جمیعت، ایک غنڈہ اور دہشت گرد تنظیم!

Dilkash

محفلین
جی بالکل ہے اور میں یہاں ان کی تائید اس لئے نہیں کر رہا کہ وہاں انہوں ایک غلط کام کیا ہے
اور آپ تمام لوگوں کا غصہ بجا ہے
مگر میری نظر میں آپ نے بھی ایک غلط کام کیا ہے تو کیا یہاں میں آپ پر لعن تعن شروع کردوں
کیا آپ کے خیال میں یہ صحیح اور مہذب طریقہ ہے۔



خیر ہو تیلے شاہ صاحب کی۔۔۔۔
وہ ایک مثال ہے کہ من چہ می گویم و دنبارہ من چہ می گوئید۔۔
الف نظامی صاحب کیا پوچھ رہے تھے او سادے شاہ صاحب کیا جواب دے رہے تھے ؟کہتے ہیں کہ جی ہاں بلکل تعلق ہے !!!
۔۔میں تو حیران ہوں کہ جس قسم کے لوگوں کا ذکر الف نظامی صاحب کر رہے ہیں،اور اگر واقعی وہ ایسے ہیں تو پھر تیلے شاہ صاحب یہ تعلق تو ٹھیک نہیں ہوا نا؟


کل ایک مشہور ٹی وی ایکٹر شفیع محمد صاحب فوت ہوا ہے۔۔رات کو بشرٰی اس پر پروگرام کرہی تھی۔جو حصہ میں نے سنا اور دیکھا۔ذرہ ملاحظہ ہو
اس میں ایک خاتون ایکٹریس عائشہ خان کہہ رہی تھی کہ میں کہتی ہوں بڑا اچھا انسان تھا اللہ انکو جہان بھی ہوں خوش رکھے۔۔۔اوراس طرحانہوں نے دو دفعہ کہا ۔۔۔
ساتھ ہی فون پر مصطفی قریشی صاحب نےایک اور چٹکلا لڑکایا ۔۔کہ شفیع محمد ایک عظیم انسان تھا میں تو بس دعا کونگا کہ اللہ انکی عمر دراز کریں۔اور انکی معفرت کریں۔۔۔۔۔میں جو انتھائی افسردہ تھا ایک دم ھنس پڑا اور میں دیکھ رہا تھا کہ ٹی وی اینکر قیصر نظامانی بھی ہنستے ہنستے روکھا۔
میں نے یہ بات اس لئے لکھ دی کہ کبھی کبھار ہم لوگ شدید غم اور بے بسی کے حالت میں اچانک کوئی عجیب سی بات کہہ جاتے ہیں۔۔
میں الف نظامی صاحب کی بے بسی کو محسوس کرہا ہوں۔۔ انسان کے اندر بہت کچھ کرنے کا جذبہ موجود رھتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں سکتا اور جو کوئی کر سکتا ہے پھر انکے پاس جذبہ نہیں ہوتا۔

بے نظیرہ کو نواز شریف نے کتنی دفعہ کہا تھا اور ایم ایم اے والوں نے بھی کہ ہم نے جو غلطی کی اپ اسے نہ دہرائیں !!!۔۔لیکن اسے شائید اس وقت بلکل کسی اور انسان کا خیال نہیں ایا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی کہ پاکستان کوئی لاوارث جائیداد ہے ، بس جاکر اس پر قبضہ کرنا باقی ہے۔صدر کو منتحب کروایا اور بقول شخصےسیاسی خودکشی کرڈالی۔۔ٍفضل رحمان صاحب بھی ابھی تک انہی خوش فہمیوں میں متلا ہے۔۔۔جمعیت طلبہ سے ایک تعلق (موافق) ہونے کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے جو غلطی کی اور اوپر سے ناظم نے جو ٹی وی پر بیان بھی دیا تو بقول قاسمی صاحب کے سو سمندروں کے پانی سے بھی تو یہ کالا داغ و دہبہ نہیں دھوسکتے ۔۔یہ لوگ اپنی موت اپ مرے ہیں۔اس حال میں قاضی صاحب کو ان کی برطرف اور افسوس کا اظہار کافی نہیں بلکہ خود مستعفی ہونا چاہئے۔
جاوید غامدی صاحب نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ ہمارے لیڈروں کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی اس لئے نکمے اور بے ہنر ہیں کیونکہ سارے ڈرائینگ روم کے پیداوار ہیں یا فوجی گملوں میں لگائے ہوئے سیاستدان ہیں
۔۔دوسری طرف کانگریس کے جتنے لیڈر بھی تھے یا ہیں وہ فیلڈ کے اندر اکر رگڑ رگڑ کر ٹرینڈ ہوے ہیں،اس لئے انہوں نے وہ غلطی کبھی نہیں کی جو ہمارے سیاستدانوں نے ہر وقت کی ہے اور جس کا صلہ ہم عوام بھگت رہے ہیں۔

