جانا گلگت کو ہمارا

سید عمران

محفلین
لو جی آپہنچے ہم نلتر...
جیپ سے اترتے ہی پہلا مسحور کن منظر نگاہوں کے سامنے تھا...
برف پوش پہاڑ گہری دھند میں چھپن چھپائی کھیل رہا تھا!!!
IMG_20170913_154918.jpg
 

سید عمران

محفلین
وادی کے چاروں طرف یہی منظر تھا...
اونچے اونچے سربفلک پہاڑ برف کی شال اوڑھے شدید دھند کی لپیٹ میں تھے...
شوریدہ سر یخ بستہ کان پھاڑ ہوائیں ہاتھ پاؤں منجمد کیے دے رہی تھیں...
IMG_20170914_061731.jpg


IMG_20170914_061742.jpg


IMG_20170914_065317.jpg


IMG_20170914_061753.jpg
 

یاز

محفلین
زبردست جناب۔ ہمیں نلتر دیکھے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ انشاء اللہ اگلے ٹرپ میں زیارت کریں گے۔
 

سید عمران

محفلین
سولہ گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے دوران کسی ہوٹل کا کھانا کھانے کو دل نہیں چاہا، چائے بسکٹ پر گزارا کرتے رہے...
اب بھوک کے مارے برا حال ہو رہا تھا...
شام کے پانچ بجے کا وقت ہوگا...
نلتر کے جس ہوٹل میں اترے اس کا مالک کم بیرا کم خانساں گرم گرم باورچی خانے میں لے گیا...
ہم کراچی کی جھلسا دینے والی لو اور سکھر کے تپتے ہوئے شہر سے آرہے تھے...
بغیر کسی پلاننگ کے...
بغیر گرم کپڑوں کے...
نلتر کی طوفانی ہواؤں نے کپکپا کر رکھ دیا...
باورچی خانے کی گرمائش سے جان میں جان آئی...
تھوڑی دیر کے بعد ہوٹل کے مالک کم بیرے کم خانساماں نے پراٹھا اور انڈا گھٹالا سامنے لا رکھا...
دیکھنے میں بے ڈھنگے لگے...
مگر پہلا لقمہ کھاتے ہی بے بدل ذائقہ منہ میں گھل گیا...
پراٹھے کا یہ ذائقہ اس سے پہلے کبھی نہیں چکھا تھا...
پوچھا مکئی کی روٹی ہے؟؟؟
مالک کم بیرے کم خانساماں نے جواب دیا ہمارے کھیت کے گندم کی ہے، جس میں نہ کیمیائی کھاد ڈلتی ہے نہ اسپرے ہوتا یے...
ہم نے کہا انڈے گھٹالے میں جو ٹماٹر پیاز ڈلے ہیں وہ بھی آپ کے کھیت کے ہیں، جن میں نہ کیمیائی کھاد ڈلتی ہے نہ اسپرے ہوتا یے...
مالک کم بیرا کم خانساماں ہماری خدا داد ذہانت و فراست پر انگشت بدنداں رہ گیا...
یہ رہے مایہ ناز انڈا گھٹالا اور پراٹھا...
IMG_20170913_162347.jpg
 
آخری تدوین:

اے خان

محفلین
جس نے پہلے گلگت نہ دیکھا ہو، پہلی بار دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیالوں میں نتھیاگلی، شوگران یا ناران، کالام جیسی سرسبز جگہیں متوقع ہوتی ہیں۔

اور گلگت پہنچ کر آپکی توقع کے عین متضاد جو گرمی پڑ رہی ہوتی اور اسپر سورج کی تپش سونے پر سہاگہ-
ایک دفعہ تو بندہ چکرا جاتا اے میں کتھے آ گیا واں-
ویسے وہاں صاحبوں کے آفسز میں اے سی بھی چلتے ہی ہوں گے؟
اس وقت وہاں کا موسم کیسا ہوگا؟
 

ربیع م

محفلین
ویسے عمران بھائی مجھے اس بات پر حیرت ہورہی کہ اکیلے آپ اتنی سیر و سیاحت کو کیسے انجوائے کر لیتے ہیں؟
اور میں اس لمحے کا منتظر ہوں کہ جب انھوں نے گھر جا کر بتایا ہو گا کہ یہ اکیلے اکیلے کہاں کہاں کے مزے لؤٹتے آئے ہیں تب ان پر کیا بیتی ہو گی؟
 
