سید تراب کاظمی
محفلین
ماشاالله ماشاالله۔۔۔
ڈھیروں مبارکباد۔۔۔۔ بی لیٹڈ۔۔۔ ابهی معلوم هوا مجھے ،اپیا ماما بن چکی هیں۔۔۔ مممم هیپی
ڈھیروں مبارکباد۔۔۔۔ بی لیٹڈ۔۔۔ ابهی معلوم هوا مجھے ،اپیا ماما بن چکی هیں۔۔۔ مممم هیپی
آمین ثم آمینجذبات اور احساسات سے لبریز تحریر!! ماں کتنی عظیم نعمت ہے ایک بیٹی سے زیادہ بہتر کوئی جان ہی نہیں سکتا.. تحریر نے بہت افسردہ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بے پناہ خوشیوں سے نوازیں۔. آپ کے بابا جان کے درجات بلند کریں اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کریں۔ آمین
خیر مبارک۔۔ اب تو بھانجے محترم 2 سال کے ہونے کو ہیںماشاالله ماشاالله۔۔۔
ڈھیروں مبارکباد۔۔۔۔ بی لیٹڈ۔۔۔ ابهی معلوم هوا مجھے ،اپیا ماما بن چکی هیں۔۔۔ مممم هیپی
ماشاالله ماشاالله۔۔خیر مبارک۔۔ اب تو بھانجے محترم 2 سال کے ہونے کو ہیں
چلو کوئی بات نہیں۔۔ میں بھی زیادہ تر غائب ہی رہتی ہوںماشاالله ماشاالله۔۔
بس ھم بھی تو غیر حاضر رهے اتنه عرصه۔۔۔مصروفیات!!
آپ کے لئیے ڈھیروں دعائیں اور پیار یہ جو ماں ،باپ ہوتے ہیں نا یہ کبھی نہیں مرتے ہمارے اندر جیتے ہیں کبھی حوصلہ ہارنے لگو تو سوچنا بابا اس موقع پر ہوتے تو کیسا فیصلہ کرتے بس اسی طرح ثابت قدم رہتے ہوئے فیصلہ کرنا پھر دیکھنا خود کو کتنا مظبوط پاؤ گی آپ بہت بہادر بیٹی ہو اور اب بہادر ماں بننا ہے شاباش !!! اللہ خوشیاں دکھائے آمین"ماں" یہ لفظ سنتے ہی جو محبت، شفقت، مہرباں سا احساس دل میں ابھرتا ہے۔۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔۔ ایک عورت کی زندگی میں جب یہ لمحہ آتا ہے تب ہی اسے لگتا ہے کہ آج وہ مکمل ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے اس بات کا احساس تب ہوا جب میں خود ماں بنی ۔۔۔ مجھے اپنی امی سے بہت پیار ہے لیکن میں شروع ہی سے اپنے بابا کے بہت قریب تھی۔۔۔بلکہ ایسا کہہ لیں کہ میری جان بابا میں بند تھی اور بابا بھی ایسا ہی کہتے تھے کہ مقدس میرا وہ طوطا ہے جس میں میری جان بند ہے۔۔ اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے تو درد مجھے ہوتا ہے۔۔۔ اور ایسا ہی ہوتا تھا۔۔ مجھے ذرا سا بخار آیا، سر میں درد ہوا۔۔ بابا ساری رات بےچین رہتے تھے۔۔ میں کتنا عرصہ بابا کا ہاتھ پکڑ کر سویا کرتی تھی۔۔۔ امی تھوڑا سا سخت تھیں تو ان سے بڑا ڈر لگا کرتا۔۔۔ ان سے چھپ چھپ کر بابا سے فرمائشیں کی جاتیں۔۔ تاکہ امی کی ڈانٹ نہ پڑے۔۔۔
بابا کو شاید اپنے جانے کی خبر ہو گئی تھی۔۔ اسی لیے جانے سے ایک دن پہلے مجھے تیمور کے حوالے کر گئے۔۔۔ بابا کا یہ فیصلہ میرے لیے ایک نعمت ہے۔۔ بہت خوشیاں دی ہیں مجھے تیمور نے۔۔ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری امی، بھائیوں اور بہنوں کا ایسا خیال رکھا جیسے ایک سگا بیٹا اور بھائی رکھتا ہے۔۔۔ جہاں جہاں میں اس نئی زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوئی اور گھبرائی۔۔ وہاں وہاں انہوں نے میرا ہاتھ تھاما۔۔ ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نےمجھے کئی بار امتحان میں ڈالا۔۔۔ بابا کو اپنے پاس بلا لیا اتنی جلدی۔۔۔ گھریلو سیاست جس کا کچھ پتا نہیں تھا۔۔۔ اس کا بھی اچھا خاصا شکار رہی میں ۔۔۔ پھر کتنی بار ننھے منھے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور پھر سب ختم ہو گیا۔۔۔۔ تب ۔۔۔۔۔ تب اس وقت مجھے احساس ہوا ۔۔۔ ماں بننا کیا ہوتا ہے ایک عورت کے لیے۔۔۔۔ تب ان لمحوں میں مجھے اپنی ماں کی یاد آتی۔۔۔۔ یہ سوچ آتی کہ امی نے ہم پاانچ بہن بھائیوں کو اس دنیا میں لاتے ہوئے کتنی تکالیف کا سامنا کیا ہو گا۔۔۔ موت کے منہ سے ہو کر واپس آنا۔۔۔۔ ایک ماں کی زندگی کتنے امتحانوں میں سے گزرتی ہے۔۔ خود ان تکالیف سے گزرنے کے بعد مجھے اپنی امی کی قدر ہوئی۔۔۔ اور مجھے ان سے اور زیادہ قریب لے کر آئی۔۔۔۔ پھر وہ لمحہ میری زندگی میں آیا۔۔۔ جب میں خود ماں بنی۔۔۔۔ ایک ایسی ماں۔۔۔ جس نے ایک بار نہیں۔۔۔ دو بار نہیں۔۔۔ تین بار نہیں بلکہ چار بار اپنے بچے کو کھویا۔۔۔یہ کھونے کا درد ہر بار مجھے اپنی ماں کے اور قریب لایا۔۔۔ ان سب تکالیف کا احساس ہوا۔۔ جو ان پر گزری۔۔۔
ان سب امتحانوں کے گزرنے کے بعد اللہ نے ہمیں ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔۔۔ 6 مارچ کا دن میری زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا۔۔۔ تکلیف، درد کے اس وقت میرا سارا دھیان اپنی ماں کی طرف رہا۔۔۔ کہ کیسے انہوں نے سب سہا ہو گا۔۔۔ آپریشن کے بعد جب میں جاگی تو مجھے اپنے بیٹے کے رونے کی آواز سنائی دی۔۔۔ جب اس کے کاٹ کی طرف دیکھا تو ایک چھوٹا سا چُنا مُنا سا بےبی اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے پٹر پٹر میری طرف دیکھے جا رہا تھا۔۔۔ اور پھر جو اس نے اپنی پوری طاقت لگاتے ہوئے چیخنا شروع کیا تو مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ پھر تیمور آ گئے۔۔۔ انہوں نے اسے اٹھا کر میری گود میں دیا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے میرے ساتھ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں کو، اس کے ہونٹوں کو، اس کے گالوں کو آہستہ آہستہ چھونا اسٹارٹ کیا۔۔۔۔ نرم نرم سے نازک سے ہاتھ پاوں ۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔ میرے سامنے تھا۔۔۔ اور میں اس کو چھو پا رہی تھی۔۔۔ اس کو پیار کر سکتی تھی۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ میں بھی ایک ماں تھی۔۔۔ اس لمحے مجھے اپنی ماں کی کمی محسوس ہو رہی تھی تب تیمور نے کہا کہ وہ ان کو جا کر لے آتے ہیں۔۔۔ باباکی ڈھیروں یاد آئی۔۔۔ مجھے لگا کہ بابا اوپر سے مجھے اپنے بےبی کے ساتھ دیکھ کر خوش پو رہے ہیں۔۔۔ اور ہمارے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔۔۔