فورم کے ضابطے ضرور ہوں گے مگر ادمی جب بے بس ہوجائے تو تنگ امد بجنگ امد والی حالت ہوجاتی ہے۔

تیلے شاہ صاحب ۔۔۔
کسی پارٹی کیساتھ جذباتی وابستگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک انکے چلانے والے ایک نظریے پر متفق ہو کر کام کرتے رہیں۔ جماعت اسلامی سفید پوش نوکر پیشہ دیندار لوگوں کی جمات تھی اور ہم اوسط درجے کے لوگ شائید اس لئے اسے پسند کرتے تھے کہ یہ مذہبی نظریات کی پرچار کرتے ہوئے غریبوں کی زبان بولتی تھی ۔غریبوں کو کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔۔چونکہ مذہب کا راستہ ذرا سستا ہے ،زیادہ کٹھن نہیں ہے (پتہ نہیں کھٹن ہے یا کٹھن) (اپ نے بھی لعن طعن کو تعن لکھا ہے)

اس لئے جو بھی غریبوں کی اواز میں نظریات کی سر لگا کر تان لگائے ،وہی انکا سہارا بن جاتا ہے۔۔اور شائید کمیونزم بھی اسی وجہ سے ابھرا تھا۔

اب جو حالات ہم دیکھتے ہیں اس میں نہ تو کوئی ہماری اواز بولتا ہے اور نہ کوئی سہارا دیکھائی دیتا ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
عزیزانِ محفل!
سانحۂ جامعہ پنجاب میں جمعیت کا کردار قابلِ مذمت ہے۔ اس واقعے سے مجھے جتنا صدمہ پہنچا وہ بیان سے باہر ہے۔ کئ احباب سے صرف اسی بات پر منہ ماری ہوگئ کہ وہ جمعیت کا قصور نہیں مان رہے تھے۔ میں نے اپنے حلقہ احباب میں اسکی بھرپور مخالفت کی اور مخالفت ہونی بھی چاہیے اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئ کہ ارکانِ محفل نے اس مخالفت کا حق ادا کردیا۔ دوسری جانب مرکزی جمعیت نے اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ کئی ارکان کا اخراج کیا۔ اور آج ہی کی خبر ہے کہ جامعہ پنجاب کی نظامت بھی تبدیل کردی گئی۔ عمران خان سے غیر مشروط معافی بھی مانگی گئی۔ اپنی غلطی پر ندامت اور احتساب ایک خوش آئیند عمل ہے۔

