یاز
محفلین
اے سی تو بہت چلتے ہیں۔ بلکہ اے سی تو ہنزہ میں بھی چلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ویسے وہاں صاحبوں کے آفسز میں اے سی بھی چلتے ہی ہوں گے
اے سی تو بہت چلتے ہیں۔ بلکہ اے سی تو ہنزہ میں بھی چلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ویسے وہاں صاحبوں کے آفسز میں اے سی بھی چلتے ہی ہوں گے
اس لڑی کے پہلے مراسلے کی تیسری، چوتھی اور پانچویں سطریں پڑھیں!!!آپ ماہ رمضان میں گلگت کے سفر پر گئے ہیں
جس نے پہلے گلگت نہ دیکھا ہو، پہلی بار دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیالوں میں نتھیاگلی، شوگران یا ناران، کالام جیسی سرسبز جگہیں متوقع ہوتی ہیں۔
اس وقت وہاں کا موسم کیسا ہوگا؟اور گلگت پہنچ کر آپکی توقع کے عین متضاد جو گرمی پڑ رہی ہوتی اور اسپر سورج کی تپش سونے پر سہاگہ-
ایک دفعہ تو بندہ چکرا جاتا اے میں کتھے آ گیا واں-
ویسے وہاں صاحبوں کے آفسز میں اے سی بھی چلتے ہی ہوں گے؟
اور میں اس لمحے کا منتظر ہوں کہ جب انھوں نے گھر جا کر بتایا ہو گا کہ یہ اکیلے اکیلے کہاں کہاں کے مزے لؤٹتے آئے ہیں تب ان پر کیا بیتی ہو گی؟ویسے عمران بھائی مجھے اس بات پر حیرت ہورہی کہ اکیلے آپ اتنی سیر و سیاحت کو کیسے انجوائے کر لیتے ہیں؟
یہ امید آپ کو کیسے ہوئی؟جب انھوں نے گھر جا کر بتایا ہو گا
اور میں اس لمحے کا منتظر ہوں کہ جب انھوں نے گھر جا کر بتایا ہو گا کہ یہ اکیلے اکیلے کہاں کہاں کے مزے لؤٹتے آئے ہیں تب ان پر کیا بیتی ہو گی؟
یہ بات سید عمران بھائی پہلے بتا چکے ہیں کہ وہ باہمی اتفاق سے فیملی کو گھر بتا کر ہی اس سیر سپاٹے پر نکلے، مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ دوست بھی ساتھ نہیں اکیلا آدمی سیر کو کیسے انجوئے کر سکتا ہے؟یہ امید آپ کو کیسے ہوئی؟
شدید گرمی۔ 40 ڈگری سے اوپر درجہ حرارت ہو گا۔اس وقت وہاں کا موسم کیسا ہوگا؟
ہو سکتا ہے کہ وہ بالکل آزاد اور خود مختار قسم کے سیر سپاٹے کے قائل ہوں، ورنہ ساتھ ایک بھی دوست ہو گا، تو کہیں نہ کہیں اس کی مرضی بھی ماننی پڑے گی۔یہ بات سید عمران بھائی پہلے بتا چکے ہیں کہ وہ باہمی اتفاق سے فیملی کو گھر بتا کر ہی اس سیر سپاٹے پر نکلے، مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ دوست بھی ساتھ نہیں اکیلا آدمی سیر کو کیسے انجوئے کر سکتا ہے؟
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ بالکل آزاد اور خود مختار قسم کے سیر سپاٹے کے قائل ہوں، ورنہ ساتھ ایک بھی دوست ہو گا، تو کہیں نہ کہیں اس کی مرضی بھی ماننی پڑے گی۔
اکیلے بندہ جو کرے گا، اپنی مرضی سے کرے گا۔
جی بالکلتجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔
جی بالکل
ہماری تو اکثر لوکیشن کے انتخاب اور کہاں کتنا وقت گزارنا ہے اس بات پر ہمیشہ ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوجاتی ہے۔
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔
اگر ہمسفر اچھا ہو تو سفر کا مزا بھی دوبالا ہوجاتا ہے ۔ اگر لڑائی کا اندیشہ ہو تو سیر پر اسے لے جایا جائے جس کے ساتھ میکسیمم ذہنی ہم آہنگی ہو۔ پھر لڑائی کم سے کم ہوگی ۔جی بالکل
ہماری تو اکثر لوکیشن کے انتخاب اور کہاں کتنا وقت گزارنا ہے اس بات پر ہمیشہ ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوجاتی ہے۔
بہت اچھی باتیں آپ نے ہمارے ساتھ شیئر کیں۔ اس کےلئے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔بھائیو اور ان کی بہنو! ہم تقریباً ہر سال گھر والوں کے ساتھ ہی گھومنے جاتے ہیں...