تیمور جب امی کو لے کر آئے تو میرا دل کیا کہ میں ان کو یہ بات بتاوں کہ مجھے ان سے کتنا پیار ہے۔۔۔ وہ ساری باتیں کہوں جومیں نے اس دوران ان کے لیے سوچی۔۔ ان کو بتاؤں کہ مجھے ان پر کتنا فخر ہے۔۔ کتنا ناز ہے کہ میری امی کتنی بہادر ہیں اور میں ایک اسٹرانگ ماں کی بیٹی ہوں۔۔۔ میں امی کےگلے لگ کر ڈھیر سارا روئی اور ان کو اپنی ساری کیفیات کا بتایا۔۔ ان کےدونوں ہاتھ تھام کر ان کو پیار کیا۔۔۔ اور ان کو کہا کہ وہ اس کائنات کی سب سے اچھی ماں ہیں اور میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔۔ امی کتنی دیر مجھے اپنے ساتھ لگا کر بیٹھی رہیں۔۔۔ میرے بھائی اور بہنوں نے میرا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ یو آر ماماز بےبی۔۔۔ اب تو بڑی ہو جاو۔۔
اس شام ہاسپٹل میں، ہم دونوں نے اللہ کا بے انتہا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں اس قابل سمجھا اور ہمیں ماں باپ کا درجہ عطا کیا۔۔۔ ہمیں اس خوشی سے نوازا۔۔۔ ہم دونوں طلحہ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔۔۔ اس کو ہنسانے کی کوشش کرتے۔۔ اس کے رونے پر دونوں گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے کہ یہ اتنا رو کیوں رہا ہے۔۔۔ ایک دوسرے سے اس بات پر بحث کرتے کہ یہ کس پر گیا ہے۔۔ ویسے تو ہماراشونا اپنے بابا کی ڈبل کاپی ہے لیکن میں اس بات پر اب بھی یہی کہتی ہوں کہ یہ بالکل مجھ پر گیا ہےبلکہ یہ اپنی ماما کا ٹوئن ہے بالکل ویسے ہی جیسے میں فاتح بھیا کی ٹوئن ہوں۔۔۔
اب مجھے لکھنا بند کرنا چاہیے کیونکہ سب کو خوب بور کر لیا۔۔۔ لیکن اپنی یہ خوشی بھی تو آپ سب کے ساتھ شئیر کرنی تھی ناں۔۔۔ویسے بھی یہ دوسرا ایسا ٹاپک ہے جس پر میں بنا تھکے ڈھیروں بول سکتی ہوں ۔۔ پہلا تو میرے بابا ہیں ناں اور دوسرا میرا بیٹا۔۔۔۔
ایک بات تو ابھی بابا سے بھی کہنی ہے کہ
بابا جانی!
کیا تھا کہ اگر آپ کچھ دیر رک جاتے۔۔۔ اتنی جلدی جانے کی کیا ضرورت تھی۔۔ طلحہ آپ کے ساتھ کتنا خوش ہوتا۔۔۔ اور آپ بھی ناں۔۔۔ ویسے میں طلحہ سے آپ کی ڈھیروں باتیں کرتی ہوں اور اس کو آلریڈی پتا ہے کہ اس کو ماما بابا جیسا نہیں بلکہ اپنے نانو جیسا بننا ہے۔۔۔ اسٹرانگ، لونگ، کئیرنگ۔۔ ویسے ناں کبھی کبھی وہ مجھے آپ جیسا بھی لگتا ہے خاص طور پر جب وہ مجھے گھور کر دیکھتا ہے۔۔۔ بہت سوٹ کرتا ہے اس پر یہ اسٹائل۔۔ تب ہم سب اسے بابا کہتے ہیں۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔ دیکھا بابا جانی ۔۔۔ آپ یہاں نہ ہو کر بھی ہم سب کے ساتھ ہیں۔۔۔۔ مس یو آلاٹ۔۔۔۔۔۔
آپ سب سے ایک ریکوئسٹ ہے کہ میرے بابا کے لیے دعا کیجئے گا اور ساتھ میں میرے چُوچُو کے لیے بھی۔۔
جزاک اللہ گل آپا۔۔۔ آپ نے بالکل صحیح کہا ماں باپ ہمیشہ ہمارے اندر رہتے ہیں۔۔ میں نے جب سے یہ سیکھا ہے۔۔ فیصلے کرنے میں بہت آسانی ہو گئی ہےآپ کے لئیے ڈھیروں دعائیں اور پیار یہ جو ماں ÷باپ ہوتے ہیں نا یہ کبھی نہیں مرتے ہمارے اندر جیتے ہیں کبھی حوصلہ حارنے لگو تو سوچنا بابا اس موقع پر ہوتے تو کیسا فیصلہ کرتے بس اسی طرح ثابت قدم رہتے ہوئے فیصلہ کرنا پھر دیکھنا خود کو کتنا مظبوط پاؤ گی آپ بہت بہادر بیٹی ہو اور اب بہادر ماں بننا ہے شاباش !!! اللہ خوشیاں دکھائے