جی بالکل ہے اور میں یہاں ان کی تائید اس لئے نہیں کر رہا کہ وہاں انہوں ایک غلط کام کیا ہے
اور آپ تمام لوگوں کا غصہ بجا ہے
مگر میری نظر میں آپ نے بھی ایک غلط کام کیا ہے تو کیا یہاں میں آپ پر لعن تعن شروع کردوں
کیا آپ کے خیال میں یہ صحیح اور مہذب طریقہ ہے۔
خیر ہو تیلے شاہ صاحب کی۔۔۔۔
وہ ایک مثال ہے کہ من چہ می گویم و دنبارہ من چہ می گوئید۔۔
الف نظامی صاحب کیا پوچھ رہے تھے او سادے شاہ صاحب کیا جواب دے رہے تھے ؟کہتے ہیں کہ جی ہاں بلکل تعلق ہے !!!
۔۔میں تو حیران ہوں کہ جس قسم کے لوگوں کا ذکر الف نظامی صاحب کر رہے ہیں،اور اگر واقعی وہ ایسے ہیں تو پھر تیلے شاہ صاحب یہ تعلق تو ٹھیک نہیں ہوا نا؟
کل ایک مشہور ٹی وی ایکٹر شفیع محمد صاحب فوت ہوا ہے۔۔رات کو بشرٰی اس پر پروگرام کرہی تھی۔جو حصہ میں نے سنا اور دیکھا۔ذرہ ملاحظہ ہو
اس میں ایک خاتون ایکٹریس عائشہ خان کہہ رہی تھی کہ میں کہتی ہوں بڑا اچھا انسان تھا اللہ انکو جہان بھی ہوں خوش رکھے۔۔۔اوراس طرحانہوں نے دو دفعہ کہا ۔۔۔
ساتھ ہی فون پر مصطفی قریشی صاحب نےایک اور چٹکلا لڑکایا ۔۔کہ شفیع محمد ایک عظیم انسان تھا میں تو بس دعا کونگا کہ اللہ انکی عمر دراز کریں۔اور انکی معفرت کریں۔۔۔۔۔میں جو انتھائی افسردہ تھا ایک دم ھنس پڑا اور میں دیکھ رہا تھا کہ ٹی وی اینکر قیصر نظامانی بھی ہنستے ہنستے روکھا۔
میں نے یہ بات اس لئے لکھ دی کہ کبھی کبھار ہم لوگ شدید غم اور بے بسی کے حالت میں اچانک کوئی عجیب سی بات کہہ جاتے ہیں۔۔
میں الف نظامی صاحب کی بے بسی کو محسوس کرہا ہوں۔۔ انسان کے اندر بہت کچھ کرنے کا جذبہ موجود رھتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں سکتا اور جو کوئی کر سکتا ہے پھر انکے پاس جذبہ نہیں ہوتا۔
بے نظیرہ کو نواز شریف نے کتنی دفعہ کہا تھا اور ایم ایم اے والوں نے بھی کہ ہم نے جو غلطی کی اپ اسے نہ دہرائیں !!!۔۔لیکن اسے شائید اس وقت بلکل کسی اور انسان کا خیال نہیں ایا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی کہ پاکستان کوئی لاوارث جائیداد ہے ، بس جاکر اس پر قبضہ کرنا باقی ہے۔صدر کو منتحب کروایا اور بقول شخصےسیاسی خودکشی کرڈالی۔۔ٍفضل رحمان صاحب بھی ابھی تک انہی خوش فہمیوں میں متلا ہے۔۔۔جمعیت طلبہ سے ایک تعلق (موافق) ہونے کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے جو غلطی کی اور اوپر سے ناظم نے جو ٹی وی پر بیان بھی دیا تو بقول قاسمی صاحب کے سو سمندروں کے پانی سے بھی تو یہ کالا داغ و دہبہ نہیں دھوسکتے ۔۔یہ لوگ اپنی موت اپ مرے ہیں۔اس حال میں قاضی صاحب کو ان کی برطرف اور افسوس کا اظہار کافی نہیں بلکہ خود مستعفی ہونا چاہئے۔
جاوید غامدی صاحب نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ ہمارے لیڈروں کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی اس لئے نکمے اور بے ہنر ہیں کیونکہ سارے ڈرائینگ روم کے پیداوار ہیں یا فوجی گملوں میں لگائے ہوئے سیاستدان ہیں
۔۔دوسری طرف کانگریس کے جتنے لیڈر بھی تھے یا ہیں وہ فیلڈ کے اندر اکر رگڑ رگڑ کر ٹرینڈ ہوے ہیں،اس لئے انہوں نے وہ غلطی کبھی نہیں کی جو ہمارے سیاستدانوں نے ہر وقت کی ہے اور جس کا صلہ ہم عوام بھگت رہے ہیں۔
فورم کے ضابطے ضرور ہوں گے مگر ادمی جب بے بس ہوجائے تو تنگ امد بجنگ امد والی حالت ہوجاتی ہے۔
تیلے شاہ صاحب ۔۔۔
کسی پارٹی کیساتھ جذباتی وابستگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک انکے چلانے والے ایک نظریے پر متفق ہو کر کام کرتے رہیں۔ جماعت اسلامی سفید پوش نوکر پیشہ دیندار لوگوں کی جمات تھی اور ہم اوسط درجے کے لوگ شائید اس لئے اسے پسند کرتے تھے کہ یہ مذہبی نظریات کی پرچار کرتے ہوئے غریبوں کی زبان بولتی تھی ۔غریبوں کو کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔۔چونکہ مذہب کا راستہ ذرا سستا ہے ،زیادہ کٹھن نہیں ہے (پتہ نہیں کھٹن ہے یا کٹھن) (اپ نے بھی لعن طعن کو تعن لکھا ہے)
اس لئے جو بھی غریبوں کی اواز میں نظریات کی سر لگا کر تان لگائے ،وہی انکا سہارا بن جاتا ہے۔۔اور شائید کمیونزم بھی اسی وجہ سے ابھرا تھا۔
اب جو حالات ہم دیکھتے ہیں اس میں نہ تو کوئی ہماری اواز بولتا ہے اور نہ کوئی سہارا دیکھائی دیتا ہے۔