اور میں اس لمحے کا منتظر ہوں کہ جب انھوں نے گھر جا کر بتایا ہو گا کہ یہ اکیلے اکیلے کہاں کہاں کے مزے لؤٹتے آئے ہیں تب ان پر کیا بیتی ہو گی؟
یہ امید آپ کو کیسے ہوئی؟
یہ بات سید عمران بھائی پہلے بتا چکے ہیں کہ وہ باہمی اتفاق سے فیملی کو گھر بتا کر ہی اس سیر سپاٹے پر نکلے، مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ دوست بھی ساتھ نہیں اکیلا آدمی سیر کو کیسے انجوئے کر سکتا ہے؟
 
یہ بات سید عمران بھائی پہلے بتا چکے ہیں کہ وہ باہمی اتفاق سے فیملی کو گھر بتا کر ہی اس سیر سپاٹے پر نکلے، مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ دوست بھی ساتھ نہیں اکیلا آدمی سیر کو کیسے انجوئے کر سکتا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ وہ بالکل آزاد اور خود مختار قسم کے سیر سپاٹے کے قائل ہوں، ورنہ ساتھ ایک بھی دوست ہو گا، تو کہیں نہ کہیں اس کی مرضی بھی ماننی پڑے گی۔
اکیلے بندہ جو کرے گا، اپنی مرضی سے کرے گا۔
:)
 

یاز

محفلین
ہو سکتا ہے کہ وہ بالکل آزاد اور خود مختار قسم کے سیر سپاٹے کے قائل ہوں، ورنہ ساتھ ایک بھی دوست ہو گا، تو کہیں نہ کہیں اس کی مرضی بھی ماننی پڑے گی۔
اکیلے بندہ جو کرے گا، اپنی مرضی سے کرے گا۔
:)
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔
 
جی بالکل
ہماری تو اکثر لوکیشن کے انتخاب اور کہاں کتنا وقت گزارنا ہے اس بات پر ہمیشہ ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوجاتی ہے۔
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔

اور یہی لڑائیاں کو ٹرپ کا حاصل و مقصود ہوتی ہیں- وغیرہ وغیرہ
 
تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں ایک سے زیادہ بندے ہوں تو لڑائیاں ضرور ہوتی ہیں۔
جی بالکل
ہماری تو اکثر لوکیشن کے انتخاب اور کہاں کتنا وقت گزارنا ہے اس بات پر ہمیشہ ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوجاتی ہے۔
اگر ہمسفر اچھا ہو تو سفر کا مزا بھی دوبالا ہوجاتا ہے ۔ اگر لڑائی کا اندیشہ ہو تو سیر پر اسے لے جایا جائے جس کے ساتھ میکسیمم ذہنی ہم آہنگی ہو۔ پھر لڑائی کم سے کم ہوگی ۔
ہم کالج کے زمانے میں دوستوں کے ساتھ کاغان ناران وغیرہ کی سیر کو نکلے ، تقریبا ایک ہفتے کو ٹور تھا اس دوران اچھے اور برے کلاس فیلوز کی پہچان ہوگئی اور وہیں اس بات کا پتا چلا کہ ہمارا اصلی بیسٹ فرینڈ کون سا ہے ، آج 22 سال بعد بھی وہی ہمارا بیسٹ فرینڈ ہے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
بھائیو اور ان کی بہنو! ہم تقریباً ہر سال گھر والوں کے ساتھ ہی گھومنے جاتے ہیں...
اس کے علاوہ گھر والے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے بھی جاتے ہیں...
اور دس پندرہ دن سے پہلے واپسی نہیں ہوتی...
اس مرتبہ اچانک ہی دل چاہا کہ گھر جاکر اکیلے بیزار ہونے سے بہتر یے گلگت چلا جائے...
بس پھر سب کچھ اچانک ہی طے ہوگیا...
اس میں شک نہیں کہ ہم مزاج دوست یا فیملی کے ساتھ انجوائے کرنے کا الگ لطف ہے...
لیکن ہمارا شروع سے یہ ذہن ہے کہ جب کچھ کرنے کا موقع ملے تو فوراً کر گزرنا چاہیے...
کیوں کہ آج کا موقع اور آج کی تاریخ آپ کو کل کبھی نہیں ملے گی...
ہہی وجہ تھی بچپن میں رشتے داروں سے انڈیا جانے کے حالات سنتے تو ہمیں بھی یہ معرکہ سر کرنے کا بہت شوق ہوتا...
بلآخر انٹر کرنے کے بعد موقع مل گیا...
اس وقت بھی اکیلے ہی انڈیا کی سیر کو نکل پڑے...
کچھ تھرل کچھ ایڈونچر کا بھی شوق تھا...
اسی لیے جب والد صاحب نے کہا کہ کراچی سے ہم تمہیں جہاز پر بٹھادیتے ہیں اور دہلی میں تمہارے چچا لینے آجائیں گے تو اس سیدھے سادے پھیکے سے پلان میں ذرا مزہ نہ آیا...
لوگوں سے ریل کے ذریعے بارڈر کراس کرنے کی جو ہولناک داستانیں سن رکھی تھیں ان سے کھیلنے کو دل چاہتا تھا...
بڑی مشکل سے گھر والوں کو راضی کیا اور اس عمر میں تن تنہا کراچی سے لاہور، واہگہ، اٹاری اور دہلی کا سفر کیا جہاں ہمارے چچا ہمیں وصولنے کے لیے موجود تھے...
یہ سفر بھی بڑا دلچسپ اور مزے دار تھا...
پھر سفر کرنے سے ہمارا مقصد صرف انجوائے کرنا نہیں ہوتا، خدا کی قدرت کے نظارے اور جگہ جگہ رنگ بدلتی تہذیب خود ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اپنے ہی دماغ سے محسوس کرتے ہیں اور ان فضاؤں کی خوشبو اپنے ہی سانسوں سے سونگھتے ہیں...
ان کے لیے آپ دوسرے کے محتاج نہیں ہوتے...
یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں رسا تڑا کر بھاگنے کا موقع ملتا ہے ہم زیادہ دائیں بائیں نہیں دیکھتے...
کوئی ساتھ دے تو فبہا ورنہ الوداع...
یاز بھائی کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تو گروپ بھان متی کا کنبہ بن جاتا یے، مزہ آنے کے بجائے مزہ کرکرا ہو جاتا ہے...
اور سب سے بڑھ کر ستم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ساتھی گروپ چھوڑ کر چلا جائے...
چوں کہ اتنا عرصہ ساتھ رہنے سے ذہنی ہم آہنگی ہوجاتی ہے لہذا ایک آدمی کے بھی جانے سے گویا گروپ کی روح نکل جاتی ہے اور سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے...
اگرچہ جتنے زیادہ دوست ہوں خرچہ اتنا کم ہوتا یے لیکن تجربات کی روشنی میں صرف دو چار ہم مزاج دوستوں سے زیادہ لوگ نہیں ہونے چاہئیں...
پھر سفر کی ایک سنت پر عمل کرلیا جائے تو توتکار کی نوبت بالکل نہیں آتی...
وہ سنت ہے کہ سفر میں اتفاق رائے سے کسی ایک کو امیر یعنی منتظم بنا لیا جائے اور آخری فیصلہ اسی کا مانا جائے...
اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ سہولت ہی سہولت رہی...
کبھی ناخوشگوار صورت حال پیش نہیں آئی...
کیوں کہ اس کا فیصلہ قبول کرنے سے دل مطمئن رہتا ہے کہ کم از کم عبادت کا ثواب تو ملا...
اور رسول اللہ کی سنت ہر عمل کرنے سے اللہ کی مدد و رحمت تو ساتھ ہوتی ہی یے...
کاش یہ آخری لائنیں وارث بھائی نہ پڑھیں...
ورنہ کہیں گے کردی تبلیغ شروع!!!
 