اردو محفل کے بعض احباب نے حسب سابق غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مخالفت کو نفرت سے بدل لیا اور لگائ بجھائ کی پرانی روش قائم رکھی اور یہ ثابت کردیا کہ انسان کو غیر ذمہ داری کی “عادت“ پڑ جائے تو پھر اس کا بدلنا محال ہوتا ہے۔ اسکا صحیح اندازہ آپ کو ذیل میں دیا گیا اقتباس پڑھ کر ہی ہوگا۔
تو بھائی جمیعت و جماعت سے آپ کس بات کی توقع رکھتے ہیں؟ جس جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی ہو موہن داس کرم چند گاندھی نے، جس جماعت کے امیر کو پینٹاگون میں بریفنگز دی جاتی ہوں اور جس جمعیت کا واحد کام اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنا اور غیر جماعتیوں کی تذلیل کرنا ہو ان سے اور کیا توقع کریں‌گے؟ ان کا تو صرف ایک کام ہے، امت کے دل سے حُبِ رسول ختم کرنا اور اس کی پیٹھ پر وار کرنا اور یہ کام یہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ نجانے لوگ ان کے نقلی روپ کو اصل کیوں‌سمجھ بیٹھتے ہیں۔

اختلاف کا یہ پر تشدد روپ آپ نے اس پورے دھاگے میں کہیں نہیں دیکھا ہوگا۔ پرانے وقتوں میں ہم جدید اور روشن خیال نہیں تھے مگر اختلاف اور نفرت کے فرق کو پہچانتے تھے۔ دشمنی کا جذبہ ان جذبوں سے کوسوں دور تھا۔ مگر اب تو ہم جدید اور روشن خیال زمانے میں جی رہے ہیں، جہاں اختلاف کا مطلب ہی دشمنی ہوگیا ہے اور دشمنی بھی ایسی کہ جان سے مارنے کی خواہش سوال بن کر ٹپکنے لگے۔ “خیالی پلاؤ“ پہلے بھی پکائے جاتے ہونگے لیکن ہمیں یقین ہے انہیں “حقیقی پلاؤ“ سمجھ کر کوئ نہیں کھاتا ہوگا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ مخالفت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں دکھانے کے لیے نہیں، پاسداری کے لیے۔ اظہار رائے سلیقے سے آزاد ہوجائے تو اختلافِ رائے نفرت میں بدل جاتا ہے، نفرت سے بغض برامد ہوتا ہے اور بغض بظاہر تو پاکدامنی کے لبادے میں حملہ آور ہوتا ہے لیکن اسکے چھلکے اتار کے دیکھا جائے تو اندر “جھوٹ“ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو خرم صاحب کا تجزیہ ایک عدد شاہکار کا درجہ رکھتا ہے مگر یہ شاہکار کسی تجزیے کی تاب نہیں لاسکتا۔

پاکستان میں اسلامی تحریکوں کی بات ہوتی ہے تو لوگ سید مودودی کو “پاکستان مخالف“ کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کا ایک عدد تجربہ عزیزم فاتح بھی کر چکے ہیں اور اسی طرح کی مزید گھسی پٹی باتیں میدان میں لائ جاتی رہی ہیں جبکہ خرم صاحب نے تو حد ہی کردی اور موہن کرم چند گاندھی جی کو جماعت کے سالانہ اجلاس سے خطاب کروادیا۔ خرم صاحب “اردو محفل کی مدر ٹریسا“ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور عموماً اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں دیکر اعتدال پسندی کا درس دیا کرتے ہیں اسی لیے ہمیں یقین ہے اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی حقیقت بھی ہوگی ہماری دنیا میں نہیں تو “مریخ کی جماعت اسلامی“ کی تاریخ میں ایسا موقع ضرور آیا ہوگا کہ گاندھی جی کو خطاب کرنا پڑا۔ ہمیں اس سنہرے دن کا شدت سے انتظار ہے جب لوگ ایسی باتوں کے حق میں دلائل لایا کریں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
برادر خاور بلال ، جماعتِ اسلامی ویسے تو وحدتِ اسلامی کی بات کرتی ہے، بڑی اچھی بات ہے۔
لیکن معاصر تنظیموں کی منعقد کردہ محافلِ نعت میں غنڈہ گردی کرکے ان کو سبوتاژ کرنے سے کیا وحدت اسلامی پھیلائی جارہی ہے۔ (اب یہ نہ پوچھیے گا کہ یہ واقعے کہاں کہاں ہوئے)۔
میری شعوری زندگی کے بعد جب سے جمیعت وجماعت سے واسطہ پڑا ان کے اسلام کے اجارہ دارانہ طرزِعمل سے ہی واسطہ پڑا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اطلاع یہ ہے کہ جمیعت دوبارہ ایکشن میں آ رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق جمیعت نے اپنے خلاف چلنے والی ریلی کا انعقاد کرنے والے طلبا کی لسٹ تیار کر لی ہے تا کہ انہیں سبق سکھایا جا سکے۔
 

