ماہی احمد
لائبریرین
اس نے ایک بار اپنے سامنے کھلی ڈائری کے صفحوں پر نظر دوڑائی۔ چند بے ربط جملے، کچھ الفاظ اور بس۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ وہ جتنے لفظ مٹھی میں بھر کر بکھیرتی جاتی تھی سب کے سب سطحِ قرطاس پر مردہ مچھلیوں کی طرح تیرنے لگتے تھے۔ یوں جیسے کوئی جان ہی نہ ہو ان میں۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ ایک ماہ میں اس کی چار تحاریر ایک معروف رسالے کی زینت بن چکی تھیں۔ اور صرف ان چار تحاریر نے اس کو شہرت کی بلندیوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ وہاں جہاں سے باقی تمام دنیا کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں محسوس ہوتی تھی۔ اس کے لکھے گئے الفاظ کی قیمت لگتی تھی۔ اور اتنی قیمت کے اس نے اپنی گزری میں زندگی میں کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو۔ پر یہ کیا ہوتا جا رہا تھا؟ اس کے لفظ کیوں اپنا وجود کھوتے جا رہے تھے؟ اس سے پہلے تو وہ جب بھی لکھتی تھی تمام الفاظ اندھیروں میں ایسے جگماگتے تھے کہ رات میں دن ہو جائے، اور اب۔ کمرے میں لگے اس بلب کی روشنی میں وہ دوبارہ ڈائری کو گھورنے لگی۔
"یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ غلط ہے۔ میں بات کروں گی۔" اس نے سوچا۔
"پر کوئی خیال بھی تو ہو۔ کوئی خیال بھی تو نہیں۔" اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔ دو دن میں اسے کہانی کی اگلی قسط لکھ کر بھیجنی تھی۔ اور حال یہ تھا کہ وہ ایک لفظ لکھنے کے قابل نہیں تھی۔ کہانی کا پلاٹ، اس میں کرداروں حال حلیہ اور "مرچ مسالے" کی تفصیل سے اسے گاہے گاہے آگاہ کیا جا رہا تھا۔ سو اس کو صرف اپنے قلم کو حرکت دینی تھی اور الفاظ کی مالا پرونی تھی۔ مگر یہ کیا آفت آگئ تھی آخر۔ وہ کیوں نہیں لکھ پا رہی تھی؟
اس نے ڈائری کو یوں ہی کھلا چھوڑا اور خود بلب بجھا دیا۔ سوچوں کے بھنور میں گھومتے سر کو تکیے پر رکھتے ہی اسے لگا آج اندھیرا کچھ زیادہ ہی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ آج تو اس کی ڈائری کے صفحے بھی سیاہ تھے۔ اس نے مڑ کر ساتھ کے بستر پر دراز وجود کو دیکھنا چاہا۔ ہاں! روشنی تھی، روشنی اب ہوئی تھی۔ ایک بہت خوبصورت سی مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر رقصاں تھی۔ ماں کا چہرہ پر سکوں تھا۔ اسے حیرت ہوتی تھی۔ ان کے حالات ہرگز ایسے نہ تھے کوئی ایسی میٹھی نیند سو سکے۔ پر ماں کو دیکھ کر ہمشہ یوں ہی لگتا تھا جیسے اس نے اس زندگی میں کبھی کوئ دکھ دیکھنے کا ملا ہی نہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے نہیں۔
"اب تو میں اپنی تحریروں سے اتنا کماؤں گی کہ ماں کو کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ماں کے تمام دکھوں کا، تمام پریشانیوں کا مداوا ہو جائے گا" اس نے ماں کے چہرے پر ایک پیار بھری نگاہ ڈالتے ہوئے سوچا۔ "پر میں کیسے لکھوں؟ آج تیسرا دن ہے، اور میں ایک صفحہ بھی نہیں لکھ پائی" اس نے دوبارہ پریشانی سے سوچا۔ گردن موڑ کو چھت کو گھورنے لگی ۔"آج اندھیرا اتنا زیادہ کیوں ہے؟ پہلے تو ہمیشہ میری آنکھیں اندھیروں سے مانوس رہی ہیں۔ پھر آج کیوں ایسا ہو رہا ہے؟" سوالات کی لمبی فہرست تھی اور دل کی بےچینی۔ کمرے کی فضا میں گھٹن بڑھنے لگی تو وہ ڈائری اور قلم اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی "آج تو بات کرنی ہی پڑے گی"۔