اس کے علاوہ گھر والے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے بھی جاتے ہیں...
اور دس پندرہ دن سے پہلے واپسی نہیں ہوتی...
اس مرتبہ اچانک ہی دل چاہا کہ گھر جاکر اکیلے بیزار ہونے سے بہتر یے گلگت چلا جائے...
بس پھر سب کچھ اچانک ہی طے ہوگیا...
اس میں شک نہیں کہ ہم مزاج دوست یا فیملی کے ساتھ انجوائے کرنے کا الگ لطف ہے...
لیکن ہمارا شروع سے یہ ذہن ہے کہ جب کچھ کرنے کا موقع ملے تو فوراً کر گزرنا چاہیے...
کیوں کہ آج کا موقع اور آج کی تاریخ آپ کو کل کبھی نہیں ملے گی...
ہہی وجہ تھی بچپن میں رشتے داروں سے انڈیا جانے کے حالات سنتے تو ہمیں بھی یہ معرکہ سر کرنے کا بہت شوق ہوتا...
بلآخر انٹر کرنے کے بعد موقع مل گیا...
اس وقت بھی اکیلے ہی انڈیا کی سیر کو نکل پڑے...
کچھ تھرل کچھ ایڈونچر کا بھی شوق تھا...
اسی لیے جب والد صاحب نے کہا کہ کراچی سے ہم تمہیں جہاز پر بٹھادیتے ہیں اور دہلی میں تمہارے چچا لینے آجائیں گے تو اس سیدھے سادے پھیکے سے پلان میں ذرا مزہ نہ آیا...
لوگوں سے ریل کے ذریعے بارڈر کراس کرنے کی جو ہولناک داستانیں سن رکھی تھیں ان سے کھیلنے کو دل چاہتا تھا...
بڑی مشکل سے گھر والوں کو راضی کیا اور اس عمر میں تن تنہا کراچی سے لاہور، واہگہ، اٹاری اور دہلی کا سفر کیا جہاں ہمارے چچا ہمیں وصولنے کے لیے موجود تھے...
یہ سفر بھی بڑا دلچسپ اور مزے دار تھا...
پھر سفر کرنے سے ہمارا مقصد صرف انجوائے کرنا نہیں ہوتا، خدا کی قدرت کے نظارے اور جگہ جگہ رنگ بدلتی تہذیب خود ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اپنے ہی دماغ سے محسوس کرتے ہیں اور ان فضاؤں کی خوشبو اپنے ہی سانسوں سے سونگھتے ہیں...
ان کے لیے آپ دوسرے کے محتاج نہیں ہوتے...
یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں رسا تڑا کر بھاگنے کا موقع ملتا ہے ہم زیادہ دائیں بائیں نہیں دیکھتے...
کوئی ساتھ دے تو فبہا ورنہ الوداع...
یاز بھائی کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تو گروپ بھان متی کا کنبہ بن جاتا یے، مزہ آنے کے بجائے مزہ کرکرا ہو جاتا ہے...
اور سب سے بڑھ کر ستم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ساتھی گروپ چھوڑ کر چلا جائے...
چوں کہ اتنا عرصہ ساتھ رہنے سے ذہنی ہم آہنگی ہوجاتی ہے لہذا ایک آدمی کے بھی جانے سے گویا گروپ کی روح نکل جاتی ہے اور سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے...
اگرچہ جتنے زیادہ دوست ہوں خرچہ اتنا کم ہوتا یے لیکن تجربات کی روشنی میں صرف دو چار ہم مزاج دوستوں سے زیادہ لوگ نہیں ہونے چاہئیں...
پھر سفر کی ایک سنت پر عمل کرلیا جائے تو توتکار کی نوبت بالکل نہیں آتی...
وہ سنت ہے کہ سفر میں اتفاق رائے سے کسی ایک کو امیر یعنی منتظم بنا لیا جائے اور آخری فیصلہ اسی کا مانا جائے...
اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ سہولت ہی سہولت رہی...
کبھی ناخوشگوار صورت حال پیش نہیں آئی...
کیوں کہ اس کا فیصلہ قبول کرنے سے دل مطمئن رہتا ہے کہ کم از کم عبادت کا ثواب تو ملا...
اور رسول اللہ کی سنت ہر عمل کرنے سے اللہ کی مدد و رحمت تو ساتھ ہوتی ہی یے...
کاش یہ آخری لائنیں وارث بھائی نہ پڑھیں...
ورنہ کہیں گے کردی تبلیغ شروع!!!