خرم

محفلین
پاکستان میں اسلامی تحریکوں کی بات ہوتی ہے تو لوگ سید مودودی کو “پاکستان مخالف“ کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کا ایک عدد تجربہ عزیزم فاتح بھی کر چکے ہیں اور اسی طرح کی مزید گھسی پٹی باتیں میدان میں لائ جاتی رہی ہیں جبکہ خرم صاحب نے تو حد ہی کردی اور موہن کرم چند گاندھی جی کو جماعت کے سالانہ اجلاس سے خطاب کروادیا۔ خرم صاحب “اردو محفل کی مدر ٹریسا“ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور عموماً اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں دیکر اعتدال پسندی کا درس دیا کرتے ہیں اسی لیے ہمیں یقین ہے اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی حقیقت بھی ہوگی ہماری دنیا میں نہیں تو “مریخ کی جماعت اسلامی“ کی تاریخ میں ایسا موقع ضرور آیا ہوگا کہ گاندھی جی کو خطاب کرنا پڑا۔ ہمیں اس سنہرے دن کا شدت سے انتظار ہے جب لوگ ایسی باتوں کے حق میں دلائل لایا کریں گے۔
خاور بھائی آپ نے مجھے مدر ٹریسا بننے کا متمنی بھی قرار دے دیا۔ چلیں آپ نے کہا تو "سچ" ہی ہوگا۔ ویسے اگر آپ اس خاکسار پر التفات کرنے کی بجائے جماعت کی اپنی تاریخ ذرا کُرید ڈالتے تو کافی اچھا رہتا۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے مودودی صاحب کی جماعت اسلامی کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی تھی۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ ذرا تھوڑی سی کوشش کیجئے انشاء اللہ ثابت ہو جائے گا۔
ویسے قاضی صاحب کی پینٹاگون میں بریفنگز والی بات تو آپ مانتے ہیں نا کہ اب اس کے "حق"‌ میں بھی دلائل لانے پڑیں گے؟ :cool:
اور جمعیت کے کردار کی جہاں تک بات ہے تو صرف ایک واقعہ عرض کردیتا ہوں۔ انجنیئرنگ کالج ٹیکسلا (آج کی انجنیئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا) میں جمعیت نے اپنے دو سیاسی مخالفین کو علامہ اقبال ہال کے دروازے پر قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد فرار ہوتے ہوئے ایک اور معصوم لڑکے طاہر سجاد کو جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہا تھا قتل کرڈالا تاکہ مقدمہ کراس فائرنگ کا بنے (آخر مسجد سے باہر آنے والا ہر شخص جمعیت کا ہی تو رکن ہوتا ہے)۔ آج بھی آپ ٹیکسلا یونیورسٹی کے مالیوں اور چپڑاسیوں سے اس ننگے ظلم کی تصدیق کرسکتے ہیں جو جمعیت نے وہاں ڈھایا تھا۔ اب پھر دلائل نہ دینے پڑ جائیں کہ میں تو ایف سی کالج میں بھی پڑھا ہوا ہوں اور ٹیکسلا یونیورسٹی میں بھی۔ :cool:
 