کچے فرش پر ننگے پیر چلتے ہوئے وہ صحن میں آگئی۔ رات کا پہلا پہر تھا ابھی۔ مگر خاموشی کسی ملکہ کی طرح پورے گاؤں پر راج کر رہی تھی۔ جب وہ شہر میں تھی تو اس نے کبھی رات کو اتنا خاموش اور پر سکون نہ پایا تھا۔ مگر آج تو سارا سکون بھی رخصت تھا۔ دبے قدموں وہ آنگن کے ایک طرف بنی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ چھت پر پہنچ کر ہلکی خنک ہوا نے استقبال کیا۔ چھت کے اوپر ایک جانب چند ایک زینے یوں ہی بنے تھے۔ یہ اس کے بیٹھنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ یہاں سے ملاقات میں بھی آسانی تھی۔ اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ سارے گاؤں پر موت طاری تھی۔ کچھ کچے کچھ پکے گھروں کے پار گاؤں کے تینوں جانب ہرے بھرے کھیت تھے۔ اور چوتھی جانب ایک نہر جس کا پانی اس وقت سیاہ تھا۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ تاروں کی چال بتا رہی تھی ابھی ملاقات میں وقت تھا۔ گود میں دھری ڈائری اٹھا کر برابر میں رکھی اور گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے وہ سر گھٹنوں پر رکھے انتظار کرنے لگی۔ آج دل بہت بوجھل تھا۔ بہت بوجھل۔ آنکھیں جب برسنے پر آئیں تو اس نے چند ایک بار پلکوں کو جھپک کر نمکین پانیوں کے قطروں کو ڈپٹا۔ مگر آج تو ہر کوئی بیر باندھے بیٹھا تھا۔ چھاجوں چھاج مینہ برسنے لگا اور وہ اس میں بھیگنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں روشنی کا احساس ہوا۔ کیسی عجیب بات ہے نا۔ کبھی کبھی ہمیں روشنی کو دیکھنے کے لئیے آنکھیں نہیں چاہئیں ہوتیں۔ بس ایک احساس چاہئیے ہوتا ہے اور روشنی خود اپنا پتا بتا دیتی ہے۔ اندھیرے آسمان پر اس کا جلوہ ہوا۔ چہرہ تھوڑا تھوڑا اٹھنے لگا تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں "میں کیا کہوں گی؟" ایک سوال "میرے پاس تو کوئی لفظ ہی نہیں میں بولوں گی کیا؟" ایک اور سوال۔ کالے پانیوں پر چاندی سی تیرنے لگی۔ گاوں کے اطراف میں موجود کھیتوں پر اور کچے پکے گھروں پر تو جیسے کسی نے سفیدی سی پھیر دی۔ "افف یہ بہت مشکل ہے" اس نے پھر سوچا۔ کوئی مسکرانے لگا "ہاں کہو آج کیا کہنا ہے؟ کیوں آئی ہو" پوچھا گیا۔
اس کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمنے لگیں۔ کس منہ سے کہوں؟ کیا کہوں؟۔
کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔ پھر فضا میں کسی کی مسکراہٹ گہری ہو کر پھیلنے لگی۔ اس نے گھٹنوں سے سر اٹھا لیا۔ ایک بار آسمان کی طرف دیکھا۔ آج چودھویں کا چاند تھا۔ پورا چاند۔ مسکرانے والے نے ایک نگاہ چاند کے عکس پر ڈالی اور دوسری برابر پڑی ڈائری پر۔ اس نے ڈائری اٹھا کر گود میں رکھی اور کچھ کہنے کے لئیے الفاظ ترتیب دینے کی کوشش کرنے لگی۔ یکبارگی اسے کچھ ہلچل کا احساس ہوا۔ فضا میں مسکراہٹ پل پل گہری ہو رہی تھی۔ ہلچل سطحِ قرطاس پر تھی۔ مچھیلیوں کی مانند بے جان لفظ دھیرے دھیرے سانس لینے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں "کوئی مردہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے" مگر پھر یاد دہانی کروائی گئی "وہی ہے جو مردوں کو زندہ کرے گا"۔ الفاظ کا تنفس تیز ہونے لگا اور وہ سطح سے اوپر اٹھنے لگے۔ اب اس کی حیرت کی انتہا نہ تھی۔ یہ سب کیا ہونے جا رہا تھا؟ الفاظ دھیرے دھیرے اٹھتے اٹھتے اوپر کو جانے لگے۔ اس کے سر کے بالکل اوپر کی جانب ایک بھنور کی سی صورت میں سفر کرنے لگے اور ان کی منزل۔۔۔ منزل کیا تھی؟
