رات کی بھرپور نیند لینے کے بعد سویرے جو آنکھ میری کھلی تو ہر شے نکھری نکھری لگی...
صبح کی سفید چمکدار دھوپ میں ہر شے چمک رہی تھی...
تب ہم وادی کی چہل قدمی کو نکلے...
ہواؤں کی شوریدہ سری تاہنوز جاری تھی...
وادی کا حسن و جمال سفر کی صعوبتیں بھلا رہا تھا...
ہر سمت اک الگ نظارہ تھا...
خدا کی قدرت کا نقارہ تھا...
برف پوش دودھیا پربت...
سرسبز زمردیں جنگلات...
ان کے قدموں کو سہلاتی گدگداتی فیروزی ندی...
فضاؤں پر راج کرتی سرمگیں گھٹائیں...
سروں پر سایہ فگن نیلگوں فلک...
پرندوں کی چہکار...
پھول پتیوں کی مہکار...
بہتیے پانیوں کی جھنکار...
اور موسم کی بہار...
میدانوں کے جھلسے مسافر کو اور کیا چاہیئے...
وادی پر قدم دھرتے ہی آپ بھی کچھ دیر کو جہانگیر بادشاہ بن سکتے ہیں...
اگر فردوس برروئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است