قیصرانی

لائبریرین
عزیزانِ محفل!
سانحۂ جامعہ پنجاب میں جمعیت کا کردار قابلِ مذمت ہے۔ اس واقعے سے مجھے جتنا صدمہ پہنچا وہ بیان سے باہر ہے۔ کئ احباب سے صرف اسی بات پر منہ ماری ہوگئ کہ وہ جمعیت کا قصور نہیں مان رہے تھے۔ میں نے اپنے حلقہ احباب میں اسکی بھرپور مخالفت کی اور مخالفت ہونی بھی چاہیے اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئ کہ ارکانِ محفل نے اس مخالفت کا حق ادا کردیا۔ دوسری جانب مرکزی جمعیت نے اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ کئی ارکان کا اخراج کیا۔ اور آج ہی کی خبر ہے کہ جامعہ پنجاب کی نظامت بھی تبدیل کردی گئی۔ عمران خان سے غیر مشروط معافی بھی مانگی گئی۔ اپنی غلطی پر ندامت اور احتساب ایک خوش آئیند عمل ہے۔

اردو محفل کے بعض احباب نے حسب سابق غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مخالفت کو نفرت سے بدل لیا اور لگائ بجھائ کی پرانی روش قائم رکھی اور یہ ثابت کردیا کہ انسان کو غیر ذمہ داری کی “عادت“ پڑ جائے تو پھر اس کا بدلنا محال ہوتا ہے۔ اسکا صحیح اندازہ آپ کو ذیل میں دیا گیا اقتباس پڑھ کر ہی ہوگا۔


اختلاف کا یہ پر تشدد روپ آپ نے اس پورے دھاگے میں کہیں نہیں دیکھا ہوگا۔ پرانے وقتوں میں ہم جدید اور روشن خیال نہیں تھے مگر اختلاف اور نفرت کے فرق کو پہچانتے تھے۔ دشمنی کا جذبہ ان جذبوں سے کوسوں دور تھا۔ مگر اب تو ہم جدید اور روشن خیال زمانے میں جی رہے ہیں، جہاں اختلاف کا مطلب ہی دشمنی ہوگیا ہے اور دشمنی بھی ایسی کہ جان سے مارنے کی خواہش سوال بن کر ٹپکنے لگے۔ “خیالی پلاؤ“ پہلے بھی پکائے جاتے ہونگے لیکن ہمیں یقین ہے انہیں “حقیقی پلاؤ“ سمجھ کر کوئ نہیں کھاتا ہوگا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ مخالفت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں دکھانے کے لیے نہیں، پاسداری کے لیے۔ اظہار رائے سلیقے سے آزاد ہوجائے تو اختلافِ رائے نفرت میں بدل جاتا ہے، نفرت سے بغض برامد ہوتا ہے اور بغض بظاہر تو پاکدامنی کے لبادے میں حملہ آور ہوتا ہے لیکن اسکے چھلکے اتار کے دیکھا جائے تو اندر “جھوٹ“ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو خرم صاحب کا تجزیہ ایک عدد شاہکار کا درجہ رکھتا ہے مگر یہ شاہکار کسی تجزیے کی تاب نہیں لاسکتا۔

پاکستان میں اسلامی تحریکوں کی بات ہوتی ہے تو لوگ سید مودودی کو “پاکستان مخالف“ کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کا ایک عدد تجربہ عزیزم فاتح بھی کر چکے ہیں اور اسی طرح کی مزید گھسی پٹی باتیں میدان میں لائ جاتی رہی ہیں جبکہ خرم صاحب نے تو حد ہی کردی اور موہن کرم چند گاندھی جی کو جماعت کے سالانہ اجلاس سے خطاب کروادیا۔ خرم صاحب “اردو محفل کی مدر ٹریسا“ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور عموماً اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں دیکر اعتدال پسندی کا درس دیا کرتے ہیں اسی لیے ہمیں یقین ہے اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی حقیقت بھی ہوگی ہماری دنیا میں نہیں تو “مریخ کی جماعت اسلامی“ کی تاریخ میں ایسا موقع ضرور آیا ہوگا کہ گاندھی جی کو خطاب کرنا پڑا۔ ہمیں اس سنہرے دن کا شدت سے انتظار ہے جب لوگ ایسی باتوں کے حق میں دلائل لایا کریں گے۔