ایک خیال نے اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے کر مسل دیا۔ "نہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں" بارش پھر برسنے لگی۔ الفاظ اپنی منزل کی طرف جانے لگے۔ آہستہ آہستہ اس کی ڈائری کے تمام لفظ ہوا میں سفر کرنے لگے۔ ڈائری کے صفحے کورے تھے۔ الفاظ کہیں دور چاند کی طرف جا رہے تھے۔ آج تو دادی نے بھی چرخے کو چھوڑ دیا تھا اور پریاں بھی کہانی سننے کی بجائے حیرت سے زمین زاد کو دیکھ رہی تھیں۔ معاملہ ہی ایسا انوکھا تھا۔ اس کے الفاظ اس سے چھینے جا چکے تھے۔ اس کا جرم بھی تو بہت بڑا تھا۔ اور اس کے خیال زینوں سے نیچے اس کے سامنے زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ بارش تھم چکی تھی۔ یخ بستہ ہواؤں نے سب کچھ منجمد کر دیا تھا۔ ماں کہتی تھی "تو لکھا مت کر دھانی! جو لکھتے ہیں وہ دیوانے ہو جاتے ہیں"۔ اب وہ کیا کہتی ماں کو دیوانی تو وہ اب ہو گئی تھی، تہی داماں ہونے کے بعد۔
"یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ غلط ہے۔ میں بات کروں گی۔" اس نے سوچا۔
"پر کوئی خیال بھی تو ہو۔ کوئی خیال بھی تو نہیں۔" اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔ دو دن میں اسے کہانی کی اگلی قسط لکھ کر بھیجنی تھی۔ اور حال یہ تھا کہ وہ ایک لفظ لکھنے کے قابل نہیں تھی۔ کہانی کا پلاٹ، اس میں کرداروں حال حلیہ اور "مرچ مسالے" کی تفصیل سے اسے گاہے گاہے آگاہ کیا جا رہا تھا۔ سو اس کو صرف اپنے قلم کو حرکت دینی تھی اور الفاظ کی مالا پرونی تھی۔ مگر یہ کیا آفت آگئ تھی آخر۔ وہ کیوں نہیں لکھ پا رہی تھی؟
اس نے ڈائری کو یوں ہی کھلا چھوڑا اور خود بلب بجھا دیا۔ سوچوں کے بھنور میں گھومتے سر کو تکیے پر رکھتے ہی اسے لگا آج اندھیرا کچھ زیادہ ہی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ آج تو اس کی ڈائری کے صفحے بھی سیاہ تھے۔ اس نے مڑ کر ساتھ کے بستر پر دراز وجود کو دیکھنا چاہا۔ ہاں! روشنی تھی، روشنی اب ہوئی تھی۔ ایک بہت خوبصورت سی مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر رقصاں تھی۔ ماں کا چہرہ پر سکوں تھا۔ اسے حیرت ہوتی تھی۔ ان کے حالات ہرگز ایسے نہ تھے کوئی ایسی میٹھی نیند سو سکے۔ پر ماں کو دیکھ کر ہمشہ یوں ہی لگتا تھا جیسے اس نے اس زندگی میں کبھی کوئ دکھ دیکھنے کا ملا ہی نہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے نہیں۔
"اب تو میں اپنی تحریروں سے اتنا کماؤں گی کہ ماں کو کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ماں کے تمام دکھوں کا، تمام پریشانیوں کا مداوا ہو جائے گا" اس نے ماں کے چہرے پر ایک پیار بھری نگاہ ڈالتے ہوئے سوچا۔ "پر میں کیسے لکھوں؟ آج تیسرا دن ہے، اور میں ایک صفحہ بھی نہیں لکھ پائی" اس نے دوبارہ پریشانی سے سوچا۔ گردن موڑ کو چھت کو گھورنے لگی ۔"آج اندھیرا اتنا زیادہ کیوں ہے؟ پہلے تو ہمیشہ میری آنکھیں اندھیروں سے مانوس رہی ہیں۔ پھر آج کیوں ایسا ہو رہا ہے؟" سوالات کی لمبی فہرست تھی اور دل کی بےچینی۔ کمرے کی فضا میں گھٹن بڑھنے لگی تو وہ ڈائری اور قلم اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی "آج تو بات کرنی ہی پڑے گی"۔
کچے فرش پر ننگے پیر چلتے ہوئے وہ صحن میں آگئی۔ رات کا پہلا پہر تھا ابھی۔ مگر خاموشی کسی ملکہ کی طرح پورے گاؤں پر راج کر رہی تھی۔ جب وہ شہر میں تھی تو اس نے کبھی رات کو اتنا خاموش اور پر سکون نہ پایا تھا۔ مگر آج تو سارا سکون بھی رخصت تھا۔ دبے قدموں وہ آنگن کے ایک طرف بنی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ چھت پر پہنچ کر ہلکی خنک ہوا نے استقبال کیا۔ چھت کے اوپر ایک جانب چند ایک زینے یوں ہی بنے تھے۔ یہ اس کے بیٹھنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ یہاں سے ملاقات میں بھی آسانی تھی۔ اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ سارے گاؤں پر موت طاری تھی۔ کچھ کچے کچھ پکے گھروں کے پار گاؤں کے تینوں جانب ہرے بھرے کھیت تھے۔ اور چوتھی جانب ایک نہر جس کا پانی اس وقت سیاہ تھا۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ تاروں کی چال بتا رہی تھی ابھی ملاقات میں وقت تھا۔ گود میں دھری ڈائری اٹھا کر برابر میں رکھی اور گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے وہ سر گھٹنوں پر رکھے انتظار کرنے لگی۔ آج دل بہت بوجھل تھا۔ بہت بوجھل۔ آنکھیں جب برسنے پر آئیں تو اس نے چند ایک بار پلکوں کو جھپک کر نمکین پانیوں کے قطروں کو ڈپٹا۔ مگر آج تو ہر کوئی بیر باندھے بیٹھا تھا۔ چھاجوں چھاج مینہ برسنے لگا اور وہ اس میں بھیگنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں روشنی کا احساس ہوا۔ کیسی عجیب بات ہے نا۔ کبھی کبھی ہمیں روشنی کو دیکھنے کے لئیے آنکھیں نہیں چاہئیں ہوتیں۔ بس ایک احساس چاہئیے ہوتا ہے اور روشنی خود اپنا پتا بتا دیتی ہے۔ اندھیرے آسمان پر اس کا جلوہ ہوا۔ چہرہ تھوڑا تھوڑا اٹھنے لگا تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں "میں کیا کہوں گی؟" ایک سوال "میرے پاس تو کوئی لفظ ہی نہیں میں بولوں گی کیا؟" ایک اور سوال۔ کالے پانیوں پر چاندی سی تیرنے لگی۔ گاوں کے اطراف میں موجود کھیتوں پر اور کچے پکے گھروں پر تو جیسے کسی نے سفیدی سی پھیر دی۔ "افف یہ بہت مشکل ہے" اس نے پھر سوچا۔ کوئی مسکرانے لگا "ہاں کہو آج کیا کہنا ہے؟ کیوں آئی ہو" پوچھا گیا۔
اس کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمنے لگیں۔ کس منہ سے کہوں؟ کیا کہوں؟۔
کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔ پھر فضا میں کسی کی مسکراہٹ گہری ہو کر پھیلنے لگی۔ اس نے گھٹنوں سے سر اٹھا لیا۔ ایک بار آسمان کی طرف دیکھا۔ آج چودھویں کا چاند تھا۔ پورا چاند۔ مسکرانے والے نے ایک نگاہ چاند کے عکس پر ڈالی اور دوسری برابر پڑی ڈائری پر۔ اس نے ڈائری اٹھا کر گود میں رکھی اور کچھ کہنے کے لئیے الفاظ ترتیب دینے کی کوشش کرنے لگی۔ یکبارگی اسے کچھ ہلچل کا احساس ہوا۔ فضا میں مسکراہٹ پل پل گہری ہو رہی تھی۔ ہلچل سطحِ قرطاس پر تھی۔ مچھیلیوں کی مانند بے جان لفظ دھیرے دھیرے سانس لینے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں "کوئی مردہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے" مگر پھر یاد دہانی کروائی گئی "وہی ہے جو مردوں کو زندہ کرے گا"۔ الفاظ کا تنفس تیز ہونے لگا اور وہ سطح سے اوپر اٹھنے لگے۔ اب اس کی حیرت کی انتہا نہ تھی۔ یہ سب کیا ہونے جا رہا تھا؟ الفاظ دھیرے دھیرے اٹھتے اٹھتے اوپر کو جانے لگے۔ اس کے سر کے بالکل اوپر کی جانب ایک بھنور کی سی صورت میں سفر کرنے لگے اور ان کی منزل۔۔۔ منزل کیا تھی؟
ایک خیال نے اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے کر مسل دیا۔ "نہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں" بارش پھر برسنے لگی۔ الفاظ اپنی منزل کی طرف جانے لگے۔ آہستہ آہستہ اس کی ڈائری کے تمام لفظ ہوا میں سفر کرنے لگے۔ ڈائری کے صفحے کورے تھے۔ الفاظ کہیں دور چاند کی طرف جا رہے تھے۔ آج تو دادی نے بھی چرخے کو چھوڑ دیا تھا اور پریاں بھی کہانی سننے کی بجائے حیرت سے زمین زاد کو دیکھ رہی تھیں۔ معاملہ ہی ایسا انوکھا تھا۔ اس کے الفاظ اس سے چھینے جا چکے تھے۔ اس کا جرم بھی تو بہت بڑا تھا۔ اور اس کے خیال زینوں سے نیچے اس کے سامنے زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ بارش تھم چکی تھی۔ یخ بستہ ہواؤں نے سب کچھ منجمد کر دیا تھا۔ ماں کہتی تھی "تو لکھا مت کر دھانی! جو لکھتے ہیں وہ دیوانے ہو جاتے ہیں"۔ اب وہ کیا کہتی ماں کو دیوانی تو وہ اب ہو گئی تھی، تہی داماں ہونے کے بعد۔