م حمزہ

محفلین
بھائیو اور ان کی بہنو! ہم تقریباً ہر سال گھر والوں کے ساتھ ہی گھومنے جاتے ہیں...
اس کے علاوہ گھر والے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے بھی جاتے ہیں...
اور دس پندرہ دن سے پہلے واپسی نہیں ہوتی...
اس مرتبہ اچانک ہی دل چاہا کہ گھر جاکر اکیلے بیزار ہونے سے بہتر یے گلگت چلا جائے...
بس پھر سب کچھ اچانک ہی طے ہوگیا...
اس میں شک نہیں کہ ہم مزاج دوست یا فیملی کے ساتھ انجوائے کرنے کا الگ لطف ہے...
لیکن ہمارا شروع سے یہ ذہن ہے کہ جب کچھ کرنے کا موقع ملے تو فوراً کر گزرنا چاہیے...
کیوں کہ آج کا موقع اور آج کی تاریخ آپ کو کل کبھی نہیں ملے گی...
ہہی وجہ تھی بچپن میں رشتے داروں سے انڈیا جانے کے حالات سنتے تو ہمیں بھی یہ معرکہ سر کرنے کا بہت شوق ہوتا...
بلآخر انٹر کرنے کے بعد موقع مل گیا...
اس وقت بھی اکیلے ہی انڈیا کی سیر کو نکل پڑے...
کچھ تھرل کچھ ایڈونچر کا بھی شوق تھا...
اسی لیے جب والد صاحب نے کہا کہ کراچی سے ہم تمہیں جہاز پر بٹھادیتے ہیں اور دہلی میں تمہارے چچا لینے آجائیں گے تو اس سیدھے سادے پھیکے سے پلان میں ذرا مزہ نہ آیا...
لوگوں سے ریل کے ذریعے بارڈر کراس کرنے کی جو ہولناک داستانیں سن رکھی تھیں ان سے کھیلنے کو دل چاہتا تھا...
بڑی مشکل سے گھر والوں کو راضی کیا اور اس عمر میں تن تنہا کراچی سے لاہور، واہگہ، اٹاری اور دہلی کا سفر کیا جہاں ہمارے چچا ہمیں وصولنے کے لیے موجود تھے...
یہ سفر بھی بڑا دلچسپ اور مزے دار تھا...
پھر سفر کرنے سے ہمارا مقصد صرف انجوائے کرنا نہیں ہوتا، خدا کی قدرت کے نظارے اور جگہ جگہ رنگ بدلتی تہذیب خود ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اپنے ہی دماغ سے محسوس کرتے ہیں اور ان فضاؤں کی خوشبو اپنے ہی سانسوں سے سونگھتے ہیں...
ان کے لیے آپ دوسرے کے محتاج نہیں ہوتے...
یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں رسا تڑا کر بھاگنے کا موقع ملتا ہے ہم زیادہ دائیں بائیں نہیں دیکھتے...
کوئی ساتھ دے تو فبہا ورنہ الوداع...
یاز بھائی کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تو گروپ بھان متی کا کنبہ بن جاتا یے، مزہ آنے کے بجائے مزہ کرکرا ہو جاتا ہے...
اور سب سے بڑھ کر ستم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ساتھی گروپ چھوڑ کر چلا جائے...
چوں کہ اتنا عرصہ ساتھ رہنے سے ذہنی ہم آہنگی ہوجاتی ہے لہذا ایک آدمی کے بھی جانے سے گویا گروپ کی روح نکل جاتی ہے اور سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے...
اگرچہ جتنے زیادہ دوست ہوں خرچہ اتنا کم ہوتا یے لیکن تجربات کی روشنی میں صرف دو چار ہم مزاج دوستوں سے زیادہ لوگ نہیں ہونے چاہئیں...
پھر سفر کی ایک سنت پر عمل کرلیا جائے تو توتکار کی نوبت بالکل نہیں آتی...
وہ سنت ہے کہ سفر میں اتفاق رائے سے کسی ایک کو امیر یعنی منتظم بنا لیا جائے اور آخری فیصلہ اسی کا مانا جائے...
اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ سہولت ہی سہولت رہی...
کبھی ناخوشگوار صورت حال پیش نہیں آئی...
کیوں کہ اس کا فیصلہ قبول کرنے سے دل مطمئن رہتا ہے کہ کم از کم عبادت کا ثواب تو ملا...
اور رسول اللہ کی سنت ہر عمل کرنے سے اللہ کی مدد و رحمت تو ساتھ ہوتی ہی یے...
کاش یہ آخری لائنیں وارث بھائی نہ پڑھیں...
ورنہ کہیں گے کردی تبلیغ شروع!!!
بہت اچھی باتیں آپ نے ہمارے ساتھ شیئر کیں۔ اس کےلئے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
رہی بات تبلیغ کی، تو اچھا اور دردمند مسلمان جہاں بھی جائے ، جہاں بھی رہے وہ اپنےدعوتی فرِائض سے غافل نہیں رہتا۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتیں اس کی زبان پر خود بخود آہی جاتی ہیں۔ کہ یہی باتیں اصل میں اس کی دل و روح کی غذا ہوتی ہیں۔
 
Top