جاسم محمد
محفلین
'جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے'
پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ٹرول کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان کے خلاف منظم مہم چلائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا آزاد رائے کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
بدھ 12 اگست 2020 21:30
عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ صرف حکومت پر تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لہٰذا اب آواز اٹھانی ہو گی (سوشل میڈیا)
پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والی سرکردہ خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ٹرول کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان کے خلاف منظم مہم چلائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا آزاد رائے کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔
'ویمن اِن میڈیا' نے بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک خط میں تفصیلاً بتایا کہ انہیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ خط میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے عناصر کو روکا جائے جو خواتین صحافیوں کو کسی بھی طریقے سے ہراساں کرنے کے مرتکب ہوں۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز اور سپورٹرز کو پیغام دیں کہ وہ 'غیر اخلاقی' حرکات کرنے سے گریز کریں۔ خط میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو نوٹس لینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
یہ خط اور اس حوالے سے ایک ہیش ٹیگ آج صبح سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ میں ہے اور لوگ اس حوالے سے مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خواتین صحافیوں کے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'بطور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق، میں نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خواتین صحافیوں کی نمائندوں کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنے تحفظات سے آگاہ کر سکیں۔'
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں خواتین صحافیوں کو درپیش اس مسئلے کو 'افسوس ناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس ضمن میں وزیر اطلاعات سے بات کی ہے کہ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق بل کو ترجیحی بنیادوں پر فعال کیا جائے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'جنس کی بنیاد پر خواتین صحافیوں کی کردار کشی اور حملے ناقابل قبول ہیں اور آئین و قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔'
سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی اپنے پیغام میں کہا کہ 'سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں پر حملوں کے محرکات دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق معاملے کا نوٹس لے گی۔'
اس حوالے سے سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ محسوس کرتی ہیں کہ اس معاملے کو سامنے لایا جائے تاکہ وہ بات کرتے ہوئے خوف میں مبتلا نہ ہوں۔'
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'کب تک منظم مہم کو برداشت کیا جا سکتا ہے؟ صرف حکومت پر تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لیے اب آواز اٹھانی ہو گی۔'
عاصمہ شیرازی نے مزید کہا کہ 'آئے دن سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کے خلاف کردار کشی، ہراسانی اور گالم گلوچ کی مہم نہ تو خواتین کو ڈرا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سچ کہنے سے روک سکتی ہیں۔'
دیگر خواتین صحافیوں نے بھی ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جیو نیوز کی اینکر علینہ فاروق شائق کہتی ہیں کہ 'سوال کا جواب بد زبانی، گالی، ذاتی حملے اور ٹرولز کے ذریعے ہراساں کرنا نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں خواتین میڈیا ورکرز کو بہادری سے یہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ روز بروز یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اب ہمارے کام میں رکاوٹ بن رہا ہے، لیکن ہم ڈٹے رہیں گے۔'
پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ٹرول کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان کے خلاف منظم مہم چلائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا آزاد رائے کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
بدھ 12 اگست 2020 21:30
عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ صرف حکومت پر تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لہٰذا اب آواز اٹھانی ہو گی (سوشل میڈیا)
پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والی سرکردہ خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ٹرول کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان کے خلاف منظم مہم چلائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا آزاد رائے کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔
'ویمن اِن میڈیا' نے بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک خط میں تفصیلاً بتایا کہ انہیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ خط میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے عناصر کو روکا جائے جو خواتین صحافیوں کو کسی بھی طریقے سے ہراساں کرنے کے مرتکب ہوں۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز اور سپورٹرز کو پیغام دیں کہ وہ 'غیر اخلاقی' حرکات کرنے سے گریز کریں۔ خط میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو نوٹس لینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
یہ خط اور اس حوالے سے ایک ہیش ٹیگ آج صبح سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ میں ہے اور لوگ اس حوالے سے مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خواتین صحافیوں کے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'بطور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق، میں نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خواتین صحافیوں کی نمائندوں کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنے تحفظات سے آگاہ کر سکیں۔'
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں خواتین صحافیوں کو درپیش اس مسئلے کو 'افسوس ناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس ضمن میں وزیر اطلاعات سے بات کی ہے کہ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق بل کو ترجیحی بنیادوں پر فعال کیا جائے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'جنس کی بنیاد پر خواتین صحافیوں کی کردار کشی اور حملے ناقابل قبول ہیں اور آئین و قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔'
سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی اپنے پیغام میں کہا کہ 'سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں پر حملوں کے محرکات دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق معاملے کا نوٹس لے گی۔'
اس حوالے سے سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ محسوس کرتی ہیں کہ اس معاملے کو سامنے لایا جائے تاکہ وہ بات کرتے ہوئے خوف میں مبتلا نہ ہوں۔'
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'کب تک منظم مہم کو برداشت کیا جا سکتا ہے؟ صرف حکومت پر تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لیے اب آواز اٹھانی ہو گی۔'
عاصمہ شیرازی نے مزید کہا کہ 'آئے دن سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کے خلاف کردار کشی، ہراسانی اور گالم گلوچ کی مہم نہ تو خواتین کو ڈرا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سچ کہنے سے روک سکتی ہیں۔'
دیگر خواتین صحافیوں نے بھی ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جیو نیوز کی اینکر علینہ فاروق شائق کہتی ہیں کہ 'سوال کا جواب بد زبانی، گالی، ذاتی حملے اور ٹرولز کے ذریعے ہراساں کرنا نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں خواتین میڈیا ورکرز کو بہادری سے یہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ روز بروز یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اب ہمارے کام میں رکاوٹ بن رہا ہے، لیکن ہم ڈٹے رہیں گے۔'