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً ماہ ربیع الاول سنہ3ھ میں یہ قدم اٹھایا گیا فَقُطِعَ دَابِرُ القَومِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ( الانعام : 45 )
حدیث نمبر : 4037
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله ۔ رضى الله عنهما ۔ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله ". فقام محمد بن مسلمة فقال يا رسول الله أتحب أن أقتله قال " نعم ". قال فأذن لي أن أقول شيئا. قال " قل ". فأتاه محمد بن مسلمة فقال إن هذا الرجل قد سألنا صدقة، وإنه قد عنانا، وإني قد أتيتك أستسلفك. قال وأيضا والله لتملنه قال إنا قد اتبعناه فلا نحب أن ندعه حتى ننظر إلى أى شىء يصير شأنه، وقد أردنا أن تسلفنا وسقا، أو وسقين ۔ وحدثنا عمرو غير مرة، فلم يذكر وسقا أو وسقين أو فقلت له فيه وسقا أو وسقين فقال أرى فيه وسقا أو وسقين ۔ فقال نعم ارهنوني. قالوا أى شىء تريد قال فارهنوني نساءكم. قالوا كيف نرهنك نساءنا وأنت أجمل العرب قال فارهنوني أبناءكم. قالوا كيف نرهنك أبناءنا فيسب أحدهم، فيقال رهن بوسق أو وسقين. هذا عار علينا، ولكنا نرهنك اللأمة ۔ قال سفيان يعني السلاح ۔ فواعده أن يأتيه، فجاءه ليلا ومعه أبو نائلة وهو أخو كعب من الرضاعة، فدعاهم إلى الحصن، فنزل إليهم فقالت له امرأته أين تخرج هذه الساعة فقال إنما هو محمد بن مسلمة، وأخي أبو نائلة ۔ وقال غير عمرو قالت أسمع صوتا كأنه يقطر منه الدم. قال إنما هو أخي محمد بن مسلمة ورضيعي أبو نائلة ۔ إن الكريم لو دعي إلى طعنة بليل لأجاب قال ويدخل محمد بن مسلمة معه رجلين ۔ قيل لسفيان سماهم عمرو قال سمى بعضهم قال عمرو جاء معه برجلين وقال غير عمرو أبو عبس بن جبر، والحارث بن أوس وعباد بن بشر قال عمرو وجاء معه برجلين ۔ فقال إذا ما جاء فإني قائل بشعره فأشمه، فإذا رأيتموني استمكنت من رأسه فدونكم فاضربوه. وقال مرة ثم أشمكم. فنزل إليهم متوشحا وهو ينفح منه ريح الطيب، فقال ما رأيت كاليوم ريحا ۔ أى أطيب ۔ وقال غير عمرو قال عندي أعطر نساء العرب وأكمل العرب قال عمرو فقال أتأذن لي أن أشم رأسك قال نعم، فشمه، ثم أشم أصحابه ثم قال أتأذن لي قال نعم. فلما استمكن منه قال دونكم. فقتلوه ثم أتوا النبي صلى الله عليه وسلم فأخبروه.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کعب بن اشرف کا کا م کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے ۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آ پ نے فرمایا ، ہاں مجھ کو یہ پسند ہے ۔ انہوں نے عرض کیا ، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی ۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا ، یہ شخص ( اشارہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے ۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ اس پر کعب نے کہا ، ابھی آگے دیکھنا ، خدا کی قسم ! بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کرلی ہے ۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں ۔ تم سے ایک وسق یا ( راوی نے بیان کیا کہ ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں ۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے ؟ انہوں نے کہاکہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے ۔ کعب بن اشرف نے کہا ، ہاں ، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو ۔ انہوں نے پوچھا ، گروی میں تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا ، اپنی عورتوں کو رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو ۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ اس نے کہا ، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا ، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا ، یہ تو بڑی بے غیرتی ہوگی ۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ” لامہ “ گروی رکھ سکتے ہیں ۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے ۔ ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جاکر انہوں نے آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت ( اتنی رات گئے ) کہاں باہر جارہے ہو ؟ اس نے کہا ، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابو نائلہ ہے ۔ عمرو کے سوا ( دوسرے راوی ) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو ۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہیں ۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے ۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا ۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا ( راوی نے ) ابو عبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے ۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لا ئے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے ( سر کے ) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جا ئے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہوجانا اور اسے قتل کر ڈالنا ۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا ۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی ۔ عمرو کے سوا ( دوسرے راوی ) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا ، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن وجمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے ؟ اس نے کہا ، سونگھ سکتے ہو ۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا ۔ پھر انہوں نے کہا ، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلا ع دی ۔
تشریح : کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے ۔ پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس ۔ ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں ۔ آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیع تک ان کے ساتھ آئے ۔ چاندنی رات تھی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔
کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا ۔ اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی ۔ قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھاکہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرا دے ۔ فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل علیہ السلام، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے ۔ اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ختم کر نے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا ۔ مگر اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا ۔ بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : روی ابو داود والترمذی من طریق الزھری عن عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک عن ابیہ ان کعب بن الاشرف کان شاعرا یھجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویحرض علیہ کفار قریش وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدینہ واھلھا اخلاط فاراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استصلاحھم وکان الیہود والمشرکون یوذون المسلمین اشد الاذی فامر اللہ رسولہ والمسلمین بالصبر فلما ابی بن کعب ان ینزع عن اذاہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ ان یبعث رھطا لیقتلوہ وذکر ابن سعدان قتلہ کان فی ربیع الاول من السنۃ الثالثۃ ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا ۔ یہودی اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے ۔ پس اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا ۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے ۔ ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا ۔