اللہ اکبر۔ خاور بھائی، آپ کے سابقہ پیغامات کو دیکھوں کہ اب اس پوسٹ کو دیکھوں؟
 

شمشاد

لائبریرین
ایک حد تک تو خاور بھائی کی بات صحیح بھی ہے کہ خرم بھائی نے اگر دعویٰ کیا ہے کہ موہن کرم چند گاندھی نے جماعت کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی تھی تو ان کے پاس اس بات کا ثبوت بھی ہو گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے آج ایکسپریس اخبار میں یہ پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا ہے کہ کچھ سٹوڈنٹس نے جمیعت کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ویسا ہی رویہ اختیار کیا جو کہ جمیعت کا وطیرہ رہا ہے۔
 
1100301986-1.gif
 

نبیل

تکنیکی معاون
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایک جماعت اسلامی ہی کیا، سبھی سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں تو اساتذہ کی ترقی اور تبادلے بھی جماعت اسلامی کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ جب تک تعلیمی ادارے ان سیاسی جماعتوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے، یہ تعلیمی ادارے ترقی نہیں کر سکیں گے۔
 

تیلے شاہ

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایک جماعت اسلامی ہی کیا، سبھی سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں تو اساتذہ کی ترقی اور تبادلے بھی جماعت اسلامی کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ جب تک تعلیمی ادارے ان سیاسی جماعتوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے، یہ تعلیمی ادارے ترقی نہیں کر سکیں گے۔

میں نبیل کی اس بات ست 100 فیصد متفق ہوں تعلیمی اداروں میں یہ تنظیمیں نہیں ہونی چاہیں
ان کی موجودگی سے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں
 

خاور بلال

محفلین
ویسے اگر آپ اس خاکسار پر التفات کرنے کی بجائے جماعت کی اپنی تاریخ ذرا کُرید ڈالتے تو کافی اچھا رہتا۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے مودودی صاحب کی جماعت اسلامی کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی تھی۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔ آپ ذرا تھوڑی سی کوشش کیجئے انشاء اللہ ثابت ہو جائے گا۔

لیجیے حضرات! دعوٰی خرم صاحب نے کیا اور اسے ثابت کرنے کی ذمہ داری میری لگادی؟ بچپن میں ہم نے اس طرح کے واقعات ضرور دیکھے ہیں کہ بچے چلتے چلتے کسی گھر کے گیٹ پر پتھر مارکر بھاگ جاتے، صاحبِ خانہ غصے سے کانپتے ہوئے گھر سے باہر نکلتے اور جو بھی گیٹ کے سامنے سے گزررہا ہوتا اسی پر برس پڑتے، وہ بے چارہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرپاتا اور اچھا خاصہ بچوں کا کیا دھرا اس کے سر پڑجاتا، یوں مفت کی بدنامی ہاتھ آتی۔

ہمارے ہاں پگڑیاں اچھالنے کا کام “مشنری اسپرٹ“ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حقیقی پگڑی دستیاب نہ ہو تو خیالی پگڑی ایجاد کرلی جاتی اور اسے اچھالا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی وحشت دور کرنے کے لیے، کچھ حرام مال کی خاطر اور بعض لوگ محض منجن بیچنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ اعتدال پسندی کا دعوٰی کرتے ہیں، امن و سلامتی کے گیت گاتے ہیں، ان کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، یہ تبصرے کرتے ہیں تو منہ سے پاکی کے پھول جھڑتے ہیں، ان کی پاکدامنی آنٹیوں کو شرماتی ہے۔ ان کی انقلابی فکر کے سامنے چی گویرا پانی بھرتا نظر آتا ہے، تقریر کرتے ہیں تو سامعین دھاڑیں مارمار کر ہنسنے لگ جاتے ہیں، یہ تنقید کرتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں تو محفل پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ کسی کے منہ سے چوں نہیں نکلتی، من و عن تسلیم کرلیا جاتا ہے اور اس بات کو سو مرچ مصالحے لگا کر آگے بڑھادیا جاتا ہے۔ خواتین مفت میں بدنام ہیں۔

ہمارے ہاں کوئ شخص اسٹیشنری کی دکان سے پین خریدتا ہوا پایا جائے تو لوگ اسے دانشور کہنے لگتے ہیں۔ وہ سفید کاغذ کو برباد کرنے یعنی اس پر کچھ لکھنے کا فن سیکھ لے تو قیامت۔ بڑے لوگوں پر بہتان تراشنے کا فن سیکھ لے تو اس کی دانشوری آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ خیر سے ان کے پاس بہتان تراشی کے لیے دلیلیں بھی ہوتی ہیں لیکن ان دلیلوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کوئ لنگڑی، کوئ لولی، کوئ یکسر معذور، گھسٹ گھسٹ کر چلتی ہوئ، کشکول ہاتھ میں پکڑے رال گراتی ہوئ۔ دلائل کی اس کسمپرسی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شاہ دولا کے چوہے تو مفت میں بدنام ہیں۔
 
سب طلبہ تنظمیں تعلیمی اداروں کی تباہی کا باعث ہیں۔ جمعیت، پی ایس ایف،اے پی ایم ایس او، پختون ایس ایف، پنجابی ایس اے اور بہت سی تنظمیوں‌کی دھشت گردی کے ہم سب شاہد ہیں۔ جمعیت بلاشبہ سب سے نمبر لے جاتی ہے۔ کراچی یونی ورسٹی اور گورنمنٹ کالج اف ٹیکنالوجی کراچی میں جمعیت نے جو دھشت گردی مچائی وہ سوائے جئے سندھ اور پنجابی اسٹوڈنٹس ایسویسی ایشن کے کوئی اور نہ کرسکا۔
اس صف میں صرف ایک طلبہ تنظیم الگ نظر اتی ہے۔ شاید اس لیے ان کی افرادی تعداد کم ہے۔ وہ ائی ایس او ہے۔
بہرحال یہ تنظمیں اس وقت میدان میں‌ائی اور زیادہ تشدد کی طرف مائل ہوئیں‌جب فوج نے ضیا کے دور میں‌طلبہ یونینز پر پابندی لگادی۔ تو یہ زھریلے پودے اگ ائے جو باغ کو ہی کھارہے ہیں۔
 

خرم

محفلین
مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم، آج کی نسل کو تو شاید ان کا نام بھی معلوم نہ ہو لیکن تحریکِ پاکستان کے سپاہیوں میں سے تھے۔ قائد اعظم علیہ رحمتہ نے بذاتِ خود انہیں‌کئی علاقوں میں مقامی رائے عامہ کو مسلم لیگ کے حق میں ہموار کرنے کے لئے بھیجا۔ بے مثال مقرر اور بے مثل عالم تھے۔ میری خوشقسمتی تھی کہ ہمارے ہمسایہ تھے۔ ہم اس وقت ایک چھوٹے سے شہر صادق آباد کے مکین تھے (ضلع رحیم یار خان) اور جماعت اسلامی سے وابستہ افراد ہمارے اردگرد کافی اکثریت میں تھے اور وہ تمام کافی باعلم لوگ تھے۔ ایک دفعہ معمول کی گپ شپ میں مولانا مرحوم نے اراکینِ جماعت سے استفسار فرمایا کہ اتنا تو بتاؤ کہ تمہاری جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کس نے کی؟ تمام اصحاب نے قیاس کے گھوڑے دوڑائے لیکن یقینی بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ اس پر مولانا مرحوم نے فرمایا کہ جماعت کےپہلے سالانہ اجلاس کی صدارت موہن داس کرم چند گاندھی نے کی تھی۔ نہ تو اس وقت کسی نے مولانا کے اس دعوٰی کی تردید کی اور نہ اس کے بعد کبھی بھی کسی سے یہ سُنا کہ مولانا کا یہ دعوٰی غلط ہے۔
اگر کسی بھائی کے نزدیک یہ دعوٰی غلط ہے تو بس آپ کو تو صرف یہ کرنا ہے کہ جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی کاروائی کی کوئی نقل، کوئی تراشہ کچھ بھی مہیا فرما دیں۔ کیونکہ کچھ صاحبان کا تعلق یقیناً جماعت سے ہے اس لئے ان کے لئے یہ کام آسان ہوگا اور اگر ایسا ہو سکے تو ہم میں سے کچھ کی (مجھ سمیت) لاعلمی دور ہو سکے گی۔ میں نے تو ذاتی طور پر کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران کسی بھی واقعہ کے متعلق کسی بھی جفادری مؤرخ کو مولانا بشیر احمد اخگر سے اختلاف کرتے نہیں دیکھا اس لئے میرے لئے تو ان کی بات معتبر ہے تاوقتیکہ آپ اسے غلط ثابت نہ کردیں۔

مولانا بشیر احمد اخگر کے متعلق کچھ حوالہ جات
امرتسر میں خطاب کا ذکر
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
دوستو، جماعت اسلامی کی تاریخ پر بات موضوع سے کچھ ہٹتی جا رہی ہے۔ اگر مہاتما گاندھی نے جماعت اسلامی کے کسی اجلاس کی صدارت کر لی تھی تو اس میں ایسی شرمانے والی کیا بات ہے، قائداعظم بھی آخر اپنے کانگریس کے زمانے میں گاندھی کے کولیگ رہے ہوئے ہیں۔ گاندھی جی برصغیر کے علما میں کافی مقبول تھے اور وہ دو قومی نظریہ کی تحقیر کے لیے مہاتما گاندھی کو مسجد کے ممبر پر بٹھایا کرتے تھے۔ ترکی کی خلافت کی بقا کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت چلائی تو اس کی قیادت بھی مہاتما گاندھی نے کی تھی۔ اس لیے اگر گاندھی نے جماعت اسلامی کے کسی اجلاس کی صدارت کر لی تو کیا ہوا؟
 

خرم

محفلین
نبیل بھائی میں نے تو صرف ایک تاریخی حقیقت بیان کی تھی۔ اس کے بعد اتنی پذیرائی ہوئی ہے کہ بس اب جی چاہتا ہے کہ چلی جو چھیڑ خوباں سے :cool:
 

زیک

مسافر
یہاں تازہ واقعات کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی کی تاریخ پر بھی بات چل نکلی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے نے سید ولی رضا نصر کی کتابیں
[ame="http://www.amazon.com/Mawdudi-Making-Islamic-Revivalism-Seyyed/dp/0195096959/ref=sr_1_1?ie=UTF8&s=books&qid=1195572438&sr=8-1"]Mawdudi and the Making of Islamic Revivalism[/ame] اور
The Vanguard of the Islamic Revolution: The Jama'at-i Islami of Pakistan
نہیں پڑھیں یا اسی موضوع پر اور کتابیں نہیں پڑھ رکھیں تو بات کا کوئی فائدہ نہیں خاص طور پر جب دوسری کتاب مفت آن‌لائن دستیاب ہے۔
 

خرم

محفلین
اس کتاب میں تو لکھا ہے کہ گاندھی جی نے جماعت اسلامی کی ایک کنونشن میں شرکت کی تھی اور حوالہ کے طور پر "رودادِ جماعتِ اسلامی" کا نام دیا گیا ہے جس کی سات جلدوں میں جماعت کے 1941 سے 1955 تک کے اجلاسوں کی روداد موجود ہے۔
کسی بھائی کے پاس یہ کتاب موجود ہے؟